قدر شناسیٔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادبِ رسالت کے تقاضے

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ.

(الحجرات، 49: 2)

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘

ایمان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے تعلق کی درستگی کا نام ہے اور باقی سب کچھ اس کے تابع ہے۔ یوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق بہت سے لوگوں کا ہے اور یہ تعلق کئی قسموں پر محیط ہے مگر یہ تعلق درست بھی ہوسکتا ہے اور نادرست بھی۔ بارگاہ رسالت سے تعلق درست ہوجائے تو اس درستگیٔ تعلق کا نام ایمان ہے۔ میں نے یہاں ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ استعمال کیا ہے، یوں نہیں کہا کہ تعلق ہے مگر برا ہے یا بگڑا ہوا ہے یا خراب ہے بلکہ بہت خفیف لفظ استعمال کیا کہ تعلق ہے مگر نا درست ہے، بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس کے لائق نہیں۔ ایسا نا درست تعلق اور تو سب کچھ ہوسکتا ہے مگر ایمان نہیں ہوسکتا۔

اب آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی درستگی کیا ہے اور نا درستگی کیا ہے؟

یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید میں خطاب کا اسلوب دو طرح کا ہے:

1۔ ایک خطاب عام ہوتا ہے جیسے یا ایھا الناس کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس سے وہ باتیں کرنا مقصود ہیں جو ہر ایک کے مطلب کی ہوں اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی ہوں۔ فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ.

(النساء، 4: 1)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی۔‘‘

اس آیت میں معرفتِ رب اور تقویٰ کی بات ہورہی ہے کہ اپنے رب سے ڈرو، مگر مخاطب کرتے ہوئے اہلِ ایمان اور کافروں میں فرق نہیں کیا کہ جنہیں خطاب کیا جارہا ہے وہ اس کو مانتے بھی ہیں یا نہیں۔ اس تمیز کے بغیر فرمایا: یا ایھا الناس: اے نسل انسانی۔ یہ اسلوب اس لیے اختیار فرمایا کہ کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کو مانتا تو ہر کوئی تھا، کوئی طریقۂ توحید پر مانتا تھا، کوئی بطریق شرک مانتا تھا، کسی کا ماننا مقبول تھا، کسی کا ماننا مردود تھا مگر اپنے اپنے رنگ میں ہر کوئی مانتا تھا۔ اس لیے بلا امتیاز ہر ایک کو مخاطب بنالیا۔

الحمد سے والناس تک جہاں بھی اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت کی بات کی تو خطابِ عام کیا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی بات کی تو بھی خطابِ عام کیا۔ فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا.

(الاعراف، 7: 158)

’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘

2۔ دوسرا اسلوب خطاب خاص ہے جس میں صرف اہلِ ایمان کو مخاطب کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ.

(الحجرات، 49: 2)

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘

ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کے مخاطبین بھی باادب لوگ ہیں

اس آیتِ کریمہ میں چونکہ ادبِ رسالت کی بات ہورہی ہے، جو ایک خاص بات ہے لہٰذا اس کا مخاطب عام لوگوں کو نہیں بنایا، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واسطہ رکھنے والے غیر مسلم بھی تھے۔ یہودی، عیسائی، کفار و مشرکین، قبائل اور ان کے سردار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو اور مذاکرات بھی کرتے تھے، الغرض بات تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر کوئی کرتا تھا، مگر یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے خطاب سے صرف اہلِ ایمان کو خاص فرمایا۔ کیوں؟

اس لیے کہ اس نے فرمایا کہ ایک خاص بات کہنا چاہتا ہوں، اور ان ہی سے کہنا چاہتا ہوں جو اہلِ ایمان ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ! باقی جو لوگ ہیں، غیر مسلم، کفار، مشرکین، یہود، نصاریٰ وہ کہاں جائیں؟ فرمایا: یہاں حقیقتِ ایمان کی بات ہورہی ہے، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سکھانے کی بات ہو رہی ہے، جب وہ اہلِ ایمان ہی نہیں ہیں تو انہیں اگلی بات کیا سمجھائیں۔ جو بات کررہا ہوں یہ لوگ اسے سننے اور سمجھنے کے قابل ہی نہیں۔ کیونکہ ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسی عظیم دولت ہے کہ جو قدر شناس نہیں ان کو میں اس خطاب کا مخاطب ہی نہیں بنانا چاہتا۔ یہ بات ان ہی سے کہنا چاہتا ہوں جو اس دولت کے اہل ہیں اور جو اس بات کی قدر کو جانتے ہیں۔

گویا جب ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہوئی تو اللہ نے اس کا مخاطب بھی بے ادب و گستاخ کو نہیں بنایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی بات بے ادب اور قدر ناشناس لوگوں میں سننے اور سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں ہوتی، لہٰذا اللہ کا شیوہ ہے کہ ان سے بات ہی نہیں کرنی جو بے ادب اور نااہل ہیں۔ اسی لیے فرمایا: اہل ایمان آجاؤ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین آجاؤ۔ اہلِ ایمان کا عارفانہ اور محبانہ ترجمہ ہے: عاشقو آجاؤ، تمہیں بتاتا ہوں کہ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ فرمایا:

یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ.

جب میرے محبوب کی بارگاہ میں جاؤ تو بولتے ہوئے اپنی آوازیں میرے محبوب نبی کی آواز سے بلند نہ کرنا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اونچی آواز سے تو دوسرے بھی بولتے تھے، انہیں ادب سکھانے کے لیے کیوں مخاطب نہ کیا حالانکہ بے ادبی کا امکان زیادہ ان ہی کی طرف سے تھا، صحابہ کرام تو پہلے سے ہی ادب والے تھے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ کفار و مشرکین کو بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سکھانے کے لیے مخاطب اس لیے نہ بنایا کہ جو رازِ ایمان بتایا جارہا ہے وہ تو اس سے ہی محروم ہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’’لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی بات نہیں ہورہی کہ میرے محبوب سے اس طرح کا برتاؤ نہ کرنا بلکہ ابھی تو بات صرف آوازِ محبوب کی ہورہی ہے، ذات کی بات تو بڑی اونچی اور لطیف بات ہے۔ لہٰذا اگر ایمان کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو اللہ سے سمجھو کہ جو محبوب کی آواز کا بھی اتنا خیال کرتا ہے کہ اس آواز کے بھی آداب سکھا رہا ہے۔

ادب کی پہچان

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی آواز کو مانپنے کا معیار کیا ہوگا کہ جس سے معلوم ہوسکے کہ وہ آواز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آوازسے اونچی ہے یا نیچی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنیں گے تو پتہ چلے گا کہ ان کی آواز کا لیول یہ ہے اور اب اس سے نیچی آواز رکھنی ہے۔ گویا سنے بغیر پتہ نہیں چلے گا۔

پس ’’لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘ میں اشارۃ النص سے یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس وقت تک چپ بیٹھے رہنا جب تک وہ اپنے لبوںسے خود کچھ بول نہ لیں۔ پہلے ان کو سننا اور دیکھنا کہ آواز کتنی ہے، اس کے بعد بولنا۔ گویا اللہ نے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کا ایک ادب یہ سکھا دیا کہ میرے محبوب سے پہلے نہ بولنا۔ گویا واضح فرمادیا کہ بولنا تو خالی تمہارا عمل ہے، میں تو وہ رب ہوں کہ اگر کوئی میرے محبوب سے پہلے قربانی دے دے تو میں وہ بھی رد کردیتا ہوں۔ حالانکہ قربانی میری رضا کے لیے ہے، میری عبادت ہے، میری بندگی ہے، میرے نام پر جانور ذبح ہوا، خالصتاً لوجہ اللہ تھی مگر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے دی، لہذا یہ بھی مردود ہے۔

معلوم ہوا کہ جب اس سطح کا عمل جو خالص مظہرِ توحید ہے اگر کوئی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کر بیٹھے تو وہ بھی اللہ رد کردیتا ہے تو گفتگو کرنا تو اس سے نچلے درجہ کا عمل ہے، اس میں بے ادبی کہاں برداشت ہوگی۔ پس ادب کا ایک پہلو یہ سکھایا کہ چپ بیٹھنا اورپہلے میرے محبوب کے لبوں کو ہلنے دینا، دیکھنا کہ محبوب کیا کہتا ہے، کتنا اونچا بولتا ہے اور پھر سوچ سمجھ کر بولنا، مگر خیال رہے کہ جو میرے محبوب کی آواز کا لیول ہو اس سے تمہاری آواز کا لیول پست رہے۔ اس لیے کہ میں کسی کو یہ اجازت بھی نہیں دے سکتا کہ اس کی آواز میرے محبوب کی آواز سے برابری کرے۔

وہ رب جو اپنے محبوب کی آواز میں برابری گوارا نہیں کرتا تو وہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں برابری کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے تم میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے کیا برابر ہوگے، اگر کسی نے اپنی آواز کو بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے برابر کرنا چاہا تو ایمان سے خارج کردیا جائے گا۔ وہ لوگ جو برابری کی باتیں کرتے ہیں، وہ دولتِ ایمان سے محروم ہیں۔۔۔ ان کو تو ایمان کی ہوا نہیں لگی۔۔۔ انہوں نے تو ایمان کی وادی میں قدم نہیں رکھا۔۔۔ وہ کیا جانیں کہ وادیٔ ایمان کے آداب کیا ہیں۔۔۔ وہاں کیسی ہوائیں چلتی ہیں۔۔۔ کیسی فضاء ہے۔۔۔ وہاں کاموسم کیسا ہے۔۔۔؟ ادب تو آتا ہی ایمان سے ہے۔ ایمان کے بغیر ادب نہیں اور ادب کے بغیر ایمان نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے آواز میں برابری روک دی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس طرح کا تعلق ہو؟

تعلق تین طرح کا ہوتا ہے:

  1. تعلق میں برتری
  2. تعلق میں برابری
  3. تعلق میں کمتری

یعنی انسان کسی کو اپنے سے اونچا سمجھے یا اپنے برابر سمجھے یا اپنے سے کمتر سمجھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایمان کس تعلق میں ہے۔ جہاں برتری کا وہم و گمان تھا وہاں لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ کا حکم جاری کر کے اس کو رد کردیا لیکن ابھی حاضری کی اجازت نہ دی بلکہ اسی آیت میں ادب کا اگلا آرٹیکل بھی سمجھا دیا۔ فرمایا:

’’وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ‘‘

عبارت النص یہ ہے کہ اس طرح نہ پکارنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یعنی پکارنے کے انداز، طریقے اور لب ولہجے میں بھی برابری گوارا نہیں۔ اس آیت سے اشارۃ النص اور اقتضاء النص یہ ہے کہ یہ حکم دیا جارہا ہے کہ میرے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارا کرو مگر اس طرح نہ پکارنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بے تکلف ہوکر پکارتے ہو۔ اس حکمِ نہی سے پکارنے اور ندا دینے کا امر ثابت ہوگیا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیتِ کریمہ کا تعلق صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری تک تھا یا آج بھی اس کا حکم جاری و ساری ہے؟ اگر یہ کہیں کہ آج یہ حکم جاری و ساری نہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کیا یہ آیت معطل ہوگئی؟ کوئی مسلمان ایسا نہیں جو یہ کہنے کی جسارت کرے کہ آج اس آیت کا حکم معطل ہوگیا ہے۔ اگر اس طرز کو اختیار کریں تو پھر سیکڑوں آیات اور کئی سورتیں معطل کردیں گے کہ یہ بھی اُس وقت کے لیے تھا، یہ بھی اُس وقت کے لیے تھا، پھر تو پورا قرآن ہی اس وقت کے لیے تھا تو ہمارے وقت کے لیے (نعوذ باللہ) کچھ بچتا ہی نہیں۔ ثابت ہوا کہ قرآن کی ہر آیت کا حکم اُس وقت کے لیے بھی تھا اور آج کے وقت کے لیے بھی ہے۔

جب یہ بات طے ہوگئی کہ اس آیت کا حکم آج کے لیے بھی وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ کے وقت تھا تو اس آیت کے اشارۃ النص سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا ثابت ہوتا ہے اور چونکہ یہ حکم صرف حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جیسے اُس زمانے میں پکارنا جائز تھا آج بھی اسی طریقے سے پکارنا جائزہے۔

یہ سب کچھ ایک ہی آیت سے مستنبط و اخذ ہوتا جارہا ہے۔ یہ آیت خود بخود بولتی جارہی ہے یعنی کبھی قرآن خود کلام کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قرآن میں ڈوب کر اس کا کلام سننے کی کوشش کرو، یہ ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔

قرآن فرمارہا ہے کہ آج بھی میرے محبوب کو پکارا کرو مگر اس لب و لہجے اور انداز سے نہیں جیسے آپس میں دوستوں، بھائیوں یا اپنے جیسوں کو پکارتے ہو۔ گویا پکارنے کے لب و لہجے میں بھی برابری کی نفی کرکے جڑ کاٹ دی۔

معلوم ہوا کہ ایمان نہ برتری کے تصور میں ہے اور نہ ہمسری و برابری کے تصور میں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایمان کہاں ہے؟ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ.

(الحجرات، 49:3)

جو اپنی آوازیں میرے محبوب کی آواز کے مقابلے میں پست کرلیتے ہیں وہی مومن ہیں۔ یعنی ایمان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کمتر رہنے میں ہے۔ لہٰذا تینوں درجوں میں ایمان مکمل ہوگیا کہ آواز بھی اونچی نہ کرنا، پکارتے وقت لب و لہجہ میں برابری بھی نہ کرنا اور آواز کو بھی پست رکھنا۔

بے ادبیٔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا: اعمال کی بربادی

عرض کی: باری تعالیٰ اگر کوئی ایسا کر بیٹھے تو کیا ہوگا؟ رب کائنات اس کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ.

’’(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو‘‘۔

(الحجرات، 49: 2)

اس موقع پر بے ادبی کی نوعیت، مقدار اور اس کے حجم کا جائزہ بھی لیں اور اس کے ساتھ اس کی سزا کا موازنہ بھی کریں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بولتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی کردی، پکارا مگر لب و لہجہ بے تکلفانہ یا مساویانہ ہوگیا، بس اتنی سی بے ادبی کی سزا تمام اعمال کا رائیگاں چلا جانا قرار پایا۔ بقایا بے ادبیاں جنہیں لوگ کثرت کے ساتھ کرتے ہیں وہ تو ساری اس مذکورہ نوعیت اور مقدار سے کئی گنا اونچی ہیں جن سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے پہلو نکلتے ہیں۔ اُن بے ادبیوں کے مقابلے میں آیت میں مذکور جس بے ادبی سے روکا جارہا ہے، وہ تو بظاہر اپنے گریڈ کے اعتبار سے نچلے درجے کی ہے۔ کہاں بے ادبی کا یہ لیول اور کہاں وہ لیول کہ مقامِ علمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمجھانے میں زید، بکر، مجنوں، بچہ اور حیوانوں کا ذکر کردینا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے معاذ اللہ سطحی مثالیں دے دینا، نماز میں توجہ کا حوالہ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے حیوانوں کا بھی ذکر کردینا اور ایک ہی سطر اور سانس میں سارے لفظ بول جانا، ایسی بے ادبیاں تو سب سے اونچے درجے کی بے ادبیاں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ معمولی بے ادبی پر اعمال غارت کررہا ہے تو ان بڑی بے ادبیوں پر گرفت کا عالم کیا ہوگا۔

اس چھوٹے سے درجے کی بے ادبی جس میں فقط شائبہ برتری، برابری یا شائبہ مثلیت تھا کہ جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے پھرتے ہو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی طرح بلایا تو یہ اتنا بڑا گناہ، جرم اور کفر ہوگا کہ تمہارے سارے اعمال آناً فاناً ضبط کرکے دوزخ میں پھینک دیئے جائیں گے۔ ان تحبط اعمالکم میں وہ تمام اعمال جو نماز، روزے، حج، زکوٰۃ، کلمہ شہادت، جہاد، تبلیغ، مسجدوں کا بنانا، مدرسے بنانا، عمر بھر تبلیغیں کرنا اور عمر بھر سنت پر عمل کرنا، یہ سب شامل ہیں۔ فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، صدقات، مباحات سب اعمال اتنی سی بے ادبی کے نتیجے میں ضبط کرکے اللہ دوزخ میں پھینک دے گا، کوئی بھی عمل باقی نہیں بچے گا خواہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ تھا، سب بے کار اور رائیگاں چلے جائیں گے۔

تمام اعمال کس نوعیت کے گناہ پر رائیگاں ہوتے ہیں؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنی معمولی سی بے ادبی سے پوری زندگی کے اعمال کس طرح اجڑ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بے ادبی بھی اگر دیگر اعمال کی طرح کا صرف ایک عمل ہوتا تو ایک اعمال سے کروڑوں عمل کبھی ضائع نہ ہوتے۔ ایک عمل کبھی کروڑوں اعمال کو منسوخ نہ کرتا، اس لیے کہ اتنے اتنے بھاری عمل تھے جو محض ایک معمولی بے ادبی کے عمل کے مقابلے میں رائیگاں نہ جاتے۔

اب سوچنا یہ ہے کہ وہ کون سی شے ہے کہ جو ایک طرف اکیلی ہے مگر دوسری طرف کروڑوں اعمال کی پوری کائنات کو نیست و نابود کردے۔ سُن لیں! وہ ایک طاقتور چیز صرف اور صرف ایمان ہے۔ گویا واضح فرمادیا کہ جس نے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے ادبی کی، اس کا ایمان جاتا رہا۔ کیونکہ اعمال کا اعتبار تو ایمان سے تھا اور جب ایمان ہی نہ رہا تو اعمال کا بھی کوئی اعتبار نہ رہا۔ پس ایک بے ادبی سے سارے اعمال اس لیے غارت ہوگئے کہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے ادبی محض ایک عمل نہیں تھا بلکہ وہ ایمان کا چھن جانا تھا جس کے سبب سارے اعمال برباد ہوگئے۔ پتہ چلا کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کا نام ہی ایمان ہے۔ ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان ہے اور بے ادبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفر ہے۔ چونکہ بے ادبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفر ہے اس لیے جونہی کوئی شخص اس کا مرتکب ہوا، وہ کفر کا مرتکب ہوا اور نتیجتاً اس کے سارے اعمال غارت ہوگئے۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

کفر کی بھی کئی اقسام ہیں:

بے شمار کفر ایسے ہیں جن کا پتہ چل جانے پر انسان اللہ سے توبہ کرتا ہے تو معافی ہوجاتی ہے۔ کافر بھی اگر توبہ کرلے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائے تو اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یعنی توبہ سے کفر بھی مٹ جاتا ہے، راستہ موجود ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کیا یہاں بھی ایسی بات ہے کہ گستاخی و بے ادبی کرنے والے کی توبہ قبول ہے؟ فرمایا: نہیں، خبردار! ابھی بھی تمہیں میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے مرتبے کی سمجھ نہیں آئی۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی، بے ادبی ایسا کفر ہے کہ ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون تمہارے سارے اعمال ضبط اور ختم ہوجائیں گے اور تمہیں اس کا احساس اور شعور بھی نہیں ہوگا۔

وانتم لا تشعرون کا معنیٰ

یہاں ایک نکتہ توجہ طلب ہے کہ یہ بات کیوں فرمائی کہ شعور بھی نہیں ہوگا۔ لکھنے والے تیزی سے لکھ کر، پڑھنے والے پڑھ کر اور کہنے والے کہہ کر اس مقام سے گزر جاتے ہیں لیکن یہاں غور نہیں کرتے، یہاں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ پتہ چلنے اور نہ چلنے میں اگر فرق کو سمجھ لیا تو بات سمجھ میں آجائے گی۔

فرق یہ ہے کہ اگر پتہ چل گیا کہ میرے اعمال ضبط ہوگئے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ سجدے کرے گا، گڑ گڑائے گا، چیخے گا، توبہ کرے گا اور سیدھی راہ پر چل پڑے گا۔ جب توبہ کرے گا تو اللہ معاف کردے گا۔ لہذا ایک کفر وہ ہے جو وہ معاف کردیتا ہے۔ جس کے گناہوں کو معاف کرنا ہوتا ہے اللہ اسے خبر اور شعور ہونے دیتا ہے کہ اس سے ایک بہت بڑی خطا سرزد ہوگئی ہے، تاکہ اسے اپنے لُٹنے کا پتہ چلے اور وہ معافی مانگے، توبہ کرے اور بخشا جائے۔ لیکن جس کے بارے میں طے کرلے کہ اس بدبخت کو معاف ہی نہیں کرنا، اگر میرا (اللہ کا) انکار کرتا، میری بارگاہ میں نازیبا بات کرتا اور مجھ سے معافی مانگتا تو میں معاف کردیتا، مگر یہ بدبخت میرے محبوب کا گستاخ ہے، میرے محبوب کے برابر بننا چاہتا ہے، میرے محبوب کا ہمسر بننا چاہتا ہے اور میرے محبوب کی شان گھٹانے کا سوچتا ہے۔ اس بدبخت کو میں معاف نہیں کرسکتا۔ اب اس کا طریقہ یہ ہے کہ نہ وہ توبہ کرے اور نہ اس کی معافی ہو۔ اس لیے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے گناہ کا علم، خبر و شعور ہونے پر توبہ نہ کرے۔ بس اس کا یہی طریقہ ہے کہ اس بدبخت کو پتہ ہی نہ چلے کہ میں لٹ گیا۔ اب وہ زندگی بھر سمجھتا رہتا ہے کہ میں نے اتنے مدرسے بنائے، اتنی مسجدیں بنائیں، حضور کی سنت پر عمل پیرا رہا، اتنے حج کیے، اتنے عمرے، اتنی نیکی، اتنی تبلیغ کی، اتنے جہادوں میں شریک ہوا، عمر بھر وہ اس گھمنڈ میں ہے کہ اتنے اعمال میرے پاس ہیں مگر اس بدبخت کو خبر ہی نہیں کہ وہ تو لٹ گیا۔ چونکہ اسے لٹنے کا علم نہیں، لہٰذا خوشی میں ہے۔

اس لیے ارشاد فرمایا ’’وانتم لاتشعرون‘‘ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کرنے والو! تمہیں لٹ جانے کا احساس بھی نہیں ہونے دیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ رب کا منشا یہ ہے کہ ہر کافر کی توبہ تو قبول ہوجاتی ہے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے ادب اس حقِ توبہ سے بھی محروم ہے۔

بے ادب و گستاخ کی توبہ کیوں قبول نہیں؟ اس حوالے سے میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ رب کریم کا منشا یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگی ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزر گئی، جو ادب میں فنا رہے، وہ قیامت کے دن جنت کے مستحق ٹھہریں گے اور وہ لوگ جنہوں نے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی ہوگی اگر ان کی بھی توبہ قبول کی گئی اور انہیں معاف کردیا تو وہ بھی جنت میں جارہے ہوں گے۔ اس وقت میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب کرنے والے پوچھیں گے کہ مولا! یہ بے ادب بھی معافی مانگ کر جنت میں گھسے جارہے ہیں تو ہمیں ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا صلہ ملا؟ یہ بے ادب ہوکر، معافی مانگ کر بخشے گئے۔

اس لیے واضح فرمادیا کہ جو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے ادب ہوگا، قیامت کے دن اسے نشانِ عبرت بنا دوں گا۔ وہ ایک طرف کھڑے ہوں گے اور لاکھوں اعمال کے ڈھیر اور طبق اٹھا کر بھی دوزخ کو جارہے ہوں گے۔ لوگ پوچھیں گے کہ اتنے اعمال کی موجودگی میں بھی دوزخ میں جانے والے یہ لوگ کون ہیں؟ بتایا جائے گا ان کے اعمال درست مگر بے ادبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بناء پر یہ بدبخت دوزخی قرار پائے ہیں۔

باری تعالیٰ! اتنی سی بے ادبی پر اتنی بڑی سزاملی اور اب جو ادب کرتے ہیں ان کا اجرو ثواب بھی سنادے تو فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی.

(الحجرات، 49:3)

وہ لوگ جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھتے ہیں تو اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں، میرے محبوب کا ادب بجا لاتے ہیں، ان کی جزا یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ اپنے تقویٰ یعنی توحید کے لیے چن لیتا ہے۔

گویا توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔ یعنی ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلہ نورِ توحید سے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عینِ توحید ہے۔ گویا یہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحید کو سمجھنا ہو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کو اپنالے۔ جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کرلیے جاتے ہیں، وہی انوارِ الہٰیہ کی منزل ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی توحید کے بارے پوچھے تو جواب ہے ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو توحید کہتے ہیں۔ اللہ کی توحید ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے، اسی درس کو اپنا لیں، اس سے سارے اعمالِ صالحہ مقبول اور نور بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کے اس اصلی جوہر کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top