حیدرآباد انڈیا میں شیخ الاسلام کا درس اصول حدیث (پہلا روز)
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام حیدرآباد دکن کے سٹی کنونشن سنٹر نامپلی میں دو روزہ درس اصول حدیث 3 مارچ 2012ء کو شروع ہوا۔ جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درس حدیث دیا۔ درس حدیث کے تاریخی اجتماع میں برصغیر پاک و ہند سے سینکڑوں علماء و مشائخ اور اہل علم کے علاوہ ہزاروں افراد نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام کی صدارت مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی نے کی، جبکہ جسٹس سید شاہ محمد قادری موظف (جج سپریم کورٹ) مہمان خصوصی تھے۔ ان کے علاوہ حضرت ابوالعلائی شاہ آغا محمد قاسم، سید اسرار حسین رضوی، مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی، مولانا سید محمد اولیاء، مولانا سید آل مصطفیٰ قادری، مولانا حبیب موسیٰ الموسوی، مولانا سید آل رسول قادری، مولانا سید محمد علی قادری ممشاد پاشا، مولانا محمد فاروق علی، ڈاکٹر امین الدین اویسی، جناب عبدالمنعم حاجی سیٹھ، مولانا سید حیات اللہ قادری، مولانا حبیب احمد الحسینی، مولانا سید انوار اللہ حسینی، حطیم سیٹھ اور دیگر معزز مہمان بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
درس اصول حدیث کے اس پروگرام کی پہلی نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔ مولانا حافظ سید رضوان پاشاہ قادری کرنولی نے تلاوت قرآن پاک کی جبکہ قاری احسن علی احتشام نے نعت مبارکہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام میں ہزاروں شرکاء موجود تھے، جن کے لیے سٹی کنونشن سنٹر کے اندر اور بیرونی حصہ پر بری ایل سی ڈی سکرینیں بھی لگائیں گئیں تھیں۔ پروگرام میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے، علماء مشائخ سمیت تمام شرکاء کے لیے بذریعہ پاسز داخلہ کی اجازت تھی۔
شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل علامہ مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیخ الحدیث فن حدیث کا سمندر ہیں۔ کیونکہ آج کی یہ نشست ہمارے لیے فن حدیث کا علم جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ فن حدیث وہ علم ہے، جو چوکوں اور چوراہوں میں نہیں سیکھی جا سکتی۔ اس کے لیے علماء، صلحاء اور حدیث کا فن جاننے والے جید علماء کے تلامذ طے کرنے پڑتے ہیں۔ بعض لوگ صرف 20 ہزار احادیث کو مان کر حدیث کے عالم ہو جانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو کیا ہم 8 لاکھ سے زائد احادیث پر عقیدہ قائم کر کے بھی حدیث کے اہل نہیں ہو سکتے؟ انہوں نے کہا کہ تاریخ انسانی میں بعض شخصیات اپنے فن اور کارناموں کے ذریعے تاریخ کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خود تاریخ بنائی ہے۔ آج ہمیں اس عظیم علمی سمندر سے استفادہ کرنا چاہیے، یہ ہماری زندگی کے خوش قسمت ترین لمحات ہیں۔
خطاب شیخ الاسلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فن اصول حدیث کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ موجودہ دور میں دو فتنوں نے صحیح العقیدہ مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک فتنہ صرف قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کا انکار کرتا ہے جبکہ دوسرا فتنہ قرآن کے ساتھ صرف اسی حدیث کو مانتا ہے، جو قرآن سے ثابت ہے۔ آج ان دنوں فتنوں کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی پسند کی احادیث کو مان کر کچھ احادیث کو چھوڑ دینا، یہ طریقہ اصول حدیث اور فن حدیث کے خلاف ہے۔ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں 1400 سال میں تمام آئمہ نے قرآن و حدیث کے درجہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ آج اگر کوئی شخص قرآن و حدیث میں فرق کرتا ہے تو وہ سرا سر جھوٹا اور فتنہ پرور ہے۔ کیونکہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ صرف بخاری کو مانتا اور دوسری احادیث کو نہیں مانتا تو یہ فتنہ پروری ہے۔ یہ اصول جہالت کی اختراع ہے۔ ایسا کہنے والوں نے اصول حدیث اور فن حدیث کی کتابیں ہی نہیں پڑھیں۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ خبردار! جان لو کہ مجھے دو چیزیں عطاء کی گئیں، ایک قرآن اور دوسری میری سنت ہے۔ یہ دونوں درجہ میں برابر ہیں۔ قرآن اور حکم رسول یعنی حدیث کا حکم ہے۔ فرق صرف رتبہ کا ہے، ترتیب میں پہلے قرآن پاک اور پھر درجہ حدیث ہے۔ اس لیے اب اگر کوئی یہ کہے کہ وہ قرآن کو تو مانتا ہے لیکن حدیث کو نہیں مانتا یہ واضح طور پر احکام قرآن کا انکار ہے۔ یہ فتنہ اور دھوکہ ہے۔ آپ نے کہا کہ اہل ایمان کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت مطلق امر ہے۔ جس طرح اللہ کی اطاعت میں لیکن، اگر جیسے الفاظ کی گنجائش نہیں ہے۔
علم حدیث کے حوالے سے آپ نے کہا کہ حدیث کی تین اقسام ہیں، ایک حدیث صحیح، دوسری حدیث حسن اور تیسری حدیث ضعیف ہے۔ تینوں احادیث میں فرق صرف احکام کا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ حدیث ضعیف کو نہیں مانتا تو وہ جاہل، جھوٹا اور منکر ہے۔ جو ضعیف کہہ کر حدیث کو خارج کرے وہ خود خارجی ہے۔ حدیث کو ضعیف کہہ کر خارج کرنے سے بڑھ کر کوئی طعنہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 1200 برس کے دوران کسی بھی مکتبہ فکر کے عالم نے ایسا نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کو نہ ماننے کے لیے تو وہ جاہل مطلق ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ حدیث کے دو حصے متن اور اسناد ہیں۔ حدیث کی قبولیت کی بنیاد متن پر نہیں ہے کیونکہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب ہے۔ حدیث مبارکہ کی قبولیت کی بنیاد اسناد یعنی سلسلہ روایت ہے۔ فن حدیث میں سلسلہ اسناد کی بنیاد پر متن کو قبول کیا جاتا ہے۔ حدیث بیان کرنے والی شخصیت اگر معتبر ہو تو قول رسول کو قبول کیا جاتا ہے۔ اس قاعدے اور قانون سے پتہ چلتا ہے کہ سارا دار و مدار ذات یعنی شخصیت پر ہے تو اس سے یہ عقیدہ قائم ہوا اور ہمارے عقیدے کی پہچان بھی یہی ہے کہ ہم پہلے ذات کو مانتے ہیں اور پھر بات کو مانتے ہیں۔ لیکن آج ایسا فتنا اٹھ کھڑا ہوا ہے جو صرف بات کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بعد میں ذات کو ماننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو دین کی اصل اور بنیاد کے ہی خلاف ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں، وہ صحیح ہیں، لیکن یہ سمجھنا کہ جو حدیثیں صحیح ہیں وہ تمام کی تمام بخاری میں موجود ہیں اور بخاری کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہو سکتی تو یہ عقیدہ غلط ہے۔ آپ نے علامہ حافظ ابن کثیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حافظ ابن کثیر کی بات کو آج بعض نام نہاد علماء رد نہیں کر سکتے۔ حافظ ابن کثیر نے اپنے شیخ علامہ ابن تیمیہ سے اکتساب فیض کیا۔ انہوں نے کہا کہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر شیوخ کی سینکڑوں احادیث کتب میں ہزار ہا احادیث صحیحہ کا خزانہ موجود ہے۔ اس لیے صحیح احادیث کو کسی امام کے ساتھ منسوب کر دینا درست نہیں۔ بلکہ احادیث صحیحہ درجہ کے اعتبار سے بخاری و مسلم کے بشمول صحاح ستہ کی کتب میں بھی ہیں۔
اس طرح احادیث صحیحہ کے لیے صحاح ستہ بھی کئی کتب احادیث اہم ہیں، جو ان سے پہلے اور بعد کے شیوخ نے لکھی ہیں۔ آپ نے کہا کہ موجودہ دور میں یہ جہالت عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کتب حدیث میں موجودہ حدیث غیر صحیحہ کو رد کرنے اور باطل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ حدیث غیر صحیح اصول حدیث کی ایک اصطلاح ہے۔ غیر صحیح حدیث کا مطلب و معنی اردو زبان کا نہیں ہے بلکہ حدیث صحیح اور غیر صحیح کے درمیان پانچ شرائط کا فرق ہے۔ حدیث مقبول کو بھی غیر صحیح کہا جا سکتا ہے۔ غیر صحیح یعنی اصول حدیث کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر غیر صحیح احادیث کو شامل نہ کیا جائے تو اکثر احکام پر عمل ہی ترک ہو جائے گا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ صرف صحیح بخاری کی حدیث کو ہی مانیں گے تو صحیح بخاری میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی روایت ہی نہیں آئی، صحیح بخاری میں صرف کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت آئی ہے، اس طرح جو لوگ بخاری کے علاوہ دیگر کتب احادیث کا انکار کرتے وہ آج سے پھر یہ عمل شروع کردیں یا پھر توبہ کر لیں۔ اسلامی تاریخ میں 1400 سال سے کسی عالم حدیث نے یہ جملہ نہیں کہا کہ وہ صرف بخاری یا مسلم کو مانتے ہیں اور دیگر آئمہ احادیث کو نہیں مانتے۔ بلکہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے انکار کرنا دین اور شریعت کو پامال کرنا ہے۔ وہ بھی منبر رسول کے ذریعے بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث کا انکار فنتہ، جھوٹ اور جہالت کی انہتاء ہے۔
شیخ الاسلام نے اپنے پیغام میں کہا کہ حیدرآباد دکن میں یہ دو روزہ درس حدیث کی خصوصی نشست آنے والی نسلوں کے لیے علمی خزانہ ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے علمی پیغام ہے۔ کیونکہ وہ علماء کو علمی جرات دینے کے لیے آئے ہیں۔ اور یہ پیغام پہنچانے آئے ہیں کہ جس عقیدہ اور مسلک پر وہ قائم ہیں، وہی سواد اعظم کا اجماع ہے۔
شمیم سیٹھ، ملتزم سیٹھ، وسیم سیٹھ اور منہاج القرآن انٹرنیشنل حیدرآباد انڈیا کے کارکنان نے پروگرام کے انتظامات مکمل کیے۔ پروگرام کی پہلی نشست کا باقاعدہ اختتام دعا سے ہوا۔
تبصرہ