عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس کا فیصلہ سنا دیا

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ عدالت نے 127 ملزمان کو طلب کر لیا۔ پاکستان عوامی تحریک کا کہنا ہے کہ استغاثہ کیس میں قتل عام کا حکم ماننے والوں کو طلب کیا گیا اور گولی چلانے کا حکم دینے والوں کو طلب نہیں کیا گیا۔ منگل کو شادمان لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر استغاثہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مستغیث جواد حامد نے عوامی تحریک کے وکلاء کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر کوئی کمنٹ نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاون استغاثہ کیس میں حکم ماننے والے تو طلب کر لیے گئے مگر قتل عام کا حکم دینے والوں کو طلب نہیں کیا گیا۔ تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد آئندہ کے قانونی لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔ فیصلے کے جس پیراگراف سے اختلاف ہوگا اس حوالے سے اپنا قانونی حق استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران، وفاقی وزراء ہیں جن کے حکم پر پولیس نے 17 جون 2014 ء کے دن ایکشن کیا اور 100 لوگوں کو گولیاں ماریں جن میں 14 شہید ہو گئے۔

جواد حامد نے کہا کہ ابتدائی طور پر جو فیصلہ آیا ہے اس میں آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، ڈی آئی جی آپریشن، سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان و دیگر پولیس افسران کو طلب کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے استغاثہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 139 ملزمان کو نامزد کیا تھا جن میں 12 ملزمان نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی، چودھری نثار علی، سید توقیر شاہ، میجر (ر) اعظم سلیمان، راشد محمود لنگڑیال کو طلب نہیں کیا گیا بقیہ 127 ملزمان طلب کر لئے گئے جن میں آئی جی پنجاب سمیت ایس پیز، ڈی ایس پیز بھی شامل ہیں۔ فیصلہ پڑھنے کے بعد ہم اپنے وکلاء سے مشاورت کے ساتھ تفصیلی موقف اور آئندہ کا قانونی لائحہ عمل دیں گے۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کی سماعت کا آغاز منگل کی صبح ساڑھے 9 بجے ہوا جس میں پولیس کی طرف سے بتایا گیا کہ آئی جی پنجاب نے 9 بجکر 35 منٹ پر عہدے کا چارج سنبھال لیا تھا۔ اس پر عوامی تحریک کے وکلاء نے کہا کہ اس رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ آئی جی پنجاب سانحہ کے وقت اپنے دفتر میں موجود تھے اور وائرلیس پر ہدایات دے بھی رہے تھے اور رپورٹ لے بھی رہے تھے۔ جس پر انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج چودھری محمدا عظم نے کہا کہ وہ آج ہی فیصلہ سنا دیں گے۔ اس اعلان کے بعد عوامی تحریک کے کارکنان جن میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں وہ انسداد دہشتگردی کی عدالت کے باہر پہنچ گئیں۔ فیصلے کا اعلان ہوتے ہی خواتین اور کارکنان نے قاتل قاتل شریف قاتل کے نعرے لگائے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے تک قانونی اور سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ابھی آغاز ہوا ہے انشاء اللہ اس کا اختتام حکمرانوں کی پھانسیوں پر ہو گا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اشتیاق چودھری، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، آصف سلہریا ایڈووکیٹ، چودھری امتیاز ایڈووکیٹ، ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ، رفاقت علی کاہلوں ایڈووکیٹ، یاسر ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج پہلی بار عدالت کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے عوامی تحریک کے موقف کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ استغاثہ کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب حکومت، پولیس اور جے آئی ٹی نے اب تک جو رپورٹیں اور موقف دئیے وہ گمراہ کن تھے۔ بالخصوص پولیس کی طرف سے درج کروائی جانے والی ایف آئی آر 510 بھی جھوٹ کا پلندا ثابت ہوئی اور جسٹس علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہ لائے جانے کا پس منظر بھی سامنے آگیا کہ اس میں حکومت ملوث تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم شریف برادران اور وفاقی وزراء کو کٹہرے میں لانے کی قانونی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top