ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (دسمبر 2009)

تحریک منہاج القرآن کے گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا 48 واں پروگرام 10 دسمبر 2009ء کو ہوا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے خلاف ماہ دسمبر کے اس پروگرام کو "شب دعا" کا نام دیا گیا۔ ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ "شب دعا"کا دوسرا پروگرام تھا۔ مرکزی سیکرٹریٹ کے گوشہ درود ہال میں ہونے والے روحانی اجتماع کی صدارت امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی نے کی۔ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، نائب ناظم اعلیٰ دعوت رانا محمد ادریس قادری، نائب ناظم اعلیٰ پبلی کیشنز رانا فاروق احمد، سربراہ خدمت کمیٹی گوشہ درود حاجی محمد سلیم قادری، امیر تحریک پنجاب احمد نواز انجم، ناظم اجتماعات جواد حامد، ناظم تربیت ڈاکٹر تنویر اعظم سندھو، خادم گوشہ درود حاجی ریاض احمد اور تحریک منہاج القرآن کے دیگر مرکزی قائدین بھی سٹیج پر موجود تھے۔ پروگرام میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک تھی، جن کے لیے پنڈال کا ایک الگ حصہ مختص کیا گیا تھا۔

مجلس کا باقاعدہ آغاز نماز عشاء کے بعد ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔ اس موقع پر قاری خالد حمید قادری نے تلاوت قرآن پاک سے آغاز کیا۔ کالج آف شریعہ کے شہزاد برادران، بلالی بردران، شہزاد حنیف مدنی، انصر علی قادری اور منہاج نعت کونسل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ پروگرام میں نعت خوانی کا سلسلہ شب گیارہ بجے تک جاری رہا۔

نعت خوانی کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کینیڈا سے براہ راست ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکاء مجلس سے خصوصی خطاب کیا۔ آپ کے خطاب کو روالپنڈی، اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بذریعہ ٹیلی فونک سنانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اپنے خطاب سے قبل شیخ الاسلام نے بتایا کہ الحمدللہ ماہ نومبر میں گوشہ درود کے پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 33 کروڑ، 25 لاکھ، 96 ہزار اور 886 ہے۔ اب تک جو درود پاک پڑھا گیا، اس کی تعداد 12 ارب، 12 کروڑ، 30 لاکھ، 49 ہزار اور 316 ہو گئی ہے۔ شیخ الاسلام نے خطاب سے پہلے "شب دعا" کی مناسبت سے گزشتہ دنوں لاہور میں اقبال ٹاؤن مون مارکیٹ، پشاور، راولپنڈی اور ملک کے دیگر شہروں میں خود کش حملوں، بم دھماکوں اوردہشت گردی کی نذر ہو جانے والے شہداء کے لیے اجتماعی طور پر دعائےمغفرت اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ اس کے علاوہ ملک میں امن و امان، قومی سلامتی، عالم اسلام کی خوشحالی اور دنیا میں قیام امن کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔

خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "فتنہ خوارج اور دہشت گردی"کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں یہ آیات کریمہ تلاوت کیں۔

الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِO

"بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے عذاب جہنم ہے اور ان کے لئے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo"

(الْبُرُوْج، 85 : 10)

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَO

"اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیات انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیںo"

(الْمَآئِدَة، 5 : 32)

وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًاO

"اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کر دیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی)o"

(الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17 : 33)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے والے دہشت گردی موجودہ دور کے خوارج ہیں، جن کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال پہلے 100 سے زائد احادیث مبارکہ میں نشاندہی کر دی تھی۔

الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِO

بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لئے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo

(الْبُرُوْج، 85 : 10)

آپ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کے حوالے سے بتایا کہ بعض ائمہ کرام نے اس آیت کریمہ میں "فتنوا" سے "لوگوں کو جلا کر مار دینا" مراد لیا ہے۔ موجودہ دور میں اس کا عملی نقشہ خود کش حملے اور بمباری کی صورت میں انسانیت کا قتل عام ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن پاک نے آگ کے عذاب کی وعید دی ہے۔ آپ نے کہا کہ دنیا میں لوگوں کو جلا کر مارنے والوں کی سزا اللہ کے ہاں بھی آگ سے جلا کر مار دینا ہے۔

آپ نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے کہ کفار خانہ کعبہ میں بت پرستی کرتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اپنے ہاتھ سے بنائے بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں، یہ خدا تو نہیں ہیں بلکہ تم نے ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ کفار نے اپنے اس عمل کی تصحیح کے لیے بیان دیا کہ ہمارا مقصود ان کی عبادت کرنا نہیں ہے۔ ہم ان کی پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ بت ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے۔ اللہ کا قرب چاہنے کے لیے وہ بتوں کو پوجتے تھے۔ اس پر قرآن نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور اللہ کا قرب ایسے نہیں مل سکتا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آپ بھی اللہ کی قربت چاہنے کے لیے وسیلہ تلاش کرتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں حکم بھی دیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤo

(الْمَآئِدَة، 5 : 35)

شیخ الاسلام نے کہا کہ وسیلہ میں نماز، روزہ، عبادات، صدقات اور دعا کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ قربت کا یہ بنیادی خیال غلط نہیں ہے لیکن اس کو فعل حرام سے متصل کر دینا غلط اور ناجائز ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ کسی چیز کا سبب فعل حرام کو جائز اور مباح نہیں کر سکتا۔ اگر فعل یعنی کام اور عمل جائز ہو تو اس سے نیت، سبب اور مقصد کا جواز ہو سکتا ہے۔

انما الاعمال باالنيات.

اگر نماز بھی اللہ کے لیے پڑھ رہے ہیں تو قبول ہوگی لیکن اگر آپ نماز بھی رعایا کاری کے لیے پڑھ رہے ہیں تو وہ بھی رد ہو جائے گی۔ جس طرح سورۃ الماعون میں ہے۔

الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَO

"جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o"

(الْمَاعُوْن ، 107 : 5)

شیخ الاسلام نے کہا کہ قرآن پاک میں ہے کہ ان لوگوں سے بڑا ظالم کون ہے جو مساجد کو ویران کر رہے ہیں۔ جو جمعہ کی نماز میں بم چلا رہے ہیں۔ جو مارکیٹوں میں جو بم چلا رہے ہیں، معصوم بچوں اور بے گناہ لوگوں کو مار رہے ہیں، عوامی مقامات میں جو حملے کیے جا رہے ہیں۔ آپ نے ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کفار کے ساتھ تمہاری جنگ بھی ہو رہی ہو تو تم کفار کی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور عیسائی راہبوں اور پادریوں کو نہیں قتل کر سکتے۔ حتی کہ جانور نہیں مار سکتے، عمارتیں تباہ نہیں کر سکتے اور آگ بھی نہیں لگا سکتے۔

دوسری جانب آج جو مسلمانوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں شہید کیا جا رہا ہے تو ان کا کیا قصور ہیں، یہ تو غیر مسلم بھی نہیں ہے۔ ایسی قتل و غارت کا جواز قرآن وسنت میں کہیں نہیں ہے۔ شیخ الاسلام نے چیلنج کیا کہ ایسی قتل و غارت کا جواز کوئی سکالر اسلامی نقطہ نظر سے فراہم نہیں کر سکتا۔ آپ نے کہا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان لینا، فعل حرام ہے جس کو قرآن پاک نے منع کیا ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کا نظریہ اسلام میں خوارج نے پیدا کیا اور آج ایسا کرنے والے اس دور کے خوارج ہیں۔ آپ نے کہا کہ یہ میری تشریح یا اجتہاد نہیں ہے بلکہ یہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 100 سے زائد احادیث پاک میں اس بات کا ذکر کیا۔

آپ نے کہا کہ یہ فتویٰ علامہ ابن تیمیہ کا ہے۔ وہ کتاب النبوات میں کہتے ہیں کہ سیدنا علی شیر خدا سے لڑنے والے ہی خوارج نہیں تھے بلکہ خوارج ہر دور میں ہوتے ہیں اور آج بھی ہیں جن کی لوگوں کو پہچان نہیں ہوتی۔ علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ خوارج کو چہرے سے نہیں پہچانا جا سکتا، بلکہ جب وہ قتل عام کرتے ہیں، لوگوں کا تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ خوارج ہیں۔ وہ اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے دین کا سہارا لیتے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی خوارج کے قتل عام کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ سب خوارج ہیں۔ اگر خوارج قتل عام نہ کریں تو معاشرے میں وہ خفیہ رہتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے ایک حدیث مبارکہ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت تک خوارج کی آمد کا تسلسل رہے گا، حتی کہ قیامت کے دن دجال کے ساتھ شریک ہو کر لوگوں کا قتل عام کرنے والا سب سے پہلا گروہ بھی خوارج کا ہوگا، جو لوگوں کو قتل کریں گے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 20 سے زائد مرتبہ یہ فرمایا کہ "خوارج کا کوئی بھی گروہ جب بھی میری امت سے نکلے گا تو یہ قتل کر دیئے جائیں گے۔" آپ نے سنن ابی داؤد کی حدیث پاک کا حوالہ دے کر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا کہ خوارج دوزخ کے کتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ خوارج پہلے مسلمان تھے پھر کافر ہوگئے۔ حضرت ابو امامہ نے روایت کی کہ انہوں نے 7 بار آقا علیہ السلام سے یہ بات سنی کہ خوارج پہلے مسلمان تھے اور پھر کافر ہوگئے۔

بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث مبارکہ میں آپ نے کہا "ایک شخص (ذوالخوصیرہ تمیمی) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں کھڑا ہوا۔ اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے آخری زمانے میں اس کے گروہ سے مشرق سے لوگ پیدا ہوں گے۔ مدینہ پاک سے مشرق کی طرف نجد بھی ہے۔ عراق کی سرحد میں الحرورہ بھی مشرق میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ عبادات اور دینی معاملات میں اتنے پابند ہوں گے کہ تم خیال کرو گے اور تمہیں تعجب بھی ہو گا کہ تمہاری عبادات تو ان کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ وہ قرآن ایسے پڑھیں گے تو تم اس پر رشک کروگے۔ لیکن وہ اسلام سے اس طرح خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر تیزی سے کمان سے نکل جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے فرمایا کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ایک بار نکلیں گے بلکہ یہ میری امت میں ہمیشہ قیامت تک نکلتے رہیں گے۔ حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ ان کی داڑھیاں گھنی ہوں گی۔ ان کے ماتھے پر محراب ہوگا، شلواریں اونچی ہوں گی۔ ان کے ہاتھ میں تلوار ہوگی۔ ان میں سے کوئی دو علامتیں بھی مل جائیں تو سمجھ لو وہ خوارج ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ ساری مخلوق سے بدتر قوم ہیں۔ اس لیے انہیں ختم کر دیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوارج عارضی طور پر ہتھیار پھینکنے کی باتیں کریں گے لیکن ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں۔ کیونکہ یہ خوارج کی سازش ہوگی کہ وہ وقتی طور پر اپنی سرگرمیوں سے باز آ جائیں اور پھر اس دوران دوبارہ منظم ہو کر ایک بار پھر بھرپور قوت کا مظاہرہ کریں۔

شیخ الاسلام نے متفق علیہ حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ روایت کرتے ہیں۔ (آخری حصہ حدیث)

خوارج مسلمانوں کا قتل عام کریں گے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں ان کو پا لوں تو میں ان کو اس طرح قتل کر دوں گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے قوم عاد اور قوم ثمود کو ختم کر دیا تھا، جن کا ایک بچہ بھی باقی نہیں بچا تھا۔

حضرت علی کے خلاف جہاد کرنے والا خوارج کے پہلے گروہ نے بھی کہا تھا کہ ہم اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مسلم حکومت بے غیرت ہوگئی ہے اور ہم نے جہاد کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ یہ ان خارجیوں کے ہر دور میں نعرے رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے نعرے نیک ہوں گے۔ اچھے ہوں گے، جس سے لوگ مرعوب ہوں گے لیکن ان نعروں کے پیچھے ان کی سازش ہوگی، اور ان کی نیتیں بد ہوں گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جن لوگوں سے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا کام لیا جائے گا تو وہ برین واش یعنی دماغی طور پر ناپختہ اور نوجوان ہوں گے۔ آج جو بھی دہشت گرد پکڑا جا رہا ہے تو اس کی عمر چودہ سال سے بیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ آپ نے کہا کہ دہشت گردوں کی 3 علامتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائیں۔

حضور صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوارج دہشت گرد گروہ کم سن نوجوان، ردی دماغ ہوں گے۔ اور وہ جو نعرہ لگائیں گے وہ تو اچھا ہوگا اور ان کے نعرے سے ہر کوئی متاثر ہوگا۔ آپ نے کہا کہ یہ تین نشانیاں ہیں لیکن وہ بات ایمان کی کریں گے حالانکہ ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ فرمایا کہ جب ان کو دیکھو اور پاؤ تو انہیں فوری ختم کر دو۔

حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی امام طبرانی کی حدیث ہے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوارج سے جنگ کے لیے جاتے تو خوارج کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے، کبھی سجدے کر رہے ہوتے اور کبھی تلاوت کر رہے ہوتے۔ یہ کتب سیرہ میں آیا ہے کہ جب صحابہ ان کو دیکھتے تو واپس آجاتے کہ ہم ان سے کیسے جنگ کریں جبکہ وہ اتنے نمازی، تقویٰ گزار اور پرہیز گار ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ مساجد، بازاروں، مارکیٹوں اور دیگر عوامی جگہوں پر بم دھماکے کر کے معصوم جانوں کا خون بہانے والوں کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت کو ان سے کوئی نرمی نہیں کرنی چاہیے بلکہ قیام امن کے لیے ان کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اسلام میں قصاص کے علاوہ کسی کی جان لینے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ آپ نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو روکنا حکومت کی سنگین غلطی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خارجی دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا اور انہیں مہلت دینا اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے حکومت اپنی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کا مکمل قلع قمع کر دے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ گزشتہ دنوں انہوں نے میڈیا کے سامنے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے کا اعلان کیا، جو کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کی بقاء کی خاطر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تفصیلی فتویٰ اب 400 صفحات سے بھی بڑھ گیا ہے اور اشاعت کے بعد آئندہ ہفتے اسے کتابی شکل میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

شب دعا کے اختتام میں ایک بار پھر دہشت گردی، خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ پروگرام کے اختتام پر لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔

رپورٹ : ایم ایس پاکستانی

تبصرہ

Top