سانحہ ماڈل ٹاؤن: انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں جواد حامد کا اہم بیان قلمبند
ڈی سی او لاہور جاوید قاضی، آئی جی پنجاب خان بیگ کو 14 جون 2014ء کو تبدیل کر دیا گیا
پولیس کو کور کرنے کے لیے مشتاق سکھیرا اور پراسیکیوشن کو کور کرنے کے لیے احتشام قادر کو تعینات کیا گیا
سابق آئی جی پنجاب خان بیگ نے قتل عام کا حصہ بننے سے انکار کیا تو انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا
خان بیگ ریٹائرمنٹ تک او ایس ڈی رہے، مشتاق سکھیرا کو بطورانعام وفاقی ٹیکس محتسب لگایا گیا
عدالت میں مخدوم مجید حسین ہاشمی، انوار اختر ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری، سردار غضنفر موجود تھے
لاہور (4ا کتوبر 2019) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے سلسلے میں مدعی جواد حامدنے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ نے انکوائری ٹربیونل کے سامنے یہ تسلیم کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد کے سلسلہ میں سب کمیٹی بن چکی تھی، جو روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز بھی کررہی تھی، انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی روکنے کے لیے انتہائی اقدامات کے حوالے سے اس وقت کے آئی جی پنجاب خان بیگ نے ماڈل ٹاؤن میں متشدد آپریشن کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں راتوں رات 14 جون 2014ء کو آئی جی خان بیگ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا اور پھر ریٹائرمنٹ تک خان بیگ او ایس ڈی ہی رہے۔
انہوں نے انسداد دہشتگردی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ خان بیگ کے انکار کے بعد 14 جون 2014ء کے دن ہی 21 گریڈ کے افسر مشتاق سکھیرا کو 22 گریڈ کی آئی جی کی پوسٹ پر تعینات کیا گیا اور اس کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور پھر مشتاق سکھیرا کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ریٹائرمنٹ پر بطور انعام وفاقی ٹیکس محتسب لگایا گیا۔ جواد حامد نے کہا کہ آئی جی خان بیگ کے انکار کے بعد 14 جون 2014ء کو ڈی سی او لاہور احمد جاوید قاضی کو بھی انکار پر تبدیل کر دیا گیا، انہوں نے بھی منصوبہ کے مطابق قتل عام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا اور ان کی جگہ فوری طور پر نیا ڈی سی او کیپٹن (ر) عثمان کو لایا گیا۔ کیپٹن (ر) عثمان آپریشن سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست شریک رہا۔ ڈی سی او لاہور اور آئی جی پنجاب کو سانحہ ماڈل ٹاؤن سے صرف ایک دن تبدیل کرنے کی واحد وجہ 17 جون 2014 ء کی منصوبہ بندی تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حوالے سے سپیشل برانچ نے بھی رپورٹس رانا ثناء اللہ، نوید اکرم چیمہ، چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان، ہوم سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ، نوید اختر شیرازی، پی ایس او ٹو چیف منسٹر گورنمنٹ آف پنجاب کو ارسال کیں، یہ رپورٹس سانحہ ماڈل ٹاؤن کی منصوبہ بندی کو بے نقاب کرتی ہیں۔
جواد حامد نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنی مرضی کا آئی جی پنجاب لا کر پولیس کو کور کیا اور کیس کی کارروائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پراسیکیوشن سائیڈ کو بھی کور کیا۔ اس ضمن میں مورخہ 17 جون 2014 ء کو وقوعہ کے دن ہی سید احتشام قادر شاہ کی بطور پراسیکیوٹر جنرل خصوصی تقرری کی گئی اور انہیں وہ مراعات دی گئیں جو اس سے پہلے کسی کے لیے تھیں اور نہ ہی اس کے بعد کسی کے لیے تھیں۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد نوٹیفکیشن تھا جو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جاری کرویا۔ اس تقرری کا مقصد وقوعہ کے بعد مقدمہ کو اپنی منشاء کے مطابق انجام تک پہنچانا تھا۔
انسداد دہشتگردی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی لیگل ٹیم کے سربراہ مخدوم مجید حسین ہاشمی، صاحبزادہ انوار اختر ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضفر حسین ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ جواد حامد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مورخہ 16 جون 2014ء کی میٹنگ سے قبل سپیشل برانچ نے رپورٹ جاری کی کہ لندن میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور چودھری شجاعت حسین کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جس میں حکومت کے خلاف الائنس بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ سپیشل برانچ کی رپورٹ کی وجہ سے شریف برادران اور دیگر ملزمان نے مسلسل میٹنگز کیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ جواد حامد اپنا مزید بیان آج بروز ہفتہ قلمبند کروائیں گے۔
تبصرہ