ایک میٹھا بول صدقہ سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مورخہ: 19 جون 2017ء

فہم دین، تذکیہ نفس، اصلاح احوال توبہ اور آنسووں کی بستی شہراعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 23 رمضان المبارک 19 جون 2017ء کو ہزاروں معتکفین و معتکفات سے خطاب کیا۔ ’’اخلاق حسنہ‘‘ کے سلسلہ وار لیکچر سیریز میں ’’ادب الکلام‘‘ کے موضوع ’’طیب اکلام‘‘ پر آپ نے گفتگو کی۔ پاک نیوز اور منہاج ٹی وی نے آپ کا خطاب براہ راست نشر کیا۔

قولوا للناس حسنا

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو ساتھ ہی اس کو بولنا بھی سکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم فرمایا کہ ’’قولوا للناس حسنا‘‘ لوگوں سے اچھے انداز میں بات کرو۔ اللہ تعالیٰ یہ فرمان بھی اسی طرح ہے جیسے اس نے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم دیا۔ ایک میٹھا بول صدقہ سے بہتر ہے، کسی کو معاف کردینا احسان کر دینے سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ دوسروں کو معاف کر دینا اور نرمی کا معاملہ ہم دوسروں کے ساتھ بہت ہی کم کرتے ہیں۔ انسان کا بیان اس وقت سحر انگیز ہوگا جب اس میں رحمت جھلکے گی۔ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخاطب کرکے فرمایا کہ اے محبوب اگر آپ سخت دل ہوتے تو پروانوں کا جھرمٹ آپ کے اردگرد نہ ہوتا۔

جنت کی خوشخبری

زندگی میں پانچ لاکھ سے زائد احادیث نظر سے گزریں، لیکن زندگی میں ایک بھی ایسی حدیث نہیں پڑھی کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ فرض عبادات کے بارے فرمایا ہو کہ جنت واجب کردے گی۔ تاہم آقا علیہ السلام نے اخلاق حسنہ، سلامتی، محبت اور بھوکوں کو کھانا کھلانے پر جنت کے واجب ہونے کی خوشخبری دی۔ کسی کو کچھ دینے سے آپ کا رزق کم نہیں ہوتا۔ دلوں کا سخی ہوجانا اور من کی کنجوسی ختم ہو جائے تو طبعیت میں سخاوت آتی ہے۔

حج مبرور

حدیث میں کہ مقبول حج ’’حج مبرور‘‘ ہے۔ یعنی وہ حج جو نیکی قرار پاجائے، جس سے جنت واجب ہوجائے، صحابہ نے پوچھا کہ مبرور حج کی شرط کیا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ حج مبرور ہونے کا سبب حج کے دنوں میں یا آگے پیچھے بندہ لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور میٹھی زبان سے بات کرتا رہا تو اس کا حج مبرور ہوگیا۔ ورنہ حج بھی کر لے تو اس کے مقبول ہونے کی شرط نہیں۔

وادی سینا

وادی سینا میں جب اللہ رب العزت نے اپنے نور کو ظاہر کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو بلا کر فرعون کی طرف بھیجا تو اللہ نے حکم دیا کہ فرعون سے بات کرتے ہوئے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے میرا پیغام پہنچانا۔ کہیں زبان کی سختی کی وجہ سے سے وہ میرے پیغام سے بھاگ نہ جائے۔ اگر زبان سخت ہو تو اللہ کا پیغام بھی اثر نہیں کرے گا۔ داعی اور مبلغین کے لیے زبان کی نرمی والی حکمت کو سامنے رکھنا ہوگا۔

جنت

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں کئی حجرے اور محلات ایسے ہیں۔ جہاں ان کی دیواریں اتنی خوبصورت اور نفیس ہیں کہ اندر سے باہر آتا ہے اور باہر سے اندر نظر آتا ہے۔ جنت میں جتنے لوگ ہوں گے، وہاں سب ایک دوسرے کے حال سے واقف ہوں گے، وہاں کوئی پرائیویسی نہیں ہوگی کیونکہ وہاں کوئی عمل الگ اور علیحدگی والا ہو گا ہی نہیں۔ جنت میں شرم، حجاب، غم اور دکھ کا وجود نہیں ہوگا۔ جنت کا سیٹ اپ ایسا ہے کہ وہاں کوئی ’’اپ سیٹ‘‘ نہیں ہوتا۔ جنت وہ جگہ جہاں رنج اور خوف نہیں ہوگا۔ وہاں سب کے اخلاق اعلیٰ ترین ہوں گے۔

عالم مثال

عالم دنیا اور عالم ارواح کے درمیان ایک عالم مثال بھی ہے، جہاں شکلیں دنیا کی ہوں گی لیکن فہم و فراست اور ارواح آخرت کی ہیں۔ وہاں لوگ اتنی نرم اور مٹھاس والی گفتگو کرتے ہوں گے جس سے کسی کا دل نہیں دکھے گا۔

غیبت اور چغلی

روزمرۃ زندگی میں ہم غیبت اور چغلی کرتے ہیں اور دل کو تسلی دے کر کہتے ہیں کہ میں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت بیان کرنا ہی تو غیبت ہے۔ اگر وہ حقیقت نہ ہو تو پھر وہ کذب ہوا۔ یہ کوئی عذر نہیں بلکہ غیبت مردہ بھائی کی لاش سے گوشت نوچنا ہے۔ ہم چغلی، غیبت اور برائی کر کے کہتے ہیں کہ تاکہ لوگوں کو اس بات کا پتہ چل جائے۔ آپ کون ہوتے ہیں لوگوں کو بتانے والے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جس شخص کو کسی کا عیب معلوم ہو جائے اور اس پر وہ پردہ ڈال دے تو قیامت کے دن میں اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دوں گا۔ جس کو قیامت کے دن پردہ پوشی مل گئی تو اس کو اور کیا چاہیے۔

حکمران

حکمران اگر عوام کا مال کھاتا ہے تو وہ ’’اولی الامر‘‘ نہیں بلکہ چور اور ڈاکو ہے۔ایسا حکمران حرام غور ہے۔ ایسے خائن حکمران کی لوٹ مار، کرپشن اور کارناموں کو ننگا کرنا اللہ کا حکم ہے۔

اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo

تبصرہ

Top