ادب اور اخلاق دین کی روح ہے: شہر اعتکاف میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب

مورخہ: 18 جون 2017ء

شہراعتکاف۔تیسرا دن۔ خطاب شیخ الاسلام

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 18 جون 2017ء کی شب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’اخلاق حسنہ‘‘ کے سلسلہ وار موضوع پر خطاب کیا۔ آپ کا خطاب شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین و معتکفات نے براہ راست سنا۔ پاک نیوز اور منہاج ٹی وی کے آپ کا خطاب براہ راست پیش کیا گیا۔

ادب اور اخلاق

ادب اور اخلاق دین کی روح ہے۔ علم کتاب سے آتا ہے لیکن ادب اور اخلاق اللہ والوں کو دیکھنے سے آ جاتا ہے۔ اللہ والوں کی مجلس میں بیٹھنے سے اخلاق اور ادب کے راز کھل جاتے ہیں۔ ادب اور اخلاق آ جائے تو علم کا چشمہ کھل جاتا ہے۔ ادب و اخلاق کے بغیر علم کا دروازہ نہیں کھلتا۔ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ حصول علم میں جس نے علم اور ادب کو چھوڑ دیا تو اس کو دھکے دے دیئے جاتے ہیں۔

جلیل القدر تابعی امام ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جو اگلے لوگ تھے، وہ اچھے لوگ تھے، (یعنی صحابہ کرام)۔ ابن سیرین کا یہ قول ادب و اخلاق کا حسین آئینہ دار ہے۔ اسی طرح امام حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اگر ساری عمر بھی اخلاق سیکھنے میں لگ جائے تو یہ خسارے کا سودا نہیں۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ کشف پوچھا کہ بایزید بتا کیا چاہتا ہے کہ تو بایزید نے جواب دیا کہ باری تعالی میں چاہتا ہوں کہ جو تو چاہتا ہے، اس کے سوا کچھ نہ چاہوں۔ بایزید نے جب اپنے چاہنے کی نفی کر دی تو ان کی منزل واضح ہو گئی۔

علم اور ادب

علم جاننا ہے لیکن اس کا استعمال ادب میں ہے۔ جو علم قرآن اور حدیث سے حاصل ہوا تو اس علم کو استعمال کیسے کرنا ہے، یہ ادب سکھاتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ایک حرف ادب اور اخلاق کا سبق سنتا ہوں تو میرے اندر تڑپ پیدا ہو جاتی ہے۔ جس طرح ماں اپنے گمشدہ بیٹے کے لیے تڑپتی ہے۔ بندہ اپنی عبادت کے ذریعے جنت تک پہنچ سکتا ہے لیکن اللہ کو نہیں پا سکتا۔ اللہ کی معرفت حاصل کرنی ہے تو ادب اور اخلاق کے جلووں میں اللہ والوں سے لو لگانی ہوگی۔

ولی اور مخلوق

ولی کے لیے مخلوق کی جفا کو قبول کرنا ہی اعلیٰ خلق ہے۔ اگر زوایہ نگاہ یہ پیدا ہو جائے کہ کسی دوسرے کی تکلیف دہ چیز بھی خود کو بھاری نہ لگے تو جس کو اپنے غم زیادہ ہوں، وہ کبھی اچھے اخلاق والا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے کی فکر وہ کرے گا، جسے اس کا درد ہوگا۔ اس کی بھلائی کی فکر ہو گی۔

تصوف اور اخلاق

اولیاء و صوفیاء نے کہا کہ سارا تصوف اخلاق کا نام ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم کے شاگرد نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دنیا کی زندگی میں کسی دن خوش بھی ہوئے۔ فرمایا کہ دو دن ایسے آئے کہ بہت خوش ہوا۔ ایک دن جب کسی نے ایک پلید چیز میرے جسم پر ڈال دی اور سارے کپڑے اتار کے دھونے پڑے۔ دوسری دفعہ جب ایک شخص آیا اور اس نے مجھے بلاوجہ تھپڑ رسید کر دیا۔

امام نیشاپوری کو کسی نے کھانے کی دعوت دی اور جب آپ کھانے کی دعوت پر گئے تو اس نے کہا کہ مجھے آپ کو دعوت دے کر بہت شرمندگی ہوئی، آپ کو دعوت نہیں دینی چاہیے تھی اور گھر سے نکال دیا۔ اس طرح اس بندے نے چار، پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔

مومن کون

مومن کی دو نشانیاں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کنجوس نہیں ہوتا اور مومن بداخلاق نہیں ہو سکتا۔ سخاوت اور کنجوسی مال سے نہیں بلکہ یہ حال سے ہے۔ جسے کنجوس دیکھو، اس کے مال میں کمی نہیں بکہ اس کے ایمان میں کمی ہے۔ دل سخی نہ ہو تو بندہ کسی کو کچھ دے نہیں سکتا۔

جس کا دل سخی ہو تو اپنا لقمہ بھی اٹھا کر دوسروں کو دے دیتا ہے۔ مولا علی شیر خدا اور سیدہ فاطمۃ الزاھرا سلام اللہ علیھا قرض لے کر روزہ رکھتے۔ ایک دن یتیم آتا ہے، اپنا سارا کھانا اٹھا کر اس کو دے دیتے ہیں، خود پانی سے افطار کر لیتے ہیں۔ دوسرے دن مسکین آتا اور تیسرے دن ایک قیدی آتا ہے، اپنا کھانا اٹھا کر انہیں دے دیتے ہیں اور خود پانی سے روزہ افطار کرتے ہیں۔

تجدید دین

اخلاق، ادب اور تصوف کے باب میں دینی اقدار کو ان کی روح کے مطابق ازسر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دین تو قیامت تک موجود ہے لیکن دین کی تجدید کا کام ہر صدی میں اللہ تعالیٰ کسی کو سونپ دے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سو سال کے بعد دین کی تجدید ہوگی۔

دین میں تجدید اس لیے ہوتی ہے کہ زمانوں کے گزرنے سے انسانی حالات و احوال میں جو تبدیلیاں آتی ہیں۔ وقت کے تقاضوں اور تغیرات کے پیش نظر حفاظت دین تجدید سے ممکن ہوتی ہے۔ تجدید کے ذریعے مجدد دین کی اصل کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ حالات اور معاشرے کے تغیرات دین کے چہرے پر جو گرد ڈالتے ہیں، اسے تجدید دین سے اجلا کیا جاتا ہے۔ آج جن لوگوں کو اللہ تجدید دین کی توفیق دے تو انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ نئے زمانہ میں چلتا ہوں اور ساتھ آپ کو پرانے اور اگلے زمانوں میں بھی لے جاتا ہوں کیونکہ نور اگلے زمانوں میں تھا۔

تبصرہ

Top