شہر اعتکاف 2008ء : دوسرا دن (اعتکاف ڈائری)

شہر اعتکاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایم ایس پاکستانی
(معاون : محمد نواز شریف)

فہم دین، تزکیہ نفس، توبہ اور آنسوؤں کی بستی شہر اعتکاف میں 23 ستمبر 2008ء کی صبح دوسرے روز کا آغاز ہوا۔ نماز فجر کے بعد قاری ظہیر احمد کی تسبیحات میں یہاں ایک روح پرور اور وجد آمیز منظر نظر آنے لگا۔ فجر کے بعد معتکفین انفرادی ذکر اذکار میں مصروف ہو گئے۔ نماز اشراق کا وقت ہوا تو تمام معتکفین نماز ادا کرنے کے لیے ایک بار پھر مسجد میں چلے گئے۔

شہر اعتکاف کے دوسرے روز تیز دھوپ نے گزشتہ روز ہونے والی بارش کے پانی کو مکمل طور پر خشک کر دیا۔ دوپہر دو بجے نماز ظہر ادا کی گئی جس کے بعد مختلف حلقہ جات کا آغاز ہوا جس میں مفتی عبدالقییوم خان ہزاروی کے فقہی مسائل والے حلقہ کو مسجد کے صحن میں منعقد کیا گیا۔ نماز عصر کے بعد معتکفین کی بڑی تعداد انفرادی ذکر اذکار کے علاوہ اپنے حلقوں میں منعقدہ اجتماعی ذکر بھی کر رہی تھی۔

نماز عشاء کے بعد منہاج القرآن یوتھ لیگ کی طرف سے محفل نعت شروع ہوئی، جس کے پہلے حصہ کا آغاز قاری ظہیر احمد نے تلاوت قرآن پاک سے کیا جبکہ اختر حسین قریشی نے نعت خوانی کی۔ بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب فرمایا۔ خطاب کے بعد محفل نعت کا دوسرا سیشن ہوا، جس میں قاری نجم مصطفیٰ نے تلاوت کے بعد پوربی زبان میں نعت مبارکہ پڑھی۔ منہاج یوتھ لیگ کے ڈائریکٹر بلال مصطفوی اور منہاج القرآن انٹرنیشنل ابوظہبی کے ناظم محمد محسن کھوکھر نے کمپئرنگ کی۔ منہاج نعت کونسل، شکیل احمد طاہر، محمد شہزاد اور محمد افضل نوشاہی نے بھی نعت خوانی کا شرف حاصل کیا۔ اس دوران سامعین جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ دوسرے روز کا اختتام شب بیداری سے ہوا، جس کے فوری بعد معتکفین سحری کے لیے اپنے اپنے حلقوں میں چلے گئے۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "انسانی حقوق اور امن کا تصور" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اسلام میں دہشت گردی کا تصور بالکل نہیں ہے۔ آپ نے کہا آج جو لوگ بم دھماکوں یا کسی دوسرے طریقے میں دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ دنیا کا امن خراب کرنے والے دہشت گرد ہیں، جن کا خواہ مخواہ اسلام سے ناطہ جوڑا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ صرف اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مسلمان وہ ہیں جن کے عمل سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی محفوظ و مامون رہیں۔

آپ نے کہا کہ جو شخص انسانیت کا خون بہائے وہ مسلمان نہیں اور نہ اسلام کی تعلیمات ایسی دہشت گردی کی اجازت دیتی ہیں۔ آپ نے کہا دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے قتل اور تباہی کی اجازت نہیں دیتا۔ دہشت گرد لادین اور بےمذہب ہیں۔ بدقستمی سے آج نام نہاد سامراجی طاقتیں اسلام کے چہرے پر دہشت گردی کا لیبل تھوپ رہی ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس کی تعلیمات برداشت، تحمل، بردباری اور کلی امن کا درس دیتی ہیں۔

آپ نے سورہ النساء کی 36 نمبر آیہ کریمہ کا حوالہ دیا

وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO

اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔

آپ نے کہا کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنے والدین سے لے کر معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر اخلاق سے پیش آنے کا درس دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آپ نے حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ بیان کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ اس حدیث پاک کو ترمذی اور نسائی شریف میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کیا۔

مومن کی تعریف بتاتے ہوئے آپ نے کہا کہ مومن امن فراہم کرنے والا ہے یعنی مومن وہ ہے جس سے مسلمانوں کے ساتھ یہودی، عیسائی، نصرانی، کافر اور غیر مذاہب بھی محفوظ رہیں۔ آپ نے کہا کہ ایمان کی جڑ امن ہے۔ ایمان امن سے نکلا ہے۔ جس کے پاس امن نہیں ہے تو اس کے پاس ایمان نہیں ہے۔

اسلام میں صوفیاء کی تعلیمات بھی ہمیشہ امن سے معمور رہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام سب سے زیادہ صوفیاء کی تعلیمات تصوف و امن سے پھیلا۔ وہ تعلیمات کیا تھیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی مجلس میں بیک وقت مسلمان، ہندو اور سکھ سمیت دیگر مذاہب کے لاکھوں لوگ شرکت کرتے اور ان کا وعظ سنتے تھے۔ غور طلب مقام یہ ہے کہ آج کسی مولوی صاحب کی مجلس میں کتنے غیرمسلم شریک ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صوفیاء کرام نے امن کی تعلیمات عام کر کے انسانیت سے پیار کرنا سکھایا۔ انہوں نے انسانیت سے بھلائی اور محبت سکھائی، جس سے متاثر ہو کر ایک ایک مجلس میں کئی کئی لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔

یہ صوفیاء کرام کی تعلیمات و کرامات تھیں کہ اسلام اس انداز میں پھیلا کہ کوئی شخص اس قدر بڑی تعداد میں غیر مذاہب کو اپنی تعلیمات سے متاثر نہیں کر سکتا۔ آپ نے کہا کہ صوفیاء کرام کے پاس صرف نفرت کی کمی تھی۔ ان کے پاس پیار، وعظ، برکت، کرامت، علم، خوش اخلاقی اور امن کی تلواریں تھیں، جن کے ذریعے انہوں نے پیغام امن کو عام کر کے اسلام کا سب سے بڑا جہاد کیا۔ یہ سب پیغام امن تھا جو آج کے دور میں ناپید ہو رہا ہے۔

آج تحریک منہاج القرآن نے ایک بار پھر اس پیغام امن کا آغاز کیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن پرانی صدیوں کی تحریک ہے، جو اس دور میں بپا ہوئی ہے اور اس کا جام نیا ہے۔ ہم انہی صوفیاء کرام کی تعلیمات امن و محبت کو دنیا میں عام کر رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے لئے تحریک منہاج القرآن ہر سال شہر اعتکاف کی صورت میں دس روزہ تربیتی کیمپ منعقد کرتی ہے۔ یہاں دہشت گردی اور انتہاء پسندانہ نظریات کو کچلنے کے لئے صوفیاء کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو تحمل، برداشت اور بردباری کے علاوہ احسان، ایمان اور امن کا درس دیا جاتا ہے۔ یہ صوفیاء کرام کی تعلیمات کے اس تسلسل کی بحالی ہے جس کا ربط اس زمانہ میں ٹوٹ گیا تھا۔ اب تحریک منہاج القرآن اس ربط کو دوبارہ بحال کر کے دنیا میں پھر سے قیام امن کی کوششیں کر رہی ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ منہاج القرآن کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں۔ ہم دنیا میں قیام امن کے لئے دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل ہیں۔ منہاج القرآن کا پیغام امن اور سلامتی ہے۔

جھلکیاں

  1. دوسرے روز شہر اعتکاف کی مختلف راہدریوں میں دوبارہ سرخ قالین بچھا دیئے گئے۔
  2. نماز ظہر کے بعد تربیتی حلقہ جات میں معتکفین کی بھر پور شرکت رہی۔
  3. نماز عصر کے بعد یوتھ لیگ کے رضاکاروں نے بھی مسجد کے صحن میں امدادی کام میں حصہ لیا۔
  4. شیخ الاسلام نے مسجد کے صحن سے باہر آ کر امدادی کام کا خود جائزہ لیا۔
  5. نماز عشاء سے قبل مسجد کے صحن کے عقب میں وسیع پنڈال میں بھی سرخ قالین بچھا دیئے گئے جہاں معتکفین نے بڑی سکرین کے سامنے بیٹھ کر شیخ الاسلام کا خطاب سنا۔

  1. پنڈال اور مسجد میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے معتکفین نے دربار غوثیہ کی اعتکاف گاہوں کی چھت پر بیٹھ کر خطاب سنا۔
  2. بڑی سکرین کے دائیں طرف معتکفین کے لیے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی سبیلیں بھی لگائی گئیں۔
  3. شیخ الاسلام کا خطاب 12 بجے شروع ہوا اور تین بجے ختم ہو گیا۔

تبصرہ

Top