منہاج یونیورسٹی میں جیو نیوز کے معروف صحافی پروفیسر عبدالرؤف کا توسیعی لیکچر

منہاج یونیورسٹی لاہور کے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے زیراہتمام توسیعی لیکچر منعقد کیا گیا۔ جیو نیوز کے پروگرام 50 منٹ کے میزبان اور معروف صحافی پروفیسر عبدالرؤف نے طلبہ و طالبات اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف کو "موجودہ ملکی حالات اور میڈیا کی ذمہ داریاں" کے موضوع پر لیکچر دیا۔ یہ پروگرام مورخہ 29 اپریل 2009ء کو دانش ہال میں منعقد کیا گیا۔ کالج آف شریعہ کے پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، وائس پرنسپل ڈاکٹر ظہور اللہ الازھری، ناظم ٹریننگ ڈاکٹر تنویر اعظم سندھو اور مرکزی سیکرٹریٹ سے دیگر قائدین نے بھی اس لیکچر میں شرکت کی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کالج آف شریعہ کےقاری سید خالد حمید کاظمی نےتلاوت قرآن پاک سے کیا۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت قاضی مدثر نے حاصل کی۔

کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔ انہوں نے پروفیسر عبدالرؤف کو منہاج یونیورسٹی اور تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پہلی بار تشریف لانے پر خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ پروفیسر عبدالرؤوف کی علمی و صحافتی خدمات ملک و قوم کے لیے قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحثیت قوم ہم اس وقت نازک ترین موڑ پر کھڑ ے ہیں، دہشت گردی نے ملک کو فرقہ پرستی کے لبادے میں لپیٹ رکھا ہے جبکہ قوم طبقاتی تقسیم کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ملک میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے سکیں۔ پروفیسر عبدالرؤف صاحب اتحاد و یک جہتی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پروفیسر عبدالرؤف نے اپنے لیکچر میں کہا کہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں اور عالم اسلام کے حالات سیاسی و تہذیبی طور پر کشیدگی اختیار کر چکے ہیں۔ چند دہائیاں یہ سلسلہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ دنیا بھر میں آج مسلمانوں کو دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1990ء میں، جب میں زمانہ طالب علمی کے دوران تقریباً تین سال امریکہ میں رہا تو اس وقت پاکستانیوں کو بڑی قدر و منزلت حاصل تھی۔ اس کے مقابلے میں آج کے اس دور میں پاکستانیوں کو ہر ملک میں ذلت کا سامنا ہے۔ انہوں کہا کہ آج قیام پاکستان کو 62 برس ہو گئے ہیں لیکن ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہو سکی۔ ایک طقبہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کو صرف سیکولر کی بنیاد پرحاصل کیا گیا۔ دوسرے طبقے کا مؤقف ہے کہ پاکستان صرف مذہب کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ انہوں نے ایک امریکی کالم نگار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ تعلیمی حوالے سے ترقی کر رہا ہے۔ دنیا کی دس بڑی یونیورسٹیز کا ذکر کریں تو ان میں آٹھ امریکہ کی اور دو انگلینڈ کی ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھر کی 200 یونیورسٹیز میں بھی پاکستان کا ذکر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم معاشرے میں نظر دوڑائیں تو شاید 25 سال کے بعد ہم اردو لکھنے سے بھی محروم ہو جائیں۔ اس لیے ہمارے پاس اگر کوئی چیز ہے تو وہ بھی بیرون ممالک کی بنی ہو ئی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب دہشت گرد رائفل اور ہتھیار کا استعمال کر کے قوم کو نظریاتی و ذہنی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت آج سب سے زیادہ زوال پزیر ہے، جو ہماری ملکی ترقی کی عکاس ہے۔ اس کی وجہ سے نئے مالی سال کے بجٹ کے لیے بھی پاکستان کے وسائل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملائیشیا ہم سے 10 برس بعد میں آزاد ہوا تھا۔ وہاں پر 30 بر س پہلے غربت عام تھی لیکن اب وہاں کے حالات بدل گئے ہیں کیونکہ ان کو ایک ایسی اچھی قیادت میسر آئی تھی جس نے ملک کو چار چاند لگا دیئے ہیں، جس پر آج ملائیشا فخر محسوس کرتا ہے۔ اس نے ملک کو غربت سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا تھا۔

پروفیسر عبدالرؤف نے اظہار خیال کرتےہو ئے کہا کہ میڈیا نے آج کے اس دور میں بہت ترقی کی ہے اور اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔ اسی طرح ٹی وی کے ذریعے لوگ پوری دنیا کے حالات سے آگاہ رہتے ہیں۔ 1964ء میں پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو اس نے جس کا بھی دور حکومت پایا اس کے گن گائے جبکہ دور حکومت ختم ہی اس پارٹی پر غداری کے الزام لگنے شروع ہو جاتے تھے لیکن آج متعدد چینلز ہونے کی وجہ سے عامۃ الناس کو بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح میڈیا ایک نئی دنیا تخلیق کرتا ہے اور عوام کو ایک نئی سوچ اور فکر مہیا کرتا ہے۔ جس سے عوامی سوچ بلند ہوتی ہے۔

لیکچر کے بعد شرکاء نے پروفیسر عبدالرؤف سے مختلف سوالات کیے۔ شرکاء کے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمار ے ہاں نظام تعلیم کو ایک رٹہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ بیرون ممالک میں طلبہ کو ایک سوچ اور فکر کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور طلبہ کو جدید سے جدید علوم سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میڈیا کو ایک راہنمائی کا رول ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف سماوی امداد کے منتظر دیکھائی دیتے ہیں۔ اگر لوگ میڈیا کا ساتھ دیں تو ملک مزید ترقی کرے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ہاں پینے کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ واسا کی رپورٹ کے مطابق صاف پانی ہمیں ایک ہزار فٹ نیچے میسر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو سب سے پہلے اپنی آبادی پر کنٹرول کرنا اور علمی شعور کو بلند کرنا ہو گا۔

انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ وہاں پر ابھی بھی کھیتوں میں بیل کا ہل چلایا جاتا ہے اور فصلوں میں کیمیائی کھاد کی جگہ اب تک وہاں پر گوبر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس علاقہ کی آبادی 3 لاکھ ہے اور وہاں کے لوگ ابھی تک ٹی وی کی بجائے اپنا زیادہ تر وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتے ہیں۔ پروگرام کے آخر پر پروفیسر عبدالرؤف نے کہا کہ ملک کی سلامتی و بقاء صرف علمی سوچ کو بلند کرنے اور عامۃ الناس کو کتاب بینی کے شوق کو عام کرنے میں پوشیدہ ہے۔

لیکچر کے بعد کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ پروگرام کے بعد ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے معزز مہمان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے منہاج یونیورسٹی کے پروچانسلر اور بورڈ آف گورنر کے چیئرمین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ترجمہ عرفان القرآن، المنہاج السوی ، اسلام اور جدید سائنس اور دیگر کتب کے تحائف پیش کیے۔

(رپورٹ : محمد نواز شر یف)

تبصرہ

Top