شب برات کا روحانی اجتماع 2010ء

تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 14 شعبان المعظم 1431ھ کی رات "شب برات" کا روحانی اجتماع 27 جولائی 2010ء کو مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاون لاہور میں ہوا، جس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب کیا۔ روحانی اجتماع کی صدارت تحریک منہاج القرآن کے امیر صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے کی۔ قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، جی ایم ملک، جواد حامد، ناظم امور خارجہ راجہ محمد جمیل اجمل اور دیگر مرکزی قائدین بھی سٹیج پر موجود تھے۔

پروگرام میں لاہور اور گردو نواح سے شرکاء کی بڑی تعداد نے مذہبی جوش و خروش سے شرکت کی۔ خواتین کے ساتھ بچوں کی بڑی تعداد بھی پروگرام میں موجود تھی۔ جن کے لیے پنڈال میں الگ حصہ مختص کیا گیا تھا۔ ملکی حالات کے مطابق منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ کے اردگرد سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات بھی کیے گئے تھے۔

شب برات کے روحانی اجتماع کا باقاعدہ آغاز نماز عشاء کے بعد شب ساڑھے 9 بجے ہوا۔ اس موقع پر کمپیئر وقاص علی قادری نے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں حسان منہاج محمد افضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل، بلالی برادران، حیدری برادرن، قاری عنصر علی قادری، شکیل احمد طاہر اور دیگر نعت خواں حضرات نے نعتیں پیش کیں۔ نعت خوانی کے دوران شرکاء جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔

نعت خوانی کے سلسلہ کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا لندن برطانیہ سے براہ راست خطاب بذریعہ ویڈیو کانفرنس شروع ہوا۔ آپ نے "ترک گناہ" اور "اکل حلال" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ شب برات کا ایک روحانی موقع ہے لیکن آج بدقسمتی سے ہمارے ہاں دین ایک رسم بنتا جا رہا ہے۔ ہم دین کو رسمی کارروائی کے طور پر لے رہے ہیں۔ اس پر عمل کرنے کی بجائے ہم اس کو رسوم و رواج کی شکل دے رہے ہیں، جو دین سے عملی دوری کی انتہاء ہے۔

آپ نے کہا کہ شب برات وہ رات ہے، جس میں اللہ تعالیٰ رات کے آخری پہر تک آسمان دنیا پر آ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پکار رہی ہوتی ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا، ہے کوئی حاجت مانگنے والا، ہے کوئی گناہوں کی معافی طلب کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت رات بھر یہ صدا دیتی رہتی ہے اور اس رات جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو پا لیتے ہیں، وہ اس کے کرم میں آ جاتے ہیں۔

آپ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک غلط فہمی بہت جنم لے رہی ہے اور بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس رات اجتماع کرنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ انسان کو تنہاء اللہ سے معافی طلب کرنی چاہیے اور عبادت کرنی چاہیے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ یہ اعتراض کم علمی ہے۔ آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جمع ہونا بھی عبادت ہے۔ آپ نے کہا کہ ایک دفعہ مسجد نبوی شریف میں صحابہ کرام کے دو گروہ بیٹھے تھے۔ ایک گروہ تعلیم و تربیت کی بات کر رہا تھا جبکہ دوسرا انفرادی ذکر کر رہا تھا۔ جب آقا علیہ السلام وہاں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین کی تعلیم و تربیت کے حلقہ میں آ کر بیٹھ گئے۔ آپ نے کہا کہ اگر کوئی انفرادی عبادت کرتا ہے، نوافل کرتا ہے، ذکر کرتا ہے یا جو بھی دوسری عبادت کرتا ہے تو کیا پتہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ دوسری جانب جو لوگ اجتماعی سطح پر محفل میں شریک ہوتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کسی ایک بندے کی طفیل ہزاروں لوگوں کی عبادت کو قبول کر لیتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ انسان کو گناہ کو گناہ سمجھ کر دور رہنا چاہیے اور بچنا چاہیے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ بڑے گناہ سے تم بچو، چھوٹے گناہ سے اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ اس لیے پانچ نمازیں باقاعدگی سے پڑھنے والے شخص کے صغیرہ گناہ اللہ تعالیٰ خود بخش دے گا۔

آپ نے کہا کہ جو انسان گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اپنی فطرت میں شامل کر لیتا ہے تو اس کے چھوٹے گناہ بھی گناہ کبیرہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے انسان کو گناہ کر کے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ تو چھوٹا گناہ ہے۔ اگر انسان یہ سوچتا ہے تو یہ اس کی بد بختی ہے۔ آپ نے کہا کہ مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ گناہ سے دور بھاگتا ہے جبکہ منافق کی یہ نشانی ہے کہ وہ گناہ سے خوف کھانے کی بجائے اس کو اپنی عادت بنا لیتا ہے۔

آپ نے کہا کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں سے معافی کی رات ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ بندے کی قسمت لکھ رہا ہے۔ جو شخص اس رات اللہ کے حضور مناجات کرے گا۔ مغرب کے بعد صبح فجر تک کے وقت میں اللہ تعالیٰ کو منا لے گا تو وہ اس رات کی روح کو پا لے گا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے منتظر بیٹھا ہے کہ وہ کب اس سے معافی طلب کرے اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے۔ جو شخص گناہ کی لت میں الجھ جاتا ہے اور معافی اس سے دور ہو جاتی ہے تو یہ اس بندے کی بد بختی کی علامت ہے۔

آپ نے کہا کہ انسان جب تک رزق حلال نہیں کھائے گا تو اس وقت تک عبادت نور پیدا نہیں کرے گی۔ جس انسان کو رزق حلال نصیب نہیں، وہ لاکھ عبادت کرتا پھرے اس کا اسے کوئی فائدہ نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں وہ عبادت بھی دکھلاوا ہے۔

آپ نے بتايا کہ امام امداد اللہ مہاجر مکي نے کہا کہ اولیاء اللہ کے ہاں اکل حلال اور تقويٰ کا يہ عالم ہوتا ہے کہ وہ جب کسي کے ہاں سے کھانا کھاتے تو اس سے پہلے يہ تصديق اور تحقيق کرتے کہ جو وہ کھا رہے ہيں، وہ حلال ہے يا نہيں۔ آج ہم اپني زندگي ميں حلال و حرام کي تميز کو ختم کرتے جا رہے ہيں اور دولت، ہوس اور چند ٹکوں کي خاطر اپنے پيٹ ميں حرام جمع کر کے جہنم کی تياری کر رہے ہیں۔

امام شافعي کا کہنا ہے کہ جس شخص ميں پانچ خصلتيں ہيں وہ اللہ والا ہے۔ جس کا دل دنيا سے بے نياز ہو جائے، جس سے دوسرے شخص کو تکليف نہ ہو، حلال رزق کھائے، تقويٰ والا ہو اور وہ رجوع الي اللہ رکھے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ گناہ سے چھٹکارے کا حل اور مداوا صرف معافي ہے جو اللہ تعاليٰ کو منائے بغير نہيں ملتي۔ آج نيک لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں اور نيکي کے بازار بند ہوتے جا رہے ہيں۔ ہم اپني زندگي ميں معصيت ميں گھر چکے ہيں۔ پہلے زمانے کے لوگوں کے تقويٰ کا یہ عالم تھا کہ وہ خود کو معصيت ميں تصور کرتے اور ہر حال ميں اللہ سے معافي کے طلب گار رہتے۔

اس موقع پر آپ نے شب برات کا پيغام ديتے ہوئے کہا کہ لوگو کسي گناہ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ گناہ کا حل صرف معافي ہے۔ آج کي رات گناہ کے عمل کو ترک کر کے اللہ سے معافي مانگ لو۔ اس رات اپنے من کو سنوارنے کا عہد کر لو۔ یہ دنیا چند دن ہے، پھر انسان کو وہاں جانا ہے جہاں جانے کے بعد اسے دنیا میں نیکی کرنے کا دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ آج کی رات ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور خود کو تبدیل کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔

شیخ الاسلام کا خطاب رات گیارہ بج کر 40 منٹ پر ختم ہوا۔ آپ کے خطاب کے بعد حسان منہاج محمد افضل نوشاہی نے اپنے مخصوص انداز میں بحضور سید کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔

پروگرام میں درود و سلام کے بعد علامہ فرحت حسین شاہ نے اختتامی دعا کرائی۔ آخر میں شرکاء کو بتایا گیا کہ آئندہ ماہ ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروگرام 5 اگست 2010ء کو ہوگا۔ پروگرام کے بعد جامع مسجد منہاج القرآن میں باجماعت نماز تسبیح بھی ادا کی گئی۔

رپورٹ: ایم ایس پاکستانی

تبصرہ

Top