Common Ground News : دہشت گردی کے خلاف فتوٰی – انتہا پسندی کے رجحان کا خاتمہ!

از رشاد بخاری
07 مئ 2010

اسلام آباد: حالیہ برسوں میں اسلام جیسے امن پسند مذہب کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان ان انتہا پسندوں کے الفاظ اور افعال سے پہنچا ہے، جو اپنی تشدد پسندانہ کاروائیوں کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ تناظر ہے جس میں پاکستان کے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر طاہر القادری نے اس سال مارچ میں لندن سے دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مبنی ایک ضخیم فتوٰی جاری کیا تھا۔

اس فتوٰی کو اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، سب سے جامع اور مبسوط دستاویز قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس تفصیلی فتوی میں دہشت گردی کے تمام پہلوؤں، اشکال اور اس کے مفروضہ مذہبی جواز کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف قران، حدیث، تاریخ اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے ناقابلِ تردید دلائل پیش کیے ہیں۔

گذشتہ دنوں مجھے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں ان سے اس فتوی کا محرک سمجھنے اور اس کے چند نمایاں پہلوؤں پر بات کرنے کا ایک بہتریں موقع میسر آیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ' گذشتہ دس سالوں میں اسلام کے نام پر دہشت گردانہ کاروائیوں سے بعض مذہبی جنونیوں نے اسلام اور امت مسلمہ کی ایک بھیانک تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسا جامع فتوی آۓ جو اسلام کا نام صاف کرکے، جو تشدد نہیں بلکہ امن اور محبت کا دین ہے، اس کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے۔ '

ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ اس بات چیت کا سب سے بصیرت افروز پہلو یہ تھا کہ انہوں نے دنیا کی دو حصوں یعنی "دارالسّلام" اور "دارالحرب" میں تقسیم کو غلط قرار دیا۔ اکثرانتہا پسند اس تقسیم کی بنیاد پر دہشت گردی کو جائز قرار دیتے ہیں کہ دنیا دو گھَروں میں مُنقسم ہے: ایک "دارالسّلام" یعنی امن کا گھر جو ان ممالک پر مشتمل ہے جو اسلامی اصولوں کے مطابق چل رہے ہیں اور دوسرا "دارالحرب" یعنی جنگ کا گھر جس میں ایسے ممالک آتے ہیں جہاں مسلمان امن اور سلامتی کے ساتھ نہیں رہ رہے یا انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ تاہم تمام عُلما اس تعریف پر متفق نہیں ہیں اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ان دونوں "گھروں" کو ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان اصطلاحات کو پہلی بار 8 ویں صدی کے فقیہہ اور امام ابو حنیفہ نے استعمال کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ اصطلاحات قرآن یا حدیث سے اخذ نہیں کی گئی تھیں بلکہ اُس دور کی سیاسی تفہیم کی بنیاد پر وضع کی گئی تھیں۔ بعد ازاں مسلمانوں کے علاقوں پر منگول حملوں کے ردّ عمل میں 14 ویں صدی عیسوی کے اسلامی سکالر ابن تیمیّہ نے یہ اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے ایک فتوٰی جاری کیا تھا جس میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر نظامِ قانون کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ظالم اور جابر رہنماؤں کے خلاف مسلح جدوجہد کو جائز قرار دیا گیا تھا۔

آج جو بہت سے مسلمان تشدد آمیز کارروائیوں کے لئے اس فتوے کو جواز بناتے ہیں وہ نہ تو اس کی وجوہات سے واقف ہیں اور نہ ہی اس سیاسی وجغرافیائی تناظر سے آگاہ ہیں جس میں یہ پیش کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج اسلام کے نام پر کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد مسلم اکثریت والے ممالک کو بھی دارالسّلام ماننے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ ممالک اپنے یہاں اسلامی اصولوں کو پوری طرح نافذ نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ اسلامی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام عام شہریوں کی جان لینے کی قطعاّ اجازت نہیں دیتا۔

ان کے خیال میں اس اندازِ فکر کا اسلام یا اس کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کے مطابق اسلامی بین الاقوامی قانون کی بات کی جائے تو بہت سے اسلامی فقہا دنیا کی اقوام کو پانچ درجات میں تقسیم کرتے اور ہر ایک کے لئے مخصوص رویّے کا تعین کرتے ہیں۔

پہلے درجے میں مسلم اکثریت والے وہ ممالک آتے ہیں جہاں حکومت بھی مسلمانوں کی ہے اور یہ ممالک دارالسّلام کا حصّہ تصوّر ہوتے ہیں چاہے وہاں مقامی سطح پر اسلامی قوانین نافذ کیے گئے ہوں یا نہیں۔

ایسی اقوام جن کے ساتھ مُسلم اکثریت والے ان ممالک نے عارضی امن کے معاہدے کر رکھے ہیں، دوسرے درجے "دارالصُلح " میں شمار ہوتی ہیں۔ معاہدے کی مُدّت کے دوران ان کی حیثیت دارالسّلام میں شامل مُلکوں کے برابر ہوتی ہے۔ تیسرا درجہ "دارلعہد " ہے جس میں وہ ممالک شامل ہیں جن کے ساتھ مُستقل امن کا معاہدہ کیا گیا ہو۔

چوتھا درجہ ان ممالک کا ہے جو نہ تو دوست ہیں اور نہ ہی دُشمن۔ یہ ممالک بھی اُسی رویّے کے حق دار ہیں جو دارالسّلام میں شامل اقوام کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے جس میں کسی کے مذہب، زبان یا نسل سے قطع نظر سب کی جان، جائیداد، وقار اور آزادی کا حق شامل ہے۔

"دارالحرب" پانچواں اور آخری درجہ ہے۔ اس کا اطلاق ان ریاستوں پر ہوتا ہے جن کے ساتھ صلح کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، جو اس وقت مسلم اکثریت والے ممالک کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اور / یا جہاں مسلمان غیر محفوظ ہیں۔ بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کو انفرادی طور پر ان ممالک یا ان کے باشندوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کا اختیار مل جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری یہ وضاحت کرتے ہیں کہ دارالحرب کی اقوام کے معاملے میں بھی اخلاقی ضابطے موجود ہیں۔

مسلمان سپاہی ایسے لوگوں کو ہدف نہیں بنا سکتے یا نقصان نہیں پہنچا سکتے جو لڑائی کے لئے ہتھیار نہ اُٹھائیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں روایت ہے کہ اُنہوں نے اپنی فوج کو حُکم دیا تھا: "دھوکہ نہ دیا جائے اور لاشوں کو مسخ نہ کیا جائے۔ کسی کم سِن بچّے، عُمر رسیدہ مرد یا عورت کو قتل نہ کیا جائے۔ کسی کھجور کے درخت کو اکھاڑا یا جلایا نہ جائے اور نہ ہی پھل دار درختوں کو کاٹا جائے۔ غذائی مقصد کے سوا کسی بھیڑ یا گائے یا اُونٹ کو ذبح نہ کیا جائے۔"

ڈاکٹر قادری نے جس سب سے اہم بات کی وضاحت کی وہ شاید یہ تھی کہ اسلامی قانون کے تحت کوئی فرد یا گروہ کسی بھی عُذر سے جنگ کا اعلان نہیں کر سکتا۔ یہ اختیار صرف ریاست کی حکومت کو حاصل ہے اور وہ بھی صرف اُس وقت کیا جا سکتا ہے جب امن قائم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی ہوں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ فتوٰی پہلے ہی دنیا بھر میں وسیع طور پر بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ اس سے انتہاپسندی کی لہر ماند پڑ جائے گی اور انتہا پسندوں کی بیان بازی سے متاثر ہو سکنے والے نوجوانوں کے پاس اس فتوی کے ذریعے ان لوگوں کے مقابلے میں، جو اسلام کے نام پر بات کرنے کے جھوٹے دعویدار ہیں، مضبوط دلائل ہوں گے اور یوں وہ اسلام کا ایک امن پسند مذہب ہونے کا تصوّر بحال کر سکیں گے۔

Source : http://www.commongroundnews.org/article.php?id=27755&lan=ur&sid=1&sp=0&isNew=0

Comments

Top