شجرکاری کی اہمیت
ڈاکٹر زیب النساء سرویا
ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر
آنے والے کے لیے پیڑ لگا دیتے ہیں
شجرکاری سے مراد ہے درخت لگانا درخت ماحول کو درست رکھنے اور خوب صورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں صاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ طوفانوں کا زور کم کرتے ہیں۔ آبی کٹاؤ کو روکتے ہیں، آب و ہوا کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں اور کسیجن فراہم کرتے ہیں۔ ایک درخت 36 ننھے بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور دو پورے خاندانوں کو 10 درخت ایک ٹن ائیرکنڈیشنر جتنی ٹھنڈک مہیا کرتے ہیں۔ یہ درجہ حرارت کو بھی عتدال و توازن بخشتے ہیں۔
درخت انسانی زندگی میں مختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بھوک کے مارے ہوؤں کے لیے ممتا کا کردار ادا کرتے ہیں، کبھی تو یہ دوست بن جاتے ہیں، تو کبھی دست گیری کے امین۔ بقول مجید امجدؔ:
ایک بوسیدہ خمیدہ پیڑ کا کمزورہاتھ
سینکڑوں گرتے ہووں کی دست گیری کا امین
آہ ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنھیں حاصل نہیں
درخت فضائی جراثیم اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ نیز انسانوں اور حیوانات کی غذائی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ چرند، پرند اور متعدد حیوانات کا مسکن بھی یہ درخت ہیں۔ ادویات کا مخزن ہیں، ادویہ کے لیے ان کی چھال، پتے، بیج، پھول اور پھل سب استعمال ہوتے ہیں۔ یہ درخت ہی ہیں جو لاکھوں سالوں کے عمل کے بعد کوئلہ میںتبدیل ہو کر توانائی کا وسیلہ بنتے ہیں۔
شجرکاری، باغات اور جنگلات کی اہمیت و ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب چاروں طرف آلودگی بسیرا ڈالے ہو، صاف و شفاف ہوا کے لیے جسم ترستا ہو، اور زہر آلود ہوائیں نسلِ انسانی کو گھن کی طرح کھارہی ہوں۔ دورِ جدید کی سائنس و ٹکنالوجی نے جہاں انسان کی سہولت و آسانی کے لیے لامحدود و اَن گنت وسائل مہیا کیے ہیں، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے، وہیں اس کے لیے مختلف بیماریوں اور آفات کے سامان بھی فراہم کردیے ہیں۔ صنعتی ترقی کے اس دور میں ہرطرف آلودگی چھائی ہوئی ہے۔ ہوا، پانی اور زمین پر دیگر حیاتیات اپنی خصوصیات کھورہی ہیں۔ جن کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی، سمندری آلودگی، تیزی سے بڑھتی فیکٹریاں، سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، فضائی اور بحری جہازوں کا دھواں، مختلف صنعتوں کے فضلات سے مسئلہ مذید پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
درختوں کے گھنے جنگل کو قدرتی ’’سک‘‘ کہا جاتا ہے جو آس پاس کی ساری کاربن چوس لیتے ہیں۔ پہاڑوں پر پھیلے جنگلات لینڈ سلائیڈنگ کے خلاف مضبوط حصار ہوتے ہیں۔ یہ بارشوں کا بہت بڑا وسیلہ ہیں جن سے دھرتی کی آبیاری ہوتی ہے۔ یہی بارشیں موسمی اعتدال کا باعث بنتی ہیں۔ اللہ نے مخلوقات اور دیگر مظاہرِ کائنات کی تخلیق کو اس طرح مربوط کیا ہے کہ یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری چلا آرہا ہے۔ اللہ نے انسان کو نباتات کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنایا ہے، جس کی وجہ سے فضا میں توازن قائم ہے۔ لیکن اگر اس میں کسی طرح کی مداخلت کی جائے تو توازن میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے براہِ راست نقصانات انسانوں اور دیگر مخلوقات کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ جہاں فضائی آلودگی اپنے پَر پھیلاتی جارہی ہے وہیں اس کے علاج کی دوا، یعنی جنگلات کی کٹائی انسان کی خود غرضی و مفاد پرستی کی تلوار سے بڑی بے دردی سے جاری ہے اور صورتِ حال بھی یہی بتاتی ہے کہ جنگلات کی بے رحمی سے کٹائی ہمیں 2085ء تک سدا بہار درختوں سے محروم کردے گی۔ ہمارے ملک میں جنگلوں کاتناسب عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ جنگل کاٹ کاٹ کر قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
شجرکاری کی اہمیت زمانۂ قدیم سے ہے۔ درختوں سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا، کئی اقوام کی تاریخی، تمدنی اور معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے۔ بقول ماجد صدیقی:
نشۂ سرخوشی اَوج پر دیکھنا
رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھا
لطف جو چشمِ تشنہ کو درکار ہے
شاخ در شاخ محوِ سفر دیکھنا
فراعنہ مصر کے ہاں رواج تھا کہ مرنے والا قبر کی دیوار پر اپنی نیکیوں کی اچھائی فہرست درج کراتا ایک بادشا نے نے تحریر کیا:
’’میں نے درخت نہیں کاٹے ہیں، دریائے نیل کا پانی گندہ نہیں کیا ہے۔ ‘‘
آج صورتِ حال یہ ہوچکی ہے۔ ڈیڑھ ارب لوگ زہریلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی اقدار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ درختوں سے دوستی چھوڑ دی ہے۔ ان پر بے دردی سے آریاں چلاتے ہیں۔ اس کٹھور پن پر پرندے بھی بے زبانی کو زبان دے کر پھڑپھڑا اٹھتے ہیں۔
جانتے ہیں یہ سب پرندے بھی
زندہ رہنے کے ڈھب پرندے بھی
کٹ کر جب بھی درخت گرتا ہے
پھڑپھڑاتے ہیں سب پرندے بھی
اہلِ شام ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں تو تحفے کے طور پر پودے لے جاتے ہیں، اہلِ دمشق گھروں کی چھتوںپر بھی پودے لگاتے ہیں۔ لندن میں ایک عمارت Sky Gardenکے نام سے مشہور ہے جس کی آخری چھت پرپودوں کے دل کش مناظر کو دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ ماسکو یا سینٹ پیڑز برگ شہر کے ہر باشندے کا خواب ہے کہ اُس کے پاس اپنا ایک ’’ڈاچا‘‘ یعنی مضافات میں گھر ہو جہاں سر سبز درخت لگے ہوں۔ دریائے ماسکو کے قریب کئی ’’ڈاچے‘‘ موجود ہیں۔ لندن کے قریب’’کیوگارڈن‘‘ میں انواع و اقسام کے درخت محفوظ کیے گئے ہیں۔ یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔
واشنگٹن میں ’’چیری بلاسم کے تین ہزار درخت 1912ء میں جاپان نے امریکہ کو تحفتاً دیے تھے لیکن امریکہ نے جاپان کو تحفے میں ایٹم بم دے کر ہیروشیما اور ناگا ساگی کو تباہ و برباد کردیا۔
ہالینڈ میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے نام کا درخت لگانا اور اس کی حفاظت کرنا اس خاندان کی قانوناً ذمہ داری ہوتی ہے۔ لبنان میں درختوں کی بہت حفاظت کی جاتی ہے۔ وہاں چیڑ کے بے شمار درخت موجود ہیں جن کی عمریں ہزاروں سال ہیں۔ ایسے بے شمار درختوں کو یورپی اقوام نے بّرِاعظم امریکا پر قبضہ کے دوران کاٹ کر استعمال کرلیا مگر اب بھی بہت سے درخت موجود ہیں۔ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ یہ زندگی کو تحفظ دیتا ہے۔ اس مذہب میں شجر کاری صدقہ جاریہ قرار دی گئی ہے۔ موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کر رہی ہے، قرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا:
’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں شاداب ہوتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو۔ اُسی پانی سے تمہارے لیے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بے شک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے۔ ‘‘
(النحل: 10-11)
ان آیات میں درختوں کو چوپایوں کی غذا اور انسانوں کی ضرورت بتایا ہے۔ ایک جگہ درختوں اور پودوں کے فوائد اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیں۔‘‘
(النحل: 68)
اللہ نے درخت کا ذکر آگ کے حوالے سے کیا ہے:
’’وہی ہے جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔‘‘
(یٰسین: 80)
ایک جگہ شجرِ مبارکہ کے طور پر ذکر کیا گیا:
’’وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی۔
(النور: 24)
ایک جگہ تمام مظاہرِ قدرت کو آرایشِ کائنات قرار دیا گیا ہے:
’’روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے۔‘‘
(الکھف: 7)
اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔
’’جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کر ناپسند کرتا ہے۔‘‘
(البقرة: 205)
اس کے علاوہ قرآن کریم میں شجر کا اور حوالوں سے ذکر بھی کیا گیا ہے۔
احادیثِ نبویہ ﷺ میں شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات ملتی ہیں۔ ایک روایت میں شجر کاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے،انسان اور جانور کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری)
’’جو مسلمان پودا لگاتا ہے اور اس سے انسان، چوپائے یا پرندے کھالیں تو یہ اس کے لیے قیامت تک کے لیے صدقہ ہے۔‘‘(مسلم)
اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
نبی کریم ﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی قطع شجر کو ممنوع قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ :
’’کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغبانی اور شجر کاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے، اسے علوم و فنون کی شکل دی اور دنیا میں فروغ دیا۔
زندہ قومیں اپنے مشاہیر سے وابستہ درختوں کو یوںبھی محفوظ کرتی ہیں۔ جس درخت کے نیچے بیٹھے مشہور سائنس دان نیوٹن کے اُوپر سیب گرا تھا جس کے مشاہدے سے اُسے نے کشش نقل کا اصول دریافت کیا تھا۔ مرورِزمانہ سے وہ درخت سوکھ گیا لیکن کیمبرج یونی ورسٹی نے وہاں ایک نیا درخت لگا کر نشانی کے طور پر محفوظ کرلیا۔
شجر کاری قدیم زمانے سے ہی ایک اہم شعبہ رہا ہے جس میں وقت کے ساتھ شجرکاری کے لیے آج جدید مشینریوں نے آسانیاں پیدا کردی۔ کسانوں کے لیے درخت لگانا مشکل نہیں ہے۔ البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کب، کہاں اور کیسے بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے جدید تحقیق کے مطابق جس زمین میں الکلی کی مقدار زیادہ ہو اس میں سفیدہ لگانے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سفیدہ کے درخت زائد الکلی جذب کرلیتے ہیں جس کے نیچے میں زمین کی زرخیزی اور پیدوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
شجر کاری کا ایک طریقہ جو کہ پوری دنیا میں بہت مقبول ہے، وہ فارم ہاؤس کی تعمیر ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر فارم ہاؤس تعمیر کیے جاتے ہیں جو کہ پوری طرح شجر کاری کا مظہر ہوتے ہیں۔ صنعتی شجرکاری کے تحت جنگلات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ شجر کاری کے جدید طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کچھ خاص پودوں کو جن سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں انھیں دوسرے ممالک سے منگوا کر لگایا جاتا ہے۔ شجرکاری کا ایک طریقہ آرائشی پودوں کے ساتھ پارکوں کی تعمیر ہے۔ اس کے تحت مختلف مقامات پر تعمیر کی جاتی ہیں اور ان میں طرح طرح کی آرائشی پودے لگائے جاتے ہیں۔
اس کمپیوٹر ائزڈ دور میں شجرکاری کے لیے بہت ساری دلچسپ نئی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں۔ جیسے سلیکو کاشت کاری، ڈورن کا استعمال، خود ڈرائیور ٹریکٹرز لیکن ہر طریقہ کار آمد نہیں ہے۔ سلیکو ایک ایسی کمپیوٹر ایب ہے جس میں سائنس دان بہترین فصل اُگانے کے لیے مختلف آب و ہوا اور عوامل میں فصل کے اُگنے کاجائزہ لیتے ہیں۔
کامیاب شجر کاری کا ایک جدید طریقہ پر ماکلچر ہے جس میں سوراخ دا رگھڑے کو گردن تک پانی سے بھر کر مٹی برابر کرکے دبا دیتے ہیں اور پھر گھڑے کے دائرے کے چار طرف (یا قطار میں) میں چار پودے لگا دیتے ہیں۔ چالیس دن میں گھڑا صرف ایک بار بھرنا ہوتا ہے۔ یہ دیسی ڈرپ اور یگیشن سسٹم پودے کو اپنی ضرورت کا پانی اس کی جڑ تک دیتا رہتا ہے اور چھ مہینے کے عرصے میں یہ پودا درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
یہی نہیں اب سائنس دانوںنے ڈرون کے ذریعے شجر کاری کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ اس سے قبل سِری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیاگیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔ اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اُگ آئے۔ اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابلِ عمل بنایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈورن بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کرسکے۔ اس طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈورن کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا۔ اس کے بعد ماہرینِ ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اُگائے جانے چاہییں۔ اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھردیا جائے گا اور و ہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کردے گا۔ یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں 1بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں 1لاکھ جب کہ ایک سال میں 1ارب درخت اُگا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ 10 گنا تیز ہے جب کہ اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوگی۔
ہیلی کاپٹر اور ڈرونوں کی لائنوں کے ساتھ، اُبھرتی ہوئی زرعی ٹیکنالوجیوں کی فہرست میں خود مختار ٹریکٹر کا ایک اہم کردار ہے۔ خود مختار فارم ٹریکٹر بغیر ڈرائیور کے فصلوں اورکھیتی کا معائنہ کرتا ہے اور کھاد اوربیجوں کو منتشر کرتا ہے۔ مستقبل کے ٹریکٹر میں کیمروں، رڈار، جی پی کے ساتھ لیس ہوں گے اور حفاظت کے لیے رکاوٹ پتہ لگانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں گے۔
شجرکاری کے ان جدید طریقوں کے استعمال سے دنیا بھر میں شجرکاری کے عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ آنے والی گلوبل وارمنگ سے نمٹا جاسکے اور یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سے ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے میں مدد حاصل ہوگی۔ شجر کاری کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان میں بھی شجرکاری کے جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے شجر کاری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ہر سال پاکستان میں باقاعدہ شجرکاری کی مہم چلائی جاتی ہے جس میں حکومت اور عوام کے تعاون سے لاکھوں کی تعداد میں مختلف مقامات پر درخت لگائے جاتے ہیں۔
درخت ہمارے قدیمی ساتھی ہیں اور ہماری تہذیب کی قدیم ترین نشانیاں، گلوبل وارمنگ کے اس دور میں ان کی اہمیت میں مذید اضافہ ہو چکا ہے۔ بقول اختر یستوی:
برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا
سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے
اب تو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت بھی موجود ہے۔ اسی کے تحت 2016ء میں پیرس میں 195ممالک کو ماحول دوست اقدامات کرنے کا پابند بنایا گیا۔ تب پاکستان نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے کیوںکہ پاکستان موسمی تعمیرات سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ورلڈ بینک نے ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشان دہی کی ہے، جہاں اگر شجر کاری نہ کی گئی تو وہ 2050ء تک ریگستان بن جائیں گے۔ پنجاب میں لاہور، ملتان اور فیصل آباد اور سندھ کے تین اضلاع میر پور خاص، سکھر اور حیدر آباد اس میں شامل ہیں۔ بقول شاعر :
جب راستے میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
جدید تحقیق کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن کے اخراج کی مقدار بڑھتی رہی تو غذاؤں کی تاثیر تبدیل ہو جائے گی۔ پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت کھو جائے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحول دوست سرمایہ کاری کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
اس ضمن میںا نفرادی اور اجتماعی سطح پر چند امور کا خیال رکھنا ضروری ہے :
1۔ ہم علاقائی درختوں مثلاً: شیشم، شریں، سکھ چین، دھریک، پیپل اور برگد وغیرہ لگانے کی بجائے آسٹریلوی یوکا پیٹس کو ترجیح دے دیتے ہیں اور ہمارے ماحول کے درخت ہی نہیں اس ضمن میں احتیاط کی جائے۔
2۔ ہم بیچ سڑک کے شجرکاری کرتے ہیں۔ جب سڑک کی توسیع ہوتی ہے یا بجلی پانی یا ٹیلی فون، یا گیس کی پائپ لائن بچھانی ہو تو تب اس کو اُکھاڑ دیا جاتا ہے اور ایندھن بنا کر فارغ ہو جاتے ہیں حالاں کہ درختوں سے کاغذ، پلائی وڈ، اور دیا سلائی سے لے کر کھیلوں کا سامان تک تیار ہوتا ہے۔ ریشم کے کپڑوں کے لیے شہتوت، لاکھ کے کیڑوں کے لیے بیری، سیڑھیاں بنانے کے لیے بانس، ٹوکریاں بنانے کے لیے اور چمڑارنگنے کے کیکر کی چھال ضروری ہے۔
ہمیں موسمی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے ماحول دوست سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ قومی اثاثے کے حیثیت سے جنگلات کی حفاظت کرنا ہوگی۔ سوشل میڈیا، سیمیناروں اور ورکشاپوں کے ذریعے عوام میں آگہی کی مہم چلانا ہوگی۔ پودوں سے محبت کرنا ہوگی۔ ورنہ کیاپانی کی بوتلوں کی طرح آکسیجن کے سلنڈز کندھوں پر لٹکا ئیں گے۔ کیا ہم ہوا، پانی اور نئی مٹی ایجاد کرسکتے ہیں؟ کیا ہم فوانین قدرت میں ترامیم کرسکتے ہیں۔ نہیں ہمیں گلبانی و چمن آرائی کے ساتھ ساتھ لینڈ سکینگ کرکے اور علاقائی اشجار لگا کر حب الوطنی کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ 18اگست کو ہونے والے عالمی شجرکاری کے دن عہد کرنا ہے کہ گھروں میں بھی ہوا صاف کرنے والے پودے مثلاً ایلوویرا، منی پلانٹ، اسپائڈ پلانٹ، گلِ داؤدی اور پگمی ڈیٹ پام یعنی کھجور کے چھوٹے درخت لگائیں۔ 1989ء میں ہوا صاف کرنے والے 29پودوں کی لسٹ شایع کی گئی جس کو انٹرنیٹ پر Air Purifying Plants Aprove by Nasa دیکھا جاسکتا ہے۔
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر
نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
موجودہ حکومت نے 2020-2021ء میں دس بلین درخت لگانے کی شجر کاری مہم کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ اس سلسلے میں ہر پاکستانی کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہے تبھی گرین کلین پاکستان کا خواب پورا ہوسکے گا۔
گُمان کی دھوپ کڑی ہے، ہزار ہیں رستے
یقین کا اک شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2021ء
تبصرہ