حسنینِ کریمین علیما السلام آقا علیہ السلام کے گلشن کے دو پھول

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.

’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘

(الشوریٰ، 42: 23)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت اطہار بالخصوص حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے شدید محبت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ فرمانِ خداوندی کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت پر بھی محبت اہل بیت کو واجب و ضروری قرار دے رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت و شان پر جو کچھ ارشاد فرمایا، کتب حدیث ان سے بھری پڑی ہیں۔ اس موقع پر ہم ان چند احادیث کا مطالعہ کریں گے جن کے ذریعے ہمیں نہ صرف حضرات حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما کے مقام و مرتبہ سے آگاہی ہوگی بلکہ ان سے محبت کی ضرورت و اہمیت کا پتہ ہی چلے گا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.

(البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 3/ 1371، الرقم: 3543)

’’(حسن اور حسین) گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔

لفظ ’’ریحان‘‘ کے معانی:

لفظ ’’ریحانتان‘‘ کا معنی ہمیشہ ’’دو پھول‘‘ کیا جاتا ہے۔ غریب الحدیث کی کتب میں جب لفظ ’’ریحان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے پانچ معانی ملتے ہیں مگر عام طور پر شارحین حدیث نے اس کے ایک معنی ’’پھول‘‘ پر اکتفا کیا ہے۔ ان پانچ میں سے ایک معنی ایسا ہے جس نے مجھے ایمانی فرحت اور روحانی لذت دی ہے۔ آیئے پہلے ’’ریحان‘‘ کے ابتدائی چار معانی کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر آخری معنی پر بات کریں گے جو ایمانی و روحانی حلاوت کا باعث ہے۔

1۔ خوشبو دار پھول

’’ریحان‘‘ کا ایک معنی زمین سے اُگنے والی خوشبودار شے ہے۔ اس سے پھول کا معنی لیا گیا۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی حدیثِ مبارک کا مفہوم واضح ہے۔ آقا علیہ السلام ہمیشہ جب بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پکڑ کر سب سے پہلے سونگھتے تھے، پھر چومتے تھے اور چومنے کے بعد ان کو اپنے سینے سے لپٹا لیتے تھے۔

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہہ

سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَيُّ أَهْلِ بَیْتِکَ أَحَبُّ إِلَیْکَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَکَانَ یَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَیَشُمُّهُمَا وَیَضُمُّهُمَا إِلَیْهِ.

جامع الترمذی، الرقم:3781

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اہل بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ j سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلائو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے‘‘۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو سونگھتے کیوں تھے؟ ان کو خوشبودار پھول قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے جسموں سے وہ خوشبو آتی جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے خوشبودار پھول سے بھی نہیں آتی تھی۔ لہذا آقا علیہ السلام انہیں سونگھتے تھے۔

ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسموں سے خوشبو آتی ہو؟ اس سوال کا پید اہونا بھی بڑے تعجب کی بات ہے، اس لئے کہ جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک سے خوشبو آتی تھی، حدیث کی کتابیں اور شمائل کی کتابیں ان احادیث صحیحہ کے ساتھ بھری پڑی ہیں کہ جس راستے سے آقا علیہ السلام گزر جاتے، لوگ آپ کو تلاش کرنے نکلتے تو راستے کی ہواؤں میں بکھری ہوئی خوشبو سے جان لیتے تھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ ان راستوں کو تلاش کر لیتے جس راستے کی ہوائوں میں آقا علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہوتی۔ جدھر سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزر جاتے، وہاں کی ہوائیں بھی مہک اٹھتی تھیں۔۔

جسم اطہر تو جسم اطہر ہے، آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک میں بھی خوشبو تھی۔ صحاح ستہ میں کثیر احادیث ہیں کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو نچوڑ کر شیشیوں میں جمع کرتے تھے اور بطور خوشبو استعمال کرتے۔ بیٹیوں کی شادی ہوتی تو شادی کے وقت انہیں جہیز میں دیتے اور اسے بطور خوشبو ان کے لباس میں لگاتے۔ ایک گھر والوں نے آقا علیہ السلام کے پسینہ مبارک شیشی میں بھر کر رکھا ہوا تھا اور ان کے گھر سے ہمیشہ خوشبو اٹھتی رہتی تھی، اہل مدینہ اس گھر کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو والا گھر کہا کرتے تھے۔

پس جب آقا علیہ السلام کے جسم اطہر سے نکلنے والے پسینے کا یہ عالم ہے کہ کائنات کی کوئی خوشبو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو حسنین کریمین بھی تو آقا علیہ السلام کے جسم کا ٹکڑا ہیں، ان سے خوشبو کیوں نہیں آتی ہوگی۔

ایک صحابی آقا علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے تھے، آقا علیہ السلام نے کچھ تلاوت فرمائی اور ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مزاحاً محبت کے ساتھ اپنا منہ مبارک اس صحابی کے قریب کر دیا اور جھک کر اس کے منہ کے قریب آیت پڑھ دی۔ اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا اس صحابی کے منہ میں چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرتے دم تک اس صحابی کے منہ سے خوشبو آیا کرتی تھی۔ ساری زندگی ایک بار اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک کی ہوا میسر آجائے تو تا دم وفات اس صحابی کے منہ کی خوشبو نہیں گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسموں کاعالم کیا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں سونگھنا بلا وجہ تو نہیں ہوگا! جن پھولوں کی خوشبو نہ آتی ہو، انہیں تو ہم بھی نہیں سونگھتے، انہی پھولوں کو سونگھتے ہیں جن میں خوشبو ہوتی ہے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے جسدین طیبین مشمومین کی خوشبو آقا علیہ السلام سونگھتے تھے۔

2۔ اولاد

’’ریحان‘‘ کا دوسرا معنی ’’اولاد‘‘ ہے۔ اپنے اطلاق کے اعتبار سے یہ معنی بھی واضح ہے۔ آقا علیہ السلام کے اپنے صاحبزادگان چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے تھے، لہذا اللہ کو منظور یہ تھا کہ حسنین کریمن رضی اللہ عنہما کو آقا علیہ السلام کا نواسہ ہی نہیں بلکہ بیٹا بنایا جائے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ’’ابنایا‘‘ ’’میرے بیٹے‘‘ بھی کہتے تھے۔ پوتے، نواسے، بیٹے سب اولاد ہیں۔

3۔ راحت

’’ ریحان‘‘ کا تیسرا معنی ’’راحت، چین و سکون‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا فرماکر واضح کردیا کہ اس دنیا میں یہی تو میری راحت ہیں، انہی دوسے مجھے راحت، سکون، چین اور میرے دل کو خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ اگر کوئی انہیں اذیت دے گا تو گویا مجھے اذیت دے گا۔ ارشاد فرمایا:

من أحبهما فقد أحبنی ومن أبغضهما فقد ابغضنی و من آذاهما فقد آذانی.

(احمد بن حنبل، المسند، 2/288، رقم 7863)

’’جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘

کثرت کے ساتھ اس معنی کی احادیث صحاح ستہ میں موجود ہیں کہ یہ میری راحتِ جان ہیں۔ جس طرح کوئی اپنے بیٹے، بیٹیوں، پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں سے بے پناہ محبت کرتا ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں تو انہیں دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں، میری زندگی کی راحت ہی یہ ہیں، میری تو خوشی ہی یہ ہیں۔ ہر انسان یہ احساسات رکھتا ہے۔ یہ چرند، پرند بھی احساسات رکھتے ہیں۔ پھر آقا علیہ السلام کے اندر رحمت اور محبت کے احساس ساری کائنات سے بڑھ کر ہیں، اس لئے فرما رہے ہیں کہ حسن و حسین میری راحتِ جان ہیں۔

4۔ رحمت

’’ریحان‘‘ کا چوتھا معنی رحمت ہے۔ اس معنی کا اطلاق مذکورہ حدیثِ مبارک پر یوں ہوتا ہے گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ کے فرمان کے ذریعے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سارے جہانوں کے لئے رحمت میں ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جو رحمت عطا کی ہے، وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شکل میں عطا کی ہے۔ یعنی اللہ نے مجھے حسن و حسین کی شکل میں رحمت کے دو پیکر عطا کئے ہیں۔

اس فرمان سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے کہ جن دو شہزادوں کو آقا علیہ السلام اس گلشنِ دنیا میں اپنے لئے اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں، اندازہ کریں کہ ان کی بزرگی، رتبہ، مقام، کرامت اور فضیلت کا عالم کیا ہوگا۔

آج بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی فضیلت کا تذکرہ رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں سے اترتا جا رہا ہے۔ خارجیت نے لوگوں کا ایمان برباد کر دیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے علماء جو آج سے بیس پچیس سال پہلے دس دس دن، دس دس راتیں ذکر حسین کرتے تھے، آج ان کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ وہ لوگ خارجیت کے اثر میں اتنے آگئے ہیں کہ اب امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے کو شیعیت کہتے ہیں۔ اپنے اس عمل سے وہ ایمان سے خارج ہو رہے ہیں۔ وہ ہستیاں جن کے بارے آقا علیہ السلام یہ کہیں کہ یہ مجھ پر رحمت ہیں، اگر ہر لمحہ ان کا ذکر کریں تو آقا علیہ السلام کو کتنی خوشی ہوگی! جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی جان کہا، ان سے پیار کریں اور تذکرے کریں تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی راحت پہنچے گی۔۔

5۔رزق

مذکورہ چار معانی ’’ریحان‘‘ کے تھے اب اصل معنی کی طرف آرہا ہوں اور وہ یہ کہ ’’ریحان‘‘ کا ایک معنی رزق ہے۔ آقا نے فرمایا:

هُمَا رَیْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْیَا.

یعنی اس دنیا میں حسن و حسین میرا رزق ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا۔

  • علامہ ابن اثیر النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر (2:288) میں ریحان کے تحت بیان کرتے ہیں کہ

یُطْلَقُ عَلَی الرَّحْمَةِ وَالرِّزْقِ وَالرَّاحَةِ.

(ابن الاثیر الجزری، النہایة فی غریب الاثر، 2/288)

’’ریحان کا اطلاق رحمت، رزق اور راحت پر ہوتا ہے‘‘۔

رزق کا حقیقی معنی و مفہوم:

اولاد پر ’’ریحان‘‘ کا اطلاق ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وَبِالرِّزقِ سُمِّيَ الوَلَدُ رَیْحَانًا. (ایضاً)

اولاد کو رَیْحَان کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ماں باپ کا رزق ہوتے ہیں۔

لسان العرب اور دیگر لغت کی کتب اٹھائیں تو رزق کی تعریف ہی یہ ہے کہ

اَلرِّزقْ الَّذِیْ یُنْتَفَعُ بِهِ.

(ابن منظور الافریقی، لسان العرب، 10/115)

’’رزق اُس شے کو کہتے ہیں جس سے نفع اور فائدہ پہنچے‘‘۔

جس شے سے نفع نہ پہنچے وہ رزق نہیں ہوتا۔ اولاد کو رَیْحَان کہنے کا سبب یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کا رزق ہوتی ہے، ان کے کام آتی ہے، ان کا سہارا بنتی ہے اور ان سے ماں باپ کو نفع پہنچتا ہے۔

مثلاً میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین اور ڈاکٹر حسین محی الدین مشن میں میرے سہارا بن گئے ہیں، میری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے، مجھے اطمینان قلب ہوگیا۔ اگر یہ میرے مشن کی راہ پہ نہ چلتے اور اِن سے مجھے اور میرے مشن کو فائدہ نہ پہنچتا، یا کوئی اور راہ اپنا لیتے تو یہ میرا رزق نہ ہوتے کیونکہ مجھے ان سے نفع نہیں پہنچا۔ اگر میرے مشن کو آگے بڑھائیں، اس تحریک کو آگے پہنچائیں، اپنا رات دن منہاج القرآن کے لیے فنا کریں اور آقا علیہ السلام کی غلامی و محبت میں خرچ کریں تو پھر نہ صرف میری حقیقی اولاد بلکہ میرے تمام کارکنان و رفقا بھی میرا رزق ہیں کیونکہ ان سب سے مجھے نفع پہنچا۔ آپ میرے مشن کو سہارا دینے والے ہیں۔ گویا رزق وہ ہوتا ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔

  • امام ابو عبد اﷲ بن ابی نصر الازدی تفسیر غریب ما فی الصحیحین البخاری ومسلم میں بیان کرتے ہیں کہ

الرَّیْحَان: الرِّزْق وَیُسَمَّی الوَلَدُ رَیْحَانًا.

(ابوعبدالله بن ابی النصر الازدی، تفسیر غریب مافی الصحیحین البخاری و مسلم، 200)

رَیْحَانْ کا مطلب رزق ہوتا ہے اور اولاد کو بھی رَیْحَانْ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ رزق ہے جس سے والدین کو نفع پہنچتا ہے۔

  • علامہ زمخشری غریب الحدیث پر اپنی کتاب ’الفائق‘ میں لکھتے ہیں کہ:

رَیْحَانُ الله أَیْ مِنْ رِّزْقِ الله.

(زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث ، 1/185)

’’اللہ کی طرف سے جو رَیْحَانْ ہے وہ دئیے ہوئے رزق کو کہتے ہیں‘‘۔

حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہیں؟

الغرض دیگر ائمہ جنہوں نے غرائب الحدیث پر کتب لکھیں انہوں نے ریحان کا معنی رزق لکھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسنین کریمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق کیسے ہوئے؟؟

وہ رزق اس لیے ہوئے کہ اِن سے آقا علیہ السلام کو نفع پہنچا۔ حضور علیہ السلام کے دین کو نفع پہنچا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک دفعہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو اٹھایا، اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:

اِبْنِیْ هَذَا سَیَّدٌ.

’’میرا یہ بیٹا سید ہے‘‘

(بخاری، الصحیح، 2/962، رقم 2557)

لفظ سیّد کا معنیٰ عام طور پر ’سردار‘ کیا جاتا ہے مگر لغت کی کتب میں اُس سردار کو سیّد کہتے ہیں جو اپنی قوم کی مشکلات کو آسان کرے، قوم کے مصائب و آلام دور کرے اور قوم کی مدد کرے۔ اپنے اپنے قبیلے کا ہر کوئی سردار ہوتا ہے۔ لیکن سیّد ہر سردار کو نہیں کہتے، اسی سردار کو سید کہا جائے گا جو قوم کی مشکلات دور کرے۔

1۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا کردار:

آقا علیہ السلام نے سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

میرا یہ بیٹا سیّد ہے یعنی میری امت کی مشکلات کو حل کرے گا، اُن کی مدد کرے گا، اُن کو بحران سے نکالے گا اور پھر اُس کی وضاحت بھی فرما دی کہ

وَلَعَلَّ اﷲُ أَنْ یُّصْلِحَ بِهِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ المُسْلِمِیْنِ. (ایضاً)

یعنی یقینا ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دو بڑے گروہ آپس میں ٹکرائیں گے اور امت میں ایک بہت بڑا انتشار ہو گا۔ میری امت ٹکڑے ہو رہی ہوگی، دو بڑے گروہوں میں بٹ چکی ہوگی، دونوں طرف مسلمان ہوں گے اور میرا یہ بیٹا اُن میں صلح کرا دے گا، صلح کرانے کی وجہ سے اپنی قربانی کے ذریعے امت کو وحدت اور یکجہتی دے دے گا۔ (اس لیے میں اس کو مسلمانوں کی قوم کا سردار و سیّد قرار دے رہا ہوں۔)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امام حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق اس فرمان کا عملی اظہار اس وقت سامنے آیا جب حضرت مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو گئی تو مسلمانوں میں دو گروہ بن چکے تھے، ایک گروہ تھا جس نے مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں الگ حکومت کا اعلان کر دیا تھا اور سلطنت بنا لی تھی جبکہ دوسرا گروہ خلافت حقّہ راشدہ کا تسلسل تھا، وہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی جس کا دارالحکومت پہلے مدینہ تھا، بعد میں کوفہ ہوا۔

حضرت علی کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی سلطنت دمشق میں قائم ہوگئی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اُس کے حاکم بنے، وہ خلیفہ راشد نہیں تھے۔ خلافت راشدہ کے تیس سال مولیٰ علی شیر خدا کے بعد امام حسن رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ ملاکر مکمل ہوتا ہے۔ اس موقع پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی، امت کا ایک حصہ وہ تھا جس کا دارالحکومت کوفہ تھا۔ حرمین شریفین، حجاز، کوفہ اور گرد و نواح کے لوگ جو اہل بیت اَطہار کو چاہتے تھے، وہ اس حکومت کے ساتھ وابستہ تھے اور ایک دار الحکومت دمشق بن چکا تھا۔ بنو اُمیہ اور شام کے ساتھ ملحقہ علاقے ان کے تابع تھے۔

گویا شروع میں امت کے دو دار الحکومت، دو لشکر، دو جماعتیں، دو ٹکڑے بن گئے تھے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا تو پوری امت بٹ جاتی اور امت میں کلیتاً وحدت و یک جہتی ختم ہوجاتی کیونکہ اب تو خلافت راشدہ نہیں رہی تھی، لہذا ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ڈٹ جاتا۔ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت راشدہ کا تسلسل تھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ملوکیت کی بنیاد رکھنے والے تھے، اِن سے ملوکیت کا آغاز ہوا اور خلافت راشدہ ختم ہوگئی۔ اس لئے کہ انہوں نے وراثت میں حکومت آگے منتقل کی جبکہ خلافت راشدہ میں کسی نے سلطنت کو وراثت میں نہیں دیا۔

آقا علیہ السلام نے اپنی وراثت میں کسی کو مقرر نہ کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر چھوڑ دیا کہ وہ جس کو مرضی خلیفہ بنالے۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وراثت میں حکومت اپنے کسی بیٹے کو منتقل نہ کی، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی حکومت وراثت میں اپنے بیٹے کو منتقل نہ کی، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا نہ کیا کہ اپنے خاندان میں حکومت کسی کو منتقل کر دیں، اسی طرح سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایسا نہ کیا کہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ہو۔ سب نے امت کے اختیار، اجتہاد اور مشاورت پر چھوڑ دیا۔ پس اِدھر بنیاد سچی جمہوریت کی تھی جبکہ اُدھر بنیاد شہنشاہیت و ملوکیت کی تھی۔

ان حالات میں اگر امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کوفہ کو دارالحکومت بناتے ہوئے اپنی حکومت جاری رکھتے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار نہ ہوتے تو پھر اُن کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوتے، پھر امام علی زین العابدین رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوتے اور اس طرح تسلسل سے دو حکومتیں چلتی رہتیں۔ ایک کو خانوادہ اہل بیت چلاتا اور دوسری طرف شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلقین اپنی حکومت جاری رکھتے۔ نتیجتاً پوری امت سیاسی اعتبار سے بٹ جاتی اور دو دارالحکومت ہوتے۔ آپ تصور کر لیں کہ کیا حال ہوتا۔ اس کا اثر یہ ہوتا کہ مزید فتوحات نہ ہوتیں بلکہ امت کے دو لشکر آپس میں لڑتے لڑتے امت کو کمزور کرتے رہتے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ حسن رضی اللہ عنہ میرا رزق ہے، یعنی ان سے مجھے فائدہ پہنچے گا، میرے دین اور میری امت کو نفع پہنچے گا۔ لہذا امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کو withdraw کر لیا اور آقا علیہ السلام کے دین اور امت کی بہتری کے لیے، حضور کی امت کو نفع پہنچانے کے لیے خود پیچھے ہٹ گئے اور ساری امت کو جوڑ کر ایک وحدت دے دی۔ بنو امیہ کا یہ دور 92 برس رہا۔ خرابیاں اُس کے اندر تھیں، وہ اسی طرح رہیں مگر سیاسی اعتبار سے پوری عالمی سطح پر امت مسلمہ ایک بڑی قوت بن گئی اور فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور امت ایک عظیم طاقت بنتی چلی گئی۔

بنو امیہ کے بعد بنو عباس آئے، پھر درمیان میں تاتاری فتنے کی وجہ سے انقطاع کا عرصہ آیا، پھر خلافت عثمانیہ سات سو سال تک رہی، اس طرح جنگ عظیم اول سے پہلے پہلے تک بارہ سو سال پورے کرۂ ارضی پر سب سے بڑی سلطنت اسلام کی رہی۔ کئی اندرونی خرابیوں اور خلفشاروں کے باوجود من حیث المجموع اتنی بڑی قوت کے بانی اور اس کے محسن سیدنا امام حسن مجتیٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔

انہی آنے والے حالات کو دیکھتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: حسن میرا رزق ہے، اس سے میرے دین اور امت کو نفع پہنچے گا، اسلام کو نفع پہنچے گا۔ گویا امام حسن رضی اللہ عنہ سیّد و ’سردار‘ ہیں کہ انہوں نے امت کو بحران سے نکالا۔

2۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کا کردار:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا کہ یہ میرے ریحان ہیں یعنی میرا رزق ہیں۔ کس طرح؟

اس طرح کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی دین اسلام کی مٹتی اور مرتی ہوئی اقدار کو اپنی قربانی کے ذریعے زندہ کر کے دین کو قیامت تک نفع پہنچا دیا۔ جس طرح امام حسن رضی اللہ عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور دین کو سیاسی وحدت عطا کی اسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کو روحانی قوت اور احیا عطا کیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی دے کر مٹتی ہوئی اقدار کو زندہ کر دیا، جن اقدار کو آج چودہ سو سال بعد بھی امت یاد کرتی ہے اور انہیں بطور نمونہ، مشعل راہ اور آئیڈیل لیتی ہے۔

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کے لیے فرمایا:

حُسَیْن سبطٌ مِّنَ الأسْبَاطِ.

(ابن ماجہ، السنن، 1/51، رقم 144)

’’ حسین میرا ’سبط‘ ہے‘‘۔

’’سبط‘‘ سے کیا مراد ہے؟

  • ’سبط‘ عربی زبان میں ’قبیلہ‘ کو بھی کہتے ہیں۔ مگر ایک خاص معنیٰ جو امام ابن الاثیر نے ’النہایہ‘ میں بیان کیا: وہ یہ ہے:

أی أمة من الأمم فی الخیر.

(الجزری، النہایة فی غریب الاثر، 2/334)

یعنی خیر اور نیکی کے کاموں میں امام حسین رضی اللہ عنہ از خود تنہا ایک جان ہو کر ایک پوری امت ہیں‘‘۔

گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے حسین کو فقط ایک شخص نہ سمجھنا، میرے حسین کو فقط ایک انفرادی اکائی نہ سمجھنا۔ ہو سبط من الأسباط۔ وہ ایک پوری مکمل امت ہے، میری امت میں سے تنہا حسین اتنا عظیم کام کرے گا جو پوری امت اجتماعی طور پر بھی نہیں کرسکتی۔

امام ابن الاثیر فرماتے ہیں کہ:

فهو واقعٌ علی الأمة والأمة واقعةٌ علیه. (ایضاً)

سبط امت کو کہتے ہیں اور کبھی امت، سبط کو کہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا مترادف ہیں۔

  • قاضی عیاض نے اس کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ امت ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ تنہا حسن و حسین سے ایک قبیلہ جنم لے گا، دیکھنے میں دو وجود ہیں مگر ان سے قبائل پیدا ہوں گے، آلِ رسول، ذریتِ رسول اور نسلِ رسول پیدا ہوگی۔ خلقِ کثیر پیدا ہوگی اور قیامت تک میری نسل، میری ذریت اور میری آل حسن و حسین کے ذریعے زندہ و تابندہ رہے گی، اس کی بقا ہوگی اور وہ ایک پوری امت کا درجہ پائے گی۔

کیا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ریاست کے خلاف خروج کیا؟

تنہا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کیا کردار ادا کیا؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

واقعہ کربلا 61ھ میں ہوا۔ اسلام افریقہ سے لے کے مغرب تک لاکھوں مربع میل پر پھیل چکا تھا۔ ہزار ہا صحابہ کرام، تابعین اور اتباع التابعین تھے، ایک بہت بڑی امت تھی۔ مگر جب اسلام کی قدریں مٹ رہی تھیں، یزید لعین ان اقدار کو پامال کر رہا تھا۔ آقا علیہ السلام نے امت کو قرآن و سنت کا جو نظام عطا کیا، جسے خلفائے راشدین نے نافذ کیا، یزید اس پورے نظام کو کلیتاً برباد کر رہا تھا اور کفر کورواج دے رہا تھا۔ ایسے حالات میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے خانوادے کے ساتھ عزیمت کا قدم اٹھایا اور قربانی دی۔ یہ کام پوری امت مل کر بھی نہ کر سکی۔ تمام نے رخصت کی راہ کو اپنایا، خاموشی اختیار کی مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور دعوت الی الحق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔

یہ امر ذہن میں رہے کہ یہ کوئی مسلح بغاوت نہیں تھی بلکہ آقا علیہ السلام کے دین کو بچانے کے لئے قدم اٹھایا، باغی نہیں ہوئے اور نہ ہی مسلح خروج کیا۔ اس لئے کہ مسلح خروج اور بغاوت کے لیے شرط ہوتی ہے کہ پہلے ایک جگہ پر قبضہ کر لیا جائے اور وہاں اپنی سلطنت قائم کر لی جائے۔ اگر ایسا کرنا ہوتا تو مدینہ سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔ سارا مدینہ اہل بیت اطہار کے غلاموں کا تھا۔ محبان اہل بیت کا تھا، جہاں آقا علیہ السلام تھے، گنبدخضریٰ موجود تھا، جہاں سیدہ کائناتj کا روضہ اطہر تھا، بس مدینہ کو اپنا دارالحکومت اور اپنی سلطنت بنا کر قبضہ کر لیتے اور یزید کے خلاف منظم بغاوت کا حکومتی سطح پر مسلح آغاز کر دیتے۔ اگر یہ ہوتا تو بغاوت اور خروج تھا، مگر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کیا بلکہ رات کے اندھیرے میں خانوادے کو لے کر مدینہ سے نکل پڑے۔

آپ رضی اللہ عنہ نے نہ یزید بدبخت کی بیعت کی، نہ مسلح خروج کیا اور نہ بغاوت کی۔ ہر لحاظ سے امام حسین رضی اللہ عنہآقا علیہ السلام کی حدیث اور سنت و تعلیمات کے عظیم عملی پیکر تھے۔ انتشار بھی بپا نہیں کیا حالانکہ قبضہ کر کے مدینہ کو اپنی اسٹیٹ بنا سکتے تھے۔ یہ نہیں کیا، کیوں؟ اس لئے کہ جس طرح امت کی سیاسی وحدت کا جو کام امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کرگئے تھے، اگر وہ اس طرح کا قدم اٹھا دیتے تو پھر وہ وحدت ٹوٹ جاتی۔ اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کو مسلح بغاوت اور خروج کرنا ہوتا تو دو چار ہزار جوان اسلحہ والے مکہ و مدینہ سے لے کر جاتے، مگر آپ نے ایسا نہ کیا۔

گویا امام حسین رضی اللہ عنہ کے کربلا روانگی کا واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ:

  1. آپ نے مدینہ پر قبضہ نہیں کیا اور نہ اپنی سلطنت اور حکومت کا اعلان کیا کہ میں ریاست مدینہ کا سربراہ ہوں اور یزید کی حکومت کے خلاف اعلان کر تا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا۔
  2. دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہمسلح خروج اور بغاوت نہیں کی۔ مدینہ سے روانگی کے وقت حج کا موقع تھا، اطراف و اکناف سے غلامان اہل بیت اور عاشقان رسول جمع تھے۔ اعلان کر دیتے تو چند ہزار لوگوں کو مسلح لے کر چلتے لیکن مسلح جنگ کا ارادہ نہ تھا، لہذا ایسا نہیں کیا۔ حضرت علی اصغر اور حضرت سکینہ رضی اللہ عنہا جیسے شہزادوں اور شہزادیوں اور اپنے خانوادہ کی عزت مآب خواتین کو لے کر گئے۔ کیوں گئے؟ اس لئے کہ کوفے سے بار بار خط آرہے تھا، پانچ سو کے قریب خط آچکے تھے۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ دین کی اقدار مٹ رہی ہیں، اعلاے کلمۃ اللہ کی ضرورت ہے، دعوت الی الحق کی ضرورت ہے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہ پُر امن دعوت کے لیے گئے، شعور کی بیداری اور دعوت الی الحق کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے یدعون إلی الخیر ویأمرون بالمعروف وینہون عن المنکر کے حکم کے مصداق پُر امن طریقے سے نکلے اور آقا علیہ السلام کے فرمان کی تعمیل کی۔
  3. تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلح جنگ کا ارادہ ہوتا تو پھر آپ دمشق کی طرف لشکر لے کر جاتے جو یزید کا دارالحکومت تھا۔ آپ نے ایسا کچھ نہ کیا۔ یہ عظمت ہے امام حسین رضی اللہ عنہ کی کہ سب کچھ کر سکتے تھے مگر نہیں کیا، اس لئے کہ آپ امت میں انتشار نہیں چاہتے تھے۔ لوگوں میں شعور بیدار کر کے رفتہ رفتہ پُر امن طریق سے دینی اَقدار کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔

آقا علیہ السلام نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے مستقبل میں ادا کئے جانے والے اسی کردار کے تناظر میں فرمایا:

حسین سبط من الأسباط یعنی پوری امت اُس دور میں جو کام نہیں کرسکے گی وہ تنہا میرا بیٹا حسین کر دے گا اور آپ نے ایسا کر دکھایا۔

  • ’سبط‘ کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ اس کردار کی ادائیگی کی وجہ سے امام حسین رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کا رزق بھی بن گئے۔

حقّا کہ بنائے لا إلہ است حسین

آپ رضی اللہ عنہ اپنی قربانی دے کر دین حق اور لا إلہ کی بنیاد بن گئے۔ حضور علیہ السلام کے دین کو نفع پہنچا گئے۔ امام حسن رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی امت کو سیاسی وحدت کا نفع پہنچا گئے اور امام حسین رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کے دین کو روحانی نفع پہنچا گئے۔ اس اعتبار سے دونوں آقا علیہ السلام کا رزق بنے۔

ذریتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنینِ کریمین سے جاری ہونا:

یہ دونوں شہزادے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رزق اس لحاظ سے بھی بنے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے شہزادے حضرت قاسم رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ، طیب و طاہر رضی اللہ عنہ حیات نہ رہے، لہذا حسنین کریمین آپ کے شہزادے تھے اور یہ بھی بالآخر شہید کر دئیے گئے۔ اب تصور یہ تھا کہ کفار طعنہ دیتے تھے کہ یہ تو ابتر ہیں، مقطوع النسل ہیں، ان کی نسل آگے نہیں چلے گی۔ دوسری طرف آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرما دیا تھا کہ درود صرف مجھ پر نہیں پڑھنا بلکہ مجھ پر اور میری آل پر بھی پڑھنا ہے۔ لہذا آل اور ذریت کا ہونا شرط ہے۔ آل ہوگی تو درود پڑھا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آقا درود کیسے پڑھیں؟ فرمایا: یوں پڑھو:

اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد، کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم انک حمید مجید.

’’باری تعالیٰ! تو محمد رضی اللہ عنہ پر درود بھیج اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل پر درود بھیجا بے شک تو تعریف کے قابل بزرگی والا ہے‘‘۔

ابراہیم کی آل پر چار ہزار سال سے درود پڑھا جا رہا تھا۔ جب آقا علیہ السلام آئے تو چار ہزار سال گزر گئے تھے۔ آقا علیہ السلام خود بھی آل ابراہیم میں سے تھے تو ابراہیم علیہ السلام کی آل اور ذریت رہی اور درود پڑھا جاتا رہا اور اُس میں آقا علیہ السلام بھی آئے۔ اگر آقا علیہ السلام کی آل اور ذریت اور نسل بھی نہ بچے تو اُس پر درود کیسے پڑھا جائے؟ فرمایا:

حسن و حسین رضی اللہ عنہما میرا رزق ہیں، بتادیا کہ یہ رہیں گے اور اِن کی وجہ سے میری آل، نسل اور ذریت چلے گی اور قیامت تک حسنی و حسینی سادات چلیں گے اور میری آل پہ درود رہے گا۔ قیامت سے پہلے آخری زمانے میں بھی میری ہی آل میں سے امام محمد مہدی آئیں گے جو اسلام کو دوبارہ وہ عظمت دیں گے کہ دور خلافت راشدہ کا منظر قائم ہو جائے گا۔

اس طرح حسن و حسین رضی اللہ عنہما میرا رزق ہیں کہ مجھے نفع دیں گے اور انہی کی نسل سے پیدا ہونے والے ائمہ اطہار اور اولیاء میری امت میں روحانی فیض بانٹتے رہیں گے۔

جنت میں داخلہ اہلبیت کے ساتھ محبت سے مشروط:

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنة.

(احمد بن حنبل، المسند، 3/3، رقم 11012، 3/62، رقم 11612)

’’حسن و حسین رضی اللہ عنہما کل جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔

اس حدیث مبارک کی رو سے یہ ثابت ہوگیا کہ جب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں تو جتنے جوان ہیں وہ امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لشکر میں ہوں گے۔ گویا جنت میں صرف وہی جا سکتے ہیں جو امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لشکر میں ہوں گے، اِن کے تابع ہوں گے۔

جو جنتی ہو گا اس کے لیے لازم ہے کہ امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے تابع ہو۔ جس کو یہ کہہ دیں گے کہ نہیں، باری تعالیٰ ہم اس کا سردار نہیں بنتے، اس لئے کہ یہ ہمارا نافرمان ہے، ہم سے بغض رکھنے والا ہے، ہم اسے اپنے لشکر میں قبول نہیں کرتے۔ اسے جنت سے نکال دیا جائے گا، وہ جنت میں جا نہیں سکتا۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ میں تو بوڑھا ہوں، میرے سردار وہ جنت میں کیسے ہوں گے؟ تو سن لیں کہ جنت میں ہر بوڑھا بھی جوان ہوکر داخل ہوگا۔ گویا جنت میں ہر شخص جوان ہو گا۔ معلوم ہوا جنت کے تمام مرد حضرات کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہوں گے۔ گویا جنت کی سرداری آقا علیہ السلام نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو عطا کر دی ہے۔ پھر فرمایا:

فاطمة سیدۃ نساء أهل الجنة.

(بخاری، الصحیح، 3/1326، رقم 3426)

’’فاطمہ جنت کی کُل عورتوں کی سردار ہوں گی‘‘۔

اب آپ دونوں حدیثوں کو جوڑیں تو جنت کا نقشہ سامنے آ جائے گا۔ پتہ چل جائے گا کہ عقیدہ و مسلک کیا رکھنا چاہیے۔ وہ مُلّا جو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی محبت سے دور کر رہے ہیں، وہ خود تعین کر لیں کہ اُن کا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ مطلب یہ ہوا کہ جنت میں وہی عورت جا سکتی ہے جو حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو سردار مانے گی، اپنی سیدہ مانے گی۔ جنت میں وہی عورت جا سکتی ہے جس کو حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اپنے قافلے میں قبول فرمائیں گی کیونکہ قاعدہ ہے کہ سیدئہ جنت وہ ہیں۔

عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور مردوں، جوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ۔ اب بولیے کہ حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما اور فاطمۃ رضی اللہ عنہا سے محبت نہ کرنے والوں یا ان سے بغض رکھنے والوں یا دل میں تھوڑا سا بھی ان کے بارے میں مروڑ رکھنے والوں کی جرأت کیسے ہو گی کہ جنت کے دروازے کا منہ دیکھ سکیں۔ اُن کو تو اٹھا کر جہنم میں پھینکا جائیگا۔ حکم ہوگا کہ ان لعینوں، خارجیوں، اہل بیت سے بغض رکھنے والوں، ان کی محبت سے محروم لوگوں اور اہل بیت سے محبت کرنے کو تشیع، شیعیت کہنے والوں کو اٹھا کر جہنم میں پھینک دو۔

آقا علیہ السلام تو دو جہانوں کے سردار ہیں۔ آخر ت کے بھی سردار اور دنیا کے بھی سردار، کُل کائنات کے سردار۔ زمین سے لے کر عرش تک ہر شے کے سردار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ گویا جنت کی سرداری تین اشخاص کو عطا کر دی گئی ہے:

  1. مجموعی طور پر تمام سرداری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہے۔
  2. جوانوں کی سرداری امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے پاس ہے۔
  3. عورتوں کی سرداری حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے پاس ہے۔

اب کوئی ہے جو اس کو چیلنج کر سکے۔ اسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

اللهم إنی أحبهما فأحبهما وأحب من یحبهما.

’’ باری تعالیٰ! میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے بھی محبت کر اور جو ان سے محبت کرے تو اُن سے محبت کر‘‘

(ترمذی، السنن، 5/656، رقم 3769)

آقا علیہ السلام نے یہ شرط بھی عائد کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی صرف اُن سے محبت کرے گا جو حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کریں گے۔ جن کے دلوں میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی محبت نہیں، آقا علیہ السلام نے پابندی لگادی کہ اللہ بھی ان سے محبت نہیں کرے گا۔

پیغام:

یہ امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار کا مقام و مرتبہ ہے۔ اہل بیت اطہار کی محبت اور حسنین کریمین کی محبت ایمان ہے۔ بشرطیکہ یہ محبت ایسے غُلو میں نہ بدل جائے کہ بندہ آقا علیہ السلام کے دیگر محبوب اور مقرب صحابہ کرام کے ساتھ بغض اور سب و شتم پر اتر آئے۔ چونکہ ایک نیکی جنت لینے کا باعث بنی تو کہیں وہ غلو ہمیں دوزخ کی طرف کھینچ کر نہ لے جائے۔

لہٰذا حضور علیہ السلام کے اصحاب ہوں یا اہل بیت اطہار سب کے ساتھ محبت، تکریم واجب ہے اور ایمان کا حصہ ہے۔ مگر یہ بات کبھی نہ بھولئے کہ ان سے محبت آقا علیہ السلام سے محبت ہے اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت آقا علیہ السلام کے تن اور جان سے محبت ہے۔ اس محبت کا صلہ آقا علیہ السلام نے جنت عطا کر دیا ہے اور جنتی عورتیں سیدئہ کائنات کی سرداری میں رہیں گی اور جنتی جوان حسنین کریمن رضی اللہ عنہما کی سرداری میں رہیں گے۔ جنت ان کو الاٹ کر دی گئی ہے کیونکہ دنیا میں انہوں نے قربانیاں دیں، تکالیف اٹھائیں، لہذا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت ان کو الاٹ کر دی اور ان سے محبت کرنے والے غلاموں کو عطا کر دی۔

اپنی زندگی ان کے نقش قدم پر گزاریں، اپنی سیرت اور زندگی میں ان جیسا تقویٰ پرہیزگاری، دین سے محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کریں۔ خواتین اپنے اندر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور اہل بیت اطہار کی شہزادیوں جیسا تقویٰ و پرہیزگاری کا کردار اپنے اندر پیدا کریں۔ راتوں کو عبادت کریں، سجدے کریں، تہجد پڑھیں، اپنی عزت اور عفت کی حفاظت کریں اور ہر وقت طہارت سے رہیں۔ دین کی عظیم مجاہدات بنیں اور وہ کردار ادا کریں جو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے ادا کیا۔

جوان بیٹے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے کردار کے علمبردار بنیں۔ ہمہ وقت آپ کی زندگی بھی طہارت، عبادت، حسن اخلاق کے ساتھ سرشار و معمور ہو۔ اللہ رب العزت ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2017

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top