حکومت سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور پختہ عوامی شعور سے خوفزدہ ہے: ڈاکٹر رحیق عباسی
نیا حکومتی سائبر کرائم کنٹرول ایکٹ آزادی اظہار کے آئینی حق کے
خلاف ہے
حکومت کے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے خلاف عوامی تحریک کے زیر اہتمام خصوصی
مذاکرہ
بل میں ایسی شقیں شامل ہیں جن سے آزادی اظہار کا آئینی حق سلب ہوتا ہے
مذاکرہ میں عامر یوسف چودھری، شہزاد صادق، عبدالستار، عائشہ شبیر و دیگر کی شرکت
لاہور (17 اپریل 2015) پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ پر مرکزی سیکرٹریٹ میں خصوصی مذاکرہ ہوا۔ مذاکرہ کے مہمان خصوصی ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اس متنازعہ سیاسی عزائم رکھنے والی قانون سازی کو مسترد کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت سائبر کرائم کی روک تھام کی آڑ میں انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2015 کے نام سے پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون منظور کروانا چاہتی ہے جس کی بعض شقیں آزادی اظہار کے آئینی حق سے متصادم ہیں ایسے لگتا ہے جیسے حکومت سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور عوام کے پختہ سیاسی شعور سے خوفزدہ ہے۔ مذاکراہ میں عامر یوسف، چودھری شہزاد صادق، عبدالستار، رضی الرحمن طاہر، عماد شیخ، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عائشہ شبیر، یوتھ ونگ کے مرکزی صدر شعیب طاہر، ایم ایس ایم کے مرکزی صدر عرفان یوسف، پی اے ٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ارکان نے شرکت کی۔
مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر رحیق عباسی نے کہا کہ مبینہ ایکٹ اپنی موجودہ شکل میں منظور ہو گیا تو اس سے انٹرنیٹ صارفین، آئی ٹی کی صنعت، یوتھ اور تحقیقات سے وابستہ افراد اور الیکٹرانک میڈیا بری طرح متاثر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سائبر کرائم کی روک تھام کی آڑ میں کالا قانون منظور کرنا چاہتی ہے جس کا سیاسی اختلاف رکھنے والوں کی زباں بندی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں۔
عامر یوسف چودھری نے مبینہ ایکٹ کی شق 17 اور 18 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان شقوں کے تحت سیاسی تنقید پر مبنی مزاحیہ خاکے اور تنقید جرم تصور ہو گی جس کی سزا ایک سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ تک ہے۔ حکومت سیاسی مخالفین کی زباں بندی چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شق 21 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر اسے ای میل بھیجنا جرم ہو گا یعنی کوئی سیاسی جماعت پریس کو دعوت نامہ بھی میل نہیں کر سکے گی اور حکومت کو مبینہ ایکٹ کے تحت کسی بھی ویب سائٹ کو بند کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔
شہزاد صادق نے کہا کہ مذکورہ ایکٹ کی وجہ سے آئی ٹی سے وابستہ اداروں اور پڑھی لکھی یوتھ میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ حکومت نے اگر آزادی اظہار پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی تو اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔
عبدالستار منہاجین نے کہا کہ کچھ عاقبت نا اندیش تنخواہ دار جعلی دانشوروں نے حکومت کو ڈرایا ہے کہ اس وقت دنیا میں حکومتوں کے خلاف چلنے والی تبدیلی کی تحریکوں میں سوشل میڈیا کا مرکزی کردار ہے لہٰذا لوگوں کو دفعہ 144 کی طرز پر منتشر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا پر بھی کنٹرول حاصل کیا جائے تاکہ موجودہ حکمران بھی مستقبل قریب میں کسی منظم احتجاجی تحریک اور عوامی نفرت اور مزاحمت سے بچ سکیں۔
عائشہ شبیر نے کہا کہ مبینہ ایکٹ کی جو غیر مصدقہ کاپی ہمارے پاس دستیاب ہے وہ کسی طور قابل قبول نہیں لہٰذا وفاقی حکومت مذکورہ ایکٹ کا مسودہ عوامی سطح پر مشتہر کرے اور میڈیا سمیت آئی ٹی ماہرین اور پڑھے لکھے نوجوانوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی تنظیموں کی رائے لینے کے بعد اسے پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کرے۔
عرفان یوسف نے کہا کہ مبینہ مسودہ قانون اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے پاس ہے لہٰذا کمیٹی کے اراکین بھی سوچ سمجھ کر اس مسودہ کی منظوری دیں۔ ایک ایک شق کا بغور جائزہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ اخلاق باختہ مواد کی روک تھام ضرور ہونی چاہیے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جومواد حکومت کی طبع نازک پر گراں گزرے اسے جرم قرار دے ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مذکورہ ایکٹ اس کی موجودہ شکل میں پاس کرنے کی کوشش کی تو حکومت کے خلاف شدید احتجاج ہو گا اور اس بل کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا جائیگا۔
تبصرہ