تحریک کی طلب و عطاء (محمد اقبال فانی، ناروے)
(محمد اقبال فانی، ناروے)
منہاج القرآن کے ماحول سے وابستہ ہوئے میری عمرِ عزیز کا چھبیسواں سال ہے۔ جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو میری جبین اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تشکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو کر سجدے کیلئے جھک جاتی ہے۔ کیونکہ اس تحریک اور مشن نے مجھے تعلیم وتربیت کے مراحل سے گزار کر عملی زندگی میں ایک باوقار مقام تک پہنچایا اور معاشرے کا ذمہ دار فرد بنایا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب کوئی کہتا ہے کہ
”میں نے اتنے سال تحریک کو دے دیئے“
کبھی غور کیا کہ اس تحریک نے آپ کو کیا دیا؟
- جو متاعِ ایمان اس تحریک کی وابستگی کی برکت سے نصیب ہوئی ہے کیا وہ اسی اعتدال و توازن کی خوبصورتی کے ساتھ کسی اور دکان پر میسر ہے؟
- اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس بات کا جائزہ ضرور لیں کہ اگر آپ اس تحریک کا حصہ نہ بنتے تو کیا ہوتے اور کیسے ہوتے؟
- آپ مذہب مائل ہوتے یا مذہب گریز ہوتے؟
- اگر مذہب مائل ہوتے تو کیا اعتدال و توازن پر قائم ہوتے یا ناصبیت و خارجیت و رافضیت، انتہاء پسندی، تفسیق و تکفیر جیسے رجحانات کے حامل ہوتے؟
- اگر مذہب گریز ہوتے تو طبیعت کیسی ہوتی؟ اسلام پر ہوتے یا الحاد پر؟
الغرض اس طرح کے کئی سوالات اپنے آپ سے صرف اس لیے کریں تاکہ اللہ رب العزت کے حضور شکر بجا لا سکیں۔
میری اس تحریر کا مقصد فقط یہی بتانا ہے کہ مشن نے صرف لیا ہی نہیں، دیا بھی بہت کچھ ہے۔
تحریک اور افرادِ تحریک دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔
تحریک افراد کو کامل کرتی ہے، انہیں قیادت و سیادت کے ذریعے اظہارِ ذات کے
مواقع دیتی ہے اور ان کے اندر چھپی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔
تحریک نہ صرف مقصدِ زندگی متعین کرتی ہے بلکہ اس کے حصول کا خاکہ اور لائحہ
عمل دے کر افرادِ تحریک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
تحریک ایک مثالی معاشرے کی بقاء وترقی کیلئے، افرادِ نسلِ نَو کی نشوونما کیلئے
اور تہذیب یافتہ، مخلص افراد تخلیق کرنے کیلئے سازگار فضا دیتی ہے۔
تحریک اپنے ساتھ وابستہ ہونے والے افراد کی پرورش کرکے انہیں معاشرے کے باوقار
افراد کے طور پر پروان چڑھاتی ہے۔
تحریک شخصیت سازی اور کردار سازی کیلئے بندھی ٹکی روایات کا ماحول اور تزکیہ
و تربیتِ نفس کے مواقع دیتی ہے۔
تحریک حشو و زوائد اور افراط و تفریط سے پاک علمی و فکری، اخلاقی و روحانی تعلیمات
اور عقائد و نظریات دیتی ہے۔ فکری واضحیت بھی تحریک کی عطا ہے۔
تحریک تعصب و تنگ نظری سے نکال کر علم و ادراک کی تابندگی عطا کرتی ہے۔
تحریک عمدہ و شستہ تہذیبی و تمدنی سانچوں کا اسلوب دیتی ہے اور افرادِ تحریک
کو معاشی و معاشرتی، اخلاقی و روحانی اور فکری و نظریاتی بحرانوں اور دیگر معاشرتی
خرابیوں سے بچاتی ہے اور افرادِ تحریک کے فکری، جذباتی اور عملی پہلوؤں کیلئے تسکین
اور ارتقاء کا تسلی بخش سامان مہیا کرتی ہے۔
تحریک مسلسل تربیتی عمل سے گزار کر افرادِ تحریک کی سیرت سازی اس نہج اور ڈگر
پر کرتی ہے کہ اخلاقی و روحانی نمونے پر ڈھل کر استقامت کے پیکر بن جائیں۔
تحریک کے تعمیری پہلوؤں سے افرادِ تحریک فائدہ حاصل کرتے ہیں، ان کا ذہن تغذیہ
حاصل کرتا ہے، باطن روشن ہوتا ہے، وابستگان میں آفاقیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان
کی ”انا“ نفس و ذات کی حد بندیوں کو توڑ کر لامتناہی فضا کی وسعتوں میں تگ و تاز کرتی
ہے۔
تحریک کا عطا کردہ عمرانی تصور، تہذیبی نقشہ، تنظیمی نظم اور مطاع و مطیع کا
نظام افرادِ تحریک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور ان کے مضمراتِ ارتقاء کو اجاگر کرتا
ہے۔
الغرض تحریک اپنے وابستگان کی روزمرہ زندگی کے تعلقات و معمولات سے لےکر ان
کی آخروی کامیابیوں تک انہیں ہر قسم کی ہدایت و رہنمائی دیتی ہے۔
جس طرح تحریک افرادِ تحریک کی نشوونما کرتی ہے اسی طرح افراد اپنی سیادت و قیادت
کے ذریعے تحریک کی رہنمائی کرتے ہیں۔
افراد تحریک کو نئے افکار اور تصورات سے مالا مال کرتے ہیں اور اپنی اجتہادی
کاوشوں سے مختلف گوشوں کو چمکاتے ہیں۔
افراد اطاعتِ امیر کے جذبے سے سرشار ہو کر مطاع و مطیع کے نظام کو قائم رکھتے
ہیں اور اپنی ”انا“ کی تسکین کو تحریک اور مشن کے وسیع تر مفاد پر قربان کر دیتے ہیں۔
افراد حق گوئی، عدل و انصاف، نرمی و توقیر اور سخاوتِ نفس جیسی خصوصیات سے تحریک
اور معاشرے کی خدمت کرتے ہیں۔
افراد کی سب سے اہم خوبی باہمی رابطہ (وَرَابِطُوْا) اور حرکت پذیری ہے۔ ایک متحرک
کارکن اپنے مرکز اور اس کے فیصلوں سے جڑا رہتا ہے۔ نہ تو اس کا تحرّک جمود میں بدلتا
ہے اور نہ ہی وہ مرکزی پالیسیوں سے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھتا ہے۔ اگر مرکز اور تحریک
سے رابطہ مضبوط ہو جائے تو نامساعد حالات میں بھی قدم جادۂ حق سے نہیں ڈگمگاتے اور
آدمی امید کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ شجرِ جماعت سے وابستہ رہنے والا کارکن خزاں رسیدہ
موسم میں بہار آشنا ہو جاتا ہے۔
افراد باہم دگر مربوط، متحرک اور جانثار ہوں تو تحریک کی گاڑی چلتی ہے اور نتیجۃً
نِت نئے افراد کی تیاری کا عمل جاری رہتا ہے۔
تحریک ہمیں بناسنوار کر پہچان دیتی ہے اور ہم تحریک کا چہرہ بن کر عزت کماتے ہیں۔ اس لئے ہم تحریک سے ہیں اور تحریک ہم سے ہے۔ ہر وہ قول و فعل یا تحریر و تقریر جو تحریک، قیادتِ تحریک، افکارِ تحریک اور نظامِ تحریک کے خلاف ہو، فتنہ ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعی تربیت و تطہیر کا نظام اور تحریک کا نظام تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو بھی اس مصطفوی مشن کے ساتھ ہمیشہ مربوط و مستحکم رکھے اور اس کی خدمت کی توفیق دے۔
وَمَا تَوْفِيقِی اِلَّا بِاللهِ العَلِيِّ العَظِیْمِ
تبصرہ