شہر اعتکاف 2012 ( دوسرادن)

مورخہ: 11 اگست 2012ء

شہر اعتکاف میں 11 اگست 2012ء (22 رمضان المبارک) کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز فجر کے بعد معتکفین سے خطاب کیا۔ لندن، برطانیہ سے ہونے والا آپ کا یہ خطاب بذریعہ ویڈیو کانفرنس شہر اعتکاف میں دکھایا گیا۔ جسے منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ نیت کے موضوع پر یہ آپ کا دوسرا خطاب تھا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ انسان کی اصلاح نیت سے شروع ہوتی ہے۔ آج جس تیز رفتاری سے معصیت، گناہ اور کفر بڑھ رہا ہے تو اس سے تیز تر اور زیادہ جدوجہد سے آپ کو جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایمان محض عقیدت اور محبت سے نہیں بچتا۔ آپ نے کہا کہ دنیا بھر میں میرے عقیدت مندوں کی کمی نہیں لیکن میں محض عقیدت میں نہیں الجھانا چاہتا۔ آپ خواہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے عقیدت رکھیں، خواہ داتا گنج بخش علی ہجویری سے، خواہ بابا فریدالدین گنج شکر سے، جتنے بھی اولیاء سے عقیدت رکھیں، محض خالی عقیدت اور محبت آپ کے عقیدے کی حفاظت نہیں کر سکتی، جب تک اپنے شیخ کے شب و روز کے معمولات کو اپنایا نہ جائے۔ آج بدقسمتی سے مسلک اہلسنت میں ایسے رہنماؤں کی کمی نہیں، جو محض اپنی عقیدت سے اپنے متوسلین کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔

جمیع اولیاء و صالحین اور آئمہ و صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تک، جن سے لوگوں کو ہدایات ملیں اور جنہوں نے مخلوق کو گمراہی سے نکال کر روشنی دی، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جو میرا دامن تھام لے، اس کا بیڑا پار ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ میں یہ بات چیلنج سے کہہ رہا ہوں کہ مسلک اہل سنت میں یہ شر اور فتنہ داخل ہو گیا ہے۔ ہمارے مسلک میں یہ انتہاء پسندی ہے کہ اندھی عقیدت کریں تو بیڑا پار ہے۔ شریعت محمدی کا دامن تھامیں نہ تھامیں، آپ کا بیڑا پار ہے۔ کیونکہ آپ ہمیں نذرانے دیتے ہیں، آپ ہماری ٹانگیں دباتے ہیں۔ اولیاء صالحین میں سے کسی کی بھی ایسی تعلیمات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اولیاء طریقت کے خلاف یہ گمراہی پھیلائی جا رہی ہے۔ نئی نسل کو گمراہی کی طرف لایا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والوں کا مواخذہ اور گرفت ہوگی۔ پورا قرآن اور زبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بول رہی ہے۔

اہلسنت کے لوگو! ایسے لوگوں سے بچو۔ یہ سب تصوف کے خلاف ہے۔ آج سے 12 صدیاں پہلے جب صلحاء فرماتے کہ آؤ آپ کو اللہ والوں کی باتیں سنائیں تو سننے والے پوچھتے کہ پہلے یہ بتاؤ کہ کن کی بات بتانا چاہتے ہو، جو چلے گئے یا جو حیات ہیں۔ اگر ان کو جواب ملتا کہ جو زندہ ہیں ان کی بات سناتے ہیں، تو سننے والے ان کی بات کو سننے سے انکار کر دیتے اور کہتے کہ اگر کوئی بات سنانی ہے تو ان کی بات سناؤ جو قبروں میں جا چکے ہیں۔

اگر تصوف، معرفت اور طریقت سیکھنا ہے تو گزرے ہووں کے احوال سے سیکھو۔ یہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)، تابعین اور کل سلف صلحاء کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، حضرت بہاؤالدین زکریا، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت سلطان باہو، شاہ سلیمان تونسوی اور حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہم کا تصوف گزرے ہووں کے احوال اور اخلاص فی النیہ ہے۔ نیتوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کی کسی گرد کا نہ رہنا۔ انہوں نے کہا کہ جو کتاب وسنت کی تعلیمات کے بغیر تصوف کی تعلیم دیتا ہے، وہ نہ پیر ہے اور نہ رہبر بلکہ شیطان ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ کسی نے طریقت کا سفر بارے جاننا ہے تو بشر الحافی سے سیکھے، جن کا حیاء جانور بھی کرتے تھے۔ لیکن آج کے رہبر اور پیران کرام (الا ماشاء اللہ) مریدوں کی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیر وہ ہوتے ہیں جو خود منگتا بن کر نہیں پھرتے بلکہ مرید ان کی تلاش کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کل تصوف کے نام پر میڈیا میں بھی ایک ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ اب ٹی وی پر دم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب سفلی عملیات ہیں۔ یہ لوگوں کی جہالت اور پاگل پن کا تماشہ ہے۔ تصوف میں سفلی عملیات کا کوئی عمل دخل نہیں۔

تبصرہ

Top