قومی امن کونسل کا پہلا اجلاس

مورخہ: 03 مئی 2009ء

قومی امن کونسل کا اجلاس تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں ہوا جس میں تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، مسلم لیگ (ق) کی رہنما مہناز رفیع، اے این پی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں، سینئر صحافی افتخار احمد، سیکرٹری جنرل انوار اختر ایڈووکیٹ، خاکسار تحریک کے رہنما حمید الدین المشرقی، جواد حامد، ممتاز قانون دان خادم حسین قیصر، انٹرنیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے صدر سہیل اختر، کرنل (ر) ایل کے ٹریسلر، شیعہ پولیٹیکل پارٹی کے راہنما سید نوبہار شاہ، قاری زوار بہادر، قاضی فیض الاسلام اور عبدالحفیظ چودھری شامل تھے۔

ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دی اور ان کے مختلف سوالات کے جوابات دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق تحریک منہاج القرآن کا سیکرٹریٹ قومی امن کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ ہو گا اور تحریک منہاج القرآن کے رہنما جواد حامد قومی امن کونسل کے سیکرٹری کوآرڈینیشن ہوں گے۔ اجلاس میں قائدین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ 1973ء کا آئین ملک میں امن کی ضمانت فراہم کرتا ہے اس لیے قیام امن کے لیے سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی مل کر 1973ء کے آئین سے راہنمائی حاصل کریں۔ اس موقع پر ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر، احسان وائیں، انوار اختر ایڈووکیٹ، چودھری خادم حسین قیصر اور سہیل اختر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو 1973ء کے آئین میں سے ان نقاط پر مشتمل سفارشات مرتب کرے گی جس سے ہر طرح کی محرومیوں اور استحصال کا خاتمہ یقینی ہو اور امن کے قیام کو ممکن بنایا جاسکے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی امن کونسل "قومی امن پالیسی" کی تشکیل کیلئے تسلسل سے ماہانہ اجلاس منعقد کرے گی۔ اگلا اجلاس 7 جون کو انٹرنیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے صدر سہیل اختر ملک کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں بلوچستان، سندھ اور سرحد سے تعلق رکھنے والے قائدین کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ ان کی مشاورت سے قومی سطح پر امن کے قیام کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں، کیونکہ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کرنا قیادت کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیاگیا کہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس، پی آر اور دیگر ذمہ داران کو ایک خط لکھا جائے گا جس میں عسکریت پسندوں کو جدید اسلحہ اور فنڈز کی فراہمی کی بابت سوال کیا جائے گا کہ یہ ان تک کیسے پہنچ جاتا ہے اور یہ سب روکنے کا ذمہ دار کون ہے؟ پارلیمینٹ میں موجود جماعتیں یہ سوال پارلیمنٹ میں بھی اٹھائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف NGOs اور سول سوسائٹی کے قائدین کو آئندہ اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت بھیجی جائے گی۔ اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اس سلسلے میں قومی امن کونسل کے قائدین پہلے مرحلے میں ہینڈ بلز خود عوام میں تقسیم کریں گے۔

تبصرہ

Top