Nawa i Waqt : دہشت گردی کیخلاف تاریخی فتویٰ

01 اپریل ، 2010
ڈاکٹر علی اکبر الازہری ۔۔۔

عالم اسلام اس وقت مجموعی طور پر غیر مسلم طاغوتی قوتوں کی جارحیت کا شکار ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو ہدف تنقید اور نشانہ تضحیک بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنے حواریوں سمیت صدام حکومت کی طرف سے کویت پر جارحیت اور کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کا بہانہ بنا کر عراق میں داخل ہوا اور وہاں لاکھوں بے گناہ مسلمان عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور بچوں کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بستیوں کی بستیاں اور ہنستے بستے شہر مسمار کر دیئے گئے۔ اسی طرح اس نے قیام امن کے بہانے طالبان اور القاعدہ کیخلاف لڑنے کیلئے نیٹو کی فوجوںکے ہمراہ اپنی مسلح افواج افغانستان میں اتاریں جو آج بھی افغانستان میں بے دریغ قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ ہمارے سابق فوجی حکمرانوں نے بغیر سوچے سمجھے اس اندھی جنگ کا ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ بن کر امریکی کاروائیوں کی حمایت کی۔ نتیجتاً امریکی جارحیت کے خلاف لڑنے والی قوتوں کے ہمدرد افراد اور گروہوں نے یہاں پاکستان میںبھی مسلح کارروائیوں کو جہاد کا نام دیکر خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا۔

گذشتہ چند سالوں سے ایک طرف پاکستان کے صوبہ سرحد میں شدید پریشانی، جنگ و جدال اور فتنہ و فساد برپا ہے اور دوسری طرف ملک کے کونے کونے میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس بدامنی اور خون خرابے میں اگرچہ ہمارے ہمسایہ ملک کی مبینہ ریشہ دوانیاں اور اسلام دشمن استعماری قوتوں کی سازشیں بھی کار فرما ہیں (جن کے واضح ثبوت اب سامنے آ چکے ہیں) لیکن اصل پریشانی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس علاقے کے بعض مذہبی لوگ طالبان جیسے مسلح گروہوں کی شکل میں حکومت پاکستان کیخلاف صف آراء ہیں۔

پاکستانی افواج نے مجبوراً سوات مالاکنڈ ڈویژن اور بعد ازاں وزیرستان میں آپریشن کئے ہیں جو اب بھی جاری ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی، اسرائیلی اور بھارتی سازشوں اور دین دشمن قوتوں کو ظلم و بربریت کے راستے پر آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے ان غیور اور بہادر مسلمانوں کو پاکستانی افواج کا ساتھ دینا چاہیے یا ان سے کھلی جنگ کرنی چاہیے؟ خاص طور پر ایسے حالات میں جبکہ عالم کفر کی نظریں واحد ایٹمی قوت پاکستان کے جوہری اثاثوں پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ پاکستان کو عالم اسلام کی قیادت کے منصب سے محروم کرنے کیلئے اسے طرح طرح کے مسائل میں پھنسا کر کمزور اور ناتواں ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ پوری قوم متحد ہوتی اور سرحدی علاقوں کے غیور مسلمان جنگجو افواج پاکستان کے دست و بازو بن کر بیرونی طاقت کو روکتے مگر بدقسمتی سے یہاں گنگا الٹی بہنا شروع ہوگئی۔ ابتداً کچھ مسلح گروہوں نے ان علاقوں میں پاکستانی افواج پر حملے کرنا شروع کیے اور بہانہ یہ بنایا کہ ’’چونکہ حکومت پاکستان امریکہ کی اتحادی ہے اس لئے اس کی فوج کافر ملک کے کہنے پرہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے لہٰذا اس کیخلاف لڑنا جہاد ہے۔‘‘ حالانکہ پاکستانی فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت اور داخلی انتشار کو ختم کر کے بحالی امن کیلئے صوبہ سرحد میں آ رہی تھی۔ ان مسلح کارروائیوں کا دائرہ آہستہ آہستہ پھیلتا رہا حتی کہ اب پاکستان کے ہر شہر اور کوچے میں، مساجد بازار، قومی تنصیبات، فوج اور پولیس کے مراکز پر خود کش حملوں کا بدترین سلسلہ شروع ہے جن میں ہزاروں بے گناہ مسلمان مرد عورتیں بوڑھے اور بچے مر چکے ہیں۔ سکولوں ہسپتالوں اور گھروں کو جلایا جا رہا ہے۔ نظریاتی مخالفت میں ممتاز مذہبی شخصیات کو قتل کیا جا رہا ہے اور ہر بم دھماکے کے بعد اسکی ذمہ داری ’’طالبان‘‘ کی طرف سے قبول کرنے کی خبر آ جاتی ہے۔

ملکی معیشت جو پہلے ہی کمزور تھی بیرونی سرمایہ کاری ختم ہونے سے اسکی کمر مزید ٹوٹ گئی ہے۔ خانہ جنگی سے داخلی امن تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ کیا یہ اسلام کی خدمت ہے اور ایسی کارروائیاں جہاد کے دائرے میں آتی ہیں؟ کیا اپنی مرضی کا اسلام گن پوائنٹ پر مسلط کرنا دین کی خدمت ہے؟ غیر مسلموں کے ساتھ بدسلوکی انکو تاوان کیلئے اغواء کرنااور امریکہ سمیت مغربی ممالک میں بدامنی اور قتل کی منصوبہ بندی کرنا کس اعتبار سے اسلام کی خدمت کہلائے گی؟ یہ وہ چند سوالات تھے جن کا واضح جواب بہت سے لوگ سننا چاہتے تھے اور قوم ایک مخمصے میں مبتلا تھی۔ بعض لوگ پاک فوج کی کارروائیوں کو اب بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کو حق پر سمجھ رہے ہیں یا انکے ساتھ ہمدردانہ جذبات رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں میں بڑی بڑی معاصر سیاسی مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی پر مبنی ان اقدامات سے جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ دنیا میں اسلام کی بدنامی اور مسلمان نوجوانوں کا مذہب گریز رجحان ہے چنانچہ پاکستان کے نامور دینی اسکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ماحول پر چھائی اس مجرمانہ خاموشی کو توڑا اور ہمیشہ کی طرح جرات و تحقیق کو یکجا کر کے چھ سو صفحات پر مشتمل تاریخی فتویٰ جاری کر دیا جس پر آج کل ملک اور بیرون ملک خصوصی مذاکرے اور سیمینار ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ عالمی میڈیا میں اس فتویٰ سے متعلق تبصروں کا خلاصہ پیش کیا جائے ہم انہی کی زبانی اس کی غرض و غایت واضح کر رہے ہیں۔ فتویٰ کے مقدمہ میں انہوں نے لکھا ہے:

’’میں نے ان حالات میں ضروری سمجھا کہ ملت اسلامیہ اور پوری دنیا کو دہشت گردی کے مسئلہ پر حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے اور اسلام کا دوٹوک موقف قرآن و سنت اور کتبِ عقائدو فقہ کی روشنی میں واضح کردیا جائے۔

گزشتہ دنوں اس محققہ تاریخی دستاویز کی تقریب رونمائی لندن میں ہوئی۔ معاملے کی حساس نوعیت اور فتویٰ کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر اس موقع پر دنیا بھر کا پریس اور الیکٹرونک میڈیا جمع تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی یہ صدائے حق عالم عرب و عجم، یورپ، امریکہ اور مشرق بعید تک ہر مذہب اور ہر خطے کے لوگوں نے سنی اور سب نے اسے سراہا کیونکہ اس میں جہاں اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی صحیح ترجمانی کا حق ادا ہوا ہے وہاں اسلام کو دہشت گردی کا مذہب سمجھنے والے غیر مسلموں کی غلط فہمیاں بھی دور ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

٭واشنگٹن پوسٹ نے 2 مارچ کی اشاعت میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’عالمی سطح پر مصروف کار اسلامی تحریک کے قد آور رہنما نے چھ سو صفحات پر مشتمل ایسا فتویٰ دیا ہے جسے اب تک کے فتاویٰ جات میں قطعی اور موثر ترین کاوش کہا جاسکتا ہے۔ طاہر القادری پاکستان میں قانون کے استاد اور قانون ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں۔ انکے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی آواز ایک جانی پہچانی اور توانا آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں ان کی پریس کانفرنس میں عالمی میڈیا کی بڑی تعداد موجود تھی جو بجا طور پر غیر معمولی دلچسپی سے انکے فتوے کی تفصیلات ریکارڈ کر رہی تھی‘‘۔

٭واشنگٹن ٹائمز نے 3مارچ کی اشاعت میں اپنے ایک نامہ نگار کا تفصیلی تبصرہ شائع کیا جس میں اس نے فتویٰ کی اہمیت پر طویل اور قیمتی تاثرات قلم بند کئے۔ اس نے لکھا کہ ’’یہ وہ حقیقی کاوش ہے جو غلط فہمی میں مبتلاء ہزاروں نوجوان کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناس کریگی اور مغرب میں بسنے والے جوشیلے نوجوانوں کو خون خرابے پر اکسانے والے نظریات کا قلع قمع ہوسکے گا۔ تہذیبی تصادم میں مبتلا اقوام عالم کو قیام امن کا احساس دلانے کیلئے اسی طرح کی ٹھوس علمی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ اس نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ممکن ہے یہ فتویٰ ایک طبقے کے ہاں بہت پسندیدہ نہ بن سکے کیونکہ ڈاکٹر قادری ’’صوفی مسلم‘‘ لیڈر ہیں جبکہ دہشت گردی اور خود کش بمباروں کو تربیت دینے والے ’’وہابی اور سلفی‘‘ عقائد و نظریات کے نمائندہ ہیں۔‘‘

٭CNN کی اینکر خاتون امان پور نے 3 مارچ کے نشریاتی تبصرے میں کہا: ’’ڈاکٹر قادری نے بہت درست وقت پر اپنا تاریخی فتوی جاری کیا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں رہنے دی۔ 59 سالہ معروف پاکستانی مسلمان لیڈر نے اسلام پر لگنے والے ان اعتراضات کو پوری علمی اور تحقیقی قوت کے ساتھ رد کردیا ہے۔ جو دہشت گردی اور خود کش حملوں کے جواز سے متعلق اسلام پر لگائے جاتے ہیں۔ انہوں نے خودکش حملوں کے ذریعے عوام الناس کا خون بہانے کو صریح کفر سے تعبیر کیا ہے۔ اس فتوی میں ان انتہاء پسندوں کے لئے دعوت فکر ہے جو دنیا پر طاقت اور لڑائی سے حکومت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس سے ان ہزاروں مسلمان نوجوانوں کو سوچنے سمجھنے کا موقع ملے گا جو برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں انتقامی جذبوں کا شکار ہوکر ’’خودکش سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔‘‘

٭الجزیرہ نیوز نے 4 مارچ کی اشاعت میں لکھا۔ ’’ایک مؤثر ترین پاکستانی عالم دین نے چھ سو صفحات پر مشتمل تاریخی فتویٰ جاری کر کے زوردار دلائل اور تاریخی شواہد سے ثابت کردیا ہے کہ دہشت گردوں اور خودکش بمباروں کا اسلام سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ ڈاکٹر قادری کا یہ فتوی دراصل اعلیٰ علمی تحقیقی کاوش ہے جس میں اسلامی اخلاقیات اور تعلیمات نکھر کر سامنے آگئی ہیں اور یہ یقینا ایک اعلیٰ اسلامی خدمت ہے۔‘

Source : http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/30-Mar-2010/9722

Comments

Top