جب انسان اپنی سوچ، ترجیحات اور فیصلوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو اُس کا وجود خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے جامع شیخ الاسلام، ماڈل ٹاؤن لاہور میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں "ہمارے معاشرتی مسائل، اُن کا عملی حل اور شعور و آگہی (Mindfulness)" کے موضوع پر فکر انگیز خطاب کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے جدید اور مادی طور پر ترقی یافتہ دور میں ہمارا معاشرہ بے شمار پیچیدہ سماجی، فکری اور روحانی مسائل سے دوچار ہے۔ معاشی عدم استحکام، سیاسی بے یقینی اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار تبدیلیوں نے نہ صرف ہماری معاشرتی اقدار کو متاثر کیا ہے، بلکہ ہمارے رویّوں، سوچ اور روحانی نظامِ زندگی کو بھی یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے بڑا اور خطرناک اثر یہ ہوا ہے کہ ہم تناؤ، بے اطمینانی، مقابلہ بازی اور بے مقصدیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے عامۃ الناس خصوصاً نوجوان نسل میں ڈپریشن، اضطراب اور بے سکونی کے امراض عام ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے معلومات کے دروازے تو کھول دیے ہیں مگر اس نے انسان سے تفکر، تدبر اور روحانی ترقی چھین لی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، جبکہ شعوری طور پر نہ خود کو سمجھتے ہیں، نہ اپنی ذمہ داریوں کو ہمارے معاشرتی بحران کی وجہ صرف حالات نہیں بلکہ ہماری ترجیحات، فکر اور اقدار کا بدل جانا ہے۔ زندگی کا مقصد صرف معاشی دوڑ رہ گیا ہے، جبکہ کردار سازی، اخلاقی تربیت اور روحانی توازن ہماری اجتماعی ترجیحات سے غائب ہو چکے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی میں سے 32.8 فیصد افراد کسی نہ کسی درجے کی ذہنی اور اعصابی دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض ایک تحقیقی جائزہ نہیں بلکہ ثبوت ہیں کہ ہمارے معاشرے کی سمت بدل چکی ہے۔ انسان تنہا نہیں چل سکتا، اُسے وحی، اخلاق اور روحانی نسبت کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کو صرف عقل کافی نہیں ہوتی، کیونکہ عقل ادراک دیتی ہے مگر اطمینان، حوصلہ اور تسلیم و رضا دل اور روح سے آتا ہے۔ علامہ اقبال فرما گئے:
اچھّا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اُنہوں نے کہا کہ یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کا دماغ ہی نہیں دل بھی سوچتا اور سمجھتا ہے۔ دماغ مادی وسائل اور حالات سے متاثر ہوتا ہے، جب کہ دل انسان کی روح اور روحانیت کا مرکز ہے۔
اُنہوں نے مشہور حدیثِ جبریل علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ کا یہ فرمان: "تم اللہ کی عبادت اِس خیال کے ساتھ کرو کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہیں کر سکتے تو یہ خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ تصوف و روحانیت کی اصل ہے۔ تصوف کا بڑا درجہ یہ ہے کہ تو کسی کے دھیان میں رہے، اور چھوٹا درجہ یہ ہے کہ تو کسی کے دھیان میں ہے۔ تصوف میں اصطلاح میں اِسی کو حضورِ قلب کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب انسان اس حقیقت کو مان لیتا ہے کہ "وہ کسی کے دھیان میں ہے" تو اس کا دل بدل جاتا ہے، اور اسی اعتقاد سے ایمان محض نظریہ نہیں رہتا بلکہ نور، تجربہ اور حال بن جاتا ہے۔ حقائق کی پہچان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر یقینِ کامل پیدا ہو جاتا ہے۔ جب یقین دل میں جگہ بنا لیتا ہے تو بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے، اُس پر غور و فکر کرتا ہے، جس اُس کے فیضان سے دل میں نور اترتا ہے۔ جب دل نور سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے اعمال، ارادوں اور فیصلوں میں خیر، برکت اور درستگی عطا فرما دیتا ہے۔ اِسی سے ڈپریشن بھی ختم ہو جاتا ہے اور انسان جسمانی اور روحانی بیماریوں سے نجات پا لیتا ہے۔ جب اُس کا دل مخلوق سے ہٹ کر خالق کی طرف ہو جاتا ہے پھر ڈپریشن کہاں باقی رہتا ہے۔ یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو ایک عام عبادت گزار کو عارفِ حق بنا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روحانی بیداری کا اثر انسان کے کردار میں جھلکتا ہے۔ پھر دل میں حسد، بغض، کینہ اور منفی سوچ باقی نہیں رہتی بلکہ دل شفقت، بردباری اور وسعتِ نظر کا آئینہ بن جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ قرآن حکیم کا مقصد یہی ہے کہ انسان کے اندر ایسا نورانی شعور پیدا ہو جس سے نہ صرف اُس کی ذات سنورتی ہے بلکہ اُس کا معاشرہ بھی امن، عدل اور رحمت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ اگر بندہ اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تو کم از کم اسے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے، یہی مقامِ احسان ہے۔
اُنہوں نے انسان کی ذہن سازی (mindfulness) اور روحانی ترقی کی اصلاح کے لیے چار بنیادی علمی و روحانی سطحیں بیان کیں، اس کا راستہ چار ’خ‘ سے گزرتا ہے:
1۔ خِرَد آگہی: انسان پر ہر لمحہ کچھ نہ کچھ عمل واجب ہے، یا حقوق اللہ میں سے کچھ، یا حقوق العباد میں سے کچھ۔ جس لمحہ اُس پر جو واجب ہے اُسے کامل طور پر انجام دے۔
2 ۔ خدا آگہی: یہ شعور کہ جو عمل مجھ پر واجب ہے، اللہ مجھ سے اُسے کس طرح سر انجام دینے کی خواہش رکھتا ہے۔
3 ۔ خیال آگہی: انسان اُس عمل کی انجام دہی کے لیے ہر نیت کو اخلاص کی کسوٹی پر پرکھے اور اُسے خالصتاً لوجہ اللہ انجام دے۔
4۔ خود آگہی: جو افعال انجام دیے اُن کا احتساب کرے کہ کس قدر بہتر انداز میں اُس نے وہ سر انجام دے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ جب انسان اپنی سوچ، ترجیحات اور فیصلوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو اُس کی زندگی بدل جاتی ہے، اُس کی شخصیت نورانی بن جاتی ہے اور اُس کا وجود خیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہی اسلامی تہذیب، روحانی خودی اور باطنی طہارت کا راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے باطنی حقیقت تک پہنچاتا ہے۔
آخر میں چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ملکی سلامتی و خوشحالی، امن و استحکام اور خیر و برکت کی دعا کی۔ نمازِ جمعہ کے بعد پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ملک و بیرون ملک سے تشریف لائے کارکنان و ذمہ داران اور گوشہ نشینان سے ملاقات بھی کی۔

























تبصرہ