شہر اعتکاف 2012 ( پہلا دن)

مورخہ: 10 اگست 2012ء

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 10 اگست 2012ء، 21 رمضان المبارک کو نماز فجر کے بعد شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین سے مخاطب ہوئے۔ آپ نے لندن، برطانیہ سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس خطاب کیا، جو منہاج ٹی وی کے ذریعے انٹرنیٹ پر نشر کیا گیا۔ آپ نے اعتکاف کا پہلا خطاب "نیت" کے موضوع پر کیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ شریعت میں نیت پر بہت زور دیا گیا اس لیے کوئی بھی عمل حسن نیت نہیں بن سکتا، جب تک اس کی نیت نیک نہ ہو۔ قرآن مجید میں ہے کہ متقین کی راہ پر چلنا چاہتے ہو تو ہر عمل کو حسن نیت سے سرانجام دو۔ سورہ الماعون میں حسن نیت کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہے، جس میں نماز ان لوگوں کو دوزخ میں لے جائے گی، جن کی نیت نیک نہ تھی، جو ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ اگر نیت نیک ہو تو وہی نماز انسان کو جنت میں لے جائے گی۔

بخاری شریف کی حدیث مبارکہ کے مطابق کوئی بھی عمل اس وقت درجہ اور ثواب والا نہیں بن سکتا، جب تک اس عمل صالحہ کی نیت نیک نہ کی جائے۔ عمل کی قبولیت کا سارا دارا مدار نیت پر ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ہم عملی زندگی میں بہت سے اعمال کرتے ہیں، لیکن ارادے اور نیت کے بغیر کرتے ہیں، جو رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل بغیر نیت اور ارادے کے کیے جائیں تو وہ افعال ہیں۔ جو نیت کے ساتھ کیے جائیں تو وہ اعمال بن جاتے ہیں۔ عمل کا اجر ہے جو عبادت بن جاتا ہے جبکہ فعل کا اجر نہیں۔ اس پس منظر میں اگر ہم چاہیں تو ساری زندگی میں کم ازکم آدھی زندگی تو عبادت بنا سکتے ہیں۔

اگر نیت کے مفہوم کو سمجھ لیں تو ہمارا لمحہ لمحہ عبادت بن جائے۔ نیت انسان کو لوجہ اللہ کر دیتی ہے۔ ہم ہر روز کھانا کھاتے ہیں، لیکن اگر نیت یہ کر لی جائے کہ میں یہ کھانا جسم کو توانا رکھنے اور دین کی سربلندی کے لیے کھا رہا ہوں تو یہ سارے کا سارا کھانا عبادت بن جاتا ہے۔

اس طرح ہم نیند کرتے ہیں۔ علمائے عارفین اور صالحین کی نیند دوسرے لوگوں کی عبادت سے افضل ہے۔ کیونکہ ان کی نیند کی نیت، آرام کرنے کی نیت اللہ کے دین کی سربلندی ہوتی ہے۔ اس دوران جب تک وہ اللہ کا بندہ بیدار نہیں ہوجاتا تو ملائکہ اس کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کے نامہ اعمال پر نیکیاں لکھتے رہتے ہیں۔

دوسری طرف نیت ہی انسان کے تمام اعمال کو غارت کر دے گی، جس کی مثال وہ مجاہد ہے جس کی نیت ناموری اور شہرت کی تھی۔ اس طرح ایسا عالم دین جو دنیاوی شہرت کی نیت رکھتا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسےتمام لوگوں کو جنت کی بجائے دوزخ میں پھینک دے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے انسان جب تو اپنا دل اللہ کے لالچ سے خالی کر لے گا تو جو چاہے گا وہ تجھے مل جائے گا۔ تیرا دل جب خلوت گاہ بن جا ئے گا تو پھر وہ مولہ کا تعلق تجھے مقام قربت دے گا۔

دوسری جانب نیت کو خراب کرنے والی دو چیزیں ہیں، ایک شے خارج میں اور دوسری شے داخل میں ہے۔ خارج میں شیطان اور اندرونی طور پر نفس عمارہ ہے۔ یہ دونوں انسان کے اندر وسوسہ اندازی کر کے ہمارے نیک اعمال کے خیالات اور نیتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ قرآن میں بھی شیطان کا ذکر موجود ہے کہ یہ انسان کے اندر غلط وسوسے ڈالتا ہے۔ جس سے بندے کا اللہ سے خالص تعلق قائم کرنے کا تحرک ختم ہو جاتا ہے۔ شیطان کا مقصد آپ کو جہنم میں لے جانا ہے۔

آپ نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ولی اللہ سوئے ہوئے تھے، ان کے ساتھ شکستہ حال دیوار گرنے لگی تھی کہ شیطان انسانی صورت میں آ کر اس ولی اللہ کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ کے بندے اٹھ جا، دیوار گرنے لگی ہے۔ اللہ کا بندہ تھوڑی دور گیا تو دیوار گر گئی۔ جب اس ولی اللہ نے یہ دیکھا تو اس نے شیطان کو بلا کر کہا کہ اے بندے بتا تو ہے کون، جس نے میری زندگی کو بچا لیا ہے۔ اس پر شیطان نے اپنا تعارف کرا دیا کہ میں شیطان ہوں۔ اللہ کے بندے نے کہا کہ تیری اور میری تو جنگ رہی ہے تو نے میری زندگی کیوں بچائی۔ شیطان نے کہا کہ اگر دیوار گر جاتی تو تم شہید ہو جاتے، میں تجھے نیک عمل کرنے سے تو نہیں روک سکتا لیکن تجھے شہادت کا درجہ نہیں نصیب ہونے دیا۔

آپ ایک عمل میں کئی نیتیں شامل کر سکتےہیں۔ اعتکاف میں آپ پہلی نیت کر لیں کہ ہم اعتکاف بیٹھ رہے ہیں۔

آپ سال بھر جس مسجد میں بھی نماز پڑھنے کے لیے جائیں تو اعتکاف کی نیت کر لیں کہ آپ اللہ کے ساتھ تنہائی میں خلوت نشینی کرنے آئے ہیں۔ اس سے کچھ باتیں اور مناجات کرنے آئے ہیں۔

بندہ اپنی نیت کو جتنا صاف کرتا چلا جائے تو وہ اس قدر اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے۔ دور ہم ہیں۔ ایسے دور نہیں کہ وہ ہم کو دیکھ نہ سکے، ہماری گرفت نہ کر سکے، ہماری مدد نہ کر سکے، ہماری پکار نہ سن سکے۔ بلکہ ایسے دور ہیں کہ ہماری نیتوں میں فرق ہے اور اس نے ہمیں اللہ سے روحانی طور پر دور رکھا ہوا ہے۔ بندہ اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ اس کی پکار سنتا ہے لیکن جب اللہ اپنے بندے کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار نہیں سنتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سات لوگ ایسے ہوں گے جن پر کوئی سایہ نہیں ہوگا تو میں اس کو اپنا سایہ دوں گا، اس میں ایک شخص وہ نوجوان ہے، جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آج ہماری زندگی میں شر پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ نیت میں خرابی ہے۔ پاکستان کی تقدیر سنوارنے کے لیے نیتوں کو درست کرنا ہو گا۔ امت مسلمہ کا حال بھی اس وقت تک بدل نہیں سکتا، جب تک نیتیں ٹھیک نہیں ہو جاتیں۔ اس لیے ہمیں ہر معاملے میں اپنی نیت درست کرنا ہوگی۔

تبصرہ

Top