منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی سالانہ اسمبلی 2016ء

منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام طلباء کو سکالرشپ اور ایوارڈ دینے کی تقریب ’’سالانہ اسمبلی 2016‘‘ 15 نومبر 2016ء کو الحمراء لاہور میں منعقد ہوئی، جس کی صدارت تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین نے کی۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیرانتظام چلنے والے پنجاب بھر کے سکولز سے سینکڑوں طلباء وطالبات، ان کے والدین اور اساتذہ نے تقریب میں شرکت کی۔

ایم ای ایس کے ایم ڈی راشد حمید کلیامی، وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر اسلم غوری، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد اقبال، سینئر صحافی و اینکر حبیب اکرم، ضمیر آفاقی، ڈاکٹر نعیم مشتاق، کاشف مرزا، دیوان محی الدین، انیس الرحمن، سہیل رضا، پروفیسر وکٹرعزرایا، عمر شریف بخاری، طاہر نوید چوہدری اور جواد حامد نے پروگرام میں مہمان خصوصی تھے۔

تقریب میں منہاج سکولز کے پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات کو 10 لاکھ روپے کے نقد اسکالر شپ دئیے گئے اور اسٹوڈنٹس میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اس موقع پر مختلف سکولوں سے آئے ہوئے بچوں نے تقاریر، ملی نغمے، ٹیبلوز، خاکے اور روایتی ثقافتی شوز نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیے۔

تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں 56فیصد لڑکیاں ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ فاٹا میں ایک ہزار سکول بند پڑے ہیں۔ شرح خواندگی 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہو گئی۔ پنجاب میں 22 فیصد، بلوچستان میں 50 فیصد، فاٹا میں 74 فیصد، سندھ میں 55 فیصد، خیبرپختونخوا میں 35 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی نہیں۔ یہی صورت حال واش روم، چاردیواری، بجلی اور اساتذہ کی ہے کیا اسے تعلیمی ترجیحات کہتے ہیں؟

ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے تعلیم برائے امن ویژن کے تحت غریب اور پسماندہ طبقات کے بچوں اور بچیوں کو معیاری تعلیم مہیا کرنے کیلئے ایم ای ایس منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے تحت اس وقت ملک بھر میں ساڑھے 6 سو سکول قائم کیے گئے ہیں۔ جن میں ڈیڑھ لاکھ بچے زیر تعلیم اور 12 ہزار اساتذہ تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ 2009 ء میں قومی پالیسی برائے تعلیم کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ تعلیمی شعبہ کیلئے ہر سال ترقیاتی بجٹ میں زمینی ضروریات کے مطابق اضافہ ہو گا مگر 2016 ء میں 1350 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ حکمرانوں کے پاس موٹرویز، میٹروبسوں، اورنج ٹرینوں، نجی رہائش گاہوں کی چار دیواری کیلئے اربوں، کروڑوں روپے ہیں تو تعلیم کو عام کرنے کیلئے کیوں نہیں؟

انہوں نے کہا کہ جو اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان میں 25 فیصد سندھ، 10 فیصد خیبرپختونخوا، 7 فیصد بلوچستان، 3 فیصد فاٹا جبکہ 52 فیصد بچوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 100 فیصد شرح خواندگی اور انرولمنٹ کا میلینم ہدف جو 2015 ء میں حاصل ہونا چاہیے تھا ابھی تک اسے حاصل نہیں کیا جا سکا۔ سکول جانے کی عمر کے 44 فیصد بچے سکول نہیں جا پاتے۔ حکمران انرولمنٹ کے اعداد و شمار تو جاری کرتے ہیں مگر ڈراپ آؤٹ کی شرح نہیں بتاتے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اعتبار سے پاکستان کا شمار افریقی پسماندہ ممالک میں ہو رہا ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بھوٹان، مالدیپ اور یوگنڈا سے بھی گیا گزراہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی 98 فیصد جبکہ سری لنکا میں 95، ایران میں 85 اور بھارت میں 74 فیصد سے زائد ہے۔ سیاسی جماعتیں، سماجی تحریکیں اور والدین تعلیم کے شعبے پر زیادہ سے زیادہ رقوم مختص کیے جانے کے حوالے سے حکمرانوں کو مجبور کریں۔

تقریب کا باقاعدہ اختتام دعائے خیر سے ہوا، اس موقع پر منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے پوزیشن اور اسکالرشپ ہولڈر طلباء طالبات کو خصوصی مبارکباد بھی پیش کی گئی۔

تبصرہ

Top