امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (قسط نمبر : 3) - شیخ الاسلام کا معتکفین سے خطاب
اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر (قسط نمبر : 3)
(اعتکاف 2013ء، خطاب نمبر : HD–25)
خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
مقام : جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور
تاریخ : 3 اگست 2013ء
ناقل : محمد ظفیر ہاشمی
فرید ملّت رح رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَ الْاُمِّيَ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهُ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ.
الاعراف، 7 : 157
حاضرین محترم! ہم پچھلی کئی قسطوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے موضوع پر ایک سلسلہ وار گفتگو کر رہے ہیں۔ اور آج اسی موضوع کو تھوڑا اور آگے بڑھا رہا ہوں۔ ابھی جو آیت کریمہ میں نے تلاوت کی یہ سورہ اعراف آیت نمبر 197 کا ابتدائی حصہ ہے۔ اب یہ گفتگو پچھلی تین چار نشستوں کے تسلسل میں ہے۔ مگر مضمون کو آگے بڑھا رہا ہوں اس مقام پر اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کئی شانوں کا اور آپ کو عظمت ورسالت کے کئی پہلوں اور کئی گوشوں کا ذکر فرمایا۔ آپ کی کئی صفات کا ذکر کیا گیا۔ مگر مضمون کی مناسبت سے میں ابتدائی حصہ تلاوت کیا۔ جس میں آپ کی صفات جلیلہ میں سے ایک صفت کا بیان ہے۔
ارشاد فرمایا : جو لوگ اتباع کرتے ہیں، پیروی کرتے ہیں اس رسول گرامی کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نبی امی ہے اور یہ وہ رسول گرامی اور نبی امی ہیں جن کا ذکر، جن کے اوصاف، جن کے کمالات، جن کی صفات، جن کے معجزات، جن کے اخلاق اور جن کے احوال کا بیان یہ لوگ تورات اور انجیل ان دو مقدس کتابوں میں بھی پڑھتے تھے یعنی آقا علیہ الصلاۃ والسلام وہ ہستی ہیں کہ جن کا ذکر فقط قرآن میں اور حدیث نبوی میں نہیں ملتا بلکہ آپ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل جو پہلی کتابیں انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوچکی تھیں، وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر مبارک سے معمور تھیں۔ وہ جو ذکر آقا علیہ السلام کا پہلی کتابوں میں تھا۔ آسمانی کتابوں میں ان میں سے سب سے پہلا ذکر جو آقا علیہ السلام کی شان کا بیان کیا گیا وہ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ. کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھائی اور نیکی کا حکم فرماتے ہیں اور ہر قسم کی برائی سے روکتے ہیں۔ تو آپ نے دیکھا پہلی کتابوں میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر فرمایا اور آپ کے خصائص نبوت کا بیان فرمایا اور آپ کے ان فرائض رسالت کا تذکرہ کیا جو آپ نے ادا فرمائے آپ کی بعثت سے قبل بھی تو اس کا ذکر بھی شروع کیا آپ کی اس خوبی سے کہ آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہیں۔ یہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی صفت تھی۔
پھر قرآن مجید نے اہل ایمان کی صفات بیان کیں۔ سورہ آل عمران میں اور اس میں فرمایا کہ :
يُُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
آل عمران، 3 : 114
جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں، مومن ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ :
وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
آل عمران، 3 : 114
وہ معاشرے میں بہرے اور گونگے بن کے نہیں رہتے جہاں برائی اور بدی دیکھتے ہیں وہ اس بدی کو روکنے کے لیے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ اور اچھائی اور نیکی جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے اسے معاشرے میں فروغ دینے کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔ یہ اہل ایمان کی صفت ہے
اسی طرح پھر ایمان کی تعریف سورہ التوبہ میں کی۔ اور ارشاد فرمایا :
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍم يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
توبه، 9 : 71
جو مومن مرد اور مومن عورتیں ہیں وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں ان کی خوبی یہ ہوتی ہے مومن ہونے کی کہ وہ اچھائی کے فروغ کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ صرف خود نیکی کریں، نہیں خود بھی کریں اور نیکی کا بول معاشرے میں بالا کریں اور بدی اور برائی کو بھی معاشرے میں روکتے رہتے ہیں۔ اب یہ خوبیاں بیان کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک بڑا خوبصورت مضمون قرآن مجید میں بیان کیا وہ آپ کے لیے آج کی رات ایک خاص پیغام ہے۔ وہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 111 اور 112 میں ہے بڑا پیارا مضمون ہے۔
میں نے زندگی میں کبھی بھی لحن سے قرآن مجید نہیں پڑھا، چونکہ آج قرآن پڑا گیا تو میرے بھی ذوق میں آیا چلو، مجھے معاف کر دیں میرے پاس نہ لحن، نہ تجوید، نہ فن، میں بیکار ہوں میرے پاس کچھ نہیں۔ بس ایسے اپنے رانجھا راضی کر رہا ہوں
اِنَّ اﷲَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَط
توبه، 9 : 111
"بے شک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لیے (وعدہ) جنت کے عوض خرید لیے ہیں"
اللہ نے آپ سے آپ کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں اب اپنی جانوں کے مالک نہیں ہیں آپ اپنے مال ودولت کے مالک نہیں اگر تو مومن ہیں پھر آپ نے اپنی جان ومال اللہ کے ہاتھ فروخت کر دیا، سودہ ہو گیا کسی چیز کے عوض بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اس نے آپ کی جان ومال لے کر اس کے عوض جنت دے دی اور جان ومال جو آپ سے خرید لیے اب وہ کس مقصد کے لیے خریدے اور آپ کے جان ومال کس چیز پر لگانے کا حکم دیا :
يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ.
توبه، 9 : 111
فرمایا : میں نے تم سے جان ومال خرید لیے ہیں اب تم کو میری راہ میں لڑنا ہوگا اب مت ڈرو جانیں تمہاری کہاں رہی ہیں تم تو اپنی جانیں مجھے بیچ چکے ہو مال تمہارے کہاں رہیں ہیں۔ بخیلی کرو، کنجوسی کرو، کہ کم ہو جائے گا، گٹھ جائے گا مال تو تمہارا رہا ہی نہیں مال تو تم مجھے بیچ چکے ہو جہاں اللہ چاہے گا وہاں مال لگائے گئے۔
وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ.
توبه، 9 : 111
اللہ پاک فرماتے ہیں۔ کہ یہ میرا تم سے وعدہ ہو گیا ہے، پکا وعدہ ہو گیا ہے۔ اور یہ وعدہ آج کا نہیں یہ وعدہ میں نے تورات میں بھی اتارا تھا۔ یہ سودہ اس وقت بھی کیا تھا بنی اسرائیل میں جو اہل ایمان ہیں اور اپنی جان ومال مجھے بیچنا چاہتے ہیں تو رب نے فرمایا تھا میں خریدار ہوں خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو خدا جیسا خریدار مل جائے خدا خریدار بن گیا اور کس مال کا اور مال بھی وہ جس کے مالک ہم شروع سے نہ تھے، بھائی جان ہماری تھی کب جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا، جان بھی تو اسی نے دی تھی، پیدا بھی اسی نے کیا تھا، ہم تو نطفہ تھے نطفہ بھی اسی کی توفیق سے آیا تھا، گوشت پوست بھی اسی نے دیا تھا، ہڈیوں کا ڈھانچہ اسی نے دیا تھا، اس پر اعصاب اسی نے چڑھائے تھے، روح بھی اسی نے پھونکی تھی، زندگی بھی اسی نے دی تھی، پیدائش بھی اسی کی توفیق سے ہوئی تھی، ہم نا تواں تھے، توانائی بھی اسی نے دی، بھوکے تھے، کھانا بھی اسی نے کھلایا، بچے تھے، جوان بھی اسی نے کیا، ارے سب کچھ تو اس کا دیا ہوا تھا، مال بھی اس نے دیا، اس کا کتنا کرم ہے جان بھی اس کی عطا کردہ، مال بھی اس کا عطا کردہ، مالک وہ ہم فقط امانت رکھنے والے پھر ہم سے کہتا ہے کہ اپنی جان بیچتے ہو مجھے، بھائی ہماری تو جان ہے ہی نہیں تھی مولا تونے دی تھی مگر اس کا کرم دیکھیے، اس کی عطا دیکھیے، جان دے کر خود خریدار بنتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ہاتھ جان بیچنی ہے۔ ہاں بیچتے ہیں، بھائی مال بیچتے ہو، کون سا مال جو دیا ہی اس نے جس کا مالک ہی وہ ہے اور قرآن کہتا ہے مستخلاف فیہ ہم تو فقط امانت دار ہیں، ہمیں تو استعمال کرنے کا حق ہے جان کا مالک بھی رب، مال کا مالک بھی رب اور جان ومال دے کر اب خود خریدار بن کے آواز دے رہا ہے، ہے کوئی جان ومال میرے ہاتھ بیچنے والا میں نے اسے جنت دے دی اور فرمایا یہ سودا میں نے اگلوں میں بھی کیا تھا، تورات میں بھی کیا تھا، انجیل میں بھی کیا تھا اور قرآن میں بھی کیا۔ جنہوں نے یہ سودا مجھے سے کر لیا۔ وہ تر گئے، وہ کامیاب ہو گئے اور پھر فرمایا جنہوں میرے ساتھ سودا کر لیا ہے۔
وَمَنْ اَوْفٰی بِعَهْدِهِ مِنَ اﷲِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِکُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهِ ط وَذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo
توبه، 9 : 111
فرمایا پھر جس نے میں نے اپنے ذمہ کرم پر یہ وعدہ لے لیا تورات میں بھی، انجیل میں بھی، قرآن میں بھی، فرمایا اے ایمان والوں تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ، جس نے یہ وعدہ پورا کر لیا
فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِکُمْ.
اس سودے پر خوشیاں مناؤ، جو تم نے میرے ساتھ سودہ کیا ہے جان ومال کو بیچا ہے اس پر خوشیاں مناؤ، یہ بڑی کامیابی ہے اب وہ فرماتا ہے باری تعالیٰ جنہوں نے میرے ساتھ یہ سودہ جان ومال کا کر لیا ہے اب شرط یہ ہے کہ وہ ایسے بن جائیں، جنہوں نے مجھے سے سودہ کر لیا جان بھی بیچ دی مال بھی بیچ دیا، اس کے عوض جنت خرید لی۔ اب کیسے بن جائیں۔
اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اﷲِط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَo
توبه، 9 : 112
فرمایا اب چونکہ سودا کر لیا ہے مجھے سے تو اب توبہ کرنے والے بن جاؤ، اعتکاف میں آنے والوں اور اللہ سے یہ سودا کرنے والوں، اللہ سے سودا کیا ہے یا نہیں جنہوں نے نہیں کیا ہے وہ کر لیں آج کی رات تاکہ جب ستائیسویں کی رات بیٹھیں توسودا کر کے بیٹھیں، اب وہ کیا ہوگئے سودا کرنے والے تائبین ہو گئے، توبہ کرنے والے ہو گئے، عابدین ہو گئے، عبادت گزار بن گئے، وہ اللہ کی حمد وثنا ء کرنے والے بن گئے، وہ دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ہونے والے بن گئے، وہ روزے دار بن گئے، وہ خشوع وخضوع سے رکوع کرنے والے بن گئے، وہ اللہ کے قرب کی تلاش میں سجدہ ریزیاں کرنے والے بن گئے، وہ نیکی کا حکم دینے والے بن گئے، وہ بدی اور برائی کو روکنے والے بن گئے، وہ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے بن گئے، اور جب یہ ساری خوبیاں ان میں پیدا ہوگئیں تو فرمایا محبوب ایسے اہل ایمان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کا کام ہوگیا ان کو یہ مقام عطا کیا اللہ رب العزت نے
اس لیے کہ اگر تلقین کریں، واعظ کریں، نصیحت کریں اور خود یہ خوبیاں اپنی زند گی میں پیدا نہ کریں تو یہ منافقت ہے اور اس پر بڑی سخت وعید ہے
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری ومسلم میں متفق علیہ ہے۔
سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ فَيَطْحَنُ فِيهَا کَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ فَيَقُولُونَ أَيْ فُـلَانُ أَلَسْتَ کُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ فَيَقُولُ إِنِّي کُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ وَأَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَفْعَلُهُ.
بخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6 / 2600، الرقم / 6685، ومسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب عقوبة من يأمر بالمعروف ولا يفعله وينهی عن المنکر ويفعله، 4 / 2290، الرقم / 2989، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 209، الرقم / 21868، وابن أبي شيبة في المسند، 1 / 118، الرقم / 152، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 94، الرقم / 19996.
آقا علیہ السلام نے فرمایا : قیامت کا دن ہوگا ایک شخص کو لایا جائے گا قیامت کے دن اور اسے دوزخ میں ڈال دیاجائے گا اور پھر وہ دوزخ میں گر کر اس طرح گھوم گا، چکر لگائے گا، جیسے چکی چلانے والا گدھ ادر گرد گھومتا ہے چکی کے، دوزخ کی آگ میں چلے گا چکر لگائے گا، باقی دوزخی اس کو دیکھ کر اس کے ارد گرد جمع ہوجائیں گئے، وہ فَيَقُولُونَ أَيْ فُـلَان کہ تم تو فلان شخص تو نہیں ہو وہ کہے گا ہاں وہی شخص ہوں ایک اور حدیث کا مضمون ملا رہا ہوں، تم تو وہ شخص ہو تم تو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے یہاں کیسے آ گئے
أَلَسْتَ کُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ؟
کیا آپ وہی شخص نہیں جو معاشرے میں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور برائیوں سے روکتا تھا فیقول وہ کہے گا ہاں میں وہی شخص ہوں یہاں دوزخ میں کیسے آ پہنچے تو وہ کہے گا
إِنِّي کُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ وَأَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَفْعَلُهُ.
دوزخ میں اس لیے آیا ہوں کہ میں لوگوں کو نیکیاں کا سبق دیتا تھا حکم دیتا تھا مگر خود نیکی کرتا نہیں تھا، لوگوں کو گناہوں سے روکتا تھا، برائی سے منع کرتا تھا مگر خود وہ برائیاں کرتا تھا، میری بد اعمالیاں دوزخ میں لے آئی ہیں. لوگو اپنے اعمال وافعال کی اصلاح کر لو، میرے جتنے بھائی اور بیٹے ہیں، سب لوگ ان دس دنوں میں اپنی جان ومال کا سودہ کر کے جائییے او ر اس کے ساتھ یہ طے کر کے جائیے، جس نیکی کو معاشرے میں پھیلانے کا عزم لے کر جا رہے ہیں اس نیکی کو معاشرے میں پھیلانے سے قبل اپنی زندگی میں، اپنی جان میں داخل کر دو اور معاشرے سے جس بدی کو مٹانا ہے اس بدی کو پہلے اپنی زندگی سے مٹا دو، یہ وجہ ہے کہ پھر اگلی حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا۔ بنی اسرائیل کے علماء کا ذکر کرتے ہوا، عبداللہ ابن مسعود حدیث کے راوی ہیں۔
آپ دیکھئے معاشرے میں جن کے ذمے خواہ وہ علماء ہوں، خواہ وہ رؤوسا ہوں، وہ زعماء ہوں، وہ اساتذہ ہوں، وہ والدین ہوں، وہ لیڈر ہوں، وہ معاشرے کے ذمہ داران ہوں، جوان ہوں، جن کو اللہ نے علم دیا، شعور دیا، طاقت دی، ہمت دی، استطاعت دی کہ وہ معاشرے میں نیکی کا علم بلند کر سکیں، اور بدی کو مٹانے کی جدوجہد کر سکیں، وہ سارے اس حدیث کے مخاطب ہیں، آقا علیہ السلام نے فرمایا :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي فَنَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوا فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ وَوَاکَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُمْ فَضَرَبَ اﷲُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَهُمْ {عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا يَعْتَدُونَ} [المائدة، 5 : 78] قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّی تَأْطُرُوهُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.
أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 391، الرقم / 3713، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 121، الرقم / 4336، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5 / 252، الرقم / 3047، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 145، الرقم / 10264.
جب بنی اسرائیل والے کثرت کے ساتھ گناہ کرنے لگے اور ان کے شہروں میں برائیاں پھیل گئی، ظلم پھیل گئے، بدی پھیل گئی، خیانت پھیل گئی، لوٹ مار پھیل گئی، کرپشن پھیل گئی، جب گناہوں کی کثرت ہو گئی تو ان کے علماء نے ان کو گناہوں سے روکا، منع کیا مگر کیا ہوا وہ لوگ نہ رکے انہوں نے بات نہ مانی، اب میں آپ کو پورا ایک زندگی کا راز سمجھا رہا ہوں، آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بہت سمجھایا لوگوں کو انہوں نے ہماری بات نہ مانی۔
یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے بنی اسرائیل کو بھی یہی حالات درپیش تھے، یہ یہود و نصاری پہلی امتوں کو بھی یہی حالات درپیش تھے، پہلے معاشرے اور نسلوں کو بھی یہ حالات درپیش تھے، جب انہوں نے ان کی بات نہ سنی تو انہوں نے کیا کیا۔
فَجَالَسُوهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ.
تو یہ سست پڑ گئے، کمزور ہوگئے منع کرنے والے، پھر آہستہ آہستہ خود ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے، خود توگناہ نہیں کرتے تھے مگر ان کے ہم نشین ہوگئے، ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے،
وَوَاکَلُوهُمْ وَشَارَبُوهُم.
اور پھر ان کے ساتھ مل کر کھانے پینے لگے، جب یہ عمل شروع ہوگیا
فَضَرَبَ اﷲُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ.
تو اللہ تعالیٰ نے ان سارے لوگ کے دل آپس میں خلط ملط کر دیئے، منع کرنے والے اور گناہ کرنے والے جب آپس میں ان کا اختلاط ہوگیا اور غیرت دین کی نہ رہی، اہمیت دین کی نہ رہی، ذمہ داری کا پورا حساس نہ رہا اور ان کے ساتھ میل جول میں داخل ہوگئے تو پھر اللہ نے ان ساروں کے دلوں کو بھی خلط ملط کر دیا۔
وَلَعَنَهُمْ {عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا يَعْتَدُونَ}
[المائدة، 5 : 78]
پھر اللہ پاک نے حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی زبان سے ان پر لعنت بھیجی وہ نافرمانی میں حد سے تجاوز کر گئے تھے اس وجہ سے اللہ نے لعنت بھیجی، نبیوں کی زبان سے، جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام یہاں تک پہنچے تو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرفاتے ہیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام ٹیک لگا کے بیٹھے تھے تکیے کے ساتھ جب یہ واقعہ بنی اسرائیل کا سنا رہے تھے تو ٹیک لگا کے بیٹھے تھے۔ جب یہاں تک پہنچے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے تکیہ چھوڑ دیا اور اٹھ کے سیدھے ہو کے بیٹھ گئے۔
قَالَ : فَجَلَسَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ : لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتَّی تَأْطُرُوهُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.
اور اٹھ کے بیٹھ گئے اور جلال میں آ گئے اگر تم بھی اپنے معاشرے کے لوگوں کو بدی، برائی، ظلم، ناانصافی، قتل وغارت گری، دہشت گردی، لوٹ مار، خیانت، کرپشن اور حق تلفی ان گناہوں سے نہیں روکو گے اور اگر وہ تمہارا کہنا نہ مانیں تو تم انھیں برداشت کر لو گے اور اٹھو گے نہیں ظلم کے خلاف، بدی کے خلاف، برائی کے خلاف، بدی کو ظلم کو معاشرے سے مٹانے کے لیے اور پھر سینہ سپرَ ہو کر ان کے خلاف نہیں ہو جاؤ گئے۔ تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تمہارا یہ فرض اس وقت تک ہے جب تم قوت بازو سے ان گناہ اور ظلم کرنے والوں کے خلاف ان کو گناہ اور ظلم سے پھیر نہ لو، جب تک حالات کو بدل نہ دو۔ آرام سے تمہارا بیٹھنا اسی طرح گناہ ہو گا جیسے گناہ کرنے والے کا اپنا جرم ہے۔ یہ ذمہ داری آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمائی۔
پھر ابو سعیدخدری روایت کر تے ہیں۔ پھر امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا۔
قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَحْقِرْ أَحَدُکُمْ نَفْسَهُ.
تم میں سے کوئی شخص اپنی جان کو حقیر نہ سمجھے مت سمجھو کہ آپ حقیر ہیں. آپ کمزور ہیں، ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں، میں آپ سے پوچھتا ہوں دنیا کے کسی ملک ایک مثال دے دیں۔ جہاں امیروں کی ضرورت ہو انقلاب، انقلاب تاریخ میں کبھی امیروں کی ضرورت نہ رہا۔ انقلاب وڈھیروں کی ضرورت نہ تھا نہ ہے۔ جاگیرداروں کی ضرورت نہ تھا نہ ہے۔ ظالم طاقت ورروں کی ضرورت نہ تھا نہ ہے ہر پیغمبر جب دعوت انقلاب لے کر اٹھا تو قرآن کو پڑھیے قال الملا الذين کفروا اس سوسائٹی کے وڈھیروں نے اس کو کہا کہ ہم تمہاری بات نہیں مانتے سوسائٹی کے سردار اس کے خلاف جمع ہو گئے۔ سوسائٹی کے جاگیر دار، وڈھیرے، سرمایہ دار اس کے خلاف جمع ہوگئے۔ کبھی بھی کسی پیغبیر کی دعوت پر وقت کے فرعون نے لبیک نہیں کہا۔ وقت کے قارون نے لبیک نہیں کہا، وقت کے ہامان نے لبیک نہیں کہا، اور کبھی حسین کی دعوت پر وقت کے یزید نے لبیک نہیں کہا، جو لوگ طاقت ور ہیں، فاسق ہیں، فاجر ہیں، وڈھیرے ہیں، جن کے ہاتھ میں مال ودولت ہے لوگوں کی عزت سے کھیلتے ہیں، خون سے کھیلتے ہیں، ان کیتو پانچوں گھی میں ہیں۔ وہ انقلاب کے لیے اپنے آپ کو تکلیف میں کیوں ڈالیں، تبدیلی انقلاب ان کی ضرورت نہ تھی، یہ ہمیشہ غریبوں کی ضرورت تھی، کمزور کی ضرورت تھی، محتاجوں کی ضرورت تھی، یتیموں کی ضرورت تھی، غلام کی ضرورت تھی، ہمیشہ کمزوروں کی ضرورت رہی انقلاب۔
تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا۔ تم لوگ اپنی جان کو حقیر نہ جانو کہ ہم غریب ہیں، کمزور ہیں، مزدوروں ہیں، محنت کش ہیں، طلب علم ہیں، علماء ہیں، امام ہیں، خطیب ہیں، ہم طاقت ور لوگ نہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ نہیں، آقا علیہ الصلاۃ والسلام فرمایا خبردار اپنے آپ کو حقیر، کمزور نہ سمجھو، تم ہی طاقت ور ہو قرآن تمہیں طاقت دینا چاہتا ہے انقلاب مستضعفین کی ضرورت ہے۔ تم طاقت ور بنو آقا نے فرمایا کمزور نہ سمجھو۔
قَالُوا : يَا رَسُولَ اﷲِ! کَيْفَ يَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟
ہم میں سے کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر کیسے جان سکتاہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : جواب سن لو :
قَالَ : يَرَی أَمْرًا لِلّٰهِ عَلَيْهِ فِيهِ مَقَالٌ ثُمَّ لَا يَقُولُ فِيهِ.
اپنی جان کو حقیر وہ شخص سمجھتا ہے جو دیکھتا ہے بدی ہو رہی ہے، برائی ہو رہی ہے، گناہ ہو رہاہے، ظلم ہو رہا ہے، اس کو دیکھے اور اس شخص کو اللہ کا حکم بھی معلوم ہو کہ یہ غلط ہے، گناہ ہے، یہ ظلم ہے، اس کو روکنا میرا فرض ہے، یہ بھی معلوم ہو اور پھر بھی چپ رہے اور اس کے لیے زبان اور عمل کا جہاد نہ کریں، اس کے خلاف نہ اٹھے فرمایا جب وہ چپ رہے گا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے آپ کو حقیر جانا اور اس کا کیا حشر ہوگا
فَيَقُولُ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
قیامت کے دن جب وہ شخص حساب وکتاب کے لیے پیش ہو گا تو اللہ رب العزت اس کو فرمائیں گئے۔
مَا مَنَعَکَ أَنْ تَقُولَ فِي کَذَا وَکَذَا؟
اے چپ رہنا والے، اے ظلم کو دیکھ کر چپ رہنے والے، اے گناہ کو دیکھ کر چپ رہنے والے، اللہ کے دین سے ہوتی ہوئی بغاوت کو دیکھ کر چپ رہنے والے، غریبوں پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر، جھوٹ اور فریب ہوتے ہوئے دیکھ کر اے چپ رہنے والے تمہیں کس نے روکا تھا، ان ان معاملات میں تو کھڑا کیوں نہیں ہوا، تم نے آواز بلند کیوں نہیں کی، اپنا فرض ادا کیوں نہیں کیا، آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اللہ پاک قیامت کے دن اسے یہ فرمائے گا :
فَيَقُولُ : خَشْيَةُ النَّاسِ فَيَقُولُ فَإِيَايَ کُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَی.
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 47، الرقم / 11458، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 / 1328، الرقم / 4008، والطيالسي في المسند، 1 / 293، الرقم / 2206، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 300، الرقم / 971، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 137، الرقم / 4887، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 90، الرقم / 19971، وأبو نعيم فی حلية الأولياء، 4 / 384.
کہ يہ فریضہ کیوں نہیں ادا کیا وہ شخص جواب دے گا کہ باری تعالی مجھے پتہ تھا کہ یہ کام غلط ہو رہا ہے، مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اللہ کا حکم یہ ہے مگر میں لوگوں سے ڈرتا تھا، وہ ظلم کرنے والے طاقت ور تھے، مضبوط تھے، مجھے ان کا خوف تھا، اس لیے میں کھڑا نہیں ہوا تو اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھینک دو اس کو دوزخ میں اور اس سے کہے گا کہ ان کا خوف زیادہ حق دار تھا تجھے میرا خوف نہ تھا کہ میرے سامنے پیش ہونا ہے اور ان کاخوف تھا کہ تجھے یاد نہ تھا کہ قیامت کے دن میرے سامنے پیش ہونا ہے، کاش تو میرا خوف مقدم رکھتا، ان ظالموں کے خوف سے، وہ ظالم کیا کر دیتے تمہارا، کیا وہ مجھے سے بھی زیادہ طاقت ور تھے اللہ پاک فرمائے گا،
پھر حضرت جریر روایت کرتے ہیں، مسند احمدبن حنبل میں ابن ماجہ اور ابن حبان میں کہ میں نے آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے سنا .
وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي.
فرمایا کوئی شخص اگر ایک ایسے معاشرے میں ایک ایسی قوم میں رہ رہا ہے جس میں گناہ ہو رہے ہیں، نافرمانی ہو رہی ہے، کرپشن ہو رہی ہے، ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے، کوئی شخص اس سوسائٹی میں رہ رہا ہے۔
ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَی أَنْ يُغَيِّرُوا ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوا
اور پھر وہ سارے لوگ مل جائیں۔ ایک کروڑ نمازی بن جائیں۔ اگر ایک کروڑ قیام کرنے والے بن جائیں اور اٹھ کھڑے ہوں اور وہ حالات کو بدلنے پر طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ اٹھے اور حالات کو نہ بدلیں تو فرمایا۔
إِلَّا أَصَابَهُمْ اﷲُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوتُوا.
اللہ تعالی اس قوم کے لوگوں کو مرنے سے پہلے انہیں اپنے عذاب میں گھیر لے گا، ان پر عذاب آئے گا اور عذاب سے وہی معاشرے بچیں گئے۔ جو موت سے پہلے اٹھ کھڑے ہوں اور ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ کے امر کو نافذ کریں، یہ اعتکاف ہے میں کوئی سیاسی خطاب نہیں کر رہا، ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم یہ کوئی سیاست کی جگہ نہیں، میں ایک ایک لفظ قرآن اور حدیث مصطفی کا سنا رہا ہوں ایک جملہ بھی اپنی طرف سے نہیں سنا رہا ہوں۔ فقط اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ آیات قرآنی کا ترجمہ اور حدیث نبوی اور سنتوں کا ترجمہ وہ پیغام جو معاشرے کے لوگوں کو پہنچایا نہیں گیا۔ لوگ جس سے باخبر نہیں ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ظلم کے خلاف اٹھنا کوئی سیاسی کام ہے، نہیں نہیں، ظلم کے خلاف جب امام حسین اٹھے تھے۔ وہ کوئی امام حسین وقت کے سیاست دان تھے ہرے سیاست اور سلطنت حسین کے جوڑوں پر قربان تھیں، کروڑوں سلطنتوں کے مالک اگر ایک ٹوکر مار دیں حسین تو کروڑوں یزید کے سلطنتیں ختم ہو جائیں اور میں جب سب کو کہتا ہوں کہ بھائی، بوڑھے اور جوان بھی جائیں حق کی سر بلندی کے لیے اٹھیں اور بہنیں اور بیٹیاں بھی جائیں، یہ سنت حسین ہے جب امام حسین جاتے ہیں حق کا سربلند کرنے اور ظلم کا راستہ روکنے کے لیے تو سیدہ زینب سے لے کر سیدہ سکینہ تک ساتھ جاتی ہیں اور امام زین العابدین سے لے کر علی اکبر اور علی اصغر کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ یہ شیوہ ہے، تاجدار کائنات کا، خاندان نبوت کا، صحابہ کرام کا، اس لیے کہ یہ ہر ایک کا فرض ہے ہر ایک سے پوچھ جائے گا، مرد سے بھی اور عورت سے بھی، جوان سے بھی اور بوڑھے سے بھی، ہر ایک سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے سامنے ظلم ہو تا رہا، گھر میں بیٹھ کر چولہے پر برا بھلا کہتے تھے، مگر باہر نکل کے اس ظلم کے خاتمے کے لیے میرے حکم کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہ تھے، فرمایا تو جس قوم میں گناہ ہور ہے ہوں، ظلم اور زیادتی ہو رہی ہو،
ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَی أَنْ يُغَيِّرُوا ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوا.
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 364، الرقم / 19250، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 122، الرقم / 4339، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 / 1329، الرقم / 4009، وابن حبان في الصحيح، 1 / 536، الرقم / 300، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 332، الرقم / 2382.
ان پاس اگر اکٹھے ہو جائیں تو طاقت بن جائے وہ ظلم کا خاتمہ کر سکتے ہیں، اگر ایک کروڑ نمازی ہوجائیں اور وہ قیام کریں تو بولیے شیطان بھاگے گا یا نہیں باجماعت نماز اگر اتنی بڑی کھڑی ہو جائے جس میں کروڑ نمازی قیام کر رہے ہوں تو بچے گا شیطان، شیطان اپنے چیلوں سمیت نکل جائیں گے، تو فرمایا .
إِلَّا يُوشِکُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اﷲُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.
أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 122، الرقم / 4338، وابن حبان في الصحيح، 1 / 536، 537، الرقم / 300، 302، والبيهقي فی السنن الکبری، 10 / 91، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 82، الرقم / 7550، وسعيد بن منصور في السنن، 4 / 1650، الرقم / 841، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 321.
اگر ظلم کے خاتمے کے لیے اور گناہوں کے نظام کو ختم کرنے کے لیے نہیں اٹھو گئے تو عنقریب اللہ پاک اس پوری قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا
اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں. آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا
يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ عزوجل لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ.
بڑی خاص حدیث کا مضمون ہے
آقا علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ کسی معاشرے کے اگر بڑے لوگ گناہ کریں، یہ بات بڑی سنے والی ہے، وڈھیرے گناہ کریں، سردار گناہ کریں، طاقت ور لوگ گناہ کریں، جاگیر دار، سرمایہ دار، لیڈر، وزراء، اگر ایسے بڑے لوگ عیاش لوگ گناہ کریں، تو اللہ تعالی بڑے لوگوں کے گناہوں کے باعث عوام الناس کو عذاب نہیں دیتا، یہ پہلا جملہ ہے ابھی حدیث مکمل نہیں ہوئی ہے، کہ اگر بڑے لوگ گناہ کریں تو اللہ تعالیٰ عام غریب لوگوں کو، مردوں عورتوں کو عذاب نہیں دیتا جن کے چولہے میں آگ نہیں جلتی، جن کی بیٹیوں کے سر پر دوپٹہ نہیں ہیں، جن کے پاس بل ادا کرنے کا پیسہ نہیں، جن کے سر پر چھت نہیں، جن کے بچوں کو فیس دینے کے پیسے نہیں، جو نہ تعلیم دلوا سکیں، نہ روز گار دلوا سکیں، نہ تعلیم لے کر ان کو کوئی نوکری مل سکے نہ عزت پا سکیں، نہ جان بچا سکیں، نہ مال بچا سکیں
اللہ پاک فرماتے ہیں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ بڑے لوگوں کے، لیڈروں کے گناہوں کا عذاب اللہ پاک عام غریب اور عامۃ الناس کو نہیں دے گا مگر کب دیتاہے وہ سنیے،
حَتَّی يَرَوا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُنْکِرُوْهُ فَـلَا يُنْکِرُوْهُ.
مگر تب دیتا ہے عوام کو عذاب جب ان کی آنکھوں کے سامنے کھلا ظلم ہو رہا ہو، کھلی زیادتی ہو رہی ہو، کھلی ناانصافی ہو رہی ہو، کھلی شراب چل رہی ہو، کھلی بدکاریاں ہو رہی ہوں، کھلی لوٹ مار ہو رہی ہو، خیانت ہو رہی ہو، ان کی آنکھوں کے سامنے معاشرے میں اور اگر یہ جمع ہو جائیں قادرون جمع کا صیغہ ہے، جمع ہو جائیں تو اس نظام کو بدل سکتے ہیں۔ اس بدی کو مٹا سکتے ہیں، اس ظلم کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر فلا ينکروه نہ جمع ہوتے ہیں اور نہ بدی کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، جب وہ بدی کے خاتمے کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تب اللہ تعالی ان کے گناہوں کا عذاب بھی عوام کو دے دے گا، عوام کو جو عذاب ملے گا، وہ گناہ کرنے کا نہیں بلکہ بڑوں کے ظلم کو نہ روکنے کا کہ اگر اکھٹے ہو جاتے تو مل کر اتنی بڑی طاقت بن جاتی کہ معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کر دیتی چونکہ انہوں نے یہ فرض ادا نہیں کیا، اس وجہ سے گناہ ہو گا۔
فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اﷲُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ.
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 192، الرقم / 17756، ومالک في الموطأ، کتاب الکلام، باب ما جاء في عذاب العامة بعمل الخاصه، 2 / 991، الرقم / 1799، وابن أبي شيبة في المسند، 2 / 86، الرقم / 586، والحميدي في المسند، 1 / 131، الرقم / 269، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 139، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 99، الرقم / 7602، وابن مبارک فی الزهد، 1 / 476، الرقم / 1352.
پھر جب اللہ عذاب اتارتا ہے تو پھر خاص بھی رگڑ جاتے ہیں اور عوام بھی رگڑ جاتے ہیں پھر اللہ پاک کسی کو نہیں چھوڑتا عذاب سب کے لیے ہوتا ہے
حضرت عمر بن عبدالعزیز انہوں نے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام سے سنتے تھے اور آئمہ اہل بیعت سے سنتے تھے، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے یہ بات ہرایک کی زبان پے تھی
إِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتعَالٰی لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ.
کہ اللہ تعالی ویسے ہی بڑ ے لوگوں اور خاص لوگوں کے گناہوں کا عذاب اور ان کے جرائم کا عذاب عوام کو نہیں دیتا ہے اور اگر دیتا ہے تو صرف شرط پے دیتا ہے
وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
مالک في الموطأ، 2 / 991، الرقم / 1799، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 99، الرقم / 7602، وابن أبي عاصم فی الآحاد والمثانی، 4 / 387، وأيضًا في الزهد، 1 / 294، وابن المبارک في الزهد، 1 / 476، الرقم / 1351، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 298، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 311، وأيضًا في الاستذکار، 5 / 95.
جب معاشرے میں کھلے بندوں زیادتی اور ظلم اور گناہ ہونے لگے اور وہ دیکھ رہے ہوں وہ اکھٹے ہو کر طاقت نہ بنے اور اس کو نہ روکے تو پھر اللہ تعالیٰ ساروں کو اس عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالی کی سنت یہ ہے کہ کسی قوم کی تقدیر از خود نہیں بدلتی۔
تو چند چیزیں خلاصۃ طے ہوئی ایک تو یہ کہ زندگی میں پہلے نیکی کو نافذ کرو اور اپنی زندگی سے پہلے بدی کو مٹاؤ، آپ سمجھ گئے ہیں میری بات کو اپنی زندگی کو، اپنے گھر کو، عمل کرنے والے بنو، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے اسوہ حسنہ پر چلنے والے بنو، عبادات میں حضور کا طریقہ اپناؤ۔ معاملات میں حضور کا طریقہ اپناؤ، جو حضور نے طرز عمل دیا ہے اس کو اپنالو، اپنی زندگیاں بدل کے جاؤ۔ ایمان کی طاقت والے کے سامنے بے ایمان شخص نہیں رک سکتا، امانت دار کے سامنے بددیانت اور خائن شخص نہیں رک سکتا، اللہ رسول کو اپنی جان ومال بیچ دینے والے کے سامنے، جان ومال کی خاطر ڈرنے مرنے والا نہیں رک سکتا، آپ اللہ سے سودہ کرو اور ایمان کو طاقت ور بناؤ، ایمان آپ کو اتنا طاقت ور بنا دے گا کہ ان شاء اللہ ایک ایک شخص دس پے کیا سو سو پے بھاری ہو گا اور یہ قوت سجدہ ریزیوں سے آئی گئی۔
رات کے اندھیروں میں اللہ کے حضور سجدے کرو، اللہ کی کتا ب اور اس کلام کی تلاوت کرو، آپ کی آنکھیں اللہ کی محبت میں کچھ رونے والی ہوں، دل اللہ کی یاد میں ڈوبے، زبان پر اللہ کا ذکر ہو، اخلاق صالح ہوں، حقوق ادا کریں، اور جب پوری زندگی دین اور ایمان میں گزر گی تو پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا تو جب آپ نے معروف اپنی زندگی میں نافذ کر دیا اور منکر بدی کو زندگی سے نکال دیا پھر آپ طاقت ور ہو کر سوسائٹی کی طرف نکلے گئے اور سوسائٹی میں خیر کو طاقت ور کرنے اور شر اور بدی کو مٹانے کے لیے قدم اٹھائے گئے تو اللہ کی مدد ونصرت آپ کے ساتھ ہو گی اور یہ راستہ ہے اور اگر یہ آپ نے نہ اپنایا تو میں آپ کو وہ حدیث نبوی سنا چکا ہوں کہ وہ وقت آ جائے گا جب دروازے بند کر دیا جائیں گے پھر تم دعائیں کرو گے پھر تمہارے لیے دعائیں قبول نہیں کی جائیں گئی، صالحین اللہ والے بھی دعا کریں گئے تو اللہ قوم کے حق میں بھی اللہ والوں کی دعا قبول نہیں کرے گا کہ یہ وہ قوم ہے جنہوں نے برائی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ مومن کبھی بدی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا نہ اپنی زندگی میں اور نہ اپنی سوسائٹی میں، اللہ رب العزت ہمارے حال پہ کرم فرمائے۔ اور ہمیں دین وایمان پر استقامت عطا کرے اور ہمارے اندر ایمان کا نور اور تقوی کی طاقت میں اور اضافہ فرمائے تاکہ دنیا وآخرت کی نعمتوں اور سعادتوں اور اللہ رب العزت کی عطا اور رضا سے مالا مال ہو سکیں۔
تبصرہ