ریاست مدینہ اورقائد انقلاب کا تصور پاکستان

تحریر: عین الحق بغدادی

پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظام زندگی اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر قیامت تک کے لیے ہوسکتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں دے دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثالی طرز حکمرانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا، اُس کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے تاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے اُن پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جو ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہوگیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔

مدنی زندگی کا مرحلہ حکمت:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

مواخات:

مدینہ سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے گھر بار اور مال و دولت چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے لہذا ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواخات مدینہ کا درس دے کر رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر دی کہ معاشرے سے غربت و تنگ دستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔ مواخات کے طرز عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی گئی تھی ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں کہ کس طرح انصار نے اپنے مال و دولت میں مہاجرین کو شریک ٹھرایا یہاں تک کہ جن کے پاس دو بیویاں تھیں اس نے ایک کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی کے عقد میں دے دی۔ رسول عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کے درمیان مواخات قائم ہوجانے سے طمانیت حاصل ہو گئی۔ منافقین نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مواخات نے ان کی چالیں ناکام بنادیں۔

انتظامی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی:

اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلم اور غیر مسلم کس خاص نکتے پر متفق ہوتے ہیں، جس سے اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملے اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرأت نہ کرسکیں۔ انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے چند ماہ بعدہی ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔

دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ شہری مملکت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ اس معاہدے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظام عطاء کیا اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس دستاویز نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبردست کام یابی تھی۔ دستاویز میں ایک بار لفظ دین بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کو پیش نظر رکھے بغیر مذہب اسلام اور سیاسیات اسلام کو اچھی طرح سمجھانہیں جا سکتا۔

بقول محمد حسین ہیکل یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دبائو ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاء کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دست استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔

اسلامی ریاست کا تصور:

یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپ منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہوگا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ایک اہم مقصد مثالی اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے حکومت کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حرکت تیز ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعوت دین، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفس تھا۔ قرآن پاک نے اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے۔ ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے۔

یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کے طریق کار کو متعین کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔

داخلہ پالیسی:

معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا۔ ان غیر مسلموں کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔ امور داخلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی توجہ استحکام امن اور اخلاقی تربیت کی طرف رکھی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے اور استحکام بخشنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔

مواخات اور میثاق مدینہ کے علاوہ قریبی قبائل سے معاہدے کیے۔ اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تدبیر اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مضبوط ہو۔ اس طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے لیے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور نو مسلموں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام ہوا۔

خارجہ پالیسی:

خارجہ پالیسی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے کیوںکہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔

اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔

نظام قانون:

ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھااس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملا کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں، گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں کے لیے اور سانولوں کے لیے مطلقاََجداجداہیں جبکہ ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات کا اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ جب محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔

ریاست مدینہ کا نظام تعلیم:

اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کے لیے چبوترہ ڈالا گیا جس کو صفہ کہا گیا۔ یہاں یہ طلبہ قیام کرتے تھے۔ عرب میں چوںکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی عبد اللہ بن سعید بن العاص اور عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہوگا۔

امورِسلطنت میں مشاورت کا عمل:

ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیادمشاورت تھی، آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کا حکمران محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیاکہ جمہورکا فیصلہ قابل اقتداہواکرتاہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیااس کا وجود ہی دنیا سے ختم کردواور اوپر سے جمہوریت اورآزادی رائے اوربے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہولیکن ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں، خواتین ہوں یا شہری سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو پوچھنا چاہتا اسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔

ملکی تقسیم:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن انتظام کا ایک پہلو ملکی تقسیم ہے جس سے سلطنت داخلی طور پر مستحکم ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں بعض علاقے بذریعہ فتح اسلام کے زیر نگیں اور بعض معاہدے کے تحت قبضے میں آئے۔ جو علاقے فتح کے ذریعے قبضے میں آئے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گورنر مقرر کیے۔ مثلاً حجاز اور نجد کے صوبے کا گورنر اُنہیں بنایا جن کا صدر مقام مکہ تھا اور جو علاقے صلح نامے کے ذریعے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے ان کے حکمران وہیں کے امراء رہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی حکومت کا انتظام چلانے کے لیے مختلف اوقات میں عامل (گورنر) مقرر کیے۔

افسروں کا انتخاب:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں چوںکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی کا ایک اہم جزء یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ ترجمہ: بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عہدے ان کے اہل لوگوں کو دیے جائیں۔ (النساء )

احتساب:

اگر چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اصلاحات کو جاری کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہیں آتے انہیں سزائیں دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔

اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو کسی گھر یا مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس کے مخالف کو اس پر متعین کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ مجرم کو لوگوں سے ملنے نہ دے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔ (بخاری شریف)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیوںکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو جائے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی:

جب آپ نے مدینہ منورہ کو ریاست بنایا تو آپ نے حکومتی اختیارات کو نچلی سطح تک یوں منتقل کیا کہ ہر دس افراد پر ایک نقیب مقرر کیا، دس نقیبوں پر ان کا سربراہ عریف بنایااور پھر سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی، اس طرح عوام کو براہ راست پارلیمنٹ میں شراکت دے کر ان کی آواز ایوان تک پہچانے کا ذریعہ بنا دیا۔

مرکز حکومت:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیکرٹریٹ یا مرکز حکومت مسجد نبوی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روانہ کی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرامؓ سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا۔ تاریخ عرب میں ہے مسجد مسلمانوں کی مشترکہ عبادت، فوج اور سیاسی اجتماع کی جگہ تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے، آج ہماری مسجد اور امام مسجد معاشرے کی بہتری کے لیے کیا کردار اداء کر رہا ہے سب کے سامنے ہے

یہ تھا ایک مثالی حکمران کا طرز حکومت۔ وہی حکمران جنہیں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے کامل ترین نمونہ بنا کر بھیجا۔ اآج عالم گیر رسالت کے حامل عالم گیر رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز حکمرانی ہی ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔

ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر معرض وجود میں آئی۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے، قاہد کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی اسٹیٹ اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہو گی مگر شومیِ قسمت کہ قائد کی صحت ان کی زندگی کا ساتھ نہ دے سکی اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انگریز کی روحانی اولاد نے پاکستان کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور پاکستانی قوم کو پہلا آئین 1956 میں ملا مگر قابل افسوس امر یہ تھا کہ ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ پر ان جاگیر داروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا جن کے ذریعے انگریز متحدہ ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا۔

انگریز کے ان جاننشینوں نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ آج تک پاکستانی پارلیمنٹ پر چور اچکوں اور بد معاشوں کا قبضہ ہے، ان حالات میں پاکستان کی مٹی سے پیار کرنے والے، عشق نبی میں ڈوبے اور دن رات محبت رسول کا درس دینے والے اور دین اسلام کی خدمت سے پوری دنیا میں شہرت پانے والے ایک مرد مجاہد ڈاکٹر طاہر القادری نے ریاست مدینہ اور محسن انسانیت کے بناے قانون کو پاکستان میں رائج کرنے کے لیے بھر پور جدو جہد کی مگر ساٹھ سال سے قابض ٹولہ جو اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو گالی گلوچ سے مخاطب کرتے تھے اور حصول اقتدار کے لیے ایک دوسرے کا قتل مقاتلہ جائز سمجھتے تھے جب انھیں اپنا اقتدار چلتا دکھائی دیا تو سب کے سب جھوٹے اقتدار کی جھوٹی ناو کو بچانے کے لیے یک جاں و یک قالب ہو گئے۔ آخر وہ کیا چیز تھی جو ایک عاشق رسول اس ملک میں لاگو کرنا چاہتے تھے اور وہ روایئتی سیاستدانوں کو پسند نہ آئی

ڈاکٹر صاحب نے جھنگ سے لاہور کی طرف ہجرت کی تا کہ اشاعت و ترویج دین کا کام تیزی سے پھیلا سکیں، لاھور آنے کے بعد اللہ رب العزت نے اتنی شہرت دی کہ اس وقت کے صاحبان اقتدار کے کان بھی آپ کی شہرت کی صدا سے آشنا ہو کر مائل ہو گئے اور آپ کے خطاب کی شیرنی سے متائثر ہو کر آپ کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے مگر آخر ہوا کیا ہوا وہی جو حضرت موسی کے ساتھ دربار فرعون میں ہوا۔

حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے جب اپنی دعوت، معجزات اور مقصد بعثت بیان کیا تو اس پر جو فوری ردعمل سامنے آیا اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

قَالَ المَلَاُ مِن قَومِ فِرعَونَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِر عَلِيم يُّرِيدُ اَن يُّخرِجَکُم مِّن اَرضِکُم فَمَا ذَا تَامُرُون.

(سورة اعراف، آيات109-110)

اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا یقیناَ یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

 مصر کے ذہین سردارفوراَ یہ بات سمجھ گئے کہ اس شخص کے مقاصد میں زمین پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے اور بلآخریہ ہمیں ریاست سے بے دخل کر کے اقتدارحاصل کرنا چاہتاہے۔ پس انبیاء علیھم السلام جس پروگرام کے تحت اس زمین پر مبعوث کیے گئے اور جس ایجنڈے کے تحت انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھااس میں نظام سیاست کی تبدیلی بذریعہ حصول اقتدار شامل تھی۔ خود ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قرآن مجید نے نقل کی ہے کہ:

وَ قُل رَّبِّ اَدخِلنِی مُدخَلَ صِدقٍ وَّ اَخرِجنِی مُخرَجَ صِدقٍ وَّ اجعَل لِّی مِن لَّدُنکَ سُلطٰنًا نَّصِيرًاO

اوردعاکرو کہ اے پروردگارمجھ کو جہاں بھی لے جا سچائی کے ساتھ لے جااور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔

(سورة بنی اسرائيل، آيت80)

پس اسی مطلوب اقتدار کے لیے مدینہ طیبہ کی ایک ریاست محسن انسانیت کے لیے تیارکی گئی۔

توجب پاکستان میں اقتدار کے فراعنہ کو سمجھ آئی کہ یہ شخص یعنی ڈاکٹر طاہر القادری کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ان کی زندگی ایک نظریے اور مشن کے تحت ہے تو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہر وہ کاروائی کرنا جائز سمجھی جس سے ان کا باطل اقتدار بچ سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کومدینہ منورہ کی ریاست کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں اقتدار چند خاندانوں کے بجائے عوام کے پاس ہو، جہاں عوام کے فیصلے عوام کی مرضی سے ہوں، جہاں غریب کی عزت نفس مجروح نہ ہو، جہاں عوام بھوک اور علاج کے ڈر سے خود کشیاں نہ کرے، وہ ایسی ریاست چاہتے تھے جہاں انصاف مظلوم کی دہلیز پر میسر ہو، عدل و انصاف کا ہر طرف بول بالا ہو، ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو، لوگوں کے لیے یکساں روز گار کے موقع ہوں، جہاں امن ہو، چادر و چار دیواری کی حفاظت ہو۔

ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان میں ہرغریب بے گھر کے لیے گھر چاہتے ہیں، مضارعین کے لیے زمین کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ کاشکاروں کو ان کے حقوق دلانا چاہتے ہیں، صحت اور علاج معالجے کی سہولیات شہریوں کے لیے آساں کرنا چاہتے ہیں، احتساب کے ذریعہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر عوام کی فلاح پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اور ریاست مدینہ کو مد نظر رکھ کر ہر مذہب کے لوگوں کو پاکستان کے دوسرے شہریوں کے برابرحقوق دینا چاہتے ہیں، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام کرنا چاہتے ہیں پاکستانی عوام کو دنیا و آخرت کی فلاح پر لانا چاہتے ہیں۔

یہ وہ نظریہ ہے وہ فکر ہے جو ریاست مدینہ سے ماخوذ ہے اور پاکستان کا مفاد پرست مقتدر ٹولہ خوفزدہ ہے کہ اس طرح نسل در نسل ان کے مفادات کو کاری ضرب لگ جائے گی، آج اس ماہ مبارک میں ہمیں حضور خاتم المرسلین کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر سوچنا ہو گا کہ فلاح صرف اور صرف آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط میں ہے اور شیطانی مغربی طاقتوں کو اپنا قبلہ و کعبہ بنانا سرا سر تباہی و ہلاکت ہے

آج ہمارے پاس بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی، دولت و وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم و صحت کی فراہمی، عدل و انصاف کا پھر سے راج، تعمیر و ترقی اور دنیا کے ساتھ کندھا ملا کر دوسری دنیاؤں میں قدم رکھنا، عزت و وقار کے ساتھ سر بلند کر کے چلنااور پاکستان کو اسلامی دنیا کے لیے مشعل راہ بنانا۔ ۔ ۔ یہ سب ہمارے پاس کیوں نہیں؟ اسکا جواب ہمیں خود تلاش کرنا ہے۔ جواب تلاش کرنے کے لئے سوال کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ سوال تب پیدا ہوتا ہے، جب آپکے پاس خدا کی ایک بہترین نعمت "شعور" ہو۔ خدا نے شعور دیا بھی! لیکن غلامی میں شعور بھی خوابیدہ ہوجاتا ہے۔ پس خدا کے ودیعت کردہ شعور کو جگانے کی دیر ہے۔ اس کی تخلیق کردہ ایک ایک نعمت اس سرزمین میں وافر موجود ہے، جو ہماری بے شعوری کے باعث موقع پرستوں کے ہاتھوں ضائع ہو رہی ہے۔ غلامی کی یہ شبِ کٹ سکتی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ صرف اسی صورت میں کہ ہم اپنے شعور کی شمع کو روشن کریں۔ انشاء اللہ یہ ملک قائدِ اعظم کی خواہش کے مطابق پیغمبرِ گرامیء قدرکی ریاستِ مدینہ کی شبیہ بن سکتا ہے، اگر ہم چاہیں تو۔ ہمیں شعور کی دھار سے غلامی کی زنجیر کو کاٹنا ہوگا بل آخر ہمیں قائدِ انقلاب کی بات کو سمجھنا ہو گا اور ان کی آواز پر لبیک کہنا ہو گا۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top