شہر اعتکاف 2008ء : افتتاحی دن (اعتکاف ڈائری)
شہر اعتکاف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایم ایس پاکستانی
(معاون : محمد نواز شریف)
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 18 ویں سالانہ شہر اعتکاف کا آغاز 21 ستمبر کو ہو گیا ہے۔ تزکیہ نفس، فہم دین، توبہ اور آنسووں کی اس بستی میں پہنچنے کے لیے ہزاروں متعکفین اور معتکفات ایک روز قبل ہی جامع المنہاج پہنچنا شروع ہو گئے تھے تاہم 20 رمضان المبارک کو صبح 8 بجے سے معتکفین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو غروب آفتاب سے قبل تک جاری رہا۔ افتتاحی روز جامع المنہاج کے کی مرکزی گیٹ کے باہر سب سے زیادہ رش تھا جہاں اعتکاف گاہ میں جانے والے متعکفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد ابھی تک رجسٹریشن کارڈ حاصل کرنے میں مصروف تھی۔ رجسٹریشن کارڈ کے لیے مرکزی گیٹ کے دائیں جانب مین کنڑول روم میں خصوصی کاؤنٹر قائم کیا گیا تھا۔ جامع المنہاج میں معتکفین کی آمد کا سلسلہ غروب آفتاب سے قبل تک جاری رہا۔
ملکی حالات کے پیش نظر انہتائی سخت سیکیورٹی چیکنگ کے بعد معتکفین کو مین گیٹ اور دیگر دوسرے داخلی دروازوں سے اعتکاف گاہ داخل کیا جارہا تھا۔ میٹل ڈیکٹر کے علاوہ سیکورٹی سیکنر بھی لگائے گئے تھے جب کہ معتکفین کے سامان کی بھی تلاشی لی جا رہی تھی۔ جامع المنہاج کے اندر داخل ہونے کے بعد معتکفین کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین اور خصوصی استقبالی ٹیم نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے خوش آمدید کہا۔
مغرب کی نماز سے قبل ہزاروں فرزاندن اسلام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سنگت میں جامع المنہاج میں اعتکاف بیٹھ چکے تھے۔ نماز مغرب کے فوری بعد ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے شرکاء کو باقاعدہ خوش آمدید کہا۔ شب نو بجے نماز عشاء کی جماعت شروع ہوئی۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تمام شرکاء اعتکاف کو "السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ" کے الفاظ سے خوش آمدید کہا تو جامع المنہاج کی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔
نماز عشاء کے بعد ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے معتکفین کو انتظامی امور پر ضروری بریفنگ دی۔ انہوں نے سیکیورٹی کے حوالے سے معتکفین سے خصوصی تعاون کرنے کی اپیل بھی کی۔
نماز تراویح شب ساڑھے 11 بجے ختم ہوئی جس کے 15 منٹ بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خطاب کے لیے صحن میں بنے سٹیج پر تشریف لائے۔ ہزاروں معتکفین شیخ الاسلام کے دیدار کے لئے بیتاب تھے، شیخ الاسلام کو دیکھتے ہی اعتکاف گاہ نعروں سے گونج اٹھی۔
شیخ الاسلام نے اپنے خطاب سے قبل تمام متعکفین کو خصوصی طور پر خوش آمدید کہا اور بتایا کہ شہر اعتکاف 2008ء نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور انتظامیہ نے گزشتہ سال سب سے بڑے شہر اعتکاف سے بھی 40 فیصد زائد انتظامات کیے جو کم پڑ گئے ہیں۔ اپنے خطاب سے قبل شیخ الاسلام نے کہا کہ اس اعتکاف کے لیے آنے والا ایک قافلہ ایسا بھی جو 130 معتکفین پر مشتمل ہے اور بزرگوں سمیت وہ دیوانے فیصل آباد سے پیدل چل کر شہر اعتکاف آئے ہیں۔ اس پر آپ نے انہیں مبارکباد دی۔
خطاب (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے حوالے سے شان علی کے موضوع پر شہر اعتکاف کا افتتاحی خطاب کیا۔ آپ نے سورہ الدھر کی مذکورہ آیہ کریمہ کو اپنا موضوع بنایا۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاO
(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہےo (الدھر: 7)
آپ نے کہا کہ آج کا دن حضرت علیٰ علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے۔ اس مناسبت سے ہم اپنے اعتکاف کا آغاز یاد علی سے کر رہے ہیں۔ آپ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مطابق جتنی آیات قرآنی حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئیں اتنی کسی اور فرد کی شان میں نہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج ہمیں "اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے والے طبقہ کو مخصوص گروہ قرار دینے" جیسے شبہات کا ازالہ کرنا ہے۔ شان علی علیہ السلام امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیھم کا عقیدہ ہے۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی وہ شان بیان کی جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ان ائمہ کا تعلق اہلسنت سے ہے، لہذا یہی عقیدہ اہل سنت کا ہے۔
آپ نے بالصراحت کہا کہ میرے عقیدہ کے بارے میں کوئی شش و پنج میں نہ پڑے۔ میں سنی، حنفی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا پیروکار ہوں اور قادری سلسلہ میرا مشرب ہے۔ غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ میرے شیخ اور مربی ہیں۔ مرتے دم تک اسی عقیدہ پر قائم رہوں گا لیکن میں اہل بیت کا بھی خادم ہوں۔
آپ نے کہا کہ شیعہ سنی اختلافات خارجیت کے پیدا کردہ ہیں۔ خارجی فتنہ کا آغاز بنو امیہ کے دور سے ہوا۔ انہوں نے کہا آج تک یہ خارجیت کی لہر قائم ہے۔ یہی لوگ یزید کے پیروکار ہیں جو آج بھی موجود ہیں اور یہ دین میں رخنہ سازی کا کام کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کو پہچاننا اور پھر ان سے بچنا ہے۔ خارجیت سے متاثر ہو کر لوگوں نے حب علی کو اہل تشیع اور حب صحابہ کو اہلسنت سے جوڑ دیا۔ اس فتنہ نے امت کو گمراہ کیا ہے۔ آج ہمیں علم کے ذریعے اس فتنہ کو ختم کرنا ہے۔ یہی فتنہ ہے جس نے اہلسنت اور اہل تشیع کا عقیدہ دو لخت کر دیا ہے۔
آپ نے امام مسلم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صحیح مسلم کا باب نمبر 16 قائم کرتے ہوئے لکھا کہ "جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شدید محبت نہیں کرتا وہ مسلمان ہی نہیں" اسی طرح انہوں نے مسلم شریف کے باب نمبر 33 میں لکھا کہ "انصار کی محبت اور علی شیر خدا کی محبت ایمان ہے، ان سے بغض رکھنا منافقت کی علامت ہے"۔ اس پر شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ مسلم شریف کے اس باب کی تناظر میں مومن وہی ہوگا جس کے دل میں حب علی ہوگی اور منافق وہی ہو گا جس دل میں بغض علی ہوگا۔
آج خارجی فتنہ نے اہلسنت پر گردوغبار ڈال دیا۔ بعض دہشت گرد تنظیموں نے اس طرح واویلا مچایا کہ لوگ ڈر گئے کہ حب علی اور اہل بیت کا نام لیا تو نجانے کیا ہوگا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محبت علی کا درس دیا۔
آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مولا کہنے کے حوالے سے معترضین کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک مولوی صاحب اپنے نام کیساتھ مولانا لکھتے ہے ہیں تو پھر حضرت علی علیہ السلام کے مولا ہونے پر کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ مولا کا لقب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کو غدیر خم کے مقام پر عطا کیا۔
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
آپ نے کہا کہ آج لوگ حضرت علی علیہ السلام کو "علیہ السلام" کہنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ صرف خارجی ذہن کی پیداوار ہے۔ انہوں نے کہا آج یہ میرا تخلیق کردہ خطاب نہیں بلکہ اس سے قبل قاضی ثناء اللہ پانی پتی، مجدد الف ثانی، امام قسطلانی سمیت دیگر مستند ائمہ حدیث سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کے نام کیساتھ علیہ السلام لکھتے تھے۔ انہوں نے کہا ہم ہر نماز میں اپنے اوپر سلام بھیجتے ہیں تو پھر ہر نمازی علیہ السلام ہو گیا۔ ہمارے علیہ السلام ہونے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سیدنا علی کے علیہ السلام ہونے پر شک اور اعتراض ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ وہ خانوادہ ہے جس کے دم سے دنیا کو ہدایت نصیب ہوئی۔ آپ مہادی و ہادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن کے قدموں سے دنیا کو ہدایت نصیب ہوئی کیا وہ علیہ السلام نہیں ہو سکتے؟ یہ کہنا صرف خارجی فتنہ ہے۔ جس نے آج امت کو مختلف گروہوں میں تقسیم دیا ہے۔
آپ نے واضح کیا کہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا کہ میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ایک قرآن اور دوسری میری اہل بیت۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار اللہ کا واسطہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کہ یہ میری اہل بیت ہے اور اس سے پیار کرنا۔
اپنے خطاب کے آخر میں شیخ الاسلام نے کہا کہ منہاج القرن آج دنیا میں واحد تحریک ہے جو اہل بیت کی محبت اور صحابہ کی محبت کا سنگم ہے۔ جو امت میں خارجی فتنہ کے خلاف شعور بیدار کر کے قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد جوڑنا ہے توڑنا نہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت جلد آئے گا جب امت دوبارہ یک لخت ہو جائے گی۔
جھلکیاں (افتتاحی روز)
- شہر اعتکاف میں معتکفین کی آمد صبح 8 بجے سے شروع ہوئی۔
- ہمدرد چوک اور دربار غوثیہ سے شہر اعتکاف کی طرف آنے کے لیے ایک کلومیٹر مسافت پر فری رکشہ سروس مہیا کی گئی۔
- ہمدرد چوک سے شہر اعتکاف تک سڑک پر بہت زیادہ رش تھا جس کی وجہ سے مین سڑک سے داخلہ راہداریوں پر خصوصی ٹریفک وارڈنز ڈیوٹی پر تھے۔
- شہر اعتکاف میں کراچی، کوئٹہ سمیت سندھ سے آنے والے قافلے ظہر تک اعتکاف گاہ پہنچ گئے جبکہ نزدیکی شہروں کے لوگوں کی آمد کا سلسلہ شام تک رہا۔
- سیکیورٹی کے لیے خفیہ کیمرے اور داخلی دروازوں پر سکینر لگائے گئے۔
- سہ پہر ساڑھے تین بجے فیصل آباد سے 130 افراد کا قافلہ پیدل سفر کر کے جب اعتکاف گاہ پہنچا تو ان کا خصوصی استقبال کیا گیا۔ اس میں معمر افراد بھی شامل تھے۔
- گراؤنڈ میں قائم کیے گئے حلقوں کی وجہ سے ٹینٹوں نے جامع المنہاج سے زیادہ جگہ گھیر رکھی تھی۔
- شام کے بعد پینے کے ٹھنڈے پانی کی سبیلیں قائم کر دی گئیں۔
- اعتکاف شروع ہونے سے قبل معتکفین دربار غوثیہ پر حاضری دیتے رہے۔
- اعتکاف شروع ہوتے ہی مختلف ٹی وی چینلز کے نمائندوں نے شہر اعتکاف کی براہ راست کوریج شروع کر دی۔
- نماز تراویح سے قبل ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے شرکاء کو اعتکاف کا مکمل شیڈول بتایا۔
- نماز تراویح ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی۔
- شیخ الاسلام پونے بارہ بجے خطاب کے لئے سٹیج پر تشریف لائے۔
- شیخ الاسلام کا خطاب سوا چار بجے ختم ہوا۔
تبصرہ