سربراہ عوامی تحریک کی ہنگامی پریس کانفرنس: سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو گرفتار کیا جائے

سربراہ عوامی تحریک کی عہدیداروں کو 24 گھنٹے کنٹینر تیار رکھنے کی ہدایت، کارکنوں کو بھی تیار رہنے کا حکم
جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کر دیا گیا، سرکاری رپورٹ مظلوموں کو سزائیں دلوانے کیلئے کافی ہے

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو گرفتار کیا جائے۔ نوازشریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور دیگر ملزمان جنہیں استغاثہ میں طلب نہیں کیا گیا انہیں طلب کیا جائے اور گرفتار کیا جائے، پھر ان کی ضمانتیں لینا یا نہ لینا عدالتوں کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ نواز شریف، شہباز شریف نے بنایا، عمل رانا ثناء اللہ نے کروایا انتظامیہ معاون تھی۔ بیریئر ہٹانا محض عنوان تھا اصل ایجنڈا میری وطن واپسی کو روکنا اور احتجاج کے آئینی حق کو کچلنا تھا۔ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دیا پولیس نے وہی کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا، انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے تمام ذمہ داران حقائق چھپانے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم ثابت نہیں ہو سکا۔ انہوں نے اپنی 17 جون 2014 ء کی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ رانا ثناء اللہ اور ہوم سیکرٹری نے بھی اپنے بیان حلفی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ حکم ثابت ہو سکا۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے لکھا کہ افراد جھوٹ بولتے ہیں مگر حالات اور واقعات نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوامی تحریک کے ذمہ داران سے کہا میرا کنٹینر 24 گھنٹے تیار رکھیں اس میں مظلوموں کی مدد کا بہت سارا سامان ہے۔ کارکن بھی تیار رہیں، کسی وقت بھی نکلنے کی کال دے سکتا ہوں۔

اس موقع پر عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی، جواد حامد، ساجد بھٹی، نعیم الدین چودھری، راجہ زاہد و دیگر رہنما شریک تھے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میں نے عمرہ پر جانا تھا عمرہ ایک نفلی عمل ہے مظلوموں کیلئے انصاف کی جدوجہد کرنا فرض ہے۔ حتمی لائحہ عمل کیلئے عوامی تحریک کی سنٹرل کورکمیٹی کا جمعرات کو اجلاس بلا لیا ہے جس میں وکلاء بھی شریک ہونگے۔ عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرینگے۔ انصاف کے راستے میں رکاوٹ محسوس ہوئی تو دھرنے کی کال بھی دینگے۔ مصدقہ کاپی مل گئی جسٹس باقر نجفی کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرینگے اور ایک بار پھر موازنہ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ میری پی ایچ ڈی کریمنالوجی پر ہے، ساری عمر لاء پڑھایا۔ قانون اور جرم کے فلسفے کو سمجھتا ہوں۔ پنجاب حکومت نے عدالت کے حکم پر جو رپورٹ جاری کی ہے وہ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو مجرم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔

رپورٹ کے نامکمل ہونے کا پروپیگنڈا دھوکا دہی پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں جگہ جگہ ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے۔ جسٹس باقر نجفی نے کمیشن کی کارروائی کا آغاز کرتے وقت پنجاب حکومت کو انکوائری ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت خط لکھا تھا کہ مجھے ذمہ داروں کے تعین کے اختیارات دئیے جائیں جو شہباز شریف کے حکم پر نہیں دئیے گئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ رپورٹ میں یہ رقم ہے کہ بیریئر عدالت کے حکم پر لگے تھے اور 16 جون 2014 ء کی میٹنگ کا ایجنڈا ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی تھا اور اس میٹنگ میں شریک سب جانتے تھے کہ بیریئر عدالت کے حکم پر لگے تھے۔ انہوں نے کہا کہ باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کا صفحہ 66 اور 67 انتہائی اہم ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے لکھا کہ پولیس کی نفری اور غیر مسلح کارکنوں کے درمیان کوئی توازن، تناسب نظر نہیں آتا، یعنی اگر یہ آپریشن بیریئر ہٹانے کا تھا تو پولیس کی اتنی بھاری مسلح نفری کی پھر بھی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق گولی چلانے کا حکم کم از کم اے ایس پی، ڈی ایس پی یا ایس پی کی سطح کا افسر دیتا ہے مگر کمیشن میں پیش ہونے والے تمام ذمہ داران سے سوال کیا گیا کہ گولی چلانے کا کس نے حکم دیا سب خاموش رہے اور حقائق کو چھپاتے رہے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ طے شدہ سمجھوتا تھا کہ کوئی کمیشن کو معلومات فراہم نہ کرے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کے صفحہ 68 پر لکھا ہے حالات بتاتے ہیں کہ پیچھے کوئی آرڈر دینے والا تھا جس کی تعمیل کے سب پابند تھے۔ انہیں یہ ٹاسک دے کر بھیجا گیا تھا کہ ہر حال میں مقصد حاصل کرنا ہے چاہے کتنی ہی لاشیں کیوں نہ گرانی پڑیں۔ سچ کو دفن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

کمیشن نے یہ بھی لکھا کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے ذمہ داران بتانے کی کوشش کرتے رہے حالات اس کے برعکس ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ کمیشن نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آئی جی مشتاق سکھیرا کو کن وجوہات کی بنا پر ہنگامی طور پر تعینات کیا گیا اور ڈی سی او لاہور کو ٹرانسفر کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے جھوٹا بیان حلفی دیا کہ مجھے ٹی وی کے ذریعے 17 جون 2014 ء صبح ساڑھے نو بجے علم ہوا حالانکہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ 16 جون کی میٹنگ میں شریک تھے اور انہوں نے شہباز شریف کا پیغام اور ارادہ شرکاء تک پہنچایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بیریئر پولیس کی نگرانی میں لگے اور پولیس ان بیریئر کی حفاظت بھی کرتی رہی اور تین سال میں کسی ایک شہری کی طرف سے ان بیریئر کی وجہ سے کوئی شکایت ریکارڈ پر نہیں آئی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی طرف سے یہ کہنا کہ سابق آئی جی خان بیگ کو بدلنے جانے کی وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔ ان پر نااہلی یا کوئی اور محکمانہ کوتاہی کا الزام نہ تھا۔ جسٹس باقر نجفی نے صفحہ 69 پر لکھا حقائق حکومتی موقف کے برعکس نظر آتے ہیں۔ انہوں نے رپورٹ کے آخر میں ایک اہم جملہ بھی لکھا کہ رپورٹ پڑھنے والا خود ذمہ داری فکس کر لے گا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار کون ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ شریف برادران کے انسانیت کے قتل عام کی اس رپورٹ کا اردو ترجمہ کروارہے ہیں اور اس کی کاپیاں پورے ملک میں بانٹیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار اب سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ سب پارٹیاں رابطے میں ہیں انہوں نے کہا کہ دو ٹکے کی نوکری کیلئے وزیر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان وزارتوں کیلئے ضمیر گروی رکھ رہے ہیں جن کے ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ بولنے والے یاد رکھیں کہ اللہ کی عدالت بھی لگنی ہے وہ پیسوں کیلئے اور دنیا داری کیلئے اپنے ضمیروں کا سودا مت کریں سچ کا ساتھ دیں۔

تبصرہ

Top