پریس کانفرنس: توہین آمیز فلم کے خلاف ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا امریکی صدر باراک اوبامہ کو خط
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، OIC سیکرٹری جنرل احسان
اوگلوسمیت عالمی سربراہان کو بھی خط جاری کردیاگیا
حکومت پاکستان عالمی عدالت انصاف جائے، پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے وکیل کے طورپر
کیس لڑنے کے لئے تیارہوں
اسلام آباد پریس کلب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی ویڈیولنک کے ذریعے پریس
کانفرنس
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان توہین آمیز فلم کے خلاف عالمی عدالت انصاف جائے، پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے وکیل کے طورپر کیس لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے توہین آمیز فلم کو دنیا کے اربوں امن پسندوں کے خلاف گہری سازش اور دنیا کے امن کے لئے شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے امریکی صدر باراک حسین اوبامہ، سیکرٹری جنرل UN بان کی مون، سیکرٹری جنرل OIC احسان اوگلو سمیت دنیاکے دیگرممالک کے سربراہان اورانسانی حقوق کے عالمی اداروں کے سربراہان کو تفصیلی خط بھیج دیا ہے۔
شیخ الاسلام نے کہاہے کہ مسلم امہ کا خادم ہونے کے ناطے یہ میرا فریضہ ہے کہ توہین آمیز فلم جیسے مذموم افعال کو روکنے اور مستقبل میں ایسے غیرانسانی روح فرسا اقدامات کاراستہ روکنے کے لئے دنیاکی موثر شخصیات، اداروں اور ممالک کے سربراہان کو اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ کرتا جو عالمی امن کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امریکی صدر باراک اوبامہ UN اور OIC کے سیکرٹری جنرلز سمیت پوری دنیا کے سربراہان مملکت کے نام خط میں واضح کیا ہے کہ گستاخانہ فلم نے 1.5 ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کا قتل تو کیا ہی ہے مگر یہ دنیا کے دیگر اربوں پر امن انسانوں جن کا تعلق مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے ہے، کے جذبات کو بھی بری طرح مجروح کیاہے۔ انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ کوئی طبقہ بھی اپنے پیغمبر اور مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کے ایک حرف کوبھی برداشت نہیں کرتا، مقدس شخصیات مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے لئے نیوکلیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لئے یہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کا مشترکہ مسئلہ ہے نہ کہ صرف مسلمانوں کا۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسے مذموم اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد پریس کلب میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر امیرتحریک پنجاب احمد نواز انجم، مرکزی سیکرٹری اطلاعات قاضی فیض الاسلام، صدر اسلام آباد سٹی ابرار رضا ایڈووکیٹ، بشیر حسین شاہ، راضیہ نوید، محمد جاوید ججہ، محمد قاسم مرزا اور دیگر مرکزی صوبائی اور ضلعی قائدین بھی موجود تھے۔
Press Conference (Islamabad) by Shaykh-ul-Islam... by badesubha
ڈاکٹر طاہرالقادری نے بائیبل، نیواینڈ اولڈ ٹیسٹامنٹ کے حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مقدس ہستیوںکے خلاف توہین کی مذمت قران سے پہلے بائیبل اور دیگر آسمانی کتابوں میں بھی ہوئی ہے۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ تقاضا کرتی ہے کہ پوری دنیا متحد ہوکر اس کامقابلہ کرے اور اس کے لئے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان فاصلے کم کرنے اور سب کو قریب لانے کی ضرورت ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایسے اقدامات پر محنت کی جاتی مگر افسوس آزادی اظہار رائے کے نام پر دنیا کے امن سے کھیلنے کی سازش کی جا رہی ہے جو پوری انسانیت کے لئے خطرے کا باعث ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے خط میں آزادی رائے اور فریڈم آف سپیچ کے حوالے سے تفصیلی بات کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آزاد ی اظہار رائے کا حق بنیادی نوعیت کاہے اور یہ امریکہ کے آئین اور انسانی حقوق کے یونیورسل ڈکلیریشن میں بھی موجود ہے مگر یہ اظہار رائے کے ساتھ انسانی عزت وتوقیر کو بھی تحفظ دیتا ہے۔ امریکی آئین کی آٹھویں ترمیم فرد کی عزت وتوقیر کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ آزادی اظہار رائے کبھی بھی لامحدود نہیں ہوتا اور اس کی چھتری تلے کسی کی عزت اچھالنے کی کوئی آئین اجازت نہیں دیتا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس حوالے سے سابق سیکرٹری جنرل UN کوفی عنان، سابق وزیر خارجہ UK جیک سٹرا، فرانسیسی منسٹر اور کئی اہم شخصیات کی تقاریرکے اقتسابات بھی خط میں درج کئے جس میں ان سب نے آزادی اظہار رائے کی حدود وقیود کی بات کی ہے۔ انہوں نے جنوری 2003 میں دی انڈیپنڈنٹ نیوز پیپر میں چھپنے والے اس کارٹون کا ذکر بھی کیا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون ایک فلسطینی بچے کا سر کھا رہے ہیں اور نیچے لکھا ہے کہ کیا آپ نے کبھی کسی سیاست دان کو بچے کا بوسہ لیتے نہیں دیکھا، اس پر اسرائیلی عوام نے بہت زیادہ احتجاج کیا۔ اپنے لیڈر کے خلاف ہونے والے اقدام پر یہ ان کا فطری رد عمل تھا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اکثر مغربی ممالک میں ہالوکاسٹ کے خلاف رائے دیناجرم ہے کا بھی حوالہ دیاہے، UNکے چارٹر 1 کی کلاس 3 کا ذکر بھی کیا ہے جوفرد کی عزت وناموس کو تحفظ دیتی ہے۔ اس طرح خط میں آسٹریلیا، فن لینڈ، جرمنی، سپین، ہالینڈ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، برازیل، چلی، کونسل آف یورپ فرانس، انڈیا، آئس لینڈ، آئیرلینڈ، پولینڈ، سنگاپور ساؤتھ افریقہ سویئزرلینڈ، سویڈن اور انٹرنیشنل کوونینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائیٹس سمیت چند دیگر ممالک کے قوانین کے تفصیلی حوالے دے کر ثابت کیا ہے کہ انسان کی عزت وتوقیر کوتحفظ حاصل ہے، جسے آزادی اظہار رائے کے نام پر پامال نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے آخر میں لکھا کہ دنیا کے امن سے کھیلنے والے چند مٹھی بھرشرپسند عناصر جن کا تعلق چاہے مسجد سے ہو یا چرچ سے، کو قطعاً یہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر ہم نے مل کر ایسے مذموم اقدامات کو نہ روکا تو ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل شدید خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔
انہوں نے موثر شخصیات اور اداروں اور سربراہان مملکت کو کہا ہے کہ مجھے اعتماد ہے کہ دنیا کے امن کو لاحق اس شدید خطرے کے خلاف سنجیدہ اقدامات ضرور کئے جائیں گے جن سے آئندہ کے لئے ایسے گھناؤنے اور مذموم افعال کاراستہ روکا جاسکے۔
جھلکیاں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مورخہ 29 ستمبر 2012ء کو اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔ جس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔
- گستاخانہ فلم کے خلاف حکومتی سطح پر اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیے جانے
والے اقدامات ناکافی ہیں۔ صرف ایک دن یومِ عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
منانے کے بعد حکومت نے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیا ہے۔
- حکومت پاکستان توہین آمیز فلم کے خلاف عالمی عدالت انصاف جائے، پاکستانی قوم
اور امت مسلمہ کے وکیل کے طور پر کیس لڑنے کے لئے تیار ہوں۔
- تحفظ ناموس رسالت کے نام پر احتجاج میں نا حق افراد کا قتل اور املاک کی توڑ
پھوڑ دشمنوں کے موقف کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے، تحریک منہاج القرآن نے پاکستان
بھر میں انتہائی پُر امن مظاہرے کیے ہیں۔
- مغربی ممالک کے سربراہان کو خط لکھنے کے بعد اگلے مرحلے میں اُن سے انفرادی
طور پر ملاقات بھی کروں گا۔ اور اپنی ہمت کے مطابق یہ کام جاری رکھوں گا۔
- عالمی سطح پر مسلمانوں کا اتحاد تنظیموں اور جماعتوں کے ذریعے نہیں بلکہ ممالک
اور ریاستوں کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔
- بد قسمتی سے امت مسلمہ کے حکمران (جن کو ہم عوام ہی منتخب کرتے ہیں) ان کے
ایجنڈے اور ترجیحات یہ نہیں ہیں۔
- تحریک منہاج القرآن (مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں) یکم اکتوبر کو "عظمت رسول (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قومی کانفرنس" منعقد کر رہی ہے۔
- میڈیا پر ایک خبر چل رہی ہے کہ امریکی فلم کے پروڈیوسر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس بارے میں قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ قوم کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید فلم بنانے کے الزام میں اُس کو گرفتار کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ 15 ستمبر سے گرفتار ہے اور 2009 میں ہونے والے کسی فراڈ کے کیس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اُس پر پابندی تھی کہ وہ 5 سال تک کمپیوٹر وغیرہ استعمال نہیں کرے گا، گستاخانہ فلم منظر عام آنے کے بعد اُس کو سابقہ جرم کے بین کو توڑنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جس امریکی ریاست میں وہ رہتا ہے وہاں کی انتظامیہ تو فلم والے معاملے کا دفاع کر رہی ہے اور اس کو جرم ماننے پر تیار ہی نہیں۔
تبصرہ