پریس کانفرنس (اسلام آباد): اصلاحات کے بغیر انتخابات ملک کے لئے تباہی کا باعث ہوں گے : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

تفصیل پریس کانفرنس

جمہوریت کیا ہے؟ جمہوریت اور انتخابات کا تعلق پولٹیکل سائنس میں‘ جمہوریت کی سائنس میں اور بین الاقوامی سطح کے جمہوریت‘ انتخابات اور سیاست کے جو ماہرین ہیں ان کی نگاہ میں اور بین الاقوامی اداروں میں کیا ہے اس کا معنیٰ؟

جمہوریت اور انتخابات۔

ہمارے ہاں بدقسمتی ہے کہ جمہوریت کا معنیٰ و مفہوم بگاڑ دیا گیا ہے اور اسے محض سیاسی اور انتخابی آمریت کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جمہوریت کا پورا معنیٰ اور مفہوم اس کی ضرورت و مقاصد مکمل طور پر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں کہ یہ ہے کیا نظام۔ میں سب سے پہلے جس ریفرنس سے بات شروع کر رہا ہوں جمہوریت پہ بات کرنے کے لیے کہ یہ کیا ہے؟ جمہوریت اور انتخابات کا ربط۔ یہ ایک ڈیماکریسی انڈکس ہے‘ اس وقت جہاں سے میں کوٹ کر رہا ہوں 2011ء کا اور یہ Economist Inteligence Unite ہے جنہوں نے اس کو ایک بین الاقوامی سطح کا Democratic Science پر Produce کیا ہے۔

Democracy Index 2011 سے کورٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے اور پھر دیگر کئی ڈاکومنٹس پر جو بین الاقوامی سیاست اور جمہوریت پر لکھے گئے ہیں ان میں یہ چیزیں کثرت کے ساتھ آئی ہیں۔ اس پر ایک Concences ہے پوری دنیا کے Political Scientists کا کہ جب وہ پوری دنیا کی ریاستوں کو اور ممالک کو تقسیم کرتے ہیں جمہوریت کے لحاظ سے تو اس کی تین اقسام کرتے ہیں دنیا میں۔ بعض ریاستوں کو Full Democracies کہتے ہیں یعنی ان ممالک میں کامل جمہوریتیں ان کی تعداد پوری دنیا میں 25 ممالک تک ہے۔ گویا وہ وہ ریاستیں ہیں جن میں جمہوریت اپنے صحیح معنیٰ و مفہوم کے ساتھ اور اپنی روح کے ساتھ اور اپنے مقاصد کے ساتھ موجود ہے اس کو Full Democracies کہتے ہیں ۔ ان میں نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ آئس لینڈ‘ سویڈن‘ آسٹریلیا‘ سپین‘ یوایس وغیرہ۔

دوسری اس کی قسم ہے جس کو Flawed Democracy یا Defective Democracy بھی کہتے ہیں‘ یہ ناقص جمہوریتیں ہیں۔ Flawed Democracies جن ممالک میں تسلیم کی جاتی ہیں World wide اب یہ بات ہماری نہیں ہے کہ ہمارے حکمران شور مچا دیں‘ سیاست دان شور مچا دیں‘ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ شور مچا دیں کہ ہم جمہوریت ہیں‘ ہماری بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی‘ وہ تو آمرانہ دور میں بھی کہہ دیتے ہیں آمر کہ اصل جمہوریت ہے‘ یہ قصہ نہیں ہے۔ جمہوریت ایک سسٹم ہے‘ ایک فلسفہ ہے‘ ایک کلچر ہے اس کی کچھ اقدار ہیں‘ اس کے کچھ اصول ہیں‘ اس کے Objectives ہیں اگر وہ نہ پائے جائیں تو اس پورے نظام کو جمہوریت نہیں کہتے اور اس پورے نظام کے بے شمار حصوں میں سے ایک جزو انتخابات بھی ہے۔

جمہوریت کے اگر دس بنیادی حصے کر دیں اس نظام کو تسلیم کرنے کے لیے تو دس اجزا بنا دیں تو اس میں ایک جزو الیکشن بھی ہے اور وہ کیا ہے اس جمہویرت میں؟ Change of Govt کے لیے وہ ایک Peacefull Democratice Devise ہے ایک Tool ہے‘ تو یہ ایک جزو ہے۔ انتخابات ساری جمہوریت نہیں ہے‘ نو اجزا اور ہیں وہ سارے پائے جائیں تو اس کو جمہوریت کہتے ہیں تو 53 ممالک ہیں دنیا میں جن کی جمہوریتوں کو ناقص جمہوریت کہتے ہیں۔ ناقص جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان میں کچھ چیزیں ڈیموکریٹک ہیں‘ کچھ چیزیں آمرانہ ہیں گویا اس کے اندر مکسچر ہے کچھ جمہوری اقدار کا یا روایات کا اور کچھ حصہ آمرانہ روایات اور اقدار کا ہے۔ ان سب کو ملا کر کل تعداد ممالک کی 78 بن جاتی ہے۔

اب انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں اور جو بات میں کہہ رہا ہوں اس کو کسی ایک ادارے یا کسی ایک فرد کا ویژن نہیں ہے یہ ایک Worldwide established fact ہے اور جگہ جگہ یہ انڈیکس چھپا ہوا ہے it is not Chalanged ان 78 ممالک میں ناقص جمہوریتوں میں بھی پاکستان کا نام نہیں آتا‘ ہم ناقص جمہوریت میں بھی نہیں ہیں۔ اس کے بعد ایک تیسری قسم ہے اس کو کہتے ہیں Hibrite Rajeems اب یہ ناقص جمہوریت سے بھی نیچے کا درجہ ہے‘ ان کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں ایک سیاسی آمریت قائم ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل مخالف ہے فوجی آمریت کا‘ یہ دو Ends ہیں۔ ملڑی جنرل کُو کرتا ہے‘ مارشل لاء نافذ کرتا ہے اور آئین و جمہوریت کو معطل کر دیتا ہے۔ اس کو ہم فوجی آمریت کہتے ہیں‘ یہ ایک End ہے۔

اور خواہ اسی طرح جیسے آمریتیں ہیں شہنشاہیت کی صورت میں‘ جن ممالک میں بادشاہت ہے وغیرہ تو یہ آمریت ہے۔ Hibrite States یہ بالکل گرا ہوا آخری درجہ یہ ان ریاستوں کا ہے جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر الیکشن کے ذریعے جو سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں ان کا طرز عمل آمرانہ ہوتا ہے۔ یعنی جمہوریت جو کچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ عوام صرف پانچ سال کے بعد پرچی ڈالتے ہیں ووٹ کی اور Thats it۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی Participation‘ کوئی حق عوام کو نہیں پہنچتا جو جمہوریت انہیں دینا چاہتی ہے اس لیے اس Hibrite Rajeems کو انتخابی آمریت کہتے ہیں۔

اب اس انتخابی آمریت میں یہ بھی پورا ایک انڈیکس ہے اور اس میں بھی پاکستان آخر پر ہے یعنی بدترین انتخابی آمریت پر ہے پاکستان۔ 37 نمبر ہے Hibrite میں۔ اب ایک اور ریفرنس کوٹ کر رہا ہوں Johnse Hopthcin University کے ہیں آسڑیا کے اور یہ Political Scientist ہیں میکسیکو اور آسٹریا دونوں جگہ ان کے Base Centres ہیں تو Prof Endrio Shedler انہوں نے اس پر پڑی مدلل بات کی‘ یہ لوگ اتھارٹیز ہیں اور اس کو Johnse Hopthcin University کے پریس نے چھاپا ہے۔ پروجیکٹ ہے Mious انہوں نے اس کو Determin کیا ہے اور ایک نئی Term دی ہے کہ یہ جو Hibrite Rajeems ہیں‘ انتخابی آمریت اس کو Phobi Zone کہا جاتا ہے یہ ابر آلود علاقے ہیں‘ یہاں سورج نظر نہیں آتا جمہوریت کا‘ اندھیرا ہے۔

جو ہمارے ملک میں ہے وہ جمہوریت نہیں ہے۔ اس کو پوری دنیا واضح طور پر Reject کر چکی ہے ہمارے دعویٰ جمہوریت کو۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف انتخابی پراسس کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں اور پوری دنیا اس کو جھوٹ کہتی ہے‘ اس کو فراڈ کہتی ہے کہ محض Electroral Process پانچ‘ چار سال کے بعد الیکشن میں چلے جانا محض یہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت ایک پورا پورا نظام ہے۔ اب یہ جو میں بتا رہا ہوں Prof Endrio Shedler اس نے موازنہ کیا ہے یہ پوری ٹیم ہے Political Scientists کی‘ ان کا ایک بڑا اہم جملہ میں پڑھ رہا ہوں وہ کہہ رہے ہیں کہ بدقسمتی ہے کہ Idia of Democracy یہ بڑا Closely identify کر دیا گیا ہے With Elections کہ جس کے نتیجے میں خطرناک حد تک جمہوریت کے قیام کی تعریف کو بھول گئے ہیں‘ اس کو اتنا جوڑ کر۔ اب جو ملک اس Tools کو Use کرے گا الیکشن چار پانچ سال کے بعد ہوگا وہ دعویٰ کرے گا کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے‘ ہمارے پاس Elected Parliment ہے۔ وہ یہ لکھتے ہیں: Elections have been an instument of authoritarian controle الیکشن آمریت کے قیام کا ایک راستہ بنتا ہے aswel as a means of Democratic Govt جیسے الیکشن جمہوری حکومتوں کے قیام کا ذریعہ بنتا ہے‘ جس کے ذریعے جمہوری حکومتیں Full Democracies آتی ہیں‘ وہ کہتا ہے اسی طرح آمریتوں کے قیام کا بھی ذریعہ بنتا ہے الیکشن۔ اس وجہ سے ایسی Govts اور ایسی States جن میں انتخابات تو ہوتے ہیں مگر جمہوریت کے فوائد اور مقاصد و ثمرات سے عوام بہرہ یاب نہیں ہوتے اس کو ابرآلود علاقہ کہتے ہیں جمہوریت نہیں کہتے۔

Lery Dimand ایک اتھارٹی ہے Political Scientist ہے وہ پروفیسر ہے Stenford University ‘ امریکہ کا اس نے بھی اسی چیز کو واضح طور پر بیان کیا ہے اپنے پورے آرٹیکلز میں۔ وہ کہتا ہے: Elections without Democracy کہتا ہے ایسے ممالک دنیا میں ہیں کہ جہاں الیکشن ہوتے ہیں مگر عوام کو جمہوریت نہیں ملتی۔ اکا دکا چیزیں وہ کر دیتے ہیں مثلاً وہ کہتا ہے: پریس کو آزادی دے دیتے ہیں‘ میڈیا کو ایک آدھ چیز دے دیتے ہیں تا کہ پریس کو آزادی دے کر کریڈٹ لیتے رہیں۔ کہ ہم نے پریس کو آزادی دے رکھی ہے‘ مگر عوام کو اس جمہوریت سے کیا ملا ہے؟ ان کے بنیادی حقوق ملے ہیں‘ ان کو جان کا تحفظ ملا ہے؟ روزگار ملا ہے؟ ریاستی فیصلوں میں عوام کا دخل ہو گیا ہے؟ ان کو سوشل سکیورٹی ملی ہے؟ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو جمہوریتوں میں پائی جاتی ہیں۔ جمہوریت میں ایک غریب آدمی بھی عدالت میں چلا جائے مغربی دنیا میں جمہوریت میں اور مقابلے میں امیر شخص ہو تو وہاں امیر اور غریب عدالت پہ اثر انداز نہیں ہو سکتے۔

تو وہاں قانون کے بالادستی ہے‘ کوئین اور وزیراعظم اگر over speading کرتا جا رہا ہے تو عام کانسٹیبل اس کو روک کر فائن کر دے گا۔ جمہوریت یہ کلچر دیتی ہے‘ عوام کو یہ چیزیں ملتی ہیں‘ روزگار ملتا ہے‘ صحت‘ تعلیم کی سہولیات دیتے ہیں تو ان ساری چیزوں کو good governance and Development Libarties, equalities and Securities‘ ترقی‘ سکیورٹی‘ اچھی گورنمنٹ‘ فرق ختم ہو جائے امیر غریب کا۔ یہ نہ ہو کہ پانی‘ بجلی‘ گیس سے وہ محروم ہوں اس کو جمہوریت کوئی نہیں کہتا۔ یہ جو شور ہے کہ جمہوریت ہونی چاہئے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جمہوریت ہے کیا؟

Frences Methiue ہے اب‘ صرف اس کی headline دے رہا ہوں وہ کہتا ہے: Democracy is not just about Elections. جمہوریت صرف الیکشنز کا نام نہیں ہے‘ کہتا ہے: جمہوریت نام ہے ایک ایسے System of Govt کو establish کرنے کا جس میں ریاست اور ریاستی اداروں کے وسائل کو حکمران اپنی ذاتی جائیداد سمجھ کے استعمال نہ کر سکیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں مینڈیٹ مل گیا تو اب ہم مالک و مختار ہیں ملک کے‘ یہ نہیں بلکہ ان کی حیثیت یہ ہو کہ وہ Trusty ہیں‘ مالک لوگ (عوام) ہیں جیسے وہ Elect کرسکتے ہیں کسی وقت بھی وہ الیکشن کے ایک دو ماہ کے بعد اگر منتخب نمائندے سے وہ مطمئن نہیں تو ہٹا بھی سکیں۔ یہ نہیں کہ پانچ سال وہ آرام سے بیٹھے رہیں‘ اس کے بعد پھر ہنگامہ آرائی ہو اور دیکھا جائے کہ کون آتا ہے یہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پوری اتھارٹی ووٹر کے ہاتھ میں ہو۔ اور جمہوریت کی اس وقت جو تعریف ہے‘ پوری دنیا میں نئی وہ پرانی تعریف کا دور گیا‘ جب جمہوریت متعارف ہوئی تھی: Democracy, Govt of the People by the people for the people اب جمہوریت کی تعریف اور ہے دنیا میں اب جمہوریت کی تعریف ہے it is a system through which the Voters controle their representatives, The roled can cantrol the roler محکوم حکمرانوں کو کنٹرول کریں اور ووٹر اپنے نمائندے کو کنٹرول کرے۔ جیسے منتخب کیا ہے ویسے ہیں پانچ چھ ماہ دیکھے کہ جس منشور کے ساتھ وہ گیا تھا اس پر کام نہیں ہو رہا یا وہ ان کے مسائل پر اس کی توجہ نہیں ہے تو اتنا اثر ہوتا ہے ووٹرز کا چونکہ ورکرز ہوتے ہیں سیاسی پارٹی میں وہ پارٹی کی قیادت پر پریشر ڈالتے ہیں اور پارٹی اتنی پریشر میں آتی ہے کہ اس کو سیٹ سے اتارنا پڑتا ہے۔ الیکشن کے پانچ سال کا انتظار نہیں کرتے‘ ووٹر طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ووٹرز کو طاقتور کر دیں یہ جمہوریت ہے۔

یہی چیز برائن مارٹن ایک اور Political Scientist ہیں آسٹریلیا کے انہوں نے بھی اسی طرح ریسرچ دی اور کہا: Are Election the ultimate in Democracy? یہ ان کے آرٹیکل کی ہیڈنگ ہے۔ Answer is No وہ پھر کہتے ہیں: کہ عوام کو کیا مل رہا ہے بس دیکھنا یہ ہے۔ اگر آمریت کے دور میں عوام کی کفالت ہو رہی ہو تو عوام کو مل گیا‘ میڈیا آزاد نہیں ہے تو‘ ایک چیز انہوں نے صلب کر لی ایک چیز دے دی‘ ایک حصہ مل گیا عوام کو لیکن میڈیا کی آزادی صلب ہو گئی تو اس کو ہم جمہوریت نہیں کہتے۔ اسی طرح ہمارے ہاں جیسے الیکشن کے نتیجے میں آمریت آ گئی میڈیا یا ایک دو چیزیں دے دیں اور ساری چیزیں چھین لیں عوام سے وہ مرتے رہیں‘ جلتے رہیں۔ وہاں تو اگر کسی ایک حلقے میں کوئی خودکشی کر لے تو ممکن نہیں کہ MNA اپنی سیٹ پہ رہ سکے‘ پارٹی نکال دے گی اس کو۔ پارٹیاں الیکشن ہار جاتی ہیں۔

کینیڈا میں ایک شخص نے الیکٹ ہو کر پارٹی تبدیل کی‘ جس پارٹی کے ٹکٹ سے جیتا دوسری پارٹی پاور میں آئی وہ اس کے ساتھ مل گیا اور اچھی پوزیشن لے لی اس کے بعد پوری زندگی نہ اس کو پارٹی نے ٹکٹ دیا نہ وہ پاکستانیوں کے حلقے سے آج تک منتخب ہو سکا‘ اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ عوام میں اتنا شعور ہوتا ہے وہ اتنی بات بھی گوارا نہیں کرتے کہ فلاں نے ٹکٹ لے کے پارٹی تبدیل کی ہے یہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو دوبارہ منتخب کیا جائے‘ اس کے بعد اس کا تمام سیاسی کیرئیر ختم ہوگیا۔ عوام کے پاس اتنی طاقت‘ اتنا شعور ہوتا ہے۔

اب اوباما کا ایک کوٹیشن دیتا ہوں 19 جنوری 2009 کا اس کا بیان ہے وہ کہتا ہے: Elections are not Democracy یہ عنوان ہے آگے تفصیلات ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں Rulesvalid نے جو چار بنیادی آزادیوں پر جمہوریت کا فلسفہ قائم کیا تھا امریکن جمہوریت کا ہمیں ان آزادیوں کو دیکھنا ہے کہ عوام کو وہ ملی ہیں یا نہیں؟ اگر وہ نہیں ملیں تو بے شک لاکھ الیکشنز ہوں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے جو ہم برابر قرار دے رہے ہیں جمہوریت اور انتخابات کو۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ Freedom from want and freedom from fear یہ دو آزادیاں ملیں باقی چار اور بھی بیان کی ہیں انہوں نے۔ یعنی ان کو ہر ضرورت کی چیز مل رہی ہو وہ مطالبہ نہ کرے‘ احتجاج نہ کرے‘ سڑکوں پر نہ آئیں‘ روئیں نہیں دوسرا یہ کہ ان کو خوف نہ ہو اپنی زندگی کا‘ اپنی جان کا‘ اپنے مال کے لٹنے کا۔ اگر قوم ان کو محفوظ معاشرہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت مہیا کر دے تو کہتے ہیں یہ جمہوریت ہے۔ الیکشن نہیں ہے‘ اس کے برعکس وہ کہتے ہیں: صوابدیدی قانون ہیں یہ نظام چل رہا ہے‘ کرپشن چل رہی ہے‘ رشوت کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی وہ کہتے ہیں جمہوریت نہیں ہے۔ آپ گواہی دیں گے اس ملک میں بغیر رشوت کے اہل کو نوکری نہیں ملتی‘ سفارش اور رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ مغربی دنیا نے اس کے لیے دو سو سال تک جنگ لڑی ہے جمہوریت تک پہنچنے میں انہی آزادیوں کے لیے اگر وہ نہیں ہیں تو جمہوریت نہیں۔

اب ایک اور ٹیری کارل ہے Stern fourd University کے وہ بھی کہتے ہیں: Elections alone do not make a democracy محض الیکشنز کبھی جمہوریت نہیں بناتے۔ وہ کہتے ہیں بہت سے ممالک ہیں جو الیکشن کے ذریعے جمہوریت کو Trape کر لیتے ہیں اور ان کے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشنز یہ واحد راستہ ہے بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو اہل بنانے کا۔ لوگ کہتے ہیں ہم انتخاب کے ذریعے آئے ہیں‘ مینڈیٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ ایک فراڈ ہے‘ اس ذریعے سے جب الیکٹ ہو کر پارلیمنٹ میں آ جاتے ہیں تو پانچ سال ان کا طرز عمل بھی آمروں جیسا ہوتا ہے ‘بادشاہوں جیسا ہوتا ہے‘ عوام جائیں بھاڑ میں‘ کرپشن اور لوٹ مار اور اپنے لیے وسائل بناتے اور سارا لوٹتے ہیں۔ جتنے کوٹیشنز میں نے دئیے انہوں نے واضح طور پر جگہ جگہ یہ لکھا۔

اب میں United Nations کو کوٹ کرتا ہوں۔ کانگرس کے جو ریسرچرز ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ جمہوریت کی کوئی واضح تعریف کرنا تو مشکل ہے مگر اس سسٹم کی کم سے کم جو شرائط ہیں وہ پائی جائیں تو جمہوریت کہلائے گی اور وہ کہتے ہیں کہ Efective participation of the peoples اور Efective participation کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سیاسی مطابقت ہو قانون کے لیے دونوں اقلیتوں اور اکثریتوں کے لیے اور کسی کا اثر رسوخ نہ ہو اور جو گورنمنٹ بنے اس پر چیک اینڈ بیلنس ہو گورنمنٹ کے اندر اور باہر۔ سوسائٹی کا بھی کنٹرول ہو گورنمنٹ پر اور گورنمنٹ کے اندر بھی چیک اینڈ بیلنس ہو اور اصلاحات ہوں‘ ترقی ہو اور لوگوں کو طاقت ملے کہتے ہیں کہ یہ چیزیں اگر ہیں تو یہ جمہوریت ہے اگر نہیں تو اس کا نام جمہوریت نہیں۔

آخر پہ UNO کو لیتا ہوں اس کا Resolution ہے نمبر ہے 2047 پھر 2001اور Resolution no 36 پھر تیسرا Resolution no 2001 اور Resolution no 41 جنرل اسمبلی کا 1988 سے یہ Resolutions چل رہے ہیں ان تمام Eesolutions کو میں اکٹھا کر کے کل بتا رہا ہوں وہ کہتے ہیں کہ جو جمہوریت ہے اس کا نام ہے Promoting prolerism and protecting all human rights اور ہیومن رائٹس میں آپ کو معلوم ہے سب سے پہلا جان کا تحفظ ہے۔ جو گورنمنٹ اس کو تحفظ نہیں دے سکتی یہ جمہوری حکومت نہیں ہو سکتی۔ وہ جمہوری نہیں ہے‘ جو نام چاہیں اس کو د یتے پھریں۔

پھر نمبر دو Standing the rule of law ہر شخص قانون کے مطابق برابر ہو اور قانون کی مکمل بالادستی ہو ریاست میں‘ وہ نہیں ہے۔ جب فوجی آمریتیں آتی ہیں تو آئین معطل ہو جاتا ہے اور جب سیاسی آمریت آتی ہے تو آئینیت معطل ہو جاتی ہے‘ دستوریت معطل ہو جاتی ہے۔ آئین کا معطل ہونا ایک چیز ہے اور آئینیت کا معطل ہونا‘ دستوریت کا معطل ہونا‘ Constitutionality Suspend ہو جاتی ہے۔ Not a constitution as a book یہ پرابلم ہے۔ ہم فوجی آمریت میں شور مچاتے ہیں کہ آئین معطل ہو گیا بالکل درست بات ہے‘ نہیں ہونا چاہئے تو سیاسی آمریتیں آتی ہیں تو آئین کی کتاب موجود ہوتی ہے شور مچانے کے لیے مگر آئینیت معطل ہو جاتی ہے۔ اور Constitutionality کیا ہے؟ جو ریاست کے اعضاء ہیں یا وہ کام نہیں کرتے‘ اپنا فریضہ ادا نہیں کر رہے ہوتے یا کوئی کرتا ہے تو اس کے فیصلوں کو نافذ نہیں کیا جاتا۔ ادارے معطل ہو جاتے ہیں۔ یعنی انتطامیہ کا کام ہے دہشتگردی کو روکیں چار سے پانچ سال گزر گئے انسداد دہشتگردی کا قانون بھی پاس نہیں ہوا۔ سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کا جس میں گزشتہ دس سال سے پاکستان الجھا ہوا ہے دہشتگردی کی جنگ لڑ رہا ہے جائز یا نا جائز ۔ سب سے بڑا درد سر ہے‘ جس نے برباد کر دیا ملک کو اس دہشتگردی سے بڑھ کر پرابلم نہیں ہے ملک کا‘ مسئلہ کوئی نہیں اور اسی مسئلے کے لیے آج تک Anty Terorism Laws نہیں آسکے۔

جس آگ میں جل رہا ہے مل اس کے لیے گورنمنٹ پالیسی نہیں بنا سکی آج تک اور تین سال تک ٹیبل پر رہا ہے یہ قانون پاس نہیں ہوا۔ جس ملک میں دہشتگردی کا قانون نہ بن سکے اور عوام کا تحفظ نہ ہو اس کو حق ہے‘ اس ملک کو کہ وہ جمہوریت کا دعویدار ہو یا سیاستدان؟ پھر لا قانونیت وہ قوانین جو انگریزوں کے دور میں چلے آ رہے تھے بڑی سادہ تبدیلیوں کے ساتھ چلے آ رہے ہیں لاء اینڈ آرڈر کی کوئی نیشنل پالیسی ان لینڈ سکیورٹی کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ اب موبائل کی سروس بند کردی جاتی ہے‘ ڈبل سورای پہ پابندی لگا دی‘ یہ کتنا بڑا مزاق ہے دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟ اور پھر وہ کیا کریں؟ وزراء کیا کریں؟ وہ موبائل ہی بند کرائے گا کیونکہ ان لینڈ سکیورٹی کا قانون ہی نہین ہے ملک میں۔ جو آج کے مسائل کو ایڈریس کر سکے۔ قانون بنا ہوا ہے انگریزوں کے وقت کا جب یہ مسائل ہی نہیں تھے‘ چند تبدیلیوں کے ساتھ۔

جب پالیسی ہی نہیں ہے دہشتگردی کے خاتمے کی سرے سے ملک میں تو پھر صوابدیدی کام ہی کریں گے وزراء۔ آج کے دن تک ملک کی خارجہ پالیسی نہیں ہے ہماری۔ خارجہ پالیسی کوئی ایک کتاب نہیں ہوتی نہ کوئی writen document ہوتا ہے یہ Some totle of national intrusts ہوتا ہے ملک و قوم کے جو مفادات ہیں‘ قومی ترجیحات ان کو متعین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک سمت پر چلتے ہیں‘ حکومتیں بدلتی رہیں خارجہ پالیسی نہی بدلتی۔ آپ کے سامنے ہے امریکہ میں کتنی حکومتیں بدلیں‘ پارٹیاں بدلیں مگر ان کی خارجہ پالیسی‘ ان کی ترجیحات نہیں بدلیں۔

وہ دنیا کے ممالک سے رشتہ رکھتے ہیں امریکہ ہو یا کوئی ملک اپنے قومی مقادات کے پیش نظر۔ نہ وہ کسی کے مستقل دوست ہوتے ہیں نہ دشمن‘ مفادات کے حد تک ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ پیسہ بھی دیتے ہیں تو مفادات کے لیے دیتے ہیں واپس لے لیتے ہیں مفادات کے لیے۔ ہمارے ملک میں پانچ سال گزرے خارجہ پالیسی پر بات ہیں نہیں ہوئی‘ ہے ہی نہیں‘ سمت ہی نہیں ہے اور اسی طرح کہتے ہیں یہ جو میں یو۔این۔او کو کوٹ کر رہا ہوں کہ اس کے لیے ضروری ہے پارٹیز کے اندر اور باہر Necessry Mecnism ہو جس کے ذریعے ووٹر کنٹرول کر سکے اپنے ووٹ اور اپنے رائے کے ذریعے اپنے نمائندوں کو‘ اپنی پارٹی کو‘ پالیسیز کو‘ ملک کی پالیسیز کو ووٹر کنٹرول کر سکے۔ یہ میکنزم ہونا چاہئے پارٹیوں کے اندر بھی اور پارٹیوں کے باہر بھی۔ آپ اتفاق کریں گے اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ نہ پارٹیوں کے اندر ادارے ہیں نہ باہر بنا ئے گئے ہیں۔ کہتے ہیں Good governance ہو جمہوریت کے ذریعے اگر یہ نہیں ہے تو جمہوریت نہیں ہے۔

اب جس ملک میں توانائی کا بحران ہے اور وہ سب سے بڑھ کر جو گورنمنٹ آتی ہے وہ پانچ سال گزار کے بھی کہتی ہے کہ یہ سارا قصور پچھلی گورنمنٹ کا تھا۔ جب پچھلے آمر تھے ان کے ہاں سارا قصور پچھلی حکومت کا تھا اس طرح بیس سال پیچھے چلتے جائیں۔ جس کا بھی قصور تھا پانچ پانچ سال آپ سب نے گزارے ہیں کبھی تو اس قصور کا تسلسل ختم بھی ہو گا‘ کوئی تو ذمہ داری لے۔ آپ نے اپنے پیریڈ میں توانائی کے بحران کے لیے کیا کیا؟ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کیا دیا؟ ایجوکیشن کو کیا دیا؟ آپ بیس سال کے انڈیکس اٹھا کے دیکھیں جو GDP کا ہمارے نیشنل بجٹ کا جو لیول ایجوکیشن پہ persantage جاتی تھی آج پندرہ بیس سال میں اس میں تبدیلی نہیں آئی۔ صحت‘ تعلیم‘ میں بلکہ ہر کام میں تنزلی آئی ہے۔ اس میں فوجی اور سیاسی آمیریتیں دونوں شامل ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ہمارے ہاں آزادی نہیں ہے‘ جس کو آزادی رائے کہتے ہیں وہ لوگوں کو مہیا نہیں ہے۔ ان کو تو بھیڑ بکریوں اور برادریوں کا دباؤ‘ غنڈہ گردی‘ دہشتگردی‘ پولیس‘ مقدمات‘ کھمبے‘ کریشن ان سارے ذرائع کو بروئے کار لا کر پکڑ دھکڑ کے لے آتے ہیں پرچی ڈال کے جاتے ہیں۔ پرچی ڈالنے والوں میں 75 فیصد کو یہ پتہ نہیں ہوتا آپ سندھ اندرون میں چلے جائیں‘ پنجاب اندرون میں چلے جائیں‘ خیبرپختونخواہ‘ بلوچستان آپ ذرا تصور کریں۔ ان کو کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ میں جو ووٹ ڈال رہا ہوں میرے ووٹ سے کیا فرق پڑے گا ملک کو۔ اس سے خارجہ پالیسی کیا بنے گی؟ اس کو جمہوریت کہتے ہیں کہ ووٹر کو اپنے ووٹ کی اصل قیمت معلوم ہو کہ میرا ووٹ کیا تبدیلی لائے گا ملک میں۔ میرے ووٹ سے جو پارٹی آئے گی اس کو خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ یہ ہمیں شعور ہی نہیں ہے تو جمہوریت کیا ہے؟ ووٹر کو تو یہ شعور ہی نہیں دیا گیا انہیں بیس سال جہاں GDPکا 2.5 رکھا تھا وہی آج تک چل رہا ہے۔

مالدیپ‘ بھوٹان جیسے آخری ملکوں جیسے کے اخراجات ایجوکیشن پر چار پانچ گنا زیادہ ہے افریکن ممالک کے۔ اور سارک کے چھوٹے ممالک کے تو جب آپ خرچ ہی نہیں کریں گے ایجوکیشن پر تو شعور ہی نہیں آئے گا۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ جمہوریت کے فوائد کیا ہیں اور ہمارے ووٹ کی طاقت کیا ہے؟ محض الیکشن بغیر اصلاحات کے قوم کو بہت بڑی تباہی کی طرف لے جائے گا۔ اصلاحات وہ نہیں جو الیکشن کمیشن کرتا ہے ان کے پاس تو پاور ہی نہیں وہ تو معمولی سی اصلاحات ہوتی ہیں ان کی غیر جانبدار لوگ اصلاحات کریں بغیر کسی سیاسی مفاد کے۔ نہیں تو ملک کی بقا کو خطرہ ہے‘ مستقبل کا خطرہ ہے‘ ہمارے ایٹمی اثاثوں کا خطرہ ہے اور ریاست کے کولیپس کا خطرہ ہے۔

سسٹم کوئی نہیں ہے سپریم کورٹ کی بات کوئی نہیں مانتا جس کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ سپریم کورٹ کو جھڑ دیتا ہے پکڑ کے۔ اس کے حق میں آ جائے تو سپریم کورٹ کو واہ واہ کر دیتے ہیں مخالف آ جائے تو تقریریں شروع ہو جاتی ہیں عوامی جلسوں میں۔ وہ فیصلہ کرتی ہے تو انتظامیہ عمل درآمد ہی نہیں کرتی۔ پارلیمنٹ قرارداد منظور کرتی ہے عمل ہی کوئی نہیں کرتا۔ تو کوئی ریاستی ادارہ ہی کام نہیں کر رہا۔ ڈر ہے کہ اگر بڑی واضح اصلاحات نہ کی گئیں تو مجھے ریاست کی بقاء کا خطرہ ہے اللہ نہ کرے‘ اللہ نہ کرے۔ آپ تعاون کریں آپ بھی قوم کا اسی طرح فرد ہیں‘ ہم سب کا مشترکہ فرض ہے ہم سب کا پاکستان ہے‘ پاکستان کو بچانے کے لیے جمہوریت کو بچانے کے لیے‘ ملکی سالمیت کو بچانے کے لیے ہم اس ایجنڈے کو آگے بڑھائیں کہ اصلاحات ہوں اور پھر الیکشنز ہوں تا کہ حقیقی جمہوریت آ سکے۔

  • میں اس سسٹم کو بدلنے کی پر امن‘ جمہوری جدوجہد کے لیے آ رہا ہوں۔ پوری قوم کے احتجاج میں شامل ہو رہا ہوں۔ الیکشن میں شامل نہیں ہوں گا ان شاءاللہ۔

سوال: اصلاحات کون کرے گا؟

  •  میں ان شاءاللہ آئینی اور جمہوری راستہ دکھاؤں گا قوم کو۔

سوال: آپ مغربی جمہوریت سے متاثر لگتے ہیں‘ اسلامی جمہوریت کی بات آپ نے نہیں کی۔

  • اللہ کا فضل ہے کہ میں اس عمر میں اور اس سطح پہ نہیں ہوں کہ مغربی جمہوریتیں مجھے متاثر کر لیں۔ میں تو ان کی ٹاپ یونیورسٹیز کو لیکچرز دیتا ہوں یہ سامعین میں ہوتے ہیں‘ میں ان کی خرابیان اور اچھائیاں جانتا ہوں۔ نمبر دو میری فکر میں آپ کہیں بھی اختلاف نہیں دیکھیں گے۔ میں نے انہیں ان کی زبان میں بات سمجھائی ہے کیونکہ وہ بڑے دعویدار ہیں اس کے۔ میں نے لفظ اسلامی جمہوریت استعمال نہیں کیا لیکن مراد اسلامی جمہوریت ہی ہے۔ قانون کی بالادستی پر عمر فاروق کی مثال کہ کیسے ووٹر نمائندے کو پوچھ سکتا ہے‘ حضرت علی خود امیر المومنین ہونے کے باوجود ذرہ کے چوری ہونے پر عدالت گئے۔ مگر ہمارے پارلیمنٹ کے لوگ اسلامی جمہوریت کے واقف ہی نہیں۔

سوال: ناقد کہتے ہیں آپ مختلف پلان دیتے رہتے ہیں۔ آپ کا فہم انقلاب کیا ہے؟

  • میری ہر چیز ریکارڈ اور پرنٹڈ ہے۔ میں نے پلان کبھی تبدیل نہیں کئے‘ 1989ء کو عوامی تحریک بناتے ہوئے کہا تھا صرف دو الیکشن میں حصہ لیں گے‘ اندازہ ہو جائے گا سو 1990ء کے لڑے پھر (میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جمہوری نظام درست نہیں‘ میں نے انتخابی نظام کو مسترد کیا تھا) 2002ء میں دوسرا الیکشن لڑا جب منزل نہیں ملی تو سیٹ چھوڑ دی۔ تعلیمی کام تحریک منہاج القرآن کا حصہ تھا۔ انتخابات سے نکل گئے مگر تعلیم پہ کام جاری ہے۔ میرا انقلاب یہ ہے کہ مساوات ہو‘ قانون کا نفاذ ہو‘ عوام آزاد ہو‘ اخلاقی اقدار کا فروغ ہو‘ میرے تصور میں انتہاء پسندی نہیں‘ لوٹ مار نہیں‘ میں برداشت‘ اقدار‘ آزادیوں پہ استوار کرنا چاہتا ہوں قوم کو۔

سوال: عوام کیسے نمائندے کو ہٹائے؟ سیاست کو آپ نے گند کہا‘ جس نے کل اعتماد کیا آج وہ کیسے یقین کرے؟

  • 6 ماہ سے مراد یہ کہ جب کوئی سکینڈل سامنے آئے تو ووٹر برطرف کر سکے۔ پاکستان کے موجودہ نظام میں یہ ممکمن نہیں کیونکہ ووٹر کے پاس اختیارات نہیں۔ اسی نظام کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ میں جو نظام دے رہا ہوں اس میں ووٹر کو طاقت ملے گی۔ باہر کی دنیا میں نمائندگان کی تمام تفصیلات سائٹ پر لگی ہوتی ہیں اس کی خرید فروخت‘ اخراجات‘ بزنس سب پر عوام کی نظر ہوتی ہے۔ جب کرپشن سامنے آتی ہے ووٹر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ پارٹی ایکشن لیتی ہے۔26 نومبر کینڈا میں روب فورڈ نے صرف لیٹر پیڈ کو استعمال کیا ووٹر نے عدالت کے ذریعے اسے برطرف کروا دیا۔ ممکنہ حد تک پارٹیز کو پابند کیا جائے‘ ایک دور تھا ایک کالم پر حکومت ایکشن لیتی تھی آج نقشہ اور ہے۔

سوال: آپ مغربی نظام کی وکالت کر رہے ہیں۔

  • میں نے تو صرف سیاسی ماہرین کے کوٹیشنز دی ہیں۔ کون ان کے نظام کو اچھا کہتا ہے‘ انہوں نے تو پوری دنیا میں بدمعاشی کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ میں ان کے اقدامات کو عادلانہ کب کہہ رہا ہوں‘ علم کی دنیا میں خود کش حملے پر کوئی دو آرا نہیں ہے ایک ہی رائے ہے سیاسی آراء مختلف ہیں۔ کسی صورت میں آپ کو بلاسٹ کی اجازت نہیں غیر محارب اور غیر متحارب کو نہیں مار سکتے۔ فلسطین میں اپنے دفاع میں ان کا مقابلہ کرنا یہ جائز ہے۔

سوال: آپ نے دو بار الیکشن میں آنے کا کہا تھا لیکن یہ آپ کی تیسری کوشش ہو گی مصطفوی انقلاب کے لیے۔

  • اگر اصلاحات آ جائیں اور بعد میں الیکشن ہو جائیں یہی میرا مصطفوی انقلاب ہے۔ کہ عوام کو اس کو حق ملے‘ اچھی اقدار پر آ جائے‘ معاشرے میں امن‘ عدل و انصاف ہو یہی میرا انقلاب ہے۔

سوال: کیا ووٹ کے ذریعے انقلاب آسکتا ہے؟ توہین رسالت کیس‘ دہشتگردی فلسطین میں نظر نہیں آتی

  • دہشتگردی فلسطین میں نظر آتی ہے‘ میں ان پر حملہ آور ہونے والوں کو دشتگرد سمجھتا ہوں۔ کسی بھی غیر متحارب پر حملہ آور ہو خواہ ریاست‘ گروہ‘ فرد ہر صورت میں غلط ہے۔ توہین رسالت والے واقعے پر میں کہوں گا کہ ڈنمارک میں دو انٹرویوز ہیں ایک کانفرنس کی تقریر ہے سوالات کا سیشن ہوا ان کو سن کر فیصلہ کر لیں۔ گولی انسانی عمل نہیں ہم سبز انقلاب پر یقین رکھتے ہیں مگر موجودہ انتخابی نظام یہ سیاسی گولی ہے جس سے عوام کو مارا جاتا ہے۔ میں جمہوریت کے ذریعے ہی تبدیلی کا قائل ہوں۔

سوال: قانون پر عمل نہ ہو رہا ہو تو ممتاز قادری جیسا شخص کام کرے تو آپ حمایت کریں گے؟

  • میں پھر بھی نہیں کروں گا۔ ہم نے مرضی سے فیصلہ کرنا ہے یا قرآن و سنت کی روشنی میں؟ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اگر حکمران شریعت کے احکام کو نافذ نہ کر رہے ہوں تو کیا تلوار اٹھا لیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں جب تک کہ ارتداد کے مرتکب نہ ہوں۔ ایسا ہو جائے تو ہر کوئی انصاف نہ ملنے پر قاتل کو مارنے نکل پڑے۔ اس طرح معاشرہ امن سے نہیں رہ سکتا۔

سوال: 27 جمہوریتوں کی آپ بات کر رہے ہیں انہوں نے پاکستان کی آمریتوں کو سپورٹ بھی کیا۔ آپ نے جو ٹائم منتخب کیا الیکشن قریب ہیں‘ اصلاحات کا مطالبہ کس سے کر رہے ہیں؟

  • کسی کے اشارے پر آنے والی بات کو میں ایمان کے ختم ہونے کے برابر سمجھتا ہوں۔ بدقسمتی کہ ہم تلخ بات سنتے نہیں۔ میں نے کسی ملک کی وکالت نہیں کی‘ میں نے جمہوریت کے سسٹم ہونے اور اس کا تعلق ووٹر کے ساتھ کی بات کی۔ ہمارے ملکوں کو کیسے سپورٹ کیا میں یہی کہتا ہوں کہ وہ مفاد کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے تحفظ دیا ہمارے ملک کی آمریت کو‘ خود اپنی سوسائٹی میں کرپشن کو ختم کرتے ہیں ہمارے ہاں اس کو رواج دیتے ہیں۔ میرا مطالبہ عوام سے ہے

سوال: ہمارے حالات ایران کے حالات کے ساتھ ملتے جلتے ہیں‘ انقلاب سے پہلے‘ کیا پاکستان میں ممکن نہیں کہ پہلے اسلامی انقلاب ہو۔

  • پاکستان کی موجودہ صورتحال اور ایران کی اس وقت کی حالت میں ایک بہت بڑا فرق ہے وہاں شہنشاہیت تھی طویل زمانے سے‘ لنگڑی لولی جمہوریت کا جملہ آجکل بولا جاتا ہے یہ غلط ہے۔ وہاں آمریت تھی ایک آمر تھا مگر پاکستان میں ایک آمر نہیں‘ سیاسی پارٹی‘ ایم۔این۔اے آمر ہے‘ بندوق کی زبان‘ مذہبی‘ زبانی‘ سیاسی‘ وفاداری‘ برادری یہ سب آمر ہیں۔ وحدت نہیں ہے یہاں قوم تقسیم ہے وفاداریوں میں۔ قومی وحدت پیدا کرنا قیادت کا کام ہے۔ ہم آمریت کو دعوت نہیں دیتے صرف الیکشن میں اصلاحات چاہتا ہوں۔ یہاں تو لنگڑی لولی بھی جمہوریت نہیں۔ یہ تو انتخابی آمریت ہے۔ ایک ہی راستہ ہے یہاں پہلے اصلاحات پھر انتخاب۔

سوال: کیا آپ بغیر الیکشن کے تبدیلی لا سکتے ہیں؟ بائیکاٹ کرنے سے تبدیلی تو نہیں آ سکتی۔

  • اگر سسٹم یہی رہے تو قیامت تک اصلاحات نہیں آئیں گی کیونکہ یہ انتخابی نظام پلٹ کر انہی کو لائے گا۔ میں اصلاحات چاہتا ہوں انتخابی نظام کو جمہوری بنانے کی بات کرتا ہوں۔ یہاں دس بیس کروڑ سے الیکشن لڑا جاتا ہے میں قابلیت کا انتخاب چاہتا ہوں۔ وہ بائکاٹ ایک ایک جماعت کا تھا جب تک پوری قوم وحدت کے ساتھ اس کو چیلنج نہیں کرے گی اس وقت تک اصلاحات نہیں آسکتی۔

تبصرہ

Top