تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام آل پاکستان مشائخ کانفرنس

مورخہ: 03 مارچ 2009ء

تحریک منہاج القرآن کی آل پاکستان مشائخ کانفرنس 3 مارچ 2009ء کو مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں منعقد ہوئی۔ عظیم الشان کانفرنس میں ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے 300 سے زائد علماء و مشائخ عظام اور پیران کرام نے شرکت کی۔ اس پروگرام کو گوشہ درود کے ہال میں منعقد کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کی۔ پروگرام کا آغاز دوپہر 12 بجے تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد نعت خوانی بھی کی گئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مشائخ کانفرنس میں آمد کے بعد تمام معزز مہمانوں، پیران کرام اور علماء و مشائخ کو فرداً فرداً خود خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر آپ نے معزز مشائخ عظام کا کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لانے پر شکریہ بھی ادا کیا۔ پروگرام کے افتتاحی سیشن میں کانفرنس کی غرض و غایت بیان کی گئی۔ اس موقع پر منہاج القرآن علماء کونسل کی طرف سے صاحبزادہ فرحت حسین شاہ اور منہاج القرآن علماء کونسل کے دیگر مرکزی قائدین نے کانفرنس کے معزز علماء و مشائخ کو خوش آمدید کہا۔ کانفرنس میں تمام علماء و مشائخ نے مشترکہ طور پر اسلامی عقائد کے تحفظ، امت مسلمہ کی دینی و روحانی اقدار کی بحالی، تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات کی حفاظت و ترویج پر زور دیا۔ اس کے علاوہ تمام معزز مشائخ کرام نے انتہاء پسندانہ اور دہشت گردانہ رویوں کے تدارک کے لیے اس کانفرنس کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ مشائخ کرام نے متفقہ طور پر لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کی اور اسے پاکستان پر حملہ قرار دیا۔

کانفرنس کے دوسرے سیشن کا آغاز نماز ظہر کے بعد ہوا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ اسلام دین امن و سلامتی ہے۔ تنگ نظری، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن پرامن تحریک ہے اور اس مشائخ کانفرنس سے ہم منفی رویوں کی ہر سطح پر سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفیاء کرام نے محبت، امن اور سلامتی کے رویے عام کرکے اپنے کردار سے لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل دی اور مختلف معاشروں کو امن سے ہمکنار کیا۔ مشائخ اور پیران کرام معاشرے میں پر امن رویوں کے فروغ کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وطن عزیز بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ مشائخ کرام کا یہ بڑا اجتماع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک کے روحانی مراکز ملک میں امن و سلامتی چاہتے ہیں تحریک منہاج القرآن مشائخ کرام کی مشاورت اور رہنمائی سے ایسا تربیتی نظام تشکیل دے گی جس سے تصوف و روحانیت کی قدروں کو معاشرے میں جلا ملے گی اور پاکستان میں دائمی قیام امن میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں تمام علماء و مشائخ کی متفقہ رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ روحانی تربیت کیلئے ایک سال کا ایسا جامع نصاب مرتب کیا جائے گا۔ جس میں اخلاقی، علمی و روحانی خانقاہوں پر دروس قرآن و حدیث شامل ہوں گے۔ آپ نے کہا کہ اس کام کے معاشرے پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بدعات و خرافات کا خاتمہ کرکے حقیقی تصوف و روحانیت کی ترویج و اشاعت کی جائے گی۔ اس میں ملک بھر کے مشائخ عظام اور پیران کرام اپنا کردار ادا کریں گے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ اسلام کے عالم گیر فروغ و ترویج کے لیے معاشرے میں خواتین کی روحانی تعلیم اور تربیت بھی مردوں کی طرح بے حد ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشائخ کانفرنس اس امر پر بھی اتفاق کرتی ہے کہ اخلاقی لگاؤ کی درستگی کیلئے روحانی قدروں کو معاشرے میں فروغ دینا ہوگا اور اس کیلئے مشائخ عظام اور پیران کرام خانقاہی نظام کے فروغ اور ترویج کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مادیت کی دلدل میں دھنسے معاشرے کو روحانی خانوادے ہی درست راستے پر لاسکتے ہیں اور یہ مشائخ کانفرنس اس بات کی گواہ ہے کہ روحانی شخصیات اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ مشائخ کانفرنس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ معاشرے کو دینی، روحانی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے بھی آراستہ کیا جائے تاکہ مذہبی سکالرز اسلام کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔

کانفرنس کے اختتام پر تمام علماء کرام اور مشائخ عظام نے تحریک منہاج القرآن کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعلامیہ کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس کے لیے تمام شرکاء نے ہاتھ کھڑے کر کے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کانفرنس کا اختتام دعا سے ہوا۔ کانفرنس کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے نو تعمیر شدہ گوشہ درود کے بارے میں تفصیلی تعارف کرایا۔ اس موقع پر آپ نے معزز مشائخ عظام کے ساتھ گوشہ درود میں بھی گئے جبکہ معزز مہمانوں نے نو تعمیر شدہ بلڈنگ کے مختلف حصوں کو بھی دیکھا۔ کانفرنس کے بعد تحریک منہاج القران نے تمام معزز مہمانوں کے لیے پر تکلف ظہرانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ اس کے لیے ہال کی چھت پر ڈائنگ ٹیبل لگائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تمام شرکاء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والے معزز علماء و مشائخ

پاکپتن شریف سے دیوان بختیار سید محمد چشتی، بھیرہ شریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ، سجادہ نشین ڈھانگری شریف آزاد کشمیر پیر عتیق الرحمٰن، کوٹ مٹھن شریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ معین الدین محبوب کوریجہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ کامونکی شریف پیر سید خلیل الرحمن چشتی، پیر محی الدین محبوب، صاحبزادہ حبیب نواز، پیر غلام رضوانی جیلانی، پیر مخدوم ندیم ہاشمی، پیر منیر ذاکری، مخدوم ولی محمد، حاجی غلام رسول نقشبندی قادری سیفی، پیر فیض شاہد فیضی، مخدوم محمد احسن، غلام مجتبیٰ نوری، سید ضیاء الحق گیلانی سہروردی، خان ولی قادری، پیر غلام دستگیر توگیروی، بدر محی الدین گیلانی، پیر ثناء اللہ طیبی بخاری، صاحبزادہ پیر سید سجاد شاہ بخاری، پیر فیض الحسن شاہ سمیت 300 سے زائد دیگر معزز علماء و مشائخ عظام شامل تھے۔

مشائخ کانفرنس کا مشترکہ طور پر منظور کیا گیا اعلامیہ

1۔ پاکستان اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی ہرشکل کی بھرپور مذمت کی گئی اور اسلام کے محبت و امن پر مبنی پیغام کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لئے صوفیاء و مشائخ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

2۔ خانقاہی نظام کے احیاء اور سلاسل تصوف کے لئے ضابطہ اصلاح تیار کرنا۔

3۔ تصوف ریسرچ سنٹر کا قیام جس کا مقصد سلف صالحین اور اکابر صوفیاء پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا اور تعلیمات تصوف کو متقدمین صوفیاء کی آراء و افکار کی روشنی میں پیش کرنا ہو گا۔

4۔ مزارات اور خانقاہوں میں باقاعدہ دینی اداروں کا قیام اور جو ادارے تحریک منہاج القرآن سے منسلک ہوں وہاں صاحبزادگان اور پیرزادگان گرامی کیلئے خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔

5۔ خانقاہوں میں رائج منکرات و خرافات کے خاتمہ و اصلاح کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں بعض خواص اور با اثر مشائخ پر مشتمل نگران کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

6۔ علماء و مشائخ پر مشتمل رابطہ کمیٹی کا قیام جو مذکورہ بالا اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے اپنا فریضہ منصبی ادا کریں گے۔

7۔ جو مراکز اہل سنت انفرادی سطح پر تعلیم و تربیت کا بہتر اور مؤثر کام سرانجام دے رہے ہیں، انہیں اس اجتماعی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔

8۔ خانقاہی نظام کے احیاء و تجدید کیلئے ایسا جامع نصاب مرتب کرنا جس کی روشنی میں عرفاء و صلحاء کے نقش قدم پر چلنا آسان تر بنایا جا سکے۔

9۔ خانقاہوں، درگاہوں اور درباروں سے منسلک مصلحین اور خلفاء کی تعلیم و تربیت کے لئے ورکشاپس منعقد کی جائیں گی۔

10۔ علم و تحقیق کی حوالہ جاتی و مطالعاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معیاری لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

11۔ تمام سلاسل کے نظام سلوک کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حلقہ ہائے ذکر و درود کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

12۔ مزارات اور درباروں پر صوفیاء کرام کے طریقہ تبلیغ و اصلاح پر مبنی انداز میں دعوت و ارشاد کے کام کو فروغ دیا جائے گا، خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا اور خلق خدا کی داد رسی اور حاجت روائی کو ترجیحی بنیادوں پر اختیار کیا جائے گا۔

اس سے متعلقہ اخباری تراشے ملاحظہ کرنے کے لئے کلک کریں۔

اس سے متعلقہ فوٹو البم ملاحظہ کرنے کے لئے کلک کریں۔

تبصرہ

Top