کرامت نہیں بلکہ استقامت ہی ولایت کا اصل پیمانہ ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور، نے شیخ الاسلام انسٹی ٹیوٹ آف اسپریچوئل اسٹڈیز کی تقریبِ تقسیمِ اسناد سے خطاب کرتے ہوئے “تذکرۂ صالحین اور تعمیرِ شخصیت” کے موضوع پر جامع اور فکری گفتگو کی۔
انہوں نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا کہ دو ماہ پر مشتمل کورس میں 130 طلبہ و طالبات نے شرکت کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صوفیائے کرام کی تعلیمات کے حصول کی جستجو آج بھی معاشرے میں زندہ ہے۔ اس کورس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ 30 طلبہ براہِ راست انڈیا سے شریک ہوئے، جو تصوف کے عالمگیر پیغامِ محبت، رواداری اور انسانیت کا مظہر ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ اسلامی تعلیمات میں تصوف اور ولایت کو ایک ایسی روشن شاہراہ کی حیثیت حاصل ہے جو انسان کی قربِ الٰہی کی اعلیٰ منازل کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اس کے قلب و باطن کو پاکیزگی اور نورانیت عطا کرتی ہے۔ تصوف محض چند ظاہری اعمال یا رسوم کا نام نہیں، بلکہ یہ باطن کی اصلاح، دل کی صفائی اور اللہ تعالیٰ سے سچی وابستگی کا عملی راستہ ہے۔ مجدد المئۃ الحاضرہ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے تصوف کی اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی قرب رسمی مظاہر سے نہیں، بلکہ خشیتِ الٰہی، اخلاصِ نیت اور قلبی کیفیت کی درستگی سے حاصل ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 189 میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ کی روشنی میں واضح کیا کہ فلاح کا راستہ سیدھا، واضح اور فطری ہے۔ جس طرح گھروں میں داخل ہونے کے لیے ان کے دروازوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، اسی طرح دین اور تصوف میں بھی درست اور متوازن راستہ اختیار کرنا لازم ہے۔ تصوف کی بنیادی تعلیمات انسان کو سادگی، اعتدال اور اخلاص پر مبنی عملی زندگی اپنانے کی دعوت دیتی ہیں، نہ کہ غیر ضروری پیچیدگیوں اور بے اصل رسوم میں الجھنے کی۔
انہوں نے کہا کہ حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں تصوف کے چار بنیادی مراحل بیان کیے گئے ہیں: توبہ، تصفیہ، ولایت اور فنا فی اللہ۔ توبہ وہ پہلا زینہ ہے جس میں انسان ظاہری اعمال اور باطنی کیفیات دونوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بعد تصفیہ کا مرحلہ آتا ہے، جس میں دل، نیت اور فکر کو کدورتوں سے پاک کر کے اخلاص اور صفائے قلب حاصل کیا جاتا ہے۔ مرحلۂ ولایت میں سالک اپنی ذاتی خواہشات اور انا کو ترک کر کے اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع کر دیتا ہے اور اُلوہی صفات و اخلاق کو اپنانے کی سعی کرتا ہے۔ اس معاملہ میں حضور شیخ الاسلام نے نہایت واضح انداز میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ولایت کا معیار کرامات، کشف یا غیر معمولی مظاہر نہیں، بلکہ مسلسل اطاعت، مجاہدۂ نفس، اخلاقی استقامت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عمل پیرا رہنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تصوف کی آخری اور اعلیٰ ترین منزل فنا فی اللہ ہے، جہاں انسان اپنی بشری خواہشات، دنیاوی تعلقات اور ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس حد تک مستغرق ہو جاتا ہے کہ اس کی چاہتیں، ارادے اور اعمال سب رضائے الٰہی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس کی عملی مثالیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیائے عظام کی مبارک زندگیوں میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہیں۔ خصوصاً سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کی زندگیاں اخلاص، عاجزی، ایثار اور دنیاوی لالچ سے بے نیازی کا کامل نمونہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنی گفتگو میں بطورِ خاص اس امر کی نشاندہی کی کہ عصرِ حاضر میں تصوف کو متعدد فکری اور عملی چیلنجز درپیش ہیں۔ نام، القابات اور ظاہری شناخت تو باقی رہ گئی ہے، مگر بہت سے مقامات پر تصوف کی اصل روح اور حقیقت مفقود نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں حضور شیخ الاسلام کی شخصیت ایک زندہ مثال کے طور پر سامنے آتی ہے، جو اس بات کو عملاً ثابت کرتی ہے کہ حقیقی صوفی وہی ہے جو علم، عمل اور تربیت کو یکجا کر کے انسانوں کی رہنمائی کرے۔ اسی مقصد کے تحت شیخ الاسلام انسٹیٹیوٹ آف اسپیرچوئل اسٹڈیز کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے دو بنیادی مقاصد ہیں: اوّل یہ کہ تصوف کو محض نظری بحث کے بجائے عملی تربیت اور اخلاقی اصلاح کا ذریعہ بنایا جائے، اور دوم یہ کہ تصوف کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں، غیر مستند روایات اور انتہاؤں کا علمی و تحقیقی ازالہ کیا جائے۔ اس ادارے میں علم اور عملی تربیت دونوں کو یکجا کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ صرف کتابی معلومات تک محدود نہ رہیں بلکہ حقیقی روحانی بالیدگی بھی حاصل کریں۔ کیونکہ کتابیں علم عطا کرتی ہیں، مگر دلوں کو زندہ کرنے والی روشنی صوفیا کی عملی زندگی اور تربیت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی تصوف دل کی صفائی، باطن کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں مکمل انہماک کا نام ہے۔ یہ راستہ انسان کو دنیاوی خواہشات، نفسانی اغراض اور خود غرضی سے نجات دلا کر خلوصِ نیت اور رضائے الٰہی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے اعمال نہ دنیاوی مفاد کے لیے ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی ظاہری صلہ کے لیے، بلکہ ان کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور قربِ الٰہی کا حصول ہے۔
تقریب کے اختتام پر تمام اساتذہ کرام رجسٹرار منہاج یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خرم شہزاد، پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ صالح، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم رانا، میاں زاہد اسلام، ڈاکٹر شبیر احمد جامی، ڈاکٹر محمد فاروق رانا، ڈاکٹر نورالزماں نوری، ڈاکٹر عبدالجبار قمر، شیخ سہیل احمد صدیقی، مراقبہ کی تربیت دینے والے قاری محمد اکرام ربانی، قاری محمد سیف اللہ اور انتظامی امور احسن انداز میں نبھانے والے کوارڈینیٹر تصوف سنٹر علی سعد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا، جبکہ طلبہ و طالبات کو مبارکباد دیتے ہوئے دعا کی گئی کہ وہ حاصل شدہ علم پر عمر بھر عمل پیرا رہیں۔



















تبصرہ