انسداد دہشتگردی کی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرینگے: ڈاکٹر طاہرالقادری

سانحہ ماڈل ٹاون کے استغاثہ کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے ابتدائی فیصلہ کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 8 فروری 2017ء کو ٹورنٹو سے بذریعہ ویڈیو لنک ہنگامی پریس کانفرنس کی ہے۔ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاون میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد پریس کانفرنس میں موجود تھی۔

ہنگامی پریس کانفرنس میں سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، سید الطاف حسین شاہ، مستغیث جواد حامد، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، ساجد محمودبھٹی، اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ، ، پیر سید طاہر سجاد کاظمی زنجانی، راجہ زاہد، راجہ ندیم و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرینگے۔ آئی جی، ڈی آئی جی کو بلا لیا جائے گا اس کی بھی توقع نہ تھی، آئی جی کو اس دلیل پر طلب کیا گیا کہ وہ 17جون کے دن 9:55 پر اپنے دفتر میں موجود تھے۔ اسی طرح کے بیانات وزیر اعلیٰ پنجاب اور رانا ثناء اللہ کے بھی ریکارڈ پر ہیں۔ سازش کی تہہ تک پہنچنے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب اور رانا ثناء اللہ کو طلب کیاجانا چاہیے، مزید بڑے خود بخود پکڑے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی، ڈی آئی جی کو اے ٹی سی نے بطور ملزم طلب کیا اب انکا اپنے عہدوں پر برقرار رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ مشتاق سکھیرا کو بلوچستان سے پنجاب بلوایا گیا آخر کسی اتھارٹی نے تو اسے بلایا وہ خود تو نہیں آیا، میرے طیارے کا رخ موڑا گیا کیا وہ بھی آئی جی پنجاب نے موڑا تھا ؟ ڈاکٹر توقیر شاہ کو آئی جی پنجاب نے تو جنیوا میں سفیر بنا کر نہیں بھیجا ؟ کیا یہ سارے واقعات آل شریف کے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے تعلق کو ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں؟۔

رانا ثناء اللہ نے جوڈیشل کمیشن اور جے آئی ٹی کے سامنے بیان حلفی میں کہا کہ 16 جون 2014 ء کو بیریئر ہٹانے کے حوالے سے سول سیکرٹریٹ میں ہونے والی میٹنگ کی صدارت میں نے کی، جس میں کمشنر لاہور راشد لنگڑیال، ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ شامل تھے۔ ملزم خود سانحہ سے اپنے تعلق کا اعتراف کررہے ہیں اور کونسے ثبوت چاہئیں؟ اگر اے ٹی سی عدالت 16جون کی میٹنگ کے منٹس منگوا لیتی تو سب معاملہ سامنے آ جاتا، سرکاری میٹنگوں کا ریکارڈ ہم کہاں سے لائیں، کیا یہ ثبوت ناکافی ہیں کہ 14 لاشیں پوری دنیا نے دیکھیں اور پوری دنیا نے میڈیا کے کیمروں کے ذریعے پولیس کو سیدھی وحشیانہ فائرنگ کرتے دیکھا؟۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی، ڈی آئی جی سمیت 126 ملزم طلب کئے گئے جن میں 7 ایس پی، ڈی سی او لاہور بھی شامل ہے کیا یہ لشکر اپنے آپ ماڈل ٹاؤن پہنچ گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ عدالت معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی تو جسٹس باقر نجفی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منگوا لیتی، ہم نے درخواست کی جو مسترد کر دی گئی۔ عدالت کے حکم پر سرکاری فائلوں میں پڑے لاتعداد ثبوت عدالتی ریکارڈ پر آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کے دامن صاف ہیں تو جسٹس باقر نجفی کی رپوٹ سامنے لائیں۔

رانا ثناء اللہ پر جرح نہیں ہو گی تو سانحہ کے ماسٹر مائنڈز کا پتہ نہیں چلے گا۔ سانحہ کے سرغنے اور گرو بے نقاب کر کے رہیں گے۔ بکریاں نہیں چرواہے پکڑے جائیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن قانونی، اخلاقی، انسانی جنگ ہے آخری سانس تک لڑیں گے۔ ہمارا اصل ہدف سرغنوں کو کٹہرے میں لانا اور انصاف بشکل قصاص حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف کا وزیر اعظم بننا اس قوم کے ساتھ سب سے بڑا حادثہ ہے۔ وزیر اعظم کی پاکستان سے وفاداری کم اور پڑوسی ملک سے کاروبارری مفادات زیادہ ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ وہاڑی میں پولیس نے 7 فروری کوہمارے ایم ایس ایم کے پرامن کارکنوں پر تشدد کیا، متعدد کارکن زخمی ہوئے الٹا مقدمہ بھی انہی کے خلاف درج کیا گیا، جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہوا۔ پولیس والے ان قاتل حکمرانوں کے باڈی گارڈ بننے کی بجائے عوام کے خادم بنیں یہ حکمران صرف استعمال کرتے اور پھینکتے ہیں اور پھر پولیس والوں کیلئے نہیں اپنے لئے معافیاں مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف شریف برادران ہیں۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top