ہر فرد پیس ایجنٹ بنے، منہاج یونیورسٹی کی عالمی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

ڈاکٹر حسین محی الدین نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا، مقررین و شرکاء نے متفقہ منظوری دی
امن کیلئے رومی کو پڑھا جائے، دنیا کی 6 عظیم تہذیبوں میں سے تین پاکستان میں ہیں
انتہا پسندی کے خاتمے میں مذہب، استاد، حکومت اور سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے
آخری روز سنگا پور کے انسداد دہشتگردی ایکسپرٹ ڈاکٹر روہن نے اہم تجاویز دیں

منہاج یونیورسٹی لاہور کے زیراہتمام منعقدہ دو روزہ ’’عالمی امن میں مذاہب کا کردار کانفرنس‘‘ کے دوسرے اور آخری روز مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے دہشتگردی کی ہر شکل کی مذمت کی گئی اور عالمی امن کے فروغ کیلئے بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت پر زور دیا گیا، اعلامیہ میں کہا گیا کہ سوسائٹی کا ہر فرد پیس ایجنٹ کا کردار ادا کرے، اعلامیہ میں مذہب کے نام پر دہشتگردی کا واویلا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی، دنیا کا کوئی مذہب دہشتگردی کی تعلیم نہیں دیتا، مشترکہ اعلامیہ منہاج یونیورسٹی لاہور کے وائس چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین نے پڑھ کر سنایا، ڈاکٹر حسین محی الدین نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا، پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے ڈی جی اکیڈمک ڈاکٹر شاہد سرویا شریک ہوئے۔

دوسرے اور آخری روز سنگا پور سے آئے ہوئے سکالر ڈاکٹر روہن جو دہشتگردی کے امور کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک ایکسپرٹ کے طور جانے جاتے ہیں نے اپنے مقالہ میں کہا کہ دنیا کی مانی ہوئی 6 تہذیبوں میں سے 3 پاکستان میں ہیں، جن میں موہنجو داڑو، ہڑپہ، گندھارا شامل ہیں، یہ خطہ تو امن پسند لوگوں کا مرکز رہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرا آج بھی یقین ہے کہ امن پسند ی کا ڈی این اے اسی خطے میں ہے، انہوں نے انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نجات کیلئے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مذہب کا سب سے پہلا کردار ہے کہ اس کی درست تعلیمات اس کے سادہ لوح پیروکاروں تک پہنچائی جائیں تاکہ کوئی انہیں مخصوص مقاصد کیلئے گمراہ نہ کر سکے۔ دوسرے نمبر پر استاد کا کردار ہے جو بچوں کو انتہائی رویوں سے خبردار کر سکتا ہے، تیسرا نمبر حکومت کا ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ گڈ گورننس کے ذریعے سیاسی، معاشی، سماجی تحفظ فراہم کرے، چوتھا نمبر سیاسی جماعتوں کا ہے وہ سوسائٹی کو تقسیم سے بچائیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفی ازم، ثقافتی رویوں اور سپورٹس کے ذریعے سوسائٹی کو انتہائی رویوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ جیلوں میں بند سزا یافتہ قیدیوں سے نفرت بھرا سلوک نہ کیا جائے، انکی بحالی کے پالان بنائے جائیں، انہیں سوسائٹی سے مت کاٹا جائے، کسی کے جسم کو قید کرنے سے آپ اس کے ذہن کو جرم سے خالی نہیں کر سکتے، حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے مل کر جیلوں میں ریفارمز لائے، دہشتگردی اور سنگین جرم کے قیدیوں کو فکری اعتبار سے جرم سے نفرت کرنیوالا بنایا جائے، جیلوں میں علمائے کرام کو جانا چاہیے، سیاستدانوں کو جانا چاہیے، قیدیوں کو انکے نانا، نانی، دادا، دادای اور دیگر رشتے داروں سے ملوایا جائے، جب دادی جیل میں بند نواسے سے پوچھے گی کہ میں نے تو خواب دیکھا تھا کہ تم بڑے آدمی بنوگے لیکن تم کہاں آ گئے؟ یہ پیغام اسکے اندر تبدیلی لائے گا۔ دہشتگردی اور سنگین جرائم آپریشن سے یا دروازے توڑنے سے اور فائرنگ یا نفرت کرنے سے ختم نہیں ہو گی۔

ڈاکٹر روہن سے ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ ہم منفی انتہائی رویوں سے چھٹکارا کیسے حاصل کر سکتے ہیں، ڈاکٹر روہن نے کہا کہ مولانا رومی کی تعلیمات کا مطالعہ کریں، میرا فیورٹ رومی ہے۔ کانفرنس سے ڈاکٹر اسلم غوری، ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان، فادر جیمز چنن، صابر نازسروا بوما، ڈاکٹر ہرمن، ڈاکٹر آغس یوسوف، ڈاکٹر آندرے رل، ڈاکٹر سفیانو نے خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض میڈم ثمرین نے انجام دئیے۔ کانفرنس کے اختتام پر منہاج یونیورسٹی کی طرف سے بین الاقوامی سکالرز کو یادگاری شیلڈز دی گئیں۔ معزز مہمانوں نے منہاج القرآن اور منہاج یونیورسٹی کی علم اور امن کیلئے خدمات کو سراہا۔

تبصرہ

Top