افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

مورخہ: 12 مارچ 2018ء

محبوب حسین

ملت اسلامیہ آج جس دور ابتلاء سے گزر رہی ہے اس سے نجات حاصل کرنے کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ ہم مکمل طور پر اسلامی سانچے میں ڈھل جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نسل نو کو اسلامی تعلیمات کے ہر ہر پہلو سے آگاہ کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوانوں کو غوروفکر کا بھرپور موقع مل سکے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، انداز حکمرانی کے کتنے فلسفے تخلیق ہوچکے ہیں، انسانی تہذیبوں نے بلندیوں کو چھوا لیکن آج بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کارنامے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:

اِنَّ مِنْ اَمَّنِ النَّاِس عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِهٖ وَماَلِهٖ اَبَا بِکْرٍ.

’’ابوبکر اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے میرا سب سے بڑا محسن ہے۔‘‘

صحیح بخاری، کتاب: فضائل صحابه، باب: قول النبی سد والابواب الاباب ابی بکر، رقم الحدیث: 3454

آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لائے اور اپنا تن من دھن آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو افضل البشر بعد الانبیاء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خطابات، ارشادات اور فرمودات نے اکثر انسانی زندگیوں میں زبردست انقلابات پیدا کردیئے ہیں۔ کئی گم گشتہ راہ انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کردیا ہے۔ کئی بھولے بھٹکوں کے قلوب و اذہان کی اصلاح کردی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اس عظمت کا سرچشمہ آقائے دو جہاں تاجدار نبوت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے سلطنت اسلامیہ اتری ہوئی پٹری پر دوبارہ بحال ہوسکتی ہے۔

خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ

اس ضمن میں آپ رضی اللہ عنہ کے درج ذیل ابتدائی خطبے سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے جو آپ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا:

’’لوگو! میں تمہارا امیر بنادیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری مدد کرو۔ اگر برا کام کروں تو مجھ کو سیدھا کردو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں جو کمزور ہے، وہ میرے نزدیک قوی ہے، چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کردوں گا اور تم میں جو قوی ہے، وہ میرے نزدیک کمزور ہے، چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔ جو قوم جہدِ مسلسل کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس پر ذلت کو مسلط کردیتا ہے۔ جس قوم میں بری باتیں عام ہوجاتی ہیں، اللہ ان پر مصیبت ڈال دیتا ہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کروں تو تم بھی میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں ہے۔‘‘

البدایة والنهایة، 5: 248

یہ خطبہ اپنے اختصار و ایجاز کے باوجود اہم ترین اسلامی خطبوں میں سے ہے۔ اس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حاکم اور رعایا کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل و انصاف کے قواعد مقرر کئے ہیں۔ اس بات پر تذکیر کی کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر مترتب ہوتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ امت کے عزوشان کے لیے یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے خواہش سے اجتناب پر زور دیا کیونکہ معاشرہ کو گراوٹ و فساد سے بچانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خطبہ میں مزید کئی پہلوئوں پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر بر اکام کروں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔

یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے اپنے اعمال کی نگرانی اور احتساب میں امت اور افرادِ امت کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مطابق امت کی استقامت حکام کی استقامت کی مرہون منت ہے۔ امت کی قیادت کے لیے اپنے بنیادی اصول کا اعلان فرمایا کہ سچائی حاکم اور امت کے درمیان تعامل کی اساس ہے۔ اس سے حاکم اور عوام کے مابین اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ یہ اساسی خصلت اسلام کی دعوتِ صدق سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسلام نے حکام پر لازم کیا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔ زبان، وطن، معاشرتی احوال کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے۔ حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے، اس کی پرواہ نہ کرے کہ محکوم دوست ہے یا دشمن، مالدار ہے یا فقیر، مزدور ہے یا تاجر۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اﷲُ وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً.

’’(اے رسولِ گرامی!) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے، اور آپ (کبھی) بد دیانت لوگوں کی طرفداری میں بحث کرنے والے نہ بنیں۔‘‘

النساء: 105

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

لَاطَاعَةِ فِیْ الْمَعْصِیَةِ اِنَّمَا الطَّاعَةُ فِی الْمَعْرُوْفِ.

’’معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اطاعت تو بھلائی کے کاموں میں ہے۔‘‘

صحیح بخاری، کتاب التَّمنِّی، باب: ماجاء فی اجازة خبرالواحد، رقم الحدیث: 6830

آپ رضی اللہ عنہ کے خطبے سے یہ بھی وضاحت ملتی ہے کہ حکومتوں کے قیام اور تہذیب و تمدن کے ظہور سے اخلاق کا انتہائی گہرا تعلق ہے۔ اگر اخلاق میں بگاڑ آجائے تو ممالک تباہ اور امتیں ضائع ہوجاتی ہیں اور فتنہ و فساد برپا ہوجاتا ہے اور انارکی پھیلتی ہے۔

گذشتہ اقوام و ملل اور تہذیبوں کا بصیرت کی نگاہ سے جس نے مطالعہ کیا ہے اس پر یہ حقیقت آشکار ہے کہ تہذیب و تمدن کا قیام اصل میں دین صحیح اور اخلاق کریمہ پر ہوا ہے۔ جب تک اخلاق کریمہ کو مدنظر رکھا گیا اور اس کی حفاظت کی گئی تو کامیابی و کامرانی حاصل رہی اور جب فواحش و منکرات کے جراثیم سرایت کرجائیں تو پھر حکومتیں ہلاکت و تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کی شان و شوکت ملیا میٹ ہوجاتی ہے۔

خلافت صدیقی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کے معاشرے میں شریعت کو بالادستی حاصل تھی۔ حاکم و محکوم سب اس کے تابع تھے۔ اس لیے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے امت سے جس اطاعت کا مطالبہ کیا اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے مقید کیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی حکومت سے مسلمانوں نے کچھ ہی مدت استفادہ کیا۔ مگر ہر دور میں حریت و عدل کے متلاشی، اقوام و امم کی سیاست کے لیے اس سے بہتر حکومت نہیں پاسکتے جس کی قیادت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غار کے ساتھی، نجابت و شرافت، ذکاوت و علم اور ایمان کے عظیم پیکر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا طرز حکمرانی

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا طرز حکمرانی ایک بے مثل و بے مثال اہمیت کا حامل تھا۔ آج کے حالات کو دیکھ لیں کہ حاکم وقت تو کجا ایک ادنیٰ درجے کے سرکاری ملازم کی کرپشن کا یہ حال ہے کہ الامان والحفیظ۔ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد بھی ان امور کو نبھانا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اب ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں اور مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ حکومتی امور اور معاملات کو چلانے کے لیے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ تجارت کریں گے تو رعایا کے حقوق کیسے ادا کریں گے؟ لہذا ان کی اور ان کے اہل خانہ کی ضرورت کے لیے خزانہ سے وظیفہ مقررکرلینا چاہئے۔

اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

جتنی مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا۔ عرض کیا گیا کہ اتنی مقدار سے تو آپ کا گزارہ نہیں ہوسکے گا۔ آپ نے فرمایا: اتنے میں اگر ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہئے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا۔ چنانچہ اسلامی خلافت راشدہ کے پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدورکے برابر مقرر ہوا۔

آج کے حکمرانوں کا موازنہ اگر خلافت صدیقی سے کریں تو سراسر مختلف طرز حکمرانی نظر آتی ہے۔ آج کے حکمران تجارت کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے کو نوچ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اسلامی نظام حکمرانی سے نابلد ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرز حکمرانی سے منحرف ہیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب اسلامی سرزمین کو صوبوں میں تقسیم کیا تو کبھی اپنے کسی رشتہ دار کو عہدہ دار بناکر نہیں بھیجا۔ ہمارے مختلف محکموں کے سیکرٹریز اور بیوروکریٹس ماہوار لاکھوں روپوں کا پیکج لیتے ہیں مگر عام لوگوں کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ یہی بڑے بڑے بیوروکریٹس اپنے رشتہ داروں کو خوب نوازتے ہیں اور عوام بولنے کی جرات بھی نہیں کرسکتے۔

سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہj سے فرمایا کہ دیکھو یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں، یہ بڑا پیالہ جس میں ہم کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو ہم اوڑھتے ہیں، یہ سب کچھ بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان چیزوں سے اس وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت سرانجام دیتا تھا، جس وقت میں وفات پاجائوں تو یہ سارا سامان عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دے دینا۔

چنانچہ جب آپ کا انتقال ہوا تو ام المومنینj نے حسب وصیت یہ سب چیزیں واپس کردیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سب چیزیں وصول کرکے فرمایا: اللہ ان پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا۔

(تاریخ الخلفاء)

علاوہ ازیں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جو تنخواہ لی یا جو مال اپنی ضرورت کے لیے خرچ کیا تھا اس کے متعلق فرمایا:

اس کا حساب کرائو اور میری فلاں زمین اس کے بدلے میں بیت المال میں جمع کرائو۔ نیز تجہیز و تکفین کے متعلق کپڑے کے بہت بڑے تاجر نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

جو کپڑا میرے بدن پر ہے، اس کو دھوکر اور اس کے ساتھ دو کپڑے اور ملاکر مجھے کفن دے دینا۔ سیدہ عائشہ صدیقہj نے عرض کیا کہ یہ تو پرانا ہے، کفن نیا ہونا چاہئے۔ جواب دیا: زندہ آدمی، مُردوں کی نسبت نئے کپڑوں کا زیادہ حقدار ہے۔

یہ ہے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ طرز حکمرانی کا وہ منفرد اور نرالا شاندار نمونہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تاریخ اسلام اب تک ایسی طرز حکمرانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

موجودہ حکمران خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سادہ طرز حکمرانی سے سیکھیں۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پورا دور حکمرانی حلم و بردباری اور صداقت شعاری سے چلتا رہا۔ آپ کا دور حکومت اپنی جامع خوبیوں کی وجہ سے رہتی دنیا تک کی حکومتوں کے لیے نمونہ ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں ان تمام غلط روایات کو مٹادیا جن کی وجہ سے کسی حکومت کو کسی بھی عنوان سے غلط حکومت کہا جاسکتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی غرض و غایت کو اتنا بلند کردیا جس سے اوپر کسی انسانی حکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتااور وہ غرض و غایت فرد کی آزادی اور قوموں کے مفاد و مصلحت سے تعبیر ہے۔

آج کے دور پرفتن میں پوری دنیا بالعموم اور بالخصوص اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ سیرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنے لیے آئیڈیل بنائیں۔ حکمران اپنی زندگیوں کو خلیفہ اول کی سیرت کے مطابق آراستہ کریں تاکہ امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت لوٹ آئے اور پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

آج حکمرانوں کے لالچ اور ذاتی مفادات کی وجہ سے قوم بے سکونی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ مسجدوں کو محاذ جنگ بنادیا گیا۔ ملک و قوم کا وقار لٹ گیا۔ نااہل حکمران امن قائم کرنے کے نام پر بدترین دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اگر آج ہم پاکستان کو مشکلات اور چیلنجز سے نکالنا چاہتے ہیں تو خلیفہ اول کے طرز حکومت کو آئیڈیل بنانا ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ صحابہ کرامl کے نقش قدم پر چلنے کے لیے بھی ایک اہل اور دیانتدار قیادت کا ہونا ضروری ہے۔

قیادت کے منصب پر فائز ہونے کی شرائط

علامہ ابن خلدون کے نزدیک حکمرانی کے منصب پر فائز ہونے کی چار شرائط ہیں:

  1. علم: کوئی بھی خلیفہ یا حکمران اللہ کے احکام کو اسی صورت میں نافذ کرسکتا ہے جب ان کا عالم بھی ہو۔ اس لیے اس منصب کے لیے جاہل کو ترجیح دینا صحیح نہیں، خلافت و حکمرانی اپنے اوصاف و احوال میں کمال چاہتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ جو خلافت و حکمرانی پر فائز ہونا چاہے اسے احکام و مسائل شریعت کا علم ہونا ضروری ہے۔
  2. عدالت: عدالت کی شرط اس لیے ہے کہ خلافت و حکمرانی ایک دینی منصب ہے اور امام و حکمران ان تمام عہدوں کا نگران ہوتا ہے جن میں عدالت کی شرط ہے۔
  3. کفایت: اس سے مراد یہ ہے خلیفہ یا حکمران کو حدود شریعہ قائم کرنے، مملکت اسلامی کی سرحدوں کی حفاظت اور دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے جس سمجھ بوجھ، حسن تدبیر، عزم و ہمت اور استقلال و جفاکشی کی ضرورت ہے، یہ سب اس میں پائے جائیں۔
  4. سلامت حواس و اعضاء: اگر کسی کے اعضاء میں بوجہ فسق و فجور اور حرام کاموں کا ارتکاب کرکے (حد جاری ہو جانے کی وجہ سے) فرق آجائے تو اس کی عدالت بھی ساقط ہوجاتی ہے۔

مقدمه ابن خلدون، ص: 319

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ملکی نظم و نسق

ایک حکومت اس وقت اچھے طریقے سے چل سکتی ہے جب اس کا نظم و نسق اچھا ہو۔ اگر ملکی نظم و نسق اچھا نہیں تو نظام حکومت خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو حکومت صحیح طریقے سے نہیں چل سکتی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مختصر سے عہد خلافت میں بہترین نظم و نسق کے ساتھ حکومت کو چلایا۔ عہدوں کی اچھے طریقے سے تقسیم کی اور ہر صوبے اور ہر ضلع میں گورنر اور حاکم مقرر فرمائے۔ عہدہ داروں کے انتخاب میں ان کا اصول یہ تھا کہ کسی عہدہ کے لیے جب کسی کو منتخب کیا جائے تو اس میں اس عہدہ کی تمام اہلیت ہو۔ گویا اَنْ تُودُّوْ الْاَمَانَاتِ اِلٰی اَھْلِھَا پر ان کا پورا پورا عمل تھا۔ اس سلسلہ میں آپ نے کبھی قبائلی عصبیت یا اقربا نوازی کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ اسی سخت اصول اور بلند معیار کا نتیجہ تھا کہ آپ کے مقرر کردہ عمال و حکام نے ہمیشہ اپنی بہترین صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے استعمال کیں۔

حضرت یزید بن ابی سفیان کو شام کی امارات پر روانہ کیا تو فرمایا:

’’ اے یزید! وہاں تمہارے اعزا و اقارب ہیں، ممکن ہے کہ تم ان کو امارت دینے میں ترجیح دو۔ یہ وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا میں تم سے اندیشہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ وَلِیَ مِنْ اَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ شیئًا فَاَمَّرَ عَلَیْهِمْ احدًا مَحَابَاةً فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللّٰه لا یُقْبَلُ اللّٰه صَرْفًا وَلَا عَدْلاً حَتّٰی یُدْخِلَهٗ جَهَنَّمَ.

’’جو شخص مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار ہو اور وہ محض رشتہ کی وجہ سے ان پر کسی شخص کو امیر بنادے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ اس کی طرف سے کسی فدیہ اور کفارہ کو قبول نہیں کرے گا حتی کہ اس کو جہنم میں بھیج دے گا‘‘۔

مسند احمد بن حنبل، مسند ابی بکر، جلد1، ص 6، رقم الحدیث: 21

ملکی نظم و نسق میں آپ نے اس بات کا بھی اہتمام فرمایا کہ جب کسی شخص کو آپ کسی عہدہ پر مامور فرماتے تو اس کے فرائض کی تشریح اس کے سامنے کرنے کے ساتھ ساتھ سلامت روی اور تقوی کی بڑے موثر الفاظ میں تلقین فرماتے۔

عہدوں کی تقسیم میں آپ کی اعلیٰ ظرفی کی مثال یہ بھی تھی کہ اگر کسی کو عہدہ کے قابل سمجھتے اور اس شخص کو آپ رضی اللہ عنہ کی ذات سے کوئی رنجش یا شکایت بھی ہوتی تو اس کی ذاتی رنجش یا مخالفت کی پرواہ کئے بغیر اسے عہدہ سے نواز دیتے۔ عہدہ داروں کے لیے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ ان عہدہ داروں کی دلجوئی کی جائے اور جبرو تحکم کا برتائو اختیار نہ کیا جائے۔ منصب کے لحاظ سے اس کا پورا احترام کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر کسی عہدے پر تقرری کے بعد اگر وہ شخص نااہل ثابت ہوتا تو آپ رضی اللہ عنہ اسے فوراً معزول کردیتے۔ اگر کسی عہدہ دار سے غلطی ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ اس کا احتساب فرماتے۔ تمام عہدے داروں کا احتساب اور اس کے اعمال کی باز پرس فرماتے۔

افسوس! آج کے حکمران اپنے ہی رشتہ داروں کو عہدوں سے نوازتے ہیں، خواہ وہ اس منصب کے لائق ہوں یا نہ ہوں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کا حکمران نااہل ثابت ہوا اور پھر اس کی نوازشات سے عہدوں پر فائز مزید لوگ بھی نااہل ثابت ہوئے۔ جیسے چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی وی، چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ، اسی طرح PCB پر تعینات کئے گئے عہدے داروں کی نااہلیت کے مناظر ہمارے سامنے ہیں۔ گویا پورے کا پورا نظام کرپٹ اور نااہل عہدے داروں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس مملکت خداداد کے حکمران اگر سوا دو سال پر محیط خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے رہنمائی لیتے اور اسوۂ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہوتے تو تین چار دہائیوں سے حکمرانی پر فائز رہنے کے باوجود نااہل نہ گردانے جاتے۔

افسوس! ان حکمرانوں نے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسوۂ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کے اسوہ سے کچھ سبق نہیں سیکھا اور ظلم و جبر کی حکومت قائم کرکے پاکستان کے مسلمانوں کو پریشان حال کردیا۔ عدل و انصاف پر مبنی حکومت کا نصب العین رعایا اور عوام کی خدمت ہوتا ہے اور حکومت کا خزانہ رفاہ عامہ، پبلک خدمات اور خوشحالی کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے حکمران جو عادل ہوں وہ ملک کے خزانے سے غیر ضروری خرچ نہیں کرتے مگر جبرو ظلم کی حکومت کا منشاء حکمرانوں کا ذاتی تعیش اور عہدے کا استحکام ہوتا ہے، اس لیے نہ وہ رعایا کے دکھ درد کی پرواہ کرتا ہے اور نہ رعایا کی راحت و آرام کا خیال کرتا ہے اور ایسے حکمرانوں کی رعایا ہمیشہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے جس کی وجہ سے غربت و افلاس کا شکار رہتی ہے۔

یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفۃ المسلمین جانشین پیغمبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبہ میں جس منشور کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہر ہر حرف کی مکمل پاسداری کی۔ آپ کی جملہ خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔

اسلام حقانیت و صداقت کا مذہب ہے۔ ہر چیز کو اس کی اصل ماہیت و نوعیت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور عوام کے سامنے پُر فریب الفاظ و اصطلاحات کا طلسم نہیں باندھتا۔ اس بنا پر وہ اس بات کا قائل نہیں ہوتا کہ ایک جاہل اور شریر و فتنہ پرور انسان کو بھی ووٹ دینے کا ایسا ہی حق ہے جیسا کہ ایک صاحب علم و فہم اور متقی و صالح کو ہے۔ آج کے اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام میں حکمران عوام سے جھوٹے سچے وعدے کرکے اور چند نمائشی کارنامے انجام دے کر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور قوم کے نمائندے اور اس کے ارباب حل و عقد سمجھے جاتے ہیں جبکہ اسلام اُن لوگوں کو ارباب حل و عقد سمجھتا ہے جو قوم میں اپنے فہم و تدبر، عمل صالح اور بلند کردار کی وجہ سے معتمد علیہ ہوں، انہوں نے یا ووٹ کے حصول کے لیے اپنے کارناموں یا آئندہ کے منصوبوں کی کوئی طویل فہرست شائع نہ کی ہو بلکہ ملت اسلامیہ نے اس کی ذہنی، فکری، علمی، تحقیقی اور عملی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر خود ان کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا ہو۔

مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نہایت اعلیٰ حاکم، منصف مزاج، متحمل، سادہ دل اور اپنے ذاتی نفع سے بے تعلق خلیفہ تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزری۔ افراط و تفریط سے ہمیشہ پاک اور اللہ کے نور سے حصہ لے کر ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ یہ خیال آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں ہمیشہ رہتا کہ جہاں وہ بندوں کے سامنے جوابدہ ہیں وہاں اللہ کے سامنے بھی جوابدہ ہیں اور وہ قیامت کے دن ان سے ان کے اعمال کا حساب لے گا۔ بندوں کے سامنے جوابدہی کا یہی تصور تھا جس نے ہمیشہ آپ رضی اللہ عنہ کو صراط مستقیم پر گامزن رکھا اور آپ رضی اللہ عنہ کا قدم ایک لمحے کے لیے بھی جادۂ استقامت سے ہٹنے نہ پایا۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2018

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top