ہالینڈ: بری صحبت سے گوشہ نشینی بہتر ہے کیونکہ گوشہ نشینی میں راحت ہے۔ علامہ حافظ نذیر احمد القادری
اسلامی تاریخ میں جو مقام حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو عطا ہو اہے وہ نہایت عظیم اور منفرد ہے آپ کے کردار اور نظامِ حکومت سے اس وقت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر مسلمانوں کو ایک اور عمرِفاروق بطور حکمران نصیب ہو جاتا تو پوری دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نظر نہ آتا، کیونکہ رات اس تصور میں جاگتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں بسر کرتے کہ اگر عمر رات کو سو گیا تو اللہ کے حکم کی حکم عدولی ہو جائے گی اور میرا دن میری رعایا کی خدمت میں گزرنا چاہئے تاکہ رعایا کی خدمت کرنے میں کوتاہی نہ ہو اور میں اللہ کے حضور سرخرو ہو جاؤں۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل دی ہیگ کے زیر اہتمام ہفتہ وار مجلس درس قرآن سے خطاب کرتے ہوئے علامہ حافظ نذیر احمد القادری نے کہا کہ برے لوگوں کی صحبت سے گوشہ نشینی بہتر ہے کیونکہ گوشہ نشینی میں راحت ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کسی شخص کو یہ احساس ہو جائے کہ میں دنیاوی محفلوں میں جا کر غیبت کا شکار ہو جاتا ہوں یا مجھ سے ایسے کام اور ایسی باتیں سرزد ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے مجھے ثواب کی بجائے گناہ مل جاتا ہے تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ گوشہ نشینی اختیار کر لے لیکن اپنی تنہائی میں شیطانی وسوسے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے کیونکہ گوشہ نشینی اور تنہائی میں شیطان بھرپور حملے کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا اپنی تنہائی میں اللہ عزوجل کی یاد شامل کرنے سے شیطان مردود کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقام اس سے بھی بلندی پر نظر آتا ہے کیونکہ آپ دنیا میں تو رہتے تھے مگر دنیا کو اپنے دل جگہ نہیں دیتے تھے۔اس کا اندازہ اس مشہور واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جب آپ امیرالمونین کے مرتبے پر تھے لیکن دل میں یہ خیال آگیا کہ میں تو اپنی رعایا کا حکمران بھی ہوں تو انہوں نے فوراً اپنے نفس کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا، مشکیزے پانی سے بھرے اور اپنی رعایا کے گھروں پر دستک دی کہ اے لوگو! اپنے گھروں کے لئے پانی لے لوآپ کا ماشکی حاضر ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ حکومت میں فوج، پویس، بوڑھے عوام کی فلاح بہبود کے ادارے اور غرباء کے لئے سوشل سیکورٹی سسٹم کا نظام متعارف کروایا جس کے تحت آج بھی پوری دنیا میں انسانیت مستفید ہو رہی ہے۔ کاش اسلام کے نام لیوا حکمران اپنی رعایا کو حضرت عمر فاروق کی تعلیمات کے مطابق جذبہ خدمتِ خلق کے تحت سہولتیں دینے میں کامیاب رہتے تو آج دینِ اسلام اپنی ہی سر زمین پر ایک پردیسی دین نہ بنتا۔
رپورٹ: امانت علی چوہان
تبصرہ