دعوت اور داعی کے اوصاف
مرتبہ: عائشہ مبشر
قومی حیات:
کسی مردہ قوم کے لیے فضا سازگار کرنے کا عمل دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ انسانی زندگی شعور سے عبارت ہے اور شعور دعوت سے بیدار ہوتا ہے۔ پہلے انس ومحبت کی فضا پیدا کی جاتی ہے جذبات کو متاثر کیا جاتا ہے پھر عقل میں بات آتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بات مصدقہ ہے کہ مردوں کے زندہ ہونے کے واقعات کسی صاحب دعوت کی دعا سے منظر عام پر آتے ہیں۔ اس اصول پر مردہ قوم ا ٓج بھی زندہ ہوسکتی ہے۔ اہل دعوت ضروری تقاضے پورے کردے تو اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تن مردہ میں پھر سے روح پھونک دے۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.
(البقره، 2: 260)
’’اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
پتہ چلا کہ پہلے کسی کو مانوس کرلیا جائے تو بعد میں ذبح کر ڈالنے پر ’’آہ‘‘ بھی نہیں سنائی دیتی۔ لہذا ذات سے محبت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ.
(البقره، 2: 165)
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
اگر داعی اخوت و محبت کا مجسم بن جائے تو لوگوں کو اس میں امید کی کرن نظر آئے تو وہ اس کے گرد جمع ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے پہلے رغبت پیدا کریں پھر شعور آئے گا۔ محبت کرنے سے تو جانور بھی مانوس ہوجاتے ہیں۔ محبت سے دلوں کو جیت لیا جائے تو ان میں کٹ مرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ذاتی رابطہ اعتماد پیدا کرتا ہے۔ محبت سے تو ناگوار باتیں بھی مانی جاسکتی ہیں اگر دعوت میں صرف جلال ہی ٹپکتا رہے تو کوئی دعوت کو قبول نہیں کرے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو چار پرندے ذبح کئے تھے وہ نفسانی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مور تکبر و خود پسندی، مرغ شہوت پرستی، کوا حرص و لالچ اور کبوتر جلد بازی کی علامت ہے۔ پہلے داعی ان رذائل اخلاق کو ذبح کرکے میدان عمل میں اترے گا تو دعوت سے لوگوں میں نئی زندگی آئے گی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ سے قوموں کو نئی زندگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَّهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِهَا ج قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ هٰذِهِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ج فَاَمَاتَهُ اللهُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ.
(البقره، 2: 259)
’’یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لیے) اللہ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟۔‘‘
رحمانی دعوت کی پہچان:
رحمانی دعوت بلا امتیاز رنگ و نسل آفاقی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد وحدت الہ، وحدت انسانی اور وحدت کائنات پر استوار ہوتی ہے۔ اس دین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ.
(آل عمران، 3: 19)
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘
اور یہ غالب ہونے کے لیے آیا ہے اسے غالب کرنا رسول ﷺ کے فرائض منصبی میں سے تھا اور آپ ﷺ نے ایسا کرکے دکھایا۔ اب یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ غلبہ اسلام کی بحالی کے لیے جدوجہد کرے۔ خدمت دین کا کام اس قدر اہم ہے اور ہر مسلمان سے تقاضا کرتا ہے کہ اس جدوجہد میں حصہ لے اتنے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ایک جماعت اور تنظیم کی ضرورت ہوگی۔ اس صورت میں مسلمان کے لیے دو اختیار رہ جاتے ہیں۔
- اس مقصد کے لیے کام کرنے والی کسی جماعت میں شامل ہوجائے۔
- اطمینان نہ ہونے کی صورت میں خود جماعت قائم کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی جماعت اور اطاعت کا حکم فرمایا۔ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں۔ ان کا حکم مجھے اللہ نے دیا ہے۔ قیام جماعت، سمع، طاعت، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ۔ (مسند احمد)
یہی وجہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کے قواعد و ضوابط کی تعلیم بحیثیت فن دی جاتی ہے کیونکہ اسلام اپنے نام اور کام کے اعتبار سے جامعیت، ہمہ گیریت اور عالمگیریت کا حامل ہے جس میں پھیل جانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ لہذا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دعوت و ارشاد کا ایک پورا نظام عطا فرمایا۔ مسند احمد میں ہے اگر کہیں آدمی جمع ہوجائیں تو ضروری ہے کہ ایک کو اپنا امیر بنالیں۔
جماعت مقصد، جدوجہد، اطاعت اور رہنمائی سے بنتی ہے۔ بعض لوگ تنظیم کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود حیلے بہانوں سے شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ اللہ کے ہاں بہانے نہیں چلیں گے۔ اولوالامر سے مراد صرف حکمران نہیں بلکہ صاحب علم افراد ہیں۔
داعی کے اوصاف:
دین کا کام کرنے والوں کے لیے جسمانی مضبوطی اور علمی پختگی کا اشارہ تو قرآنی الفاظ بسطۃ فی العلم والجسم۔ (البقرہ،2: 247) سے ملتا ہے۔ مزید تائید رسول اللہ ﷺ کے قول ’’قوی مومن کمزور مومن سے بہتر ہے‘‘ سے ہوتی ہے۔ ویسے بھی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ایک صحت مند جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ لہذا داعی کے اوصاف کے حوالے سے جب بات ہوگی تو اس کی جسمانی صحت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا دعوت دین کا کام کرنے و الوں کے لیے ظاہری وضع قطع کو درست رکھنا بہت اہم ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں ان کی نامناسب ہئیت ہی قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اس لیے پرجوش مبلغین کو آرام اور طعام کے لیے مناسب وقت نکال لینا چاہیے تاکہ صحت پر مضر اثرات مرتب نہ ہوں۔
اخلاقی اوصاف:
داعی کو رذائل اخلاق سے پاک ہونا چاہیے۔ داعی کو اطاعت، معرفت، محبت اور خشیت الہٰی کا پیکر ہونا چاہیے۔ نیک نیتی، اخلاص، شکر گزاری اور تسلیم و رضا اس کا شعار ہو، اس کا مطمع نظر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اصلاحِ احوال ہو۔ یہ اوصاف دعوت کی اثر پذیری کو چار چاند لگاتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم ایک ہی بات دو مختلف اشخاص سے سنتے ہیں۔ ایک دل کو بھاتی ہے اور دوسری سنی اور ان سنی کردیتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ جس کی بات دل میں اتر گئی اس کے پیچھے اعلیٰ اخلاق اوصاف اور کردار کی قوت کارفرما ہوتی ہے تب یہ کیفیت پیدا ہوئی۔ اثر پذیری کے لیے دل کا مادی مفادات سے خالی ہونا ضروری ہے بلکہ دنیوی فوائد کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔
قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّهٖ سَبِیْلًا.
(الفرقان، 25: 57)
آپ فرما دیجیے کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کچھ بھی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب تک (پہنچنے کا) راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے (کرلے)‘‘۔
کی مکمل تصویر بن جائے یہی جملہ انبیاء کا شیوہ رہا ہے۔ داعی کی نظر لوگوں کے قلوب پر ہو نہ کہ جیبوں پر۔ داعی کو سراپا دعا رہنا چاہیے۔ اللہ پر بھروسہ اور توکل ہی امید کی کرن ہے کیونکہ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اپنے مشن کی حقانیت پر کامل یقین ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار فرمایا:
اے لوگو! کلمہ پڑھ لو تم عرب و عجم کے مالک بن جائو گے۔ انتہائی ناموافق حالات میں یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اپنی دعوت کی کامیابی پر غیر متزلزل یقین ہو۔ دراصل یقین ہی قوت کا سرچشمہ ہے۔ سچائی اور دیانتداری جملہ اخلاقی اوصاف کی جان ہیں۔ اس لیے داعی کو سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق سچائی اور دیانتداری کا دامن تھامے رکھنا چاہیے تاکہ کوئی اس کی جانب انگلی نہ اٹھاسکے۔
حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’مومن جھوٹ نہیں بول سکتا‘‘ جو شخص لوگوں کا اعتماد کھودے کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جھوٹ سے اجتناب کے باعث ہزارہا گناہوں سے نجات مل جاتی ہے۔ دراصل ہر اچھا شخص اپنے گرد نیکی اور بھلائی کا ہالہ رکھتا ہے جو مقناطیسی قوت کا حامل ہے۔ قریب آنے والا کوئی شخص بھی اس کے اثر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں اسلام پھیلنے کی وجہ مسلمانوں کی تلواریں نہیں بلکہ صوفیاء کا کردار تھا۔ داعی کے لیے دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل اس پر خود عمل پیرا ہونا بہت اہم ہے۔ اس لیے قرآن نے ایسے لوگوں کی تنبیہ کی ہے:
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ.
(البقره، 2: 44)
’’کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالاں کہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو۔‘‘
گویا داعی سچائی کا کامل نمونہ ہو۔ اسے بندوں سے حیا کی نسبت اللہ سے زیادہ حیا ہونی چاہیے اور دوسروں کی اصلاح میں لگ کر اپنے آپ کو نہ بھول جائیں۔ دعوت تبلیغ کے ضمن میں ہادی برحق ﷺ کو جو حکم دیا گیا:
فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَّهُمْ فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًا م بَلِیْغًا.
(النساء، 4: 63)
’’پس آپ ان سے اِعراض برتیں اور انہیں نصیحت کرتے رہیں اور ان سے ان کے بارے میں مؤثِر گفتگو فرماتے رہیں۔‘‘
اس آیت میں داعی کی تین صفات کا پتہ چلتا ہے:
1۔ مخاطب کی بدتمیزی اور درشت کلامی کو برداشت کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.
(الفرقان، 25: 63)
’’اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘
2۔ استقامت کا مظاہرہ کرے۔ تنگ اور مایوس ہوکر دعوت کو ترک نہ کرے۔
3۔ انداز گفتگو ایسا دلکش و دلنشیں ہو کہ دل میں اتر جائے۔
اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صرف گفتار کا غازی نہ بنے بلکہ کردار کا غازی بننے کی کوشش کرے۔ آپ ﷺ سراپا اخلاق تھے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے:
کان خلقه القرآن.
(مسند احمد بن حنبل، 6: 91)
’’آپ ﷺ کے اخلاق سراسر قرآن تھے۔‘‘
اسلام کی اشاعت و ترویج میں حسن اخلاق کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا سنہری اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.
(حم السجده، 41: 34)
’’اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘
نرم کلامی اور شیریں گفتاری داعی کا زیور ہے جو دعوت کی اثر آفرینی کو چار چاند لگادیتا ہے۔ کبھی کسی بات کو ذاتی انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے بلکہ عفو و درگزر کی روش اختیار کی جائے۔ مشکل ترین لمحات پر بھی صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا.
(المعارج، 40: 5)
’’سو (اے حبیب!) آپ (کافروں کی باتوں پر) ہر شکوہ سے پاک صبر فرمائیں۔‘‘
طبعی اوصاف:
داعی کو بلند نگاہ، ٹھنڈا مزاج، معاملہ فہم، اولوالعزم، ثابت قدم مستقل مزاج ہونا چاہیے بہت سے لوگ بد دل ہوکر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ان حالات میں حضرت نوح علیہ السلام کی مثال سامنے ہونی چاہیئے۔ جنہوں نے ساڑھے نو سو سال دعوت کا کام کیا مگر چند لوگ ایمان لائے۔ اگر غور کریں تو کتنا طویل اور صبر آزما مجاہدہ تھا لیکن وہ کس قدر استقامت کا پہاڑ بن کر دعوت کے میدان میں ڈٹے رہے۔ انہیں دعوت کی نتیجہ خیزی پر کس قدر پختہ یقین تھا کہ ایک لمحہ بھی ان کے پائے اثبات میں لغزش نہیں آئی۔ لہذا داعی کو سب سے پہلے اپنی دعوت کی حقانیت پر یقین ہونا چاہیے دعوت کے میدان میں اولین کام لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا ہوتا ہے۔ لہذا ایک داعی کو ہر لحاظ سے جاذب نظر اور دلکش شخصیت کا مالک ہونا چاہیے کیونکہ اس میدان میں شعلہ بیانی کا نہیں بلکہ شیریں کلامی کا سکہ چلتا ہے۔
ایک داعی خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو جب تک رفقاء میسر نہ ہوں تو کام کو آگے بڑھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہذا دعوتی کام کو موثر بنانے کے لیے داعی کو تنظیمی صلاحیتوں کا بھی مالک ہونا چاہیے ورنہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
اجتماعی کام کے دوران جہاں محاسبہ کا عمل جاری کرنا ضروری ہے وہاں دوستوں کی حوصلہ افزائی کے چند کلمات رفتار کار کو بڑھانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے سے ان کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ نظم و ضبط پر اسلام نے جس قدر زور دیا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا مذہب اس کی مثال پیش کرسکے۔ اس کی جملہ عبادات اجتماعی شان کی حامل ہیں۔ داعی کا قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اچھی تقریر کرلینا کافی نہیںکیونکہ بدنظمی منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ داعی کی خوبیاں اس کی کامیابی کی علامت ہیں۔ دیگر اوصاف محنت کے ذریعے حاصل ہوسکتے ہیں۔ دوسروں پر اثر انداز ہونا ایک فن ہے جو محنت کا متقاضی ہے۔ لہذا جہد مسلسل داعی کی طبیعت کا لازمی حصہ بن جانا چاہیے۔
پرہیزگاری:
داعی کو شب زندہ دار ہونا چاہیے۔ اس طرح بات میں وزن اور اثر ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا.
(المزمل، 73: 6)
’’بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے‘‘۔
راتوں رات کوئی منصب دعوت پر فائز نہیں ہوجاتا اس کے لیے ذکر، فکر، عبادت اور خدمت کا سرمایہ چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے قرآن اور صاحب قرآن سے گہرا تعلق استوار کیا جائے۔ اگر رونے والی آنکھ اور تڑپنے والا دل نہ ہو تو اس میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ دوسروں کو دعوت دینے سے قبل اپنی اور امت کی ہدایت کے لیے دعا مانگ کر باہر نکلے۔ داعی کے لیے نفس کی طہارت اور روح کی پاکیزگی لازمی ہے۔ اپنے عیوب سے آگاہ ہو اور موت کو یاد رکھے کیونکہ تاثیر باطنی طہارت سے جنم لیتی ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا. وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.
(الشمس، 91: 9-10)
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘
پرہیزگاری کا آغاز توبہ سے کرے حضور علیہ السلام نے فرمایا توبہ کرو میں دن میں ستر بار توبہ کرتا ہوں۔ خود احتسابی کے باعث داعی اپنے اندر ایک واضح تبدیلی محسوس کرے گا۔ ہر وقت باوضو رہے، کسی کی دل آزاری نہ کرے، کثرت سے درود پڑھے، خوف الہٰی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللهِ وَیَخْشَوْنَهٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللهَ ط وَکَفٰی بِاللهِ حَسِیْبًا.
(الاحزاب، 33: 39)
’’وہ (پہلے) لوگ اللہ کے پیغامات پہنچاتے تھے اور اس کا خوف رکھتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے، اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے‘‘۔
عمل میں نماز اور قربانی سر فہرست ہے۔ عمل کے محرک کے طور پر عقیدہ آخرت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا دعوت ایک فن ہے اس میدان میں اترنے سے قبل اس کی شرائط، آداب اور لوازمات سے مکمل آگاہی مطلوب ہے۔ دعوت سنت انبیاء و اولیاء ہے یہی دعوت تو ان کی بقاء کی ضامن ہے۔ مگر اگر دعوت کا فریضہ صحیح لوازمات کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو موثر نہیں رہتا جس کے لیے داعی کی شخصیت نہایت اہم ہے۔
(ماخوذ از پروفیسر محمد رفیق، کتاب: دعوت کا انقلابی طریقِ کار)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2021ء
تبصرہ