منہاج یونیورسٹی میں جیو نیوز کے معروف صحافی افتخار احمد کا توسیعی لیکچر
منہاج یونیورسٹی لاہور کے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے زیراہتمام توسیعی لیکچر منعقد کیا گیا۔ جیو نیوز کے پروگرام جوابدہ کے میزبان اور معروف صحافی افتخار احمد نے طلبہ و طالبات اور تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے سٹاف کو "پاکستان، سازشیں، مسائل اور انکا حل" کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس پروگرام کو مرکزی سیکرٹریٹ کے دانش ہال میں مورخہ 5 مئی 2009ء کو منعقد کیا گیا۔ کالج آف شریعہ کے پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، وائس پرنسپل ڈاکٹر ظہور اللہ الازھری، ڈاکٹر علی اکبر قادری، ڈاکٹر مسعود احمد مجاہد (انچارج ایم فل)، میاں محمد عباس نقشبندی، کالج آف شریعہ کے معزز اساتذہ کرام اور مرکزی سیکرٹریٹ سے قائدین نے بھی شرکت کی۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز کالج آف شریعہ کے قاری سید خالد حمید کاظمی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت قاری عنصر علی قادری نے حاصل کی۔
کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔ انہوں نے افتخار احمد کو منہاج یونیورسٹی اور تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تشریف لانے پر خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ معروف صحافی افتخار احمد کی علمی و صحافتی خدمات ملک و قوم کے لیے قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے تواس وقت سے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ قومیت کے نظریہ کو اندرونی اور بیرونی طاقتوں کے ذریعے سے تارتار کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا تحریک منہاج القرآن نے 30 سال قبل جن مقاصد کا آغاز کیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ نوجوان نسل کو آگہی دی جائے تاکہ وہ اپنے نظریہ کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ ایسے حالات میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ملک میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے سکیں۔
معروف صحافی افتخار احمد نے اپنے لیکچر میں کہا کہ ہمارے ہاں بہت سے ریسرچ سکالرز موجود ہیں اور وہ بیرون ممالک جا کر باقاعدہ طور پر لیکچر دیتے ہیں لیکن وہ خود پاکستان کو مسائل سے نکال نہیں سکتے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے پاکستان کو حاصل کیا تو اس وقت 10 لا کھ لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے۔ پاکستان کا بحران یہ ہے کہ ہم اسکو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہر کوئی مختلف برادریوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس وسائل عوام کے لیے ہوتے ہیں لیکن اس پر چند مخصوص لوگ قابض آجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ایسی قیادت کو منتخب کیا ہے جو ا س کے بارے میں ہر بات کو ان سنی کر دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کوئی بھی جمہوری عمل کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ 1973ء کے آئین میں یہ درج ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کو نافذ العمل کیا جائے گا لیکن ہمارے ہاں الیکشن کا انداز یہ ہے کہ بیلٹ بکس کو اٹھایا جاتا ہے اور دھاندلی سے ملک میں ہمارے حکمران منتخب ہو جاتے ہیں۔
افتخار احمد نے کہا کہ دور حاضر میں ہر روز امریکہ کے اخبارات میں یہ شہ سرخی ہوتی ہے کہ پاکستان تباہ ہو گیا لیکن میرا یقین کامل ہے کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو احکام خداوندی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنا لازم ہے لیکن کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں ہیں جو اپنی مرضی اور اپنے دفاع کی خاطر قرآنی آیات کو نکال لیتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک صوفی محمد بھی ہیں، جو نہ تو آئین کو مانتا ہے اور کسی سے مشاورت کرنےکو تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں تقریباً ساڑھے 6 کروڑ خواتین اور نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے اور نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک میں انقلاب یعنی تبدیلی پیدا کریں۔ نوجوان اپنے حق رائے دہی سے ملک میں اہل قیادت کو منتخب کریں۔ اگر آپ اپنے ووٹ سے نا اہل لوگوں سے اختیارات چھین لیں تو پھر آپ پر کوئی صوفی محمد، طالبان اور نام نہاد شدت پسند قوتیں مسلط نہیں ہوں گی۔ دوسری صورت میں اگر ملک میں صوفی محمد، طالبان اور شدت پسند لوگ حکمران بن گئے تو پھر ملک دو لخت ہو جائے گا۔
لیکچر کے بعد معروف صحافی افتخار احمد نے حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ملک میں محب وطن لوگ موجود ہیں تو اس وقت پاکستان کو کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
اس کے ساتھ اس ملک میں اللہ کے نیک لوگ، صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔ اس وجہ سے ملک کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا اور اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق ہماری کمزوری ہے کہ ڈراؤن حملوں کو ہٹانے کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ میں پارٹی کا قیام عمل میں لایا تو اس وقت اس سے کسی امریکی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی پارٹی میں کوئی اہم شخصیت نظر نہیں آتی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں اس نے کہا ہماری پارٹی لوگوں کو اہم بنائے گی۔ افتخار احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1970ء کے بعد سیاست دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک نظریاتی اور دوسری علاقائی جس کی وجہ سے پاکستان مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ کیونکہ علاقائی سیاست کی وجہ سے اہلیت رکھنے والوں کو اقتدار نہیں ملتا بلکہ ان لوگوں کو ہاتھ میں آ جاتا ہے جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔ یہ وجہ ہےکہ ہمارے ہاں ملکی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت قیادت کا بحران ہے۔ اگر ملک میں قیادت کا بحران ختم ہو جائے تو پھر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
افتخار احمد نے کہا کہ میرا یقین کامل ہے کہ ملک میں انقلاب گولی سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ووٹ سے آئے گا۔ اسی طرح انقلاب برپا ہو گا کہ جب نوجوان نسل اپنے ووٹ بنائے گی اور پھر الیکشن کے ذریعے سے وہ اچھی قیادت کو منظر عام پر لائےگئی۔ جس کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ جیو نیوز کے معروف اینکر افتخار احمد نے کہا کہ اس ملک میں عورت کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اسلام نے بھی عورت کو آزادی کے سا تھ زندگی بسر کرنے کی اجازت دی ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں جو عورت کو چاردیواری کے اندر رہنے پر پابند کریں۔ اسلام ایک ہمہ گیر دین ہے۔ آج اگر ہمارے تمام ادارے صحیح کام کرنا شروع کر دیں تو ملک کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔
آخر میں افتخار احمد نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل صر ف اور صرف 1973ء کے آئین میں موجود ہے۔ اگر ملک میں یہ نافذ ہو جائے تو اس سے ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
پروگرام کے اختتام پر پرنسپل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کلمات تشکر ادا کیے اور کہا کہ اگر ملک میں نوجوان نسل ایک دن اپنے ووٹ کا درست استعمال کرے تو ملک کو اچھی قیادت میسر آئے گی اور ملک بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ پروگرام کی نقابت کے فرائض محمد وقاص قادری نے سرانجام دیئے۔
پروگرام کے بعد ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے معزز مہمان سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ افتخار احمد کو مرکزی سیکرٹریٹ کے مختلف شعبہ جات کا وزٹ بھی کرایا گیا۔ آخر میں ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے معزز مہمان کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مختلف کتب اور عرفان القرآن کا تحفہ بھی پیش کیا۔
رپورٹ: محمد نواز شر یف
تبصرہ