شیخ الاسلام کے پند و نصائح
راضیہ نوید
اللہ رب العزت نے انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز فرمایا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیا جاسکے۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین بناکر بھیجا لہذا تاقیامت سلسلہ نبوت ختم ہوگیا۔ اب وعدہ ایزدی کے مطابق امت مسلمہ میں اولیائ، صالحین، مجددین اور بزرگان دین کے ذریعے ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا جائے گا مگر مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ .
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
(آل عمران، 3: 110)
بنیادی طور پر امت مسلمہ کو دیگر امم پر فوقیت اسی فریضہ دعوت کی انجام دہی کی وجہ سے دی گئی ہے کیونکہ یہ شیوہ پیغمبری ہے۔ عصر حاضر میں دعوت دین حق کا فریضہ منہاج القرآن انٹرنیشنل دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں سرانجام دے رہی ہے۔ کوئی بھی دعوت اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک داعیان حق کی سیرت و کردار افراد معاشرہ سے بلند تر نہیں ہوتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا خاصہ ہے کہ انہوں نے دعوت دین کا فریضہ اس انداز میں سرانجام دیا کہ داعیان حق کا ایک ایسا طبقہ گروہ اور افراد تیار ہوگئے جو پوری دنیا میں اسلام کے پیغام امن و محبت کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ذیل میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے مختلف مواقع پر کئے گئے خطابات میں سے داعیان حق کو کی گئی پندو نصائح کو جمع کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ ’’دعوت دین حق خالصتاً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توفیق ہے۔ بہت سارے لوگ خیر کا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن توفیق نصیب نہیں ہوتی لہذا جنہیں یہ نوکری نصیب ہوگئی وہ تکبر کی بجائے شکر کی عادات اپنائیں‘‘۔
آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’انسان دو چیزوں کا مرکب ہے ایک جسم اور دوسری روح۔ جسم مادی دنیا کے لوازمات کے ساتھ بنا ہے اور یہ مٹی، ہوا، پانی، آگ، گارے وغیرہ کا مرکب ہے۔ لہذا ان اشیاء کی تمام تر صفات اور کثافتیں انسانی جسم کا حصہ ہیں۔ دوسری چیز روح ہے جو مالائے اعلیٰ سے آئی ہے۔ روح اللہ کے امر میں سے ہے اور نور کی طرح ایک لطیف جوہر ہے۔ لہذا جب انسان کو کار خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے تو روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ انسان بلند عزم، حوصلے اور ہمت کے ساتھ کام کا آغاز کرتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور عزم و حوصلہ میں بھی کمی آجاتی ہے۔ خلوص نیت کے ساتھ شروع کی گئی خدمت میں بھی دنیاوی خواہشات اور امیدیں در آتی ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خدمت کا صلہ طلب کرنے لگتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’عزم و حوصلہ کو تھکن سے بچانے کے لیے روح کو طاقتور کرنا اورجسمانیت کو مغلوب کرنا نہایت ضروری ہے۔ انفرادی و اجتماعی اعمال ہوں تحریکی و تنظیمی اعمال یا نجی و معاشرتی اعمال ان سب کا دارو مدار نیت پر ہے۔ اعمال کی قبولیت کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ کیا کیا؟ کتنا کیا؟ کتنی تیز رفتاری سے کیا؟ یہ بعد کے معاملات ہیں۔ اصل بنیاد نیت ہے لہذا تمام داعیان حق نیت کی خالصیت کے محافظ ہیں۔ آخرت کے سودے میں کبھی دنیا کو نہ آنے دیں، یہی نیت کی خالصیت ہے‘‘۔ (8 دسمبر 2016ء)
دوران خطاب ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا کی چار چیزوں میں خیر ہے، باقی سب بے کار ہے۔ چار چیزوں میں علم سے محبت سر فہرست ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو داعی، معلم، استاد یا عالم کا اعزاز بخشا ہے تو اپنے اندر فخر پیدا نہ ہونے دیں، فخر و نخوت کی بجائے عاجزی و انکساری، تواضع، اخلاق حسنہ اور صدق و اخلاص اختیار کریں۔ دنیا میں کسی کو اپنے سے کم تر اور نیچ تصور نہ کریں۔ اس دنیا میں کسی کو حکومت، اقتدار، مال، دولت اور دیگر وسائل کی وجہ سے عزت ملتی ہے جو عارضی ہے مگر داعیان حق کو عزت صرف خدمت دین اور صدق و اخلاص کی وجہ سے ملتی ہے جس پر اللہ کا شکر بجا لانا ضروری ہے‘‘۔
آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’داعیان حق کے انداز تبلیغ میں نرمی، اعتدال اور وسعت ہونی چاہئے۔ علمی مزاج میں وسعت ہو، کسی کو گالی مت دیں۔ اگر کوئی آپ پر کفر کا فتویٰ جڑ بھی دے تو اسے جواباً کافر مت کہیں۔ اپنا ظرف اتنا بلند رکھیں کہ ہر کوئی آپ کے پاس آسکے۔ گفتگو کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھیں‘‘۔ (6 دسمبر 2016ء)
سالانہ مسنون اعتکاف کے موقع پر بالخصوص معتکفات سے مخاطب ہوکر نصیحت فرمائی کہ دین کا خلاصہ صرف اور صرف اخلاق حسنہ ہے حسن ادب، حسن سیرت، حسن کردار اور خوبصورت کردار ہی دین ہے لہذا داعیہ/ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے اخلاق کا رنگ چڑھا لے، دعوت حق کے راستے میں شکر اور صبر کا لباس پہنیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ صبر کا درجہ شکر سے زیادہ ہے کیونکہ شکر رب کی نعمتوں میں گم رکھتا ہے جبکہ صبر رب میں گم رکھتا ہے۔ دعوت کا ایک اصول بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اپنے وسائل اور مرتبہ میں برابر لوگوں کو مشن کی دعوت دیں اس سے دعوت نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ زیادہ وسائل رکھنے والی خواتین اسی لحاظ سے اونچے طبقے کی خواتین تک مشن کا پیغام پہنچائیں، علمی اعتبار سے اعلیٰ ساخت رکھنے والی خواتین اپنے جیسی خواتین تک دعوت پہنچائیں تاکہ معاشرے کے Complexes سے بھی بچا جاسکے اور دعوتی نتائج بھی حاصل کیے جاسکیں۔ (20جون 2017ء)
بلوچستان سے تشریف لانے والے علماء کرام کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ’’انسان ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار پڑھ کر دونوں جہانوں کے لیے خیر کی دعاکرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ کسی کو دنیا میں زیادہ خوشحالی عطا فرمائے، کسی کو آخرت میں عطا فرمائے اور کسی کو دنیا و آخرت دونوں میں۔ داعیان حق کو دعوت دین کی خدمت کی صورت میں آخرت میں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ لہذا ضروری نہیںکہ دنیاوی طور پر بھی آسودگی ہو۔ اللہ تعالیٰ داعیان حق کو آخرت میں اعلیٰ درجات دینے کے لیے چن لیتا ہے۔ لہذا وہ اہل اجابت ہوجاتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اہل انابت۔
داعیان حق کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ بڑی چیز حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ جتنا زیادہ دیں اتنا بہتر سودا ملے گا۔ لہذا اگر خدمت دین کے لیے چناؤ ہوگیا تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے لیے چن لیا اور اس بڑھ کر کوئی اور اعزاز نہیں ہوسکتا۔ یعنی آخرت کا سودا خریدنے کے لیے دنیا میں کچھ دینا پڑے گا دنیاوی لالچ سے پاک ہوکر فقط اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی اور رضا جوئی کو متاع جاں بنانا ہوگا۔
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کی محبت ٹھنڈے پانی کی طرح ہے جو جسم کے اندر محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ محبت محسوس نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہ محبت زبان تک محدود ہے ابھی عمل کا حصہ نہیں بنی لہذا اس محبت کی لذت محسوس کرنے کے لیے ہر وقت اپنے رب کے دھیان میں رہیں۔ مشکل آبھی جائے تو سوچیں کہ ایک روز اس رب کا دیدار نصیب ہوگا۔ (25 جنوری 2018ء)
ایک موقع پر شیخ الاسلام دعوت حق دینے والے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیٹے اور بیٹیاں اپنے اندر تقویٰ، اخلاقی اقدار، روحانی اقدار اور انسانی اقدار پیدا کریں۔ آپ کی زندگیوں اور تعلیم سے امن، میانہ روی، محبت، برداشت اور اخلاق حسنہ کی خوشبو معاشرے میں بکھرنی چاہئے۔ نفرت میں بدبو ہوتی ہے لہذا تنگ دل نہ ہوں، محبت والے بنیں، نفرت والے نہ بنیں، نرم بنیں، سخت نہ بنیں، باکردار بنیں، بے کردار نہ بنیں۔ (8 دسمبر 2018ء)
انڈیا کے دورے کے دوران داعیان حق کو نصیحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ لوگو! غفلت کو چھوڑ دو، غفلت کا لبادہ اتار کر پھینک دو، راتوں کو جاگنا سیکھو، مصلے سے دوستی بناؤ، بستر سے کٹو، اللہ کو پکارو، رات کے پچھلے پہر مناجات کرو، جو لوگ مناجات کرتے ہیں رب ان سے ملاقات کرتا ہے۔ آپ ریاضت کریں، روزے رکھیں، تہجد پڑھیں، عشق کے چراغ روشن کریں، نفس دل کو حرص سے پاک کریں، دنیا اور پیسے کی حرص پر لعنت بھیجیں اور اس کی جڑ کو کاٹ دیں۔ تکبر کا حرص، بڑائی کا حرص، ناموری کا حرص، شہرت کا حرص، مالداری کا حرص، یہ سارے حرص ہمارے دشمن، ناگ اور سانپ ہیں جو ہمیں کھاگئے۔ جب ان حرصوں کی جڑ کٹے گی تو دل صاف ہوگا۔ ادھر سے دل کٹے گا تو تب اللہ کے ساتھ جڑے گا۔ (12 مارچ 2012ء)
الغرض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے داعیان حق کے لیے ایسا لائحہ عمل اور پندو نصائح عطا فرمائے ہیں کہ اگر ان پر عمل پیرا ہوا جائے تو دعوت دین کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے اور سالوں پر محیط سفر جلد طے ہوسکتا ہے۔ بقول شاعر
یہ سارے خداؤں سے بیزار بندے
فقط ایک تیرے پرستار بندے
یہ سود و زیاں کے تصور سے بالا
یہ تیری محبت سے سرشار بندے
اٹھتے ہیں کہ قائم کریں دین حق کو
تری نفرتوں کے طلب گار بندے
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء
تبصرہ