امن برائے انسانیت اور میلاد کانفرنس (نیویارک، امریکہ)

مورخہ: 03 جون 2012ء

’’ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ‘‘ (AMNA) اور ’’منہاج القرآن انٹرنیشنل امریکہ‘‘ کے زیر اہتمام 3 جون 2012ء کو عظیم الشان امن برائے انسانیت اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس ’’ناساؤ کولینزیم لانگ آئس لینڈ نیو یارک امریکہ‘‘ میں منعقد ہوئی۔ اس پروگرام میں امریکہ بھر سے 22 ہزار سے زائد احباب نے خصوصی شرکت کی۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی میلاد کانفرنس تھی۔

کانفرنس کا پہلا سیشن بین المذاہب ہم آہنگی، بقائے باہمی، رواداری اور قیام امن کے حوالے سے انعقاد پذیر ہوا۔ جس میں دیگر مذاہب کے نمائندہ افراد نے خصوصی شرکت کرتے ہوئے اس حوالے سے اظہار خیال کیا۔ پروگرام کے اس حصہ کو انگلش زبان میں Conduct کرتے ہوئے اسلام کے تصور امن، تحمل و برداشت اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات کے زریں گوشوں کو مختلف حوالوں سے اجاگر کیا گیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’انسانیت کے لئے اسلام کے پیغام امن و محبت‘‘ کے موضوع پر انگلش زبان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے امن اور تحمل و برداشت کے رویوں کو دنیا میں سب سے پہلے رواج دیا۔ جمہوریت کے بانی محسن انسانیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہوری اصولوں پر دنیا کی پہلی فلاحی ریاست قائم کی جس میں غیرمسلموں کو بھی برابر کے حقوق میسر تھے۔ مسلمان کا مطلب ہمیشہ امن کو قائم کرنے والا اور سلامتی بانٹنے والا ہے اور جو امن و سلامتی کو سبوتاژ کرتا ہے اسکا تعلق نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور نہ قرآن حکیم سے۔ آج جو لوگ جمہوریت کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں وہ دین کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جمہوریت، انصاف، برداشت، امن اور بقائے باہمی یہ تمام ریاست مدینہ کے بنیادی اجزاء تھے۔ مواخات کے ذریعے عادلانہ معاشی نظام مدینہ کے باسیوں کو میسر تھا۔

اسلام کے چاروں امام اور سکالرز کی غالب اکثریت اس پر متفق ہے کہ اکثریت کی رائے کو درست مان کر فیصلے کئے جائیں۔ پس اکثریت کی رائے کو درست تسلیم کرنے کا تصور مغرب نے نہیں بلکہ دین اسلام نے انسانیت کو دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اپر ہاؤس آف مدینہ میں 50 ممبرز (سینٹرز) تھے اور مدینہ کی پارلیمنٹ میں عورتیں ممبر ہوا کرتی تھیں۔ خلفاء راشدین کے دور میں احتساب کورٹ کی سربراہ ایک صحابی خاتون تھیں اور ایک ملک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو سفیر بنا کر بھیجا گیا۔

اسلام نے پارلیمنٹ کو 1400 سال قبل خود مختاری دی۔ اسلامی ریاست کا حسن تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور خلیفہ ایک عورت کی رائے کو درست مانتے ہوئے اپنے موقف سے رجوع کرلیا تھا جبکہ مغرب میں عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق 1900ء کے بعد دیا گیا اور اس سے قبل People کے لفظ کا اطلاق صرف سفید مرد پر ہوتا تھا۔

کانفرنس کا دوسرا سیشن اردو زبان میںConduct کیا گیا۔ اس سیشن کا آغاز قاری صداقت علی نے تلاوت قرآن مجید اور قاری نور محمد جرال، میلاد رضا قادری اور دیگر نعت خواں حضرات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عقیدت کے پھول نچھاور کر کے کیا۔ اس سیشن کے اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ادب و محبت اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں جامع خطاب کیا۔

میڈیا لنک

تبصرہ

Top