نظام کی تبدیلی کے بغیر عوام اور ان کے حقوق کے مابین خلیج بڑھتی جائے گی، ڈاکٹر طاہر القادری
موجودہ نظام نمک کی ایسی کان ہے جس میں ہیرا بھی کچھ عرصے میں
اپنا وجود کھو دیتا ہے
ارتکاز وسائل کا ہویا اختیارات کا معاشروں کو تباہی کی جانب ہی دھکیلتا ہے
جب ایک کروڑ نمازیوں کی جماعت قائم ہوگی اس دن ملک میں حقیقی جمہوریت کا خواب
شرمندہ تعبیر ہو جائیگا
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ موجودہ نظام نمک کی ایسی کان ہے جس میں ہیرا بھی کچھ عرصے میں اپنا وجود کھو دیتا ہے، نظام کی تبدیلی کے بغیر عوام اور ان کے حقوق کے مابین خلیج بڑھتی جائے گی۔ اختیارات کی عدم مرکزیت پر یقین رکھتے ہیں، ہماری جماعت پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہتی ہے، 35 صوبے ہی پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہیں، صوبے کا نظم ونسق چلانے کے لئے وزیر اعلیٰ کی بجائے ایک گورنر کافی ہے جس کا بجٹ ڈویژن کے کمشنر کے برابر ہوگا۔ ایک کروڑ نمازی جمع ہوں گے تو اقامت کہ کر جماعت قائم کریں گے، جس دن جماعت قائم ہوگی ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے 60 فیصد کم ممالک میں 50 سے 80 صوبے ہیں، وہاں ایک ہزار کے قریب ضلعی اور 3000 تک میونسپل حکومتیں قائم ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس صرف سٹیٹ بنک، کرنسی، دفاع، عالمی تجارت سمیت 6 محکمے ہونا چاہئیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پورے پنجاب کی بجائے صرف لاہور کا وزیر اعلیٰ بننا اس لئے پسند نہیں کیا جاتا کہ اس طرح لوٹ مار کے لئے بجٹ کم ملے گا اور لوٹ مار کے مواقع کم میسر آتے ہیں، اس لئے نظام کی تبدیلی کی طرف بڑھنے سے اکثر جماعتیں خوف زدہ ہیں مگر ہم عوام کو حقوق دلانے کے لئے 35 صوبے بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام کی قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تقرر، ترقی اور تبادلہ وزیر اعلیٰ اور اس کے بیٹے کا مرہون منت ہے، جہاں وسائل اور اختیارات کا اتنا ارتکاز ہو وہاں جمہوریت پنپ نہیں سکتی اور عوام کے حقوق ضرور ذبح ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ افسوس موجودہ نظام میں پولیس کانسٹیبل، پٹواری اور تحصیل دار کی ٹرانسفر بھی وزیراعلیٰ کے بغیر نہیں ہوسکتی، ارتکاز وسائل کا ہو یا اختیارات کا معاشروں کو تباہی کی جانب ہی دھکیلتا ہے۔
تبصرہ