تعلیماتِ غوثیہ میں صبر اور رضا بالقضا کا تصور
ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی
انسان کو جسمانی چوٹ لگے یا ذہنی صدمہ پہنچے، اس کا تڑپ اٹھنا اور بے تاب ہوجانا ایک طبعی امر ہے۔ کوئی کیسا ہی صبرو تحمل والا یا حکمت و دانش والا ہو، تکلیف پہنچنے پر اُس کا بے ساختہ ردِ عمل ظاہر ہوکر رہے گا۔ وہ جتنا چاہے اپنے دکھ درد اور کرب پر قابو پالے، اُس کے چہرے سے اندرونی کیفیت کا اظہار ہوہی جائے گا، مگر جو سعادت مند انسان اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے خالق اور اُس کے نظام کی پہچان حاصل کرلیتا ہے، اُس کا الگ ہی رنگ ہوتا ہے۔ وہ اپنے رب کی محبت سے سرشار ہوکر جہاں اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، وہیں اپنے رب کی طرف سے حکمت اور رحمت پر مبنی تکالیف کا بھی خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے۔ اُس کے لیے رب کی رضا ہر چیز پر مقدم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے رب کی رضا کے سانچے میں اس طرح ڈھل جاتا ہے کہ اُسے کوئی تکلیف بے صبری پر نہیں ابھار سکتی۔ وہ دکھ درد اور کرب کے لمحوں میں بھی مطمئن اور پرسکون ہوتا ہے۔ ایسے سراپا تسلیم و رضا لوگوں کو اپنے رب کی معیت حاصل ہوجاتی ہے۔
قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی سیدی الشیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے زمانۂ طالب علمی میں بہت کٹھن حالات دیکھے، بہت مشقتیں اٹھائیں، انتہا درجے کی لذتِ فاقہ مستی بھی دیکھی مگر آپ کی ثابت قدمی میں کبھی کوئی لغزش واقع نہ ہوئی اور نہ کبھی حرفِ شکایت زبان پر آیا۔ ظاہری مصائب و مشکلات سے صبرو شکر اور تسلیم و رضا کے پیکر بن کر گزرنے کے بعد آپ اُس مرتبہ و مقام پر فائز ہوئے جہاں کبار اولیاء نے آپؒ کے مبارک قدم کے احترام میں گردنیں خم کردیں۔
آزمائش و ابتلاء کی ناگزیریت
حضرت غوث اعظمؒ نے اپنے ایک خطبہ میں اولیاء کے لیے آزمائش اور ابتلاء کی ناگزیریت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’آزمائش اور ابتلاء خاص طور پر ولایت کے دعویداروں کے لیے لازمی امر ہیں۔ اگر آزمائش اور ابتلاء کا سلسلہ نہ ہوتا تو بہت لوگ ولایت کا دعویٰ کرتے۔ اسی لیے بعض صالحین نے فرمایا ہے:
کُلَّ الْبَلآءُ بالولایة کَی لاتدعی.
’’ولایت کو آزمائش اور ابتلاء سے مربوط کیا گیا ہے تاکہ تو ولایت کا دعویٰ نہ کرے‘‘۔
اور ولی کی علامات میں سے نمایاں علامت اس کا مخلوق کی اذیت رسانی پر صبر کرنا اور اذیت رسانی کرنے والوں کو معاف کرنا ہے۔ وہ مخلوق کی بدسلوکی دیکھتے ہوئے اسے نظر انداز کردیتے ہیں، اُن سے اذیت کے کلمات سن کر بھی اُن کلمات کو ذہن سے نکال دیتے ہیں۔ وہ اپنی عزتیں لوگوں کو پیش کردیتے ہیں۔ کہا گیا ہے:
حبّکَ للشّیئَ یُعْمی ویصم.
’’کسی چیز سے تمہاری محبت تمہیں اندھا اور بہرا کردیتی ہے‘‘۔
اولیاء نے اللہ تعالیٰ سے یوں لامحدود محبت کی ہے کہ وہ غیر اللہ سے اندھے اور بہرے ہوگئے ہیں۔ وہ مخلوق کے ساتھ نرمی اور مروّت سے ملتے ہیں مگر کبھی کبھار اُن (کو معصیت میں مبتلا دیکھ کر) پر ناراض بھی ہوتے ہیں، اس طرح وہ اللہ کے غضب میں اُس کی پیروی بھی کرتے ہیں‘‘۔
(سید عبدالقادر جیلانی، الفتح الرهانی والفیض الرحمانی، ص: 179)
حضرت غوث اعظمؒ ایک اور خطبہ میں فرماتے ہیں:
المومن یثبت عنده ان الله عزوجل مایبتلیه بشیء الا لمصلحة تعقب ذلک، اما دنیا او آخرة، فھو راض بالبلاء وصابر علیه، غیر متهم ربه عزوجل، شغله ربه عزوجل عن البلاء.
(ایضاً، ص: 32)
’’بندۂ مومن کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے کسی مصلحت کے بغیر کسی تکلیف میں مبتلا نہیں فرماتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزمائش پر صابر اور ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے صبری پر مشتمل کوئی بات نہیں کہتا۔ اُسے اُس کے رب نے تکلیفوں سے بے پرواہ کردیا ہے‘‘۔
صبر اور رضا بالقضاء کے ثمرات
بندۂ مومن کے آزمائش اور ابتلاء پر صبر اور رضا بالقضا کے ثمرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت غوث اعظمؒ فرماتے ہیں:
’’جب بندۂ مومن کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس مصیبت سے نجات پانے کے لیے پہلے تو خود ہاتھ پائوں مارتا ہے، اگر وہ اس مصیبت سے نجات حاصل نہ کر پائے تو وہ مخلوق سے مدد طلب کرتا ہے، جیسے سلاطین، اعلی مناصب پر فائز شخصیات، اصحابِ احوال اور اطباء وغیرہ۔ اور اگر ان سب کے ذریعے بھی مصیبت نہیں ٹلتی تو وہ اپنے رب کی حمدو ثناء کرتے ہوئے دعا کرتا ہے اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا ہے۔
جب تک وہ اپنی مدد خود کرلیتا ہے، وہ مخلوق کی طرف رجوع نہیں کرتا اور جب تک وہ مخلوق سے مدد پاتا رہتا ہے، وہ خالق کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ پھر جب وہ (مخلوق سے مایوس ہوکر) رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور جب وہ خالق کی مدد نہیں پاتا تو وہ رب کے درِ رحمت پر اپنے آپ کو گرادیتا ہے اور امید و رجاء کی کیفیت میں اس کی حمدو ثناء کرتے ہوئے اور گڑ گڑاتے ہوئے اُس سے مدد مانگتا رہتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اُسے دعا کی قبولیت کے معاملے میں تاخیر سے دو چار فرماتا ہے، یہاں تک کہ آزمائش و مصیبت میں مبتلاء بندے کا جب تمام ظاہری اسباب سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ اس بندے میں قضاء و قدر کو جاری فرماتا ہے۔ تب بندہ تمام اسباب و علائق سے منقطع ہوجاتا ہے اور اُس کا جسم (موجود ہوتے ہوئے بھی) فنا ہوجاتا ہے اور فقط روح باقی رہ جاتی ہے۔ تب وہ ہر چیز کو فاعلِ حقیقی کا فعل ہی تصور کرتا ہے اور اس طرح وہ یقین اور توحید کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔
اُسے یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا حقیقی فاعل کوئی نہیں۔ اشیاء کو حرکت دینے اور ٹھہرانے والا وہی ہے۔ نیز یہ یقین بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ خیرو شر، نفع و ضرر، عطاء و عدمِ عطائ، کشادگی اور بندش، موت و حیات، عزت و ذلت سب اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے۔ یقین حاصل ہونے کے بعد مصائب سے دو چار بندۂ مومن قضاء و قدر کے ہاتھوں میں اس طرح ہوجاتا ہے جیسے دودھ پیتا بچہ دایا کے ہاتھ میں، یا جیسے کوئی مردہ کسی زندہ کے ہاتھ میں، یا جیسے سوار کے ہاتھ میں سواری کی لگام جو پہلو بدلتا ہے اور سواری کو پھیرتا ہے نیز ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرتا ہے‘‘۔
(سید عبدالقادر جیلانی، فتوح الغیب، ص: 28)
حقیقتِ صبر
حضرت غوثِ اعظمؒ نے صبر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے درج ذیل آیات ذکر فرمائیں:
1۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
(آل عمران، 3: 200)
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللهِ
(النحل، 16: 127)
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے ‘‘۔
- صبر کے حوالے سے قرآنی آیات کے بعد حضرت غوثِ اعظمؒ نے درج ذیل احادیث بھی ذکر کیں جن سے صبر کا تصور مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔
1۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الصبر عند الصدمة الاولی.
(الحاکم، 1: 502)
’’(حقیقی) صبر تو صدمہ کے آغاز میں ہوتا ہے‘‘۔
2۔ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی:
یارسول الله! ذهب مالی وسقم جسمی. لا خیر فی عبد لا ذهب ماله ولا یسقم جسمه، ان الله تعالی اذا احب عبدا ابتلاه واذا ابتلاه صبره.
(الاتحاف، 9: 142، والمغنی عن حمل الاسفار، 4: 128)
’’میرا مال جاتا رہا اور میرا جسم بیمار ہوگیا۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس بندے میں بھلائی نہیں، جس کا نہ تو مال جائے اور نہ اس کا جسم بیمار ہو۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو اسے آزمائش سے دو چار کرتا ہے اور جب اسے آزمائش سے دو چار کرتا ہے تو اسے صبر دیتا ہے‘‘۔
3۔ حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ یہ روایت بھی صبر کی اصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الرجل لتکون له الدرجة عندالله عزوجل لا یبلغها بعمله حتی یبتلی ببلاء فی جسمه فیبلغها بذلک.
(رواه ابن حبان فی صحیحه، والحاکم فی المستدرک)
بندۂ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں (اس کے فضل و کرم سے) ایک مقام ہوتا ہے جس تک وہ بندہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ پاتا، تب اللہ تعالیٰ اُسے (اپنی حکمت اور رحمت کے تحت) اُس کے جسم میں کسی مصیبت میں مبتلا فرماتا ہے تو وہ بندہ (مصیبت پر صبر اور رضا بالقضا کے ذریعے) اُس درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
(غنیة الطالبین، ص: 326-327)
4۔ حضور غوث الاعظمؓ صبر کی حقیقت کو احادیث سے ثابت کرتے ہوئے درج ذیل روایت کو بھی صبر کی اصل قرار دیتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا یُّجْزَ بِهٖ (النسا: 123) تو حضرت ابوبکر صدیقؓ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوئے:
یارسول اللّٰه کیف الفلاح بعد ھذه الایة؟ فقال النبی ﷺ: غفرالله لک یا ابابکر الیس تمرض؟ الیس یصیبک البلاء؟ الیس تصبر؟ الیس تحزن؟ فھذا ماتجزون به.
(غنیة الطالبین، ص: 327)
’’یارسول اللہ! اس بات کے بعد نجات اور فلاح کی کیا صورت ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم بیمار نہیں ہوتے؟ کیا تمہیں تکلیف نہیں پہنچتی؟ کیا تم (تکلیفوں اور مصائب پر) صبر نہیں کرتے؟ کیا تم اداسی سے دوچار نہیں ہوتے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے تمہیں (کمی کوتاہی کی) جزا دی جاتی ہے‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ تمہیں جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہاری کوتاہیوں کا کفارہ ہوتی ہے۔
صبر کی اقسام
حضرت غوث اعظمؒ نے کتاب و سنت سے صبر کی فضیلت اور رضا بالقضا کی حکمت بیان کرنے کے بعد صبر کی درج ذیل تین اقسام بیان فرمائی ہیں:
1. احدھا صبر للّٰه عزوجل، وھو علی اداء امره وانتهاء نهیه.
2. وصبر مع اللّٰه عزوجل، وھو الصبر تحت جریان قضائه وافعاله فیک من سائر الشدائد والبلایا.
3. و صبر علی اللّٰه عزوجل، ھوالصبر علی ماوعد من الرزق، والفرج، والکفایة، والنصر، والثواب فی دار الآخرة.
(غنیة الطالبین، ص: 327)
- اللہ تعالیٰ کے لیے صبر کرنا: یعنی اس کے احکام کی تعمیل کرنا اور منع کئے ہوئے امور سے رکنا۔
- اللہ تعالیٰ کی معیت پر صبر کرنا: یعنی اپنے آپ پر سختیوں اور مصائب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور افعال پر صبر کرنا۔
- اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر صبر کرنا: یعنی اللہ تعالیٰ نے رزق کی کشادگی، ضرورتوں کے پورا ہونے، اپنی مدد اور آخرت میں ثواب کے جو وعدے فرمائے ہیں ان پر صبر و استقامت سے یقین رکھنا۔
صبر: ائمہ کے اقوال کی روشنی میں
صبر کی اقسام بیان کرنے کے بعد حضرت غوث اعظمؒ نے صبر کی کثیر تعریفات بیان کی ہیں جس سے جہاں صبر کے ساتھ ان کی اپنی وابستگی کا پتہ چلتا ہے وہیں یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے قارئین کو صبر کی چاشنی اور ثمرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
1۔ حضرت ذوالنون مصریؒ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ امور سے دوری، مصائب کے تلخ گھونٹ پیتے ہوئے پرسکون رہنا اور تنگ دستی کے باوجود فقرو فاقہ کو چھپانا صبر ہے‘‘۔
2۔ یہ بھی کہا گیا ہے:
’’آزمائش کی گھڑیوں میں حسنِ ادب کا لحاظ رکھنا صبر ہے‘‘۔
3۔ صبر کے بارے میں ایک قول یہ ہے:
’’مصائب و آلام میں شکوہ شکایت کے بغیر ڈوب جانا صبر ہے‘‘۔
4۔ ایک قول یہ بھی ہے:
’’بیماری کو اسی طرح خوش دلی سے قبول کرنا صبر ہے جیسے صحت کو قبول کیا جاتا ہے‘‘۔
5۔ یہ بھی کہا گیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی معیت پر ثابت قدم رہنا اور اس کی طرف سے آنے والی تکالیف کو خوش دلی سے قبول کرنا صبر ہے‘‘۔
6۔ حضرتِ خواص نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی معیت میں کتاب و سنت کے احکام پر ثابت قدمی صبر ہے‘‘۔
7۔ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نے فرمایا ہے:
’’اہلِ محبت کا صبر زاہدوں کے صبر سے سخت ہے۔ تعجب ہے کہ اہل محبت کیسا صبر کرتے ہیں؟ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
الصبر یحمل فی المواطن کلها
الا علیک فانه لا یحمل
’’سارے مقامات پر صبر ہوجاتا ہے مگر تیری فرقت پر صبر نہیں ہوتا‘‘۔
8۔ کہا گیا ہے:
’’صبر شکوہ شکایت چھوڑ دینے کا نام ہے‘‘۔
9۔ یہ بھی کہا گیا ہے:
’’صبر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عجزو نیاز کا اظہار کرنا اور اس کی پناہ مانگنا ہے‘‘۔
10۔ یہ کہا گیا ہے:
نعمت اور مصیبت میں دلجمعی کے ساتھ دل کی حالت کے نہ بدلنے کا نام صبر ہے، نیز مصیبت کے وزنی بوجھ کے باوجود پرسکون رہنے کا نام صبر ہے‘‘۔
(غنیة الطالبین، ص: 327-329)
عمل بالاسباب اور توکل
حضرت غوث اعظمؒ کی تعلیمات میں بیک وقت عمل بالاسباب، توکل اور رضا بالقضا کا درس ملتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
علیک بالکسب والتعلق بالسبب الی ان یقوی ایمانک، ثم انتقل الی المسبب الانبیاء علیهم السلام اکتسبوا واقترضوا وتعلقوا بالاسباب فی اول امرهم وفی الآخر توکلوا، جمعوا بین الکسب والتوکل بدایة ونهایة، شریعة و حقیقة.
(الفتح الربانی، ص: 99)
’’اے مخاطب! تجھ پر لازم ہے کہ تو کسب اور سبب سے تعلق رکھے یہاں تک کہ تمہارا ایمان مضبوط ہوجائے پھر مسبب کی طرف منتقل ہوجائو۔ انبیائf نے کمائی کی ہے، قرض لیا اور وہ شروع میں اسباب سے متعلق رہے اور آخر میں انہوں نے توکل کیا۔ انہوں نے شروع اور آخر میں شریعت اور حقیقت کے اعتبار سے کسب اور توکل کو یکجا کیا‘‘۔
- دوسرے مقام پر فرمایا:
اعبدوا اللہ عزوجل واستعینوا علی عبادته بکسب الحلال، ان الله عزوجل یحب عبدا مومنا مطیعا آکلا من حلاله، یحب من یاکل ویعمل، ویبغض من یاکل ولا یعمل، یحب من یاکل بکسبه، ویبغض من یاکل بنفاقه وتوکله علی الخلق.
(الفتح الربانی، ص: 148)
’’اللہ عزوجل کی عبادت کرو، نیز اُس کی عبادت پر حلال کمائی سے مدد حاصل کرو، بے شک اللہ تعالیٰ ایسے مطیع اور مومن بندے سے محبت فرماتا ہے جو اُس کے حلال کیے ہوئے مال سے کھاتا ہے اور ایسے بندے کو ناپسند کرتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر (معاش کے لیے) محنت نہیں کرتا، وہ ایسے بندے سے محبت فرماتا ہے جو اپنی محنت کی کمائی سے کھاتا ہے اور وہ ایسے انسان کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے نفاق اور مخلوق پر بھروسے کی بنا پر کھاتا ہے۔
- ایک اور مقام پر اس حقیقت کو یوں واضح کیا:
اقول لکم: اجتهدوا فیه ودعوا التعلق بالسابقة فانه ھوس منکم وحط، وحجة الکسالی، ماعلینا بالسابقة، نشد الاوساط ونتجهد ونعمل، ولا نقول: قال وقلنا، ولم وکیف؟ لا ندخل فی علم الله عزوجل، نحن نجتهد و ھو یفعل ما یشاء.
(الفتح الربانی، ص: 175)
’’میں تمہیں کہتا ہوں: (معاش کے لیے) کوشش کرو اور تقدیر کے ساتھ (جدوجہد سے منہ موڑ کر) چپکنا چھوڑ دو، یہ سست مزاج لوگوں کی دلیل ہے۔ ہم تو (نوشتۂ تقدیر کے باوجود) کمر باندھ کر جدوجہد کریں گے۔ ہم فقط یہ کہنے پر اکتفا نہیں کریں گے: ’’فلاں نے کہا اورہم نے کہا، کیوں؟ کیسے؟ اور نہ ہی اللہ کے علم میں داخل ہوں گے‘‘۔ ہم کوشش کریں گے اور وہ (مالک) جو چاہے گا کرے گا‘‘۔
- جدوجہد اور اسباب کو اختیار کرنے کے حوالے سے ایک مقام پر فرمایا:
جاهد فی طریق الحق عزوجل ولا تتکل علی قدره، اما سمعته کیف، قال: والذین جاھدوا فینا لنهدینهم سبلنا.
(العنکبوت: 69)، ( الفتح الربانی، ص: 305)
’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کرو، اُس کی (طرف سے لکھی ہوئی) تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھے نہ رہو، کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ اُس نے کیسے فرمایا ہے: ’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم اُنہیں ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے‘‘۔
- حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ:
سالنی رجل: ای شیء یقرب العبد الی الله عزوجل؟ فقلت: لذلک ابتداء وانتهاء، فابتدوه الورع وانتهاوه الرضا والتسلیم والتوکل.
(فتوح الغیب، ص: 143)
’’ایک شخص نے مجھ سے پوچھا: بندے کو کیا چیز اللہ کے قریب کرتی ہے؟ تو میں نے اُسے کہا: قربِ الہٰی کی ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا ہے۔ اُس کی ابتدا تقویٰ ہے اور اُس کی انتہا تسلیم و رضا اور توکل ہے‘‘۔
تکلیف سے دو چار ہونے پر واویلا کرنے سے کبھی تکلیف ختم نہیں ہوتی، ہاں آدمی رب کی رحمتوں سے اپنا دامن بھرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ البتہ جن خوش نصیبوں کو صبر کی دولت مل جاتی ہے اور وہ رب کی رحمتوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں، صبر سے آگے بڑھ کر جب بندہ رب کے فیصلوں پر راضی ہوجاتا ہے تو تسلیم و رضا کا یہ پیکر اللہ تعالیٰ کے خاص لطف و کرم کا حقدار بن جاتا ہے۔ شہادتِ سیدنا امام حسین علیہ السلام رضا بالقضا کی روشن ترین مثال ہے۔ صحابہ کرام، اہل بیت عظام، تابعین، تبع تابعین نے رضا بالقضا کی کثیر مثالیں قائم کی ہیں بلکہ علمائے دین اور اولیاء و صالحین سیدنا امام حسین علیہ السلام کی روشن کی گئی قندیل سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ہر دور میں رضا بالقضا کی روشن مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بلند رتبہ لوگوں کے امتحان بھی کٹھن ہوتے ہیں جبکہ معصیت شعار لوگوں پر بھی تکالیف آتی ہیں مگر ہمیں اُن تکالیف کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اللہ کریم ہمیں صبر کرنے والا دل اور شکر کرنے والی زبان عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2020ء
تبصرہ