ملت اسلامیہ کے وقار کی بحالی ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پختہ رابطے میں ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری

مورخہ: 01 مئی 2013ء

آج ملت اسلامیہ لامتناہی حادثات اور غیر معمولی حالات کا شکار ہے۔ ہر روز کا سویرا ایک نئے بحران، فتنہ اور سازشوں کے جال میں طلوع ہوتا ہے اور بے ڈھنگ خواہشات، نفسا نفسی اور مایوسیوں کی شام میں غروب ہوجاتا ہے، انا پرستی سے آلودہ، عقل سلیم سے عاری اور ذاتی مفادات کے پجاریوں کے ہاتھوں زندگی محفوظ ہے نہ ایمان، سکونِ زندگی غارت ہوگیا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا ہو، یہ اس لیے بھی ہے کہ ہماری آنکھیں تو کھلی ہیں مگر حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی سوچ مفادات اور مجبوریوں کے حصار میں بند ہوگئی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی یوں تو بے شمار دینی و سماجی اور ملی خدمات ہیں مگر ان حالات میں امت مسلمہ کو ایمان کے مرکز و محور یعنی ذات مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑنے کے لیے گوشہ درود و فکر کا قیام اور پوری دنیا میں منہاج القرآن کے سنٹرز، جملہ تنظیمات اور کارکنوں کے گھر گھر میں محافل درود و سلام کا آغاز وہ عمل ہے جس میں اﷲ اور اس کے فرشتے بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار لندن میں مورخہ 21 اپریل2013کو سالانہ مجلس ختم الصلاۃ علی النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کیا۔ درود پاک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درود و سلام از خود جامع الدعاء ہے۔ اگر کسی اور دعا سے پہلے اور بعد میں نبی آخر الزمان شافع محشر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر درود پاک نہ پڑھا جائے تو باقی ساری دعائیں زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہیں۔ بظاہر تو ہم اس میں اﷲ کے حضور آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اضافے کی درخواست کررہے ہوتے ہیں مگر اس عمل سے جو خود اﷲ پاک کو سب سے زیادہ پسند ہے، ہمارا شامل ہونا ہماری ان دعاؤں کی قبولیت کا سبب بھی ہوتا ہے جو ہمارے قلوب سے زبانوں پر نہیں آئی ہوتیں۔ اس سے نہ صرف انسان کی ذات بلکہ وہ مقام اور علاقہ بھی خدا کی رحمت کے سائے میں آکر ہر بلا سے محفوظ ہوجاتا ہے جہاں ذکر حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔ اس سے بندہ مومن اور علاقے کو ہر آفت سے نجات عطا ہوجاتی ہے۔ درود و سلام کے عمل سے امتی کا محبوب کبریاء صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و اراکین اور جملہ مسلمانوں سے رات کے پچھلے پہر جاگ کر خود کو خدا اور مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر سمجھتے ہوئے اسے زندگی کا معمول بنا لینے کی تلقین کی اور کہا کہ اس سے خدا کے حضور قربت، بخشش و مغفرت، شفا، اطمینان قلب اور روحانی لذت نصیب ہوگی۔ جس شخص نے اس عمل کو زندگی کا حصہ بنا لیا کہ جب دنیا لمبی تان کے سوجائے تو وہ اپنے نرم و گداز بستر کو چھوڑ کر خدا اور مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درود و سلام کے ذریعے مناجات شروع کردے، اس کی دنیاوی حاجات بھی پوری ہونا شروع ہوجائیں گی اور بن طلب کیے اچھی آخرت کی دل میں موجود دعائیں بھی پوری ہوجائیں گی۔ پھر جس کی زندگی اس عمل سے عبارت ہوجائے وہ نہ تو کسی کا حق غصب کرتا ہے نہ کسی پر ظلم کرتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں گوشہ درود کا آغاز دسمبر 2005ء میں کیا گیا جہاں چوبیس گھنٹے بارگاہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیہ درود و سلام پیش کیا جاتا ہے۔ لندن میں گوشہ درود کا آغاز 2007ء میں ہوا اور کروڑوں کی تعداد میں ہدیہ درود و سلام حضور ختمی مرتبت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاچکا ہے۔ اس روحانی محفل میں مرکزی نائب امیر تحریک منہاج القرآن علامہ محمد صادق قریشی، منہاج القرآن برطانیہ کے جنرل سیکرٹری علی عباس شاہ بخاری، نوجوان اسکالر حافظ محمد مدثر عزیز، علامہ محمد نعیم طارق قادری، ڈائریکٹر منہاج القرآن لندن سنٹر حافظ ذیشان، صدر حاجی نوید قادری، جنرل سیکرٹری محمد شاہ نواز، حاجی محمد یونس، غلام نبی، ساجد حسین اور باجی زریدہ کے علاوہ مرد و خواتین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مرکزی نائب امیر تحریک منہاج القرآن علامہ محمد صادق قریشی نے کہا کہ ہماری اجتماعی بے حسی پر صرف ماتم کرنا کافی نہیں۔ ہمیں اپنے شب و روز پر غور کرنا ہوگا۔ اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے سلف صالحین کے کردار اور حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر غور و فکر کرنے کے بعد انقلابی پروگرام کے تحت غلبہ اسلام کے لیے ذاتی انا کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں اﷲ نے امت مسلمہ کو اور پاکستان کو ایسی قیادت عطا کردی ہے جسے مسائل کا ادراک بھی ہے اور ان کے حل کا ویژن اور جذبہ بھی۔ دین، شریعت اور روحانیت کسی روپ کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک عقیدہ اور کردار ہے۔ علامہ صادق قریشی نے صاحبان علم و فن اور ذمہ داران سے تعصب کی پٹی اتار کر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جب ملک ہی نہ رہا تو ان کی سیاست اور جمہوریت بھی دھڑن تختہ ہوجائے گی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سب کے نزدیک سیاست سے زیادہ ریاست اہم ہونی چاہیے۔

رپورٹ:ہیلی فیکس (شاہد جنجوعہ، نمائندہ اوصاف)

تبصرہ

Top