نواز شریف کے حکم پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کا رخ بدلاگیا، جواد حامد پر جرح جاری

مورخہ: 08 مئی 2018ء

ایف آئی آر کے اندراج سے انکار اور غیر جانبدار جے آئی ٹی کیلئے پرامن مارچ کیا، مستغیث
دہشتگردی کیخلاف فتویٰ 2010ء میں لکھا گیا، پی پی دور میں انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ ہوا، جرح
ڈاکٹر طاہرالقادری سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر موجود ہوتے ہیں : ملزمان کے وکلاء، کیس کے متعلق بات کی جائے:وکلاء PAT

model town massacre case updates

لاہور (8 مئی 2018) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے سلسلے میں مستغیث جواد حامد کے بیان پر پانچویں روز جرح جاری رہی، پولیس ملزمان کے وکلاء نے سوال کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کا رخ کس کے کہنے پر اسلام آباد سے لاہور کی طرف بدلا گیا؟ مستغیث جواد حامد نے کہا مرکز میں ن لیگ کی حکومت میں نواز شریف کے کہنے پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے طیارے کا رخ اسلام آباد سے لاہور کی طرف بدلا کیونکہ شیڈول کے مطابق کارکنان کے علم میں تھا کہ ان کے قائد اسلام آباد آرہے ہیں، اس لیے وہ ان کے استقبال کیلئے اسلام آباد ایئرپورٹ جمع ہورہے تھے، حکومت نے گھبرا کر طیارے کا رخ زبردستی لاہور کی طرف موڑ دیا، ملزمان کے وکلاء نے دوران جرح کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ہر روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر موجود ہوتے ہیں جس کے جواب میں وکلاء عوامی تحریک نے کہا کہ ان سوالات کا کیس سے کیا تعلق ہے، وقت ضائع نہ کیا جائے، ٹو دی پوائنٹ سوال کیے جائیں۔

جواد حامد نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی و سرپرست ہیں اور اس تحریک کا نیٹ ورک دنیا کے 100 ممالک میں قائم ہے اور لیکچرز اور علمی مصروفیات کے باعث وہ مختلف ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔

ملزمان کے وکلاء کے ایک سوال کے جواب میں جواد حامد نے بتایا کہ جنوری 2012ء میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کیا تھا 2014ء کا انقلاب مارچ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی ایف آئی آر کے اندراج اور غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے تھا کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پنجاب حکومت ملوث تھی اور ماڈل ٹاؤن کے شہریوں کو محصور کر دیا گیا تھا، ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی جارہی تھی۔

ملزمان نے جرح کے دوران سب سے زیادہ سوال و جواب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انسداد دہشتگردی کے بارے میں دئیے گئے مبسوط فتویٰ کے حوالے سے کیے۔

جواد حامد نے مزید کہا کہ 17 جون 2014 ء کے دن کا ایکشن پولیس کی طرف سے یکطرفہ تھا آپریشن کی نگرانی ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز نے کی، 16 جون 2014ء کی رات رانا عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز نے منہاج القرآن کے عہدیداروں سے بات کی، یہ گفتگو اچانک ہوئی، ہماری طرف سے باضابطہ طور پر کوئی ٹیم تشکیل نہیں دی گئی تھی اور چونکہ یہ واقعہ خلاف توقع تھا اس لیے پولیس افسران جب آئے اس وقت خرم نواز گنڈاپور، الطاف حسین شاہ اور طیب ضیاء دفتر میں موجود تھے، انہوں نے پولیس افسران سے گفتگوکی، عوامی تحریک کے عہدیدار اور کسی کارکن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا، وہ مکمل پرامن تھے اور پولیس افسران سے کہا گیا کہ اگر آپ کے پاس حفاظتی انتظامات ختم کرنے کا کوئی مجاز اتھارٹی کا آرڈر ہے تو دکھائیں مگر پولیس افسران ایسا کوئی حکم نامہ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top