حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کا ختمِ صحیح البخاری کے ملک گیر اِجتماع سے خطاب
حجۃ المحدثین شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کا تحریک منہاج القرآن اور نظام المدارس پاکستان کے زیر اہتمام ختمِ صحیح البخاری کے ملک گیر اِجتماع سے خطاب
اجتماع میں ملک بھر سے 20 ہزار سے زائد علما کرام و مشائخ عظام، دینی بورڈز کے قائدین، ناظمین مدارس، شیوخ الحدیث، مدرسین، مدرسات، طلبہ و طالبات شریک تھے
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے مورخہ 15 دسمبر 2024ء کو تحریک منہاج القرآن اور نظام المدارس پاکستان کے زیرِ انتظام منعقدہ ختمِ صحیح البخاری کے عظیم الشان علمی و فکری اجتماع کو صحیح البخاری سے درس دیا۔
اپنے درس کے آغاز میں اُنہوں نے اِس فقید المثال اجتماع کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دی اور تمام مکاتب فکر کے ہزارہا کی تعداد میں شریک علماء کرام و شیوخ الحدیث، محققین، مبلغین، معلمین و معلمات، مدرسین و مدرسات اور طلبہ و طالبات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اپنی دعاؤں سے نوازا۔
اُنہوں نے فرمایا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحاد اُمت کے کلچر کو زندہ کیا جائے تاکہ فروعی مسائل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلافات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اختلافات کی بجائے مشترکات پر توجہ دیں۔ اُمت کے مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر میں اختلافات کم جب کہ مشترکات زیادہ ہیں۔ آج کے اس درسِ ختمِ صحیح البخاری میں حدیث و سُنت نبوی ﷺ کی نسبت سے ہزار ہا علماء و شیوخ کا جمع ہونا فتنۂ اِنکار حدیث پر بڑی کاری ضرب ہے۔ حدیث و سُنتِ نبوی ﷺ سے اَفرادِ اُمت کا تعلق مضبوط و مستحکم کرنا دراصل فتنۂ الحاد کے خاتمہ کا سبب بنے گا۔ دین کی حفاظت حدیث و سُنت کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ملتِ بیضا کے تمام مکاتب کو متحد ہو کر علمِ حدیث و سُنت کے کلچر کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا تاکہ موجودہ اور اگلی نسلوں کو اس فتنۂ انکار حدیث سے پچایا جا سکے۔
اُمت میں اعتدال اور وسطیت پیدا کرنے اور ہر طرح کی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اُمت کے جتنے بھی مکاتبِ فکر ہیں وہ سب حق پر ہیں، سب میں حق گردش کرتا ہے اور ہر ایک میں حق کے کچھ نہ کچھ اجزاء موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک تو حق پر ہے اور دوسرا کلیتاً حق سے خالی ہے۔ لہذا تمام مکاتبِ فکر ایک دوسرے کے لیے برداشت اور رواداری پیدا کریں۔
اختلاف کو رحمت بنائیں، زحمت نہ بنائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ احیاے دین اور اگلی نسلوں تک روحِ دین کی منتقلی کے لیے ہم فروعی اختلافات کی بنا پر دوسرے مکاتب فکر کی تفسیق، تضلیل اور تکفیر کے عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔
مجھے خوشی ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن اور نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام منہاج یونیورسٹی لاہور کے پنڈال میں کراچی سے خیبر اور کشمیر تک، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے جامعۃ الرشید کراچی تک پاکستان کے دونوں کناروں سے علماء و مشائخ اس درس میں جمع ہیں۔ یہ اِتحادِ اُمت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔
اگر ہم حدیث و سنت کی بنیاد پر جمع ہو گئے ہیں تو گویا ہم عشقِ رسول ﷺ پر جمع ہوگئے ہیں۔ ہمیں باہم تفریق اور تنگ نظری کو چھوڑ کر اتحاد اور وسعتِ نظری کو اپنانا ہوگا۔ ہمارے اسلاف محنت کر کے غیر مسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرتے تھے، جب کہ ہم فروعی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کو دائرہِ اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔
وقت آگیا ہے اُمت کے اتحاد، علم دین و سنت کے احیاء، دین کی قدروں کو زندہ کرنے اور اگلی نسلوں تک دین منتقل کرنے کے لیے ہم تکفیریت کی دیواروں کو گرا دیں۔ آج اُمت میں وحدت، یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے کا وقت ہے۔
شیخ الاسلام نے اپنے درس میں صحیح البخاری کی فضیلت و اہمیت اور امام بخاری کے حالاتِ زندگی بھی تفصیل سے بیان کیے اور ختم صحیح البخاری کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی۔
اُنہوں نے شرکاے درس کو صحیح البخاری سے احاديث پڑھائیں اور اُن کی شرح کرتے ہوئے بتایا کہ امام بخاری بہت بڑے عاشقِ رسولﷺ تھے اور اُنہوں نے صحیح البخاری میں احادیث کا انتخاب کرتے ہوئے ذاتِ نبوی ﷺ کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اِظہار کیا ہے۔
شیخ الاسلام نے فرمایا کہ امام بخاری نے صحیح البخاری کا اختتام خوارج کی مذمت میں احادیث سے کیا ہے، جس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ اپنا عقیدہ ہمیشہ علماے ربانیین سے لیں، کبھی خوارج سے نہ لیں۔
اُنہوں نے علماء کرام، شیوخ الحدیث، طلبہ و طالبات اور شرکاے درس کو نصحیت کی کہ یہ فتنوں کا دور ہے۔ یہ زمانۂ جبر، قَسط اور ظلم ہے، آپ اصحابِ قِسط (صاحبانِ عدل) بنیں؛ انصاف اور اعتدال پسندی پر کاربند رہیں۔ ظلم و جبر کے آگے اپنا سر نہ جھکائیں، اپنا ضمیر نہ بیچیں، ہمیشہ اعلائے کلمۃ اللہ پر کاربند رہیں، علمائے حق بنیں، علمائے سُو کی روش اختیار نہ کریں، دین نہ بیچیں، اسلاف کے طریق پر چلیں، اپنی طبیعتوں کو آقا ﷺ کی سیرت اور متابعت میں ڈھالیں۔
درسِ ختمِ صحیح البخاری کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ اجتماع میں شریک 20 ہزار سے زائد علماے کرام نے محدثین کی علمی اجازات کے طریق پر شیخ الاسلام سے عالی اور اقرب اسانیدِ حدیث کی اِجازات حاصل کیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
٭ شیخ الاسلام کی سند محدِّثُ الھند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی تک صرف چار واسطوں سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام یوسف بن اسماعیل النبہانی تک صرف ایک واسطے سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند اَعلیٰ حضرت شاہ اَحمد رِضا خان بریلوی تک صرف ایک واسطے سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت شاہ امداد اللہ مہاجر مکی تک صرف ایک واسطے سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری تک صرف ایک واسطے سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام آلوسی البغدادی تک صرف چار واسطوں سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام جلال الدین سیوطی تک صرف چھ واسطوں سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام ابن حجر عسقلانی تک صرف چھ واسطوں سے۔
٭ شیخ الاسلام کی سند امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری تک صرف گیارہ (11) واسطوں سے۔
٭ اور بفضلہٖ تعالیٰ شیخ الاسلام کی سندِ حدیث تاجدارِ اَنبیاء حضور نبی اکرم ﷺ تک صرف پندرہ (15) واسطوں سے متصل ہے۔
خواتین سکالرز کی ایک بہت بڑی تعداد اس تدریسی اجتماع کا حصہ تھی۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے علمائے کرام و مذہبی سکالرز کو ختم بخاری شریف کے اجتماع میں خوش آمدید کہا، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔
نقابت کے فرائض علامہ عین الحق بغدادی، علامہ اشفاق علی چشتی، ڈاکٹر محمد فاروق رانا نے انجام دیے۔ تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت قاری خالد حمید کاظمی الازہری اور نعت سرور کونین ﷺ کی سعادت حسانِ منہاج الحاج محمد افضل نوشاہی نے حاصل کی۔
ختمِ صحیح البخاری کے ملک گیر اِجتماع سے اظہار خیال کرنے والوں میں جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے مولانا سید محمد یوسف شاہ، آستانہ عالیہ چشتیہ کریمیہ ڈاگ اسماعیل خیل نوشہرہ سے علامہ پیر محمد سعید حسین القادری، اتحاد المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی محمد زبیر فہیم، ناظم اعلیٰ نظام المدارس پاکستان ڈاکٹر میر آصف اکبر قادری، مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا شیخ الحدیث مفتی محمد صاحب، رابطۃ المدارس پاکستان کے ناظم اعلیٰ و نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر علامہ عطاء الرحمان، وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ کے چیئرمین ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ سے علامہ ڈاکٹر نعیم الدین الازہری، جامعہ محمدیہ سیفیہ کے شیخ الحدیث مفتی پیر حمید جان سیفی، امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ ڈاکٹر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، امیر جماعت اہلسنت کشمیر علامہ سید محمد اسحاق نقوی، سربراہ دار الاخلاص علامہ ڈاکٹر شہزاد مجددی، صدر نظام المدارس پاکستان و پرنسپل جامعہ ہجویریہ لاہور علامہ مفتی امداد اللہ خان قادری، پرنسپل جامعہ ہجویری لاہور مفتی عرفان اللہ اشرفی، مہتمم جامعہ محمدیہ لاہور مفتی حنیف چشتی، زیب سجادہ آستانہ عالیہ بابا فرید الدین گنج شکر صاحبزادہ دیوان عثمان فرید، سجادہ نشین حضرت میاں میر صاحبزادہ سید علی چن رضا قادری، صاحبزادہ پیر نصیر الدین چراغ فریدی زیب سجادہ گڑھی اختیار شریف، خطیب بابا فرید الدین گنج شکر پاکپتن ڈاکٹر مفتی محمد عمران انور نظامی، خطیب داتا گنج بخش علی ہجویری لاہور علامہ مفتی محمد رمضان سیالوی، پرنسپل جامعہ رضویہ ماڈل ٹاؤن لاہور علامہ ڈاکٹر مفتی محمد وحید قادری، مہتمم جامعہ غوث العلوم علامہ صاحبزادہ بدر الزمان قادری، صدر جمعیت علمائے لاہور پنجاب مفتی نعیم جاوید نوری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ نقشبندیہ ماتلی شریف بدین پیر کرم اللہ الہیٰ المعروف دلبر سائیں، شیخ الحدیث جامعہ غوثیہ رضویہ گلبرگ لاہور علامہ اسد اللہ نوری، مہتمم جامعہ محمدیہ قادریہ چکدرہ مالاکنڈ حضرت علامہ صاحبزادہ ڈاکٹر انوار محمد، صدر منہاج القرآن علماء کونسل مفتی غلام اصغر صدیقی، شیخ الحدیث جامعہ فریدیہ ساہیوال مفتی ندیم قادری، مفتی نعمان جالندھری، اور دیگر شامل تھے۔
اُنہوں نے ظہارِ خیال کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام کی تجدیدی و اِحیائی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے علوم الحدیث کے احیاء کے لیے کی جانے والی آپ کی تجدیدی مساعی کا ذکر کیا اور انہیں رواں صدی میں امت کے لیے ایک عظیم خزانہ قرار دیا۔ مقررین نے ختم صحیح البخاری کی روایت کو زندہ کرنے کو بھی خوب سراہا اور اسے جاری رکھنے پر زور دیا۔
تبصرہ