اسلاف کی علم دوستی

ڈاکٹر نعیم مشتاق

زندگی میں ہر اچھی چیز کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کبھی مال و زر کی شکل میں تو کبھی وقت کی شکل میں، مگر بغیر قیمت ادا کیے اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ حتیٰ کہ بھیگ مانگنے کے لیے بھی قیمت وقت کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں دربدر صدا لگائی جائے تو تب کہیں جا کر ایک دو روپے ملتے ہیں اور ہم ہیں کہ گھر کے ائیرکنڈیشنڈ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر اخبارات کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو ’’باخبر‘‘ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لائبریری اگر گھر سے چند قدم دور ہو تو نام نہاد مصروفیت، کاہلی، سستی اور گرمی و سردی کا بہانہ بناکر نہیں جاتے۔ اس پر ستم یہ کہ دوران گفتگو تاریخ کے جلیل القدر علماء پر تنقید اور حقائق و علم کے بغیر تبصرے کرنا اپنا بنیادی انسانی حق سمجھتے ہیں۔

آئیے ذرا دیکھیں کہ اسلامی علوم کی عظیم میراث ہمیں جن عظیم ہستیوں کے ذریعے ملی اور جن کے ذکر سے ہم آج اپنی تقریریں اور محفلیں سجاتے ہیں، انہوں نے کس طرح تکالیف اور پریشانیوں سے گزر کر اسلامی علوم و فنون کے عظیم الشان ذخیرے کو ہم تک پہنچایا۔ افسوس! آج ان بزرگوں کا علم صرف لائبریریوں تک محدود ہوگیا۔

آئیے ذرا کچھ لمحوں کے لیے ماضی میں چلتے ہیں اور دیکھیں کہ ہمارے بزرگ کس قدر علم دوست تھے اور انہوں نے ان علوم کے تحفظ اور فروغ کے لیے کتنی بھاری قیمتیں ادا کیں۔ کیونکہ ۔۔۔قیمت تو پھر چکانی ہی پڑتی ہے۔

ایک حوالہ کی خاطر 70 دن کا سفر

امام احمد بن محمد المقری (986ھ۔1041ھ) فنِ حدیث کے بہت بڑے عالم ہو گزرے ہیں۔ ان کے متعلق ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کو ایک کتاب سے حوالہ نقل کرنے کے لیے 70 دن کا سفر کرنا پڑا۔ وہ کتاب اس حالت میں تھی کہ اگر وہ کتاب کسی نان بائی کو دے کر ایک روٹی بھی خریدنا چاہتے تو شاید وہ اس پر بھی تیار نہ ہو۔

امام ابن مقری کا محض ایک حوالہ کی درستگی کے لیے 70 دن کا سفر طے کرنا ہمارے نام نہاد خادمین علم و ادب کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ہمارے بزرگ علمی دیانت کو برقرار رکھنے کے لیے 70 دن پیدل سفر کرنا ناپسند خیال نہیں کرتے تھے اور ہم آج اکثر غلط حوالوں سے دوسروں کی عزتوں کو اچھال کر علم و ادب کی دنیا میں عظیم ’’انقلاب‘‘ برپا کر رہے ہیں۔

کتا ب میں پسینے کا اثر

مورخ شمس الدین ابن خلکان (681ھ) نے اپنی تصنیف ’’وفیات الاعیان‘‘ میں خطیب تبریزی کے متعلق لکھا ہے کہ آپ کو عربی زبان و قواعد پر غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ خطیب تبریزی میں یہ غیر معمولی مہارت کس طرح آئی کہ دنیائے علم و فن میں آپ کا نام نمایاں حیثیت اختیار کر گیا؟

مورخ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ خطیب تبریزی کو ایک مرتبہ ابو منصور ازہری کی کتاب ’’تہذیب اللغہ‘‘ (جو علم قواعد و زبان پر سولہ جلدوں میں تھی) کہیں سے مل گئی۔ خطیب تبریزی نے ارادہ کیا کہ اس کتاب کے مندرجات کو کسی ماہر زبان سے تحقیقی طور پر سمجھیں۔ لوگوں نے اس سلسلے میں ’’ابوالعلاء المعری‘‘ کا نام پیش کیا۔ آپ یہ کتاب تھیلے میں ڈالی، اس تھیلے کو بغل میں لٹکایا اور تبریز سے ’’معرہ‘‘ کی جانب چل پڑے۔ خطیب تبریزی کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ سواری کا انتظام کر سکتے۔ اس لیے دھوپ میں پیدل چلنے سے پسینہ آیا اور اس کا اثر تھیلے اور کتاب تک پہنچا، نتیجتاً کتاب پسینہ سے تر ہو گئی۔ اب اگر کوئی اس کتاب کو دیکھتا اور اسے صحیح صورت حال کا پتہ نہ ہوتا تو وہ یہی خیال کرتا کہ شاید پانی میں بھیگ گئی ہے حالانکہ اس پر صرف خطیب تبریزی کا پسینہ تھا۔

موسم گرمام میں (اور وہ بھی پاکستان کا نہیں بلکہ عرب کی سرزمین کا) ایک کتاب کے مندرجات کو درست طریقے سے سمجھنے کے لیے حالت غربت میں لمبا پیدل سفر اختیار کرنا ہمارے ملک کے ’’علم دوست‘‘ طبقے کے بس کی بات نہیں۔ یہاں تو رویے ایسے ہیں کہ جیسے ہر کوئی ’’ساری سمجھ‘‘ اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوا ہے۔ دوسروں سے حصولِ علم کی غرض سے گفتگو اپنی بزرگی ، شہرت اور عزت نفس کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔

اپنی عزت کس طرح بیچ دوں؟

حضرت ابراہیم بن اسحاق حربی (285ھ) اپنے وقت کے بڑے امام، علم و زہد، فقہ و حدیث اور ادب کے مینارہ نور تھے۔ ان سے کسی شخص نے پوچھا کہ آپ نے اتنی مختصر مدت میں بہت ساری کتابوں کو کس طرح لکھ لیا؟ یہ سن کر آپ کو غصہ آ گیا اور پوچھنے والے سے کہا کہ میں نے انہیں اپنے خونِ جگر سے لکھا ہے۔

آپ کے ہاں غربت کا یہ عالم تھا کہ بقول آپ کی بیٹی، ’’مدت دراز سے ہمارا کھانا صرف روٹی کے سوکھے ٹکڑے ہیں، جنہیں نمک سے کھا لیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو گھر میں نمک بھی نہیں رہتا‘‘۔

اس حالت غربت میں جب آپ کی بیوی نے آپ سے کہا ’’آپ اپنی کچھ کتابیں فروخت کر دیں تاکہ گھر کا خرچہ چل سکے‘‘ تو آپ نے فرمایا:

’’تاجر کی عظمت نوٹ کی تھیلی میں اور عالم کی عزت نوٹ کی کاپی (نوٹ بک) میں محفوظ ہے پھر میں پیٹ کی خاطر اپنی عزت کس طرح بیچ دوں؟‘‘

آہ! ان علوم کو جسے ہمارے بزرگوں نے فقرو فاقہ اور بعض اوقات صرف سوکھی روٹی کھا کر ہم تک پہنچایا، آج ان علوم کی تعلیم حاصل کر کے اس معاشرہ میں کوئی اچھی نوکری نہیں دیتا۔ جس علم کو انہوں نے اپنی عزت قرار دیا، آج اسی علم کے حقیقی وارث ناپید ہورہے ہیں اور نام نہاد وارثان اپنے سوئِ کردار کی وجہ سے اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

اللہ کی رحمت کا ایک اور انداز

ابھی آپ نے پڑھا کہ حضرت ابراہیم بن اسحاق حربی نے نہ صرف اپنا بلکہ گھر والوں کا فاقہ برداشت کر لیا مگر اپنی کتابیں نہیں بیچیں۔ آئیے ذرا اس کے برعکس بھی ایک واقعہ پڑھ لیں کہ جب انسان اسلام کی خدمت کے نقطہ نظر سے علوم و فنون سے محبت رکھتا ہے تو اللہ بھی اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔

ابن خلکان اپنی کتاب ’’وفیات الاعیان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ادیب وقت حضرت ابوالحسن علی بن احمد کے پاس ابن درید (321ھ) کی کتاب ’’الجمھرۃ فی علم اللغۃ‘‘ کا ایک بہت ہی عمدہ اور نفیس نسخہ تھا۔ ایک مرتبہ غربت و افلاس نے اسے بیچنے پر مجبور کر دیا۔ شریف مرتضیٰ ابوالقاسم نے 60 دینار میں خرید لیا جب اس کا ورق پلٹا تو اس پر ابوالحسن کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار نظر آئے جن کا ترجمہ یہ ہے:

’’میں20 سال تک اس کتاب سے مانوس رہنے کے بعد آج اس کو بیچ رہا ہوں۔ اس کے چھوٹ جانے سے میرا غم بہت بڑھ گیا ہے۔ قرضوں کی وجہ سے اگر عمر قید بھی ہو جاتی تو پرواہ نہ تھی مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اس کو بیچنا پڑے گا لیکن کیا کروں، کمزوری، ناداری اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے حالات نے یہ دن دکھائے۔ میں بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا اور کسی دل جلے غمزدہ کی طرح یوں کہا ’’ام مالک! ضرورت کبھی کبھی عمدہ اور نفیس چیزوں کو اپنے آقا سے جدا ہونے پر مجبور کر دیتی ہے حالانکہ وہ انہیں اپنے پاس سے الگ نہیں کرنا چاہتا‘‘

(وفيات الاعيان، جلد1، صفحه: 337)

شریف مرتضیٰ نے جب کتاب پر لکھے ہوئے یہ اشعار پڑھے تو اس کا دل بھر آیا اور اس نے کتاب کا نسخہ واپس کر دیا اور دینار اْن ہی کے پاس رہنے دیے۔

حضرت ابوالحسن بڑے عظیم ادیب و شاعر تھے، خطیب بغدادی (مصنف تاریخ بغداد) آپ کے شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ حضرت ابوالحسن چاہتے تو اپنی شاعری میں حاکمِ وقت کے قصیدوں کو بیان کر کے اپنی مشکلات سے چھٹکارا پاسکتے تھے مگر انہوں نے اسلامی علوم و فنون کی عزت اور مقام کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا نہیں کیا اور ننھے منھے بچوں کا فاقہ بھی برداشت کر لیا۔ اگر کبھی شفقتِ پدری علمی ذوق پر غالب آ بھی گئی اور کتاب بیچنی بھی پڑگئی تو رحمتِ الٰہی جوش میں آ گئی اور خریدار کے دل میں کتاب بمعہ قیمت واپس کرنے کا خیال ڈال دیا۔ یوں ضرورت بھی پوری فرمائی اور کتاب بھی واپس آ گئی۔

آئیے ذرا حضرت ابوالحسن کے ذکر مبارک کو ختم کرتے ہوئے آپ کو ابوالحسن کے ان اشعار کا ترجمہ بھی سنائیں جو ابنِ اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں درج کیے ہیں۔ ابوالحسن فرماتے ہیں کہ اہل علم کی پہچان یہ ہے کہ

’’ہر غبی و بوالہوس پڑھانے کے لیے صدر مجلس بن کر بیٹھ گیا ہے اور اپنے آپ کو فقیر و مدرس کہلانے لگا۔ حق یہ ہے کہ اہل علم، اس کی مثال میں وہ قدیم شعر پڑھیں گے جس سے ہر محفل و مجلس آشنا ہے۔ (اور وہ یہ ہے کہ) وہ دُبلی ہوئی، اور اتنی ہوئی کہ دُبلے پن کی وجہ سے اس کی ہڈیاں نکل آئیں اور گردے باہر جھانکنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر فقیروکنگال بھی اس کا بھاؤ کرنے لگا‘‘۔

حضرت ابوالحسن نے اپنے اشعار میں اہل علم کی پہچان فقر و فاقہ کے حوالہ سے کروائی ہے اور یہی فقرو فاقہ وہ قیمت تھی جو انہوں نے علم کے تحفظ اور حصول کے لیے ادا کی۔

روٹی لوں یا کاغذ؟

آئیے! اب آپ کو جلیل القدر عالم کا ایک قصہ سناتے ہیں۔ محمد بن طاہر مقدسی فرماتے ہیں کہ میری غربت و ناداری کی نوبت ایک مرتبہ تو اس حد تک پہنچ گئی کہ میرے پاس سوائے ایک درہم کے کچھ بھی باقی نہ بچا۔ اس وقت مجھے کھانے کے لیے روٹی اور لکھنے کے لیے کاغذ کی اشد ضرورت تھی۔ میں بار بار سوچتا رہا کہ اگر اس درہم کو روٹی پر خرچ کر دیا تو لکھنے کے لیے کاغذ کہاں سے آئے گا؟ اور اگر کاغذ لے لیا تو پھر روٹی کیسے کھاؤں گا؟ اسی سوچ بچار میں تین دن ہو گئے اور منہ میں ایک دانہ بھی نہ گیا۔ جب چوتھا دن ہوا تو میں نے دل میں سوچا کہ اب اگر کاغذ لے بھی لیا تو کیا فائدہ؟ بھوک کی شدت سے کچھ لکھنا بھی مشکل ہے۔ میں درہم کو منہ میں رکھ کر چوستے ہوئے روٹی خریدنے چل پڑا۔ اتفاق سے بے خیالی میں تھوک کے ساتھ اُسے نگل گیا اوربے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی۔

میں اسی حال میں تھا کہ شیخ ابو طاہر سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں ہنس رہے ہو؟ میںنے کہا کہ بس یونہی! انہوں نے اصرار کیا تو پھر مجھے بتانا پڑا۔ اس پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے اور وہاں پرتکلف دعوت کی اور بعد ازاں کاغذ بھی خرید کر دیے۔

حصولِ علم کے لیے آرام کرنا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ آپ میری امت کے سب سے بڑے عالمِ قرآن ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہو جائے تو میں قرآن سے معلوم کر لیتا ہوں۔ آپ کی اس قدر علم میں وسعت کے باوجود علم دوستی کا یہ حال ہے کہ حافظ ابن کثیر نے اپنی تصنیف ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں آپ کے متعلق آپ ہی کے لفظوں میں یوں بتایا کہ:

’’جب مجھے پتہ چلتا کہ فلاں صحابی کے پاس حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث موجود ہے تو میں ان کے مکان پر پہنچتا۔ وہاں آ کر معلوم ہوتا کہ آپ آرام کر رہے ہیں تو میں اپنی چادر ان کے دروازے کے سامنے بچھا کر لیٹ جاتا۔ دوپہر کی گرمی میں ہوا چلتی تو تمام گرد و غبار میرے اوپر آتا۔ جب وہ صحابی گھر سے باہر آ کر مجھے دیکھتے تو حیرت زدہ ہو کر استفسار کرتے کہ آپ نے یہ زحمت کیوں اٹھائی؟ کسی کو بھیج کر مجھے بلوا لیا ہوتا، تو میں کہتا ’’نہیں جناب ! مجھے ہی آنا چاہیے تھا‘‘ پھر میں ان سے حدیث معلوم کرتا‘‘۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی علم میں کمال درجہ کی دسترس اور وسعت کے باوجود حصول علم کے لئے اس قدر شوق و رغبت کے اظہار کا یہ رویہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

  • حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں امام بخاری کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت تھی کہ رات سوتے سے اٹھتے، چراغ جلاتے اور جو فوائد ذہن میں آتے، انہیں تحریر میں لاتے اور پھر چراغ بجھا کر سوجاتے، پھر کوئی بات ذہن میں آتی تو پھر لکھنے کے لیے اٹھتے، اس طرح کبھی کبھی اٹھنے کی تعداد بیس کے قریب پہنچ جاتی۔

دیکھا آپ نے کہ اِن اکابرین نے علم سے اپنا کس قدر پختہ رشتہ استوار کررکھا تھا۔ ویسے اگر ہم اپنے رویوں پر غور کریں تو کیا اس طرح راتوں کو اٹھ اٹھ کر نوٹس قلمبند کرنے کی عادت ہمارے اندر بھی ہے؟ ایسے کام حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بھلائی کے لیے شدید خواہش کے بغیر نہیں ہوتے۔ آزماکر دیکھ لیجیے۔

ان واقعات سے کیا ثابت ہوتا ہے؟

یہ چند واقعات بطور نمونہ تھے۔ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات سب لوگ پڑھتے ہیں مگر سب لوگ ان سے حاصل ہونے والے نتائج پر غور نہیں کرتے۔ آئیے آپ کو بتائیں کہ ان واقعات سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ ذرا غور سے پڑھیے گا کیونکہ یہ نتائج آپ کے تصورات کو ہمیشہ کے لیے بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ایسے واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ :

  1. اسلامی علوم کی تدوین و تالیف، پُرفضا و شاداب مقامات، نہروں کے کنارے یا سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی بلکہ یہ کام خواہشات کی قربانی دے کر ہوا ہے۔ نیز اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابلِ برداشت تکالیف اٹھانی پڑی ہیں اور رات بھر ٹمٹماتے چراغوں کے سامنے جاگنا پڑا ہے۔

لیکن ان باتوں سے نہ تو امانت علم متاثر ہوئی اور نہ ہمارے بزرگوں کی دینی مضبوطی میں کوئی فرق آیا۔ ان کی غیرت و خودداری بھی اپنی جگہ پر قائم تھی اور علمی روایات کا فروغ بھی جاری و ساری تھا۔ نیز انہوں نے اپنی عشرت بھری زندگی کے لئے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے میںکبھی کسی کوتاہی سے کام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ جرأت و شجاعت اور حق گوئی و بے باکی ان کا شعار اور سرمایہ افتخار بنی رہی۔

  1. اگر کوئی حصولِ علم کے لیے پوری کوشش اور جدوجہد سے کام لے، اس راہ میں آنے والے مصائب و آلام کو برداشت کرے اور صعوبتوں اور دشواریوں پر کسی طرح قابو پالے تو اللہ تعالیٰ اس کی محنت رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ لوگ اس کے واجبی حق کو سلب نہیں کر سکتے اور فوقیت و برتری اس کے قدموں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ برتری و غلبہ کے لئے درحقیقت طویل صبر سے گزرنا پڑتا ہے۔
  2. ان واقعات کو پڑھنے کے بعد ہمیں کم از کم اتنا ضرور سیکھ لینا چاہیے کہ نفاق، خوشامدی اور چاپلوسی جیسی ناپاک اور مذموم خصلتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ ’’رزق‘‘ کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اْس خدا کے قبضے میں ہے جو بڑی شان و شوکت والا اور عظمت والا ہے۔
  3. ان واقعات سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جب عالمِ دین، حق و انصاف پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے اور اس کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو وہیں نصرت خداوندی کا ظہور عمل میں آتاہے اور آسمانی کمک اترتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
  4. ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حکام کے مال سے دامن بچائے رکھنے کے نتیجہ میں روشن ضمیری، بھلائی پھیلانے، برائی مٹانے، زبان میں تاثیر اور دنیا میں مقبولیت جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ڈھیر ساری دولت کے مقابلہ میں تھوڑا سا پاک وحلال مال، رضائے خداوندی کا ذریعہ اور باعث خیروبرکت ہے۔ جس کسی نے شدید غربت و ناداری اور انتہائی ضرورت و احتیاج کے عالم میں اپنے آپ کو حرام و مشتبہ مال سے بچا لیا، خدا اس کے بدلے میں پاک و حلال مال عطا فرماتا ہے۔ پھر وہ پاکیزہ مال کھاتا ہے اور پاکیزہ بات کہتا ہے۔ خدا اس کے کلام میں نفع اور مقبولیت ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ دوسروں کے لیے شفااور روح کے لیے حیات نو کا پیغام بن جاتا ہے۔
  5. یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل علم اگرچہ غریب و نادار ہی کیوں نہ ہوں، لیکن اس دنیا سے جانے کے بعد وہ اپنی مہکتی ہوئی سیرت اور چاردانگ عالم میں بھلائی کے ساتھ یاد کیے جانے کی وجہ سے ان لوگوں کی صف میں نظر آتے ہیں جن کے مقابلے میں ان دنیاوی امیروں اور دولت مندوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ان کی زندگی بعد میں آنے والوں کے لیے صبر و برداشت کے سلسلہ میں بہترین نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
  6. ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ عظیم و بلند پایہ شخصیتیں، علم کی چوٹی پر کس طرح پہنچیں۔ اس وقت ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہ تھی اور نہ کہیں سے مالی معاوضہ ملنے کی امید۔ نہ وہ کسی سرکاری عہدے کے منتظر تھے اور نہ کسی دنیاوی ملازمت کے خواہش مند۔ ان کا آخری مقصد اور نصب العین خدمت دین، رضائے الٰہی اور کتاب و سنت کے علم کی نشر و اشاعت کا جذبہ تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے یہ سب مصائب و آلام جھیلے۔وہ بالآخر اپنے مقصد کے اعتبار سے دنیا میں بھی کامران و کامیاب بن کر چمکے اور آخرت میں خدا کے پاس ان مقدس ہستیوں کے لیے جو اجر و ثواب محفوظ ہے وہ اس قدر لامحدود ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور انسان اپنے دل میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
  7. ان واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کل اور آج کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ماضی کے علماء پیدل یا اونٹوں پر سفر کر کے بیابانوں اور بے آب و گیاہ میدانوں کو طے کیا کرتے تھے۔ رات کی مہیب تاریکی ہو یا دن کی چلچلاتی دھوپ، پیادہ چلتے رہنا اور جاں گسل تکالیف اور خطرات کا سامنا کر کے کسی عالم، محدث، فقیہہ یا ادیب کی خدمت میں حاضر ہو کر علم و فن حاصل کرنا اْن کا معمول تھا۔ پھر یہ کمال کہ انہیں نہ اپنی عظمت وبڑائی کا احسا س تھا نہ اظہار۔ چنانچہ آپ کو ان کی سیرتوں میں نہ متکبروں کا غرور نظر آئے گا اور نہ شیخی خوروں کی سی ڈینگ۔ حالانکہ آج بہت سے لوگ اس مرض کا شکار ہیں۔

یہ ماضی کے علماء کا حال تھا اور اب خدا کے فضل و کرم سے آمدورفت کے وسائل نہایت آسان اور سہل ہو چکے ہیں۔ دور دراز کے علاقے نزدیک و قریب معلوم ہوتے ہیں اور زمان و مکان کے فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ دور کے اکثر و بیشتر ’’علماء‘‘ کا حال یہ ہے کہ ان کی ہمتیں مردہ، حوصلے پست، دماغی پیداوار کمزور اور لیاقت مفقود ہے۔ اْس پر طرّہ یہ کہ آج ایسے بہت ڈینگ مارنے والے بے شرم لوگ بھی پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں جو اپنی حدود سے بہت آگے بڑھ کر اسلاف کو نادان اور کم علم ٹھہرانے پر تلے ہوئے ہیں۔

بھلا ان سے پوچھو کہ کہیں چاند پر مٹی ڈالنے سے چاند غبار آلود ہوا ہے؟ یا وہ خاک ہی ان کے اپنے سروں پر پڑ گئی۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سچ ہے آسمان کا تھوکا اپنے ہی منہ پر آتا ہے۔

ہمارے بزرگوں کی خودداری ہماری گم گشتہ میراث

جس طرح ہمارے بزرگوں کی علمی و فکری تصانیف زمانہ اور حالات کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئی کہ آج ان کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے، ان کی اصل تصانیف دستیاب نہیں، اسی طرح ہمارے بزرگوں کی بعض صفات بھی نایاب ہو گئی ہیں۔ ان میں سے ایک صفت جو آج بڑی مشکل سے کسی عالم میں ملتی ہے وہ شانِ خودداری ہے۔

ہمارے بزرگوں نے دوسروں کے سامنے اس لیے ہاتھ نہیں پھیلائے کہ دنیا کو پتہ چلے تو ان کی شہرت ہو بلکہ اْنہوں نے دوسروں کے سامنے صرف اس لیے ہاتھ نہ پھیلائے کہ جس علم کے حصول کے لیے انہوں نے اتنی تکالیف و مصائب برداشت کیے، وہ علم معاشرے میں حقارت کا شکار نہ ہو جائے۔ لوگ ان کے نظریات و خیالات کو حقیر نہ سمجھنا شروع کر دیں کہ جن کو اپنانے سے انسانِ ناقص، انسانِ کامل میں بدلتا ہے۔ ذلت و رسوائی ہمیشہ سے ہاتھ پھیلانے والوں کا مقدر رہی ہے۔ اس لیے علامہ نے فرمایا:

ہوئی ہے زیر فلک اْمتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

آئیے! ذرا امام شافعی سے پوچھیں کہ آپ اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ کیوں نہیں پھیلاتے؟ آپ بصورت اشعار اس کا جواب دیتے ہیں، جس کا یہ ترجمہ یہ ہے کہ

’’سرندیپ (سری لنکا) کے بادل خوب برس لیں اور تکرور کی کانیں خوب سونا اْگل لیں (مجھے ان میں سے کسی کی پرواہ نہیں)۔ اگر میں زندہ رہا تو روزی کہیں نہیں گئی اور مر گیا تو قبر نہ ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ میرا حوصلہ شاہوں کا حوصلہ ہے اور میرا نفس آزاد شریف انسان کے نفس کی طرح ہے جس کے نزدیک کسی سے مانگنا ذلت و رسوائی کے ہم معنی ہے‘‘

(صفحات من صبرالعلماء علی شدائد العلم والتحصيل، عبدالفتاح ابوغدة، صفحه: 69)

لیجیے! امام شافعی نے تو اپنی خودداری پسِ پشت ڈال کر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے عالم کے اس عمل کو ذلت و رسوائی سے تعبیر فرمایا۔

اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے بزرگ ہمیشہ سے اسلامی علوم و فنون کی ترقی اور تحفظ کے لیے قربانی دیتے آئے۔ ہمارے اسلاف نے اپنی جائز اور شرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ ہاتھ پھیلانا تو دور کی بات، انہوں نے ہاتھ پھیلانے سے جان کی قربانی دینے کو احسن جانا۔

فقرو فاقہ پر ناز

فقروفاقہ ایک ایسا آئینہ ہے جس سے دوسروں کی خودی کی حقیقت واضح نظر آتی ہے۔ شیخ الاسلام مصطفی صبری دولتِ عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام ہیں۔ آپ اپنے دین کو بچانے کی خاطر، ترکی سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ وہاں سے جلاوطن ہو کر مصر آئے تو شدید افلاس و ناداری اور فاقہ کشی کا عالم تھا لیکن آپ کی غیرت و خودداری کا یہ حال تھا کہ آپ کسی طرح اپنی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دیتے۔ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھتے اور سختیوں کو بڑی ہمت کے ساتھ برداشت کرتے۔ علامہ نے انہی جیسے لوگوں کے لیے کہا ہے:

غریبی میں ہوں محسود امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری

عالم اسلام کے یہ جلیل القدر عالم مصطفی صبری فرماتے ہیں کہ

’’میں جب سے مصر پہنچا ہوں اسی روز سے ناداری اور تہی دستی کی بنا پر مسلسل فاقہ کشی کر رہا ہوں۔ میری مسلسل فاقہ کشی کا میرے علاوہ کسی دوسرے کو علم نہیں۔ اس لئے کہ میں اسلام کی خاطر جو تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں وہ میں ہی جانتا ہوں اور اگر ان مصائب کو برداشت کرتے کرتے میں مر گیا تو کوئی غم نہیں، میرے بعد اسلام زندہ رہنا چاہیے۔ایسا دین زندہ رہنا چاہیے، جسے آج کے مسلمانوں نے اپنی غفلت و لاپرواہی سے ضائع کر رکھا ہے اور انہیں اس کے کسی بھی عہدو پیمان کا لحاظ نہیں‘‘۔

(صفحات من صبر العلماء، صفحه: 113)

دیکھا! آپ نے ہمارے بزرگوں کی خودی کتنی طاقتور تھی۔ ان کے فقر و فاقہ کا لوگوں کو کئی کئی دن تک پتہ نہیں چلتا تھا۔ یہ فقروفاقہ کو بھی اللہ کی طرف سے تحفہ سمجھتے تھے اور اسے نفس کی تربیت کا ذریعہ بناتے تھے۔ یہ خلوت میں فاقے سے ہوتے مگر جلوت میں جلال و جمال کی کیفیات سے دوسروں کی زندگیاں بدلتے۔ آج زندگیاں اس لیے بھی نہیں بدلتیں کیونکہ ہم خلوت میں پیٹ بھر کر کھانے کے بعد بھی ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کا شکوہ زبان پر رکھتے ہیں۔ اسی لیے علامہ نے ہمیں مخاطب ہو کر کہا:

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے!

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

آہ! آج کا وارثِ علم

آہ!اسلامی تاریخ کو یہ دن بھی دیکھنا تھے جب اسلامی علوم پڑھ کر ہمارے ’’اسلامی‘‘ معاشرے میں کسی کو قابلِ عزت نوکری نہیں ملتی۔ ملتی ہے تو صرف مسجد میں امامت کی جہاں وہ ساری عمر معاشی پریشانیوں سے آزاد نہیں ہوتا۔

اس عظیم سرمایہ کا یہ وارث جب اپنے ماضی پر نظر دوڑاتا ہے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے مگر حال میں اُسے صرف شرمندگی ہی ملتی ہے۔ آج اسلامی علوم ناقدری کا شکار ہیں۔ ایک وقت تھا جب ملاّ ہونا باعثِ عزت و افتخار سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ لفظ گالی سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو جاہل یا ناسمجھ کہنا ہو تو اسے ’’ملاّ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلامی علوم کے اس وارث کو کوئی قابلِ فخر مقام دے سکے۔ یہ وارث آج صرف نکاح، طلاق، جنازہ، ختم اور امامت ہی کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

اس وارثِ منبر و محراب کے اصل مقام سے گرجانے کا ذمہ دار یہ وارث خود بھی اور پاکستان کی گذشتہ تمام حکومتیں بھی ہیں۔ گذشتہ حکومتوں نے صرف اقتدار میں آنے کے لیے عوام کی اسلام سے محبت کو استعمال کیا مگر اسلامی علوم کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہ کیا۔ اسلامی علوم کا وارث اس لیے ذمہ دار ٹھہرا کیونکہ اس نے صرف تقریروں اور تحریروں میں اسلاف کے کارناموں کو یاد کر کے سر فخر سے بلند کرنے پر ہی تکیہ کیا مگر ان کارناموں کو جاری رکھنے کی کوئی عملی جدوجہد نہ کی۔ آج کا وارث متنازعہ موضوعات کو ہوا دینے اور اپنی گفتگو کو صرف انہی روایتی موضوعات تک محدود رکھتا ہے۔ مگر کسی بزرگ کی لکھی ہوئی قدیم کتاب کو جدید طرز پر شائع کرنے یا کسی جدید موضوع کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرنے اور اُسے فروغ دینے کے لئے عملی اقدامات گوارہ نہیں کرتا۔

ہمارے بزرگ کسی بھی صورت علمی سرگرمیوں سے کنارہ نہیںکیا کرتے تھے۔ وہ شہرت پرستی جیسی بیماریوں سے محفوظ تھے۔ ان کا محفوظ ہونا ان پر اللہ کی رحمت کی ایک دلیل تھی اس لیے کہ انہوں نے خلوص نیت سے اسلامی علوم کے ذخیرہ کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا عزم کیا ہوا تھا اور ایک آج کے وارث ہیں کہ ان علوم کے تحفظ کا کا کوئی معقول انتظام نہیں کرپائے۔

ہمارے اسلاف نے غیر معمولی وسائل کے بغیر اتنا عظیم الشان علمی ذخیرہ تخلیق کیا جبکہ آج کے وارث وسائل کی بہتات کے باوجود اس طرح کی تخلیق کرنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ ان کے پاس اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ اسے مناسب طریقے سے استعمال کر کے معاشرے کی حالت بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکیں۔ وہ علمی ذخیرہ جو اہل اقتدار کی معاونت کے بغیر ہمارے اسلاف کی علم دوستی اور شانِ خودداری کی وجہ سے وجود میں آیا، افسوس آج ہم اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانے سے بھی محروم ہیں۔

ایسا اس لیے بھی ہے کہ آج کا وارث اپنے دائرہ اختیار سے باہر رہ کر سوچتا ہے اگر صرف وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہنا سیکھ لے تو معاشرہ کی بے شمار پریشانیاں اور خرابیاں دور ہو جائیں۔

افسوس! آج جہاد بالنفس کی کسی کو ضرورت نہیں، سب ’’جہاد بالمال‘‘ میں لگے ہوئے ہیں یعنی اپنے مال کو خرچ کرنے کی جدوجہد نہیں بلکہ دوسروں کے مال کو حاصل کرنے کی جدوجہد۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین آج منبرو محراب کے وارثین صرف عام مسلمانوں کو کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ان کی اپنی ذمہ داری اپنی خودداری کو پسِ پشت ڈال کر مال کو جمع کرنا ہے۔

دوسری طرف ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کا علم کے ساتھ سلوک بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ آج اگر کوئی MBA یا MCS جیسے علوم سیکھنا چاہے تو ہزاروں روپے دینے پر بھی کوئی ہلکا سا اعتراض نہیں مگر اسلامی علوم پر مبنی کوئی ایک مہینہ کا بھی کورس کروائے تو لوگ اس کی فیس تو دور کی بات مفت میں سیکھنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں کیونکہ ان سے صرف ثواب ملتا ہے، اچھی نوکری نہیں۔

آج اسلامی علوم کی یہ ذلت معاشرے میں ’’علماء‘‘ کے کردار کانتیجہ ہے۔ کیونکہ انہیں اسلامی علوم کو معاشرتی ڈھانچے میں کوئی اہم مقام دلانے کی جدوجہد اہم ہی دکھائی نہیں دیتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اسلاف کی علم دوستی کے ان مظاہر کو ازسر نو زندہ کریں، علم سے محبت کریں، علم کو فروغ دیں اور اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں دین اسلام کی تعلیمات کو جدید دور کے مطابق پیش کرنے میں صرف کریں۔ وارثینِ منبرو محراب کہلانا آسان مگر اس کے تقاضے پورا کرنا مشکل ہے۔ اس مقام کی بقاء کے لئے ہمیں اپنے کردار کو بھی مضبوط تر کرنا ہوگا، اپنی خودی اور خود داری کو مستحکم کرنا ہوگا۔

منبر و محراب کے حقیقی وارثان وہی ہوتے ہیں جو علم و فکر کو جلا بخشتے ہیں اور اپنے سیرت و کردار سے اسلام کے لئے سربلندی و فخر کا باعث بنتے ہیں نہ کہ وہ جو اپنے کردار کے ذریعے اسلام پر دہشت گردی و انتہاء پسندی کا لیبل لگوانے کے لئے مکروہ سازشیں اور کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن الحمدللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اسلاف کی علم دوستی کے عملی اظہار کا پیکر ہے۔ اس لئے کہ اس پلیٹ فارم سے علم فروغ پارہا ہے اور اہل علم کی خدمات اور علمی تخلیق کو امت مسلمہ تک پہنچانے کا فریضہ کماحقہ سرانجام دیا جارہا ہے۔ آج امت مسلمہ کو دنیا بھر میں جو بھی چیلنج درپیش آتا ہے تو تحریک منہاج القرآن کا کردار روایتی مذہبی جماعتوں جیسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ عالمی حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی امن، سلامتی، محبت اور جدت پر مبنی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے کلیدی کردار ادا کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ ہو یا اسلامی امن نصاب کی تشکیل۔۔۔ تصوف کا احیاء ہو یا علم و فکر کی ترویج۔۔۔ ہر محاذ پر تحریک منہاج القرآن ہی وقت کی ضرورت کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اپریل 2016

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top