اسلام میں موسیقی کا تصور
مرتبہ : محمد تاج الدین کالامی
اسلام ایک عملی اور مکمل ضابطۂ حیات کا حامل دین فطرت ہے، جو رواداری اور اعتدال پسندی کا داعی ہونے کے ناطے ہر معاملے میں اِعتدال کا عمل دخل چاہتا ہے۔ قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہے :
وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO
(الاعراف، 7 : 31)
’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بیت اﷲ سمیت تمام مذہبی عبادات میں اِعتدال و میانہ روی کا رنگ نمایاں ہے۔ ایسے مواقع بھی ہیں جن میں شریعت نے نماز کی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ روزے کی ادائیگی میں شدّت کو سحر اور افطار سے اِعتدال پر لایا جاتا ہے۔ شریعت نے سحر اور افطار کے بغیر مسلسل روزے کی حالت میں رہنے پر سخت قدغن عائد کر رکھی ہے۔ اِسی طرح ہر فرد کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عصمت و آبرو کے تحفظ کی خاطر نکاح کے ذریعے باہمی رشتۂ اِزدواج قائم کرے تاکہ وہ اپنے فطری اور حیاتیاتی تقاضوں کی تکمیل کر سکے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے لیکن اسے بھی توازن برقرار رکھنے کے لیے حدود و قیود کا پابند کیا گیا ہے تاکہ ایک متوازن راہِ عمل کو یقینی بنایا جا سکے اور کوئی بلادریغ اپنا سب کچھ خرچ کر کے خود بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو جائے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا :
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ.
’’جس کے دل میں رتی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
ایک آدمی نے عرض کیا :
إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً.
’’آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا عمدہ ہو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اﷲَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
(1. صحيح مسلم، کتاب الإيمان، باب تحريم الکبر وبيانه، 1 :
93، رقم : 91
2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 78، رقم : 91
3. مسند ابی عوانه، 2 : 39، رقم : 85
4. المعجم الکبير للطبرانی، 8 : 203، رقم : 9822)
’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے غرور و تکبر سچائی سے اِنحراف اور لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کے مترادف ہے۔‘‘
قرآن حکیم نے گدھے کے ہنہنانے کی آواز کو مکروہ ترین قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الحمِيْرo
(لقمان، 31 : 19)
’’بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہےo‘‘
عمدہ آواز۔ جس میں ترنم اور نغمگی ہو۔ کی سماعت سے کیف و لذت حاصل کرنا انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اِسی بنا پر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے مقدس کلام قرآن حکیم کو خوبصورت آوازوں سے مزین کرکے پڑھنے کی ترغیب دی۔
ترنم اور حسن قرات کے ساتھ تلاوتِ قرآنِ حکیم کی ترغیب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شارع علیہ السلام کو خوش اِلحانی اور عمدہ آواز انتہائی پسند تھی، جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عمدہ آواز، نغمگی، ترنم اور خوش اِلحانی۔ جس سے کان محظوظ ہوتے ہوں اور دل و دماغ پر کیف و سرور کا اثر ہوتا ہو۔ جائز ہے۔
اَز رُوئے عقل و منطق بھی یہ بات درست ہے کہ خوبصورت اور سریلی آواز سننا کوئی ناجائز کام نہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے اعتبار سے ہر انسان کو اپنے گرد و پیش سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حواس خمسہ۔ آنکھ، کان، ناک، زبان اورہاتھ۔ عطا کیے ہیں۔ ہر حاسہ کا ایک محدود دائرہ کار متعین فرمایا ہے، جو اپنی صلاحیت کے مطابق شعور و آگہی حاصل کرتا ہے۔ جس طرح حواس اپنے اپنے دائرہ کار میں چیزوں کا اِدراک کرتے ہیں اور یہ ادراک انہیں لذت آشنا بھی کرتا ہے، اسی طرح کان بھی عین فطرت کے مطابق ترنم اور خوش کن آوازوں سے لذت حاصل کرتے ہیں اور انسانی دل و دماغ پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی اچھی اور مترنم آواز مخلوق پر احسانِ عظیم ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ.
(فاطر، 35 : 1)
’’اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اِضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔‘‘
مفسرین کرام نے اس آیت مبارکہ میں مَا يَشَآئُ سے مراد حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والی لذت لیا ہے، جس میں حسن صوت بھی شامل ہے۔ یہ بات حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما کے حوالے سے مفسرین نے بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا :
﴿يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ) قال : الصوت الحسن.
(1. سيوطی، الدر المنثور فی التفسير بالماثور، 8 : 260
2. شوکانی، فتح القدير، 6 : 126)
’’(اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اِضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے) سے مراد اچھی آواز ہے۔‘‘
امام رازی نے ’’التفسیر الکبیر (2 : 445)‘‘ میں لکھا ہے :
ومنهم من قال الصوت الحسن.
’’اور بعض مفسرین نے اِس سے مراد عمدہ آواز لیا ہے۔‘‘
ابن کثیر نے بھی ’’تفسیر القرآن العظیم (6 : 532)‘‘ میں ابن جریح کے حوالے سے اس کا معنی حسن الصوت (عمدہ آواز) کیا ہے۔
تفسیر قرطبی، تفسیر بغوی، تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر بحر المحیط، تفسیر فتح القدیر، تفسیر اللباب، تفسیر خازن، تفسیر ثعالبی؛ الغرض اکثر مفسرین کرام نے يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ کا معنی عمدہ آواز کیا ہے، جبکہ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ انسان کے ظاہری حواسِ خمسہ کی صلاحیتیں بڑھاتا رہتا ہے۔
اَنبیاء کرام علیہم السلام کی خوش آوازی
خوش آوازی اور ترنم کے ساتھ جائز کلام سننے کا جواز انبیاء کرام علیہم السلام کے خوش الحان ہونے سے بھی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما بعث اﷲ نبياً الا حسن الصوت.
(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 4 : 6)
’’اﷲ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا انہیں خوش آوازی عطا فرمائی۔‘‘
دیگر محدثین کرام بشمول حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نوادر الاصول فی احادیث الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (3 : 33)‘‘ میں، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (19 : 176)‘‘ میں انبیاء علیہم السلام کے حسن الصوت کی روایت نقل کی ہے۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اﷲ رب العزت نے کسی نہ کسی خاص خوبی سے نوازا جو اُن کی خصوصیت قرار پائی۔ ان میں سیدنا داؤد علیہ السلام کو اﷲ رب العزت نے امتیازی خوبی لحن یعنی خوش آوازی عطا فرمائی جو رہتی دنیا تک ’’لحنِ داؤدی‘‘ کے نام سے زباں زدِ خاص و عام ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
يَا أَبَا مُوسَی! لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ.
(1. صحيح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقراء
ة بالقرآن، 4 : 1925، رقم : رقم : 4761
2. صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب تحسين الصوت بالقرآن، 1 : 546،
رقم : 793)
’’اے ابو موسی! تحقیق تجھے آلِ داؤد علیہ السلام کی خوش اِلحانی میں سے حصہ عطا کیا گیا ہے۔‘‘
سیدنا داؤد علیہ السلام جب آپ اپنی مترنم آواز سے اﷲ کا ذکر کرتے تو پہاڑ آپ کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے کیونکہ وہ داؤد علیہ السلام کی آواز کے زیر و بم کو سمجھتے تھے۔ اِس ضمن میں قرآن حکیم فرماتا ہے :
إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِO وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً كُلٌّ لَّهُ أَوَّابٌO وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِO
(ص، 38 : 18 - 20)
’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِ فرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھےo اور پرندوں کو بھی جو (اُن کے پاس) جمع رہتے تھے، ہر ایک اُن کی طرف (اِطاعت کے لیے) رجوع کرنے والا تھاo اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھاo‘‘
محمد بن اسحاق کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کی موسیقی بھری ترنم آفریں آواز جو وہ ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں بلند کرتے تو اس کو سن کر پہاڑ بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر لقمہ ریز ہو جاتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایسی آواز سے نواز رکھا تھا جو دیگر تمام آوازوں پر برتری اور فوقیت رکھتی تھی۔ جب وہ اپنے شیریں ترنم سے زبور کی تلاوت کرتے تو جنگلی جانور ان کے اس قدر قریب آجاتے کہ وہ انہیں گردن سے پکڑ سکتے۔
(1. الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، : 2105. التفسير الکبير للرازی، 26 : 186)
حضرت داؤد علیہ السلام کی شیریں اور دل کو موہ لینے والی آواز عطیہ خداوندی تھا، جس سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدح سرائی میں اچھی آواز کا استعمال اَجر و ثواب اور انعام کا باعث ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اسی خوش الحانی کے ساتھ اہل محشر کے سامنے میری تقدیس بیان کرو، جیسے دنیا میں تم تورات کی تلاوت کرتے تھے۔
اس میں کوئی حرج نہیں کہ پر مسرت مواقع پر مترنم آوازوں کی مہارت اور ہنر کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ اس بات کی تائید احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہوتی ہے۔ روایت اس طرح ہے کہ ربیع بنت معاوض بن عرفہ بیان کرتی ہیں :
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شادی کے موقع پر تشریف لائے اور دوسرے اَعزاء و اَقارب کی طرح میرے بستر پر فروکش ہوگئے۔ اتنے میں ہماری انصار بہنیں دف پر کوئی گیت گانے لگیں، وہ شہدائے بدر کی تعریف میں نغمہ سرا تھیں۔ جب ہم میں سے ایک لڑکی کی نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو وہ آپ کے لیے مدح سرا ہوگئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روکا اور فرمایا کہ وہ وہی گیت جاری رکھیں جو وہ گارہی تھیں۔‘‘
(صحيح بخاری، کتاب المغازی، باب شهود الملائکة بدرا، 4 : 1469، رقم : 3779)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ.
(1. جامع الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح،
3 : 398، رقم : 1089
2. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 290، رقم : 14476
3. الفردوس بماثور الخطاب للديلمی، 1 : 101، رقم : 335)
’’نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور ان مواقع پر دَف بجایا کرو۔‘‘
حلال و حرام میں فرق ہی نغمۂ مسرت اور دف بجانے سے ہے
دَف بجانے اورشادی کے خوب صورت گیتوں کے ذریعے نکاح کے کھلے عام اِعلان سے حلال اور حرام کا فرق واضح ہوتا ہے۔ محمد بن حاطب روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’حلال اور حرام نکاح کے مابین فرق آواز کا ہے یعنی (حلال نکاح کا اِعلان) دف بجا کر کیا جاتا ہے (جب کہ حرام چوری چھپے اور خاموشی سے کیا جاتا ہے)۔‘‘
(1. مصنف ابن ابی شيبه، 3 : 2945. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 201، رقم : 32750. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 289، رقم : 414471. المعجم الکبير للطبرانی، 19 : 242، رقم : 542)
بعض کم علم لوگ شادی اتنی خاموشی سے کرتے ہیں کہ نہ دَف کی آواز اور نہ نغماتِ مسرت؛ اور اسے نیکی اور پرہیزگاری سمجھتے ہیں، حالاں کہ نیکی اور پرہیزگاری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ماننے میں ہے نہ کہ ترک کرنے میں۔ شادی کے موقع پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے یہ رسم سرانجام دینا سنت کی خلاف ورزی کے مترادف ہے کیونکہ سنتِ نبوی نے جائز شادی اور بدکاری کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی ہے۔ اس قانونی شق نے اس نکتے کو بڑی صراحت سے واضح کردیا ہے کہ شادی کا اِعلانِ عام کیا جائے تاکہ لوگ یہ بات بخوبی جان سکیں کہ فلاں مرد اور فلاں عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ خاوند اور بیوی کا ہے۔ اِس مقصد کو شادی کے گیت گانے اور دَف بجانے کے معروف طریقے سے اچھی طرح حاصل کیا جاتا ہے۔ مزید برآں خوشی اور شادمانی کے ایسے مواقع پر اعلان کرنا اِظہارِ مسرت کا فطری طریقہ ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت کی انصاری مرد سے شادی ہوگئی۔ اس مو قع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کے گیت گانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں :
کان في حجري جارية من الأنصار، فزوجتها. قالت : فدخل علي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يوم عرسها، فلم يسمع غناء ولا لعبا. فقال : يا عائشة! هل غنيتم عليها أو لا تغنون عليها؟ ثم قال : إن هذا الحي من الأنصار يحبون الغناء.
1. صحيح ابن حبان، 13 : 18.
2. موارد الظمآن للهيثمی، 1 : 494، رقم : 2016
’’میرے پاس ایک انصاری لڑکی رہا کرتی تھی، میں نے اس کی شادی کروائی۔ وہ فرما تی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی شادی کے روز میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نغمہ سنا نہ کوئی تفریح دیکھی۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : اے عائشہ! تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام کر چکے ہو؟۔ یا فرمایا : کیا تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام نہیںکرو گے؟۔ پھر فرمایا : یہ اَنصاری قبیلہ ایسے مواقع پر ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتا ہے۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
أَنْکَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : أَهْدَيْتُمْ الْفَتَاةَ. قَالُوا : نَعَمْ. قَالَ : أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي؟ قَالَتْ : لَا. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ : أَتَيْنَاکُمْ أَتَيْنَاکُمْ، فَحَيَانَا وَحَيَاکُمْ.
1. سنن ابن ماجه، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1 : 612،
رقم : 1900
2. السنن الکبری للنسائی، 3 : 332، رقم : 5566
3. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 289، رقم : 14468
4. المعجم الاوسط للطبرانی، 3 : 135، رقم : 3265
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے قریبی ایک انصاری لڑکی کی شادی کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا : کیا تم نے دلہن کو تیار کرلیا ہے؟ انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید دریافت فرمایا : کیا تم نے شادی کا گیت سنانے کے لیے کسی کا بندوبست کیا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے نفی میں جواب دیا، تو اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : اَنصار لوگ ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتے ہیں، بہتر ہے کہ تم کسی خوش آواز کا انتظام کرو جو یہ کہے کہ ’’ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو عمر دراز عطا فرمائے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلَی قُرَظَةَ بْنِ کَعْبٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي عُرْسٍ وَإِذَا جَوَارٍ يُغَنِّينَ، فَقُلْتُ : أَنْتُمَا صَاحِبَا رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَکُمْ؟ فَقَالَ : اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ فَاسْمَعْ مَعَنَا، وَإِنْ شِئْتَ اذْهَبْ، قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اﷲ وِعِنْدَ الْعُرْسِ.
1. سنن نسائی، کتاب النکاح، باب اللهو والغناء عند العرس، 6
: 135، رقم : 3383
2. السنن الکبریٰ للنسائی، 3 : 332، رقم : 5566
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، ج : 2، ص : 201، رقم : 2752
4. سنن النسائی، باب اللهو عند الغناء والعرس، 6 : 135، رقم : 3383)
’’میں، قرظہ بن کعب اور حضرت ابومسعود انصاری کے پاس ایک شادی میں حاضر ہوا جہاں اتفاقاً بچیاں ترنم کے ساتھ شادی کا نغمہ سنا رہی تھیں۔ میں نے حیرت سے کہا : تم دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب اور اہلِ بدر میں شامل ہو اور تمہاری موجودگی میں یہ کام ہو رہا ہے! وہ دونوں صحابہ فرمانے لگے : اگر تمہارا جی چاہے تو تم ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو وگرنہ چلے جاؤ، ہمیں شادی میں تفریح کی رخصت دی گئی ہے (کیونکہ شادی ایک خوشی ہے اور اس میں مباح تفریح کی اجازت ہے)۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں وہ بیان فرماتی ہیں :
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَی الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ. وَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ، فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ : مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : دَعْهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا. وَکَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ. فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَإِمَّا قَالَ : تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ. فَأَقَامَنِي وَرَائَهُ خَدِّي عَلَی خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ : دُونَکُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّی إِذَا مَلِلْتُ. قَالَ : حَسْبُکِ. قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : فَاذْهَبِي.
1. صحيح بخاري، کتاب العيدين، باب الحراق و الدرق يوم العيد،
1 : 323، رقم : 907
2. صحيح بخاری، کتاب الجهاد والسير، باب الدرق، 3 : 1064، رقم : 2750
3. صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب لا معصية فيه، 2 : 609، رقم
: 892
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث (دو انصاری قبیلوں خزرج اور اَوس کے درمیان زمانۂ جاہلیت کی رزمیہ کہانی) کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور منہ پھیر لیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی باجہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا : انہیں کرنے دو۔ جب ان کی توجہ ہٹ گئی تو میں نے لڑکیوں کو چلے جانے کا اشارہ کیا۔ یہ حبشیوں کی عید کا دن تھا جو ڈھالوں اور برچھیوں سے تفریح دکھاتے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا آپ نے خود فرمایا : تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں عرض گزار ہوئی : جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے بنی ارفدہ! اور دکھاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو مجھ سے فرمایا : بس؟ عرض کی : جی۔ فرمایا : تو پھر جاؤ۔‘‘
ترنم اور نغمگی کے بارے میں اَقوالِ سلف
اقوال سلف سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ترنم کے ساتھ موزوں کلام کا پڑھنا جائز ہے۔
امام ابو نصر سراج طوسی نے کتاب اللُّمع میں عمدہ آواز کے بارے میں لکھا ہے :
حکماء نے عمدہ آواز اور اچھے نغموں کی خوبیوں کے متعلق بحث کی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت کچھ کہا ہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے عمدہ آواز کے متعلق سوال کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا : ’’یہ ایسے مخاطبات اور حق کی طرف اشارے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر پاکیزہ مرد اور عورت کے اندر ودیعت کررکھا ہے۔‘‘
یحی بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اس کے لئے عمدہ آواز ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
ایک اور معروف قول ہے : عمدہ نغمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جھونکا ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ان دلو علیہ السلام کے لیے چلاتا ہے جو اللہ کی آگ میں جل رہے ہوں۔
میں نے احمد بن علی وجیہی کو سنا، وہ فرماتے تھے : میں نے ابو علی رودباری کو سنا کہ ابو عبداللہ الحارث بن اسد محاربی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے : ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ حاصل ہوجائیں تو ان سے فائدہ ہوتا ہے، مگر وہ تینوں ہم میں مفقود ہیں : (1) دین داری کے ہوتے ہوئے عمدہ آواز، (2) اپنے آپ کو بچاتے ہوئے خوبصورت چہرہ اور (3) وفاداری کے ساتھ اچھی دوستی۔‘‘
بندار بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : ’’عمدہ آواز ایسی حکمت ہے جو بات کا جواب دیتی ہے، اور یہ ایک سلیم آلہ ہے جو رسیلی آواز اور لطیف زبان سے ادا کی جاتی ہے، اور یہ صاحبِ قوت اور صاحبِ علم اللہ تعالیٰ کے اندازے ہیں جو اُس نے مقرر کر رکھے ہیں۔ ایک اور لطیف بات جو اللہ تعالیٰ نے عمدہ آواز میں ودیعت کر رکھی ہے یہ ہے کہ جب کوئی بچہ درد کی وجہ سے اپنے بستر میں روتا ہے اور پھر وہ اچھی آواز سنتا ہے تو وہ چپ ہوجاتا ہے اور سو جاتا ہے۔
یہ بھی مشہور ہے کہ پہلے زمانے کے لوگ سوداوی مرض کے مریض کا علاج عمدہ آواز سے کیا کرتے تھے اور مریض صحت یاب ہو جاتا تھا۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معروف کتاب الرسالۃ القشیریۃ میں لکھا ہے :
جان لو کہ عمدہ اِلحان اور پرذوق نغمگی کے ساتھ اَشعار کا سننا جائز ہے، بشرطیکہ سننے والا کسی ممنوع چیز کا معتقد نہ ہو اور کوئی ایسی بات نہ سنتا ہو جو شرعاً مذموم ہو اور نہ وہ اپنی خواہشات کی رَو میں بہہ جاتا ہو اور فضول چیز کی طرف بھی مائل نہ ہو۔
اس بات میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے شعر پڑھے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان اَشعار کی سماعت فرمائی اور پڑھنے پر کوئی اِعتراض نہیں کیا۔ جب عمدہ اِلحان کے بغیر اَشعار کا سننا جائز قرار دیا ہے تو عمدہ اِلحان کے ساتھ سننے سے اس کے حکم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ یہ تو ظاہری حال ہے، مزید برآں وہ اِلحان جو سننے والے کو اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی بھرپور رغبت دلائیں اور اسے یاد دلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لیے کیا کیا درجات مہیا کر رکھے ہیں اور اسے لغزشوں سے بچنے پر مجبور کریں اور اس کے دل پر نیک و پاک واردات کا موجب بنیں، وہ دین میں مستحب سمجھے جاتے ہیں اور شرع میں پسندیدہ کہلاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ میں ایسا کلام آیا ہے جو شعر کے قریب قریب ہے۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ یہ نہ تھا کہ وہ کلام شعر بن جائے۔ حمید سے روایت ہے : میں نے اَنس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ انصار خندق کھود رہے تھے اور شعر پڑھتے جاتے تھے :
’’ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر زندگی بھر کے لیے جہاد کی بیعت کی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جواب میں کہا :
اللّٰهم! لا عيش إلا عيش الآخرة
فاکرم الأنصار والمهاجرة
’’خدایا! آخرت کی زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں، لہٰذا تو اَنصار اور مہاجرین کو عزت بخش۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ شعر تو نہیں مگر قریب قریب ضرور ہیں۔
سلف اور اَکابر نے اِلحان کے ساتھ شعر سنے ہیں۔ سلف میں سے جنہوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، ان میں مالک بن انس بھی ہیں اور اہل حجاز تو سب کے سب دف کے ساتھ کلام پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حدی کے جائز ہونے پر بھی سب کا اتفاق ہے۔ اس کے متعلق احادیث اور آثار کثرت سے آئے ہیں۔
ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرت عبد اللہ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھم اور دیگر بہت سے نیک اسلاف، جن میں تابعین بھی شامل ہیں، نے سماع کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ہمارے ہاں مکہ مکرمہ میں سال کے اَفضل دنوں میں اہل حجاز سماع سنتے چلے آئے ہیں۔ یہ وہ ایام معدودہ ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنے ذکر کا حکم دیا ہے، جیسے ایام تشریق (عیدالاضحی کے بعد تین دنوں) میں۔ اہل مکہ کی طرح اہل مدینہ بھی آج تک سماع سنتے چلے آرہے ہیں۔
ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ہی قول ہے کہ حضرت ابوالحسن بن سالم رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا : آپ سماع کا انکار کیسے کرتے ہیں حالاں کہ حضرت جنید بغدادی، حضرت سقطی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سنتے تھے؟ انہوں نے فرمایا : میں اس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں جب کہ مجھ سے بہتر شخصیت نے اسے سنا اور اس کی اجازت دی!
ابوالحسن عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ۔ جو اولیاء کرام میں سے تھے۔ قوالی سنتے اور بے ہوش ہوجاتے تھے۔ انہوں نے اس کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس میں منکرینِ سماع کا ردّ کیا ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شعر ایک کلام ہے اس میں اچھا، اچھا ہے اور قبیح برا ہے۔
حضرت یونس بن عبدالاعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ اہلِ مدینہ سماع کو جائز سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا : میں علمائے حجاز میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے سماع کو مکروہ سمجھا ہو مگر جو اَوصاف کسی کے اَعضا کے اَوصاف کے بارے میں ہوں۔ لیکن حدی اونٹوں کے ساتھ چلتے ہوئے اَشعار پڑھنا، منزلوں اور ان کے آثار سے متعلق اَشعار اور اچھی آواز میں ترنم کے ساتھ اَشعار پڑھنا مباح ہے۔
فقہی مذاہب کی روشنی میں نغمگی کا تصور
یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی مذاہب کتاب و سنت کے مدمقابل کوئی ایسا اَمر شرعی نہیں کہ جس سے قرآن و حدیث کی طرح اَحکام مستنبط ہوتے ہوں، ایسا سوچنا بھی باطل اور جہالت پر مبنی نظریہ ہے۔ فقہی مذاہب دراصل کتاب و سنت کی تشریح و تعبیر ہوتے ہیں یعنی کوئی مسئلہ جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہو اور اس بارے میں احادیث مبارکہ وارد ہوں بعد ازاں فقہائے کرام نے ان نصوص شرعیہ کی روشنی سے جو سمجھا ہو وہ ان کا مسلک و مذہب قرار پاتا ہے۔ پس فقہی مذاہب شرعی نصوص کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور یہ ایسا فہم و ادراک ہے، جسے مسلمانوں نے ہر زمانے میں صحیح طریقے سے قبول کیا اور اس کی اتباع کی۔ تاریخ اسلام میں اسلامی فقہ کی تدوین و تخریج میں چار عظیم فقہائے کرام "حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اﷲ" کا کردار نمایاں ہے۔
یاد رہے کہ جب ہم غناء سے متعلق فقہاء کے اَقوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس غناء سے مراد ایسا غناء ہے، جس میں آواز کی خوب صورتی، ترنم اور نغمگی ہوتی ہے اور یہ غناء اس موسیقی کے بغیر ہوتا ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔
ذیل میں ہم معروف اور متداول فقہی مذاہب کے تصورِ غناء کو بیان کریں گے :
فقہائے اَحناف کا مؤقف
اَحناف کے نزدیک ایسا غناء جو بغیر کسی مناسبت کے لہو و لعب کی غرض سے ہو بالاتفاق حرام ہے۔ جب کہ ایسا غناء جس کا تعلق تقریبات جیسے عرس اور عیدوں کی تقریبات سے ہو تو بعض فقہاء کے ہاں یہ مباح ہے جبکہ بعض کے ہاں مکروہ تنزیہی ہے۔ گویا کہ اس صورت میں فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ جہاں تک ایسے غناء کا تعلق ہے جو زبان کی فصاحت و بلاغت اور قوافی سے استفادہ کی غرض سے ہو تو یہ بغیر کسی کراہت کے مباح ہے اور جو غنا اپنے نفس کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے ہو، کچھ نے اسے مباح اور کچھ نے مکروہ جبکہ بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ گویا کہ ائمہ نے ایسے غناء کو بھی بالاتفاق حرام نہیں کہا۔
1۔ امام سرخسی
فقہاء احناف کے نزدیک ایسا غناء حرام ہے، جو کسی موقع و مناسبت کی بجائے محض لہو و لعب کی غرض سے ہو۔ شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ولا تجوز الاجارة علی تعليم الغناء والنوح لأن ذلک معصية.
(سرخسی، المبسوط، 16 : 41)
’’غناء سکھانے کے لئے اجرت لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ معصیت کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
2۔ علامہ شامی
وہ غناء جس کا اہتمام تقریبات اور عرسوں کے موقع پر کیا جائے، کچھ فقہاء نے اسے مباح قرار دیا ہے، جب کہ بعض فقہائے کرام اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
اعلم أن التغني الاسماع الغير وإيناسه حرام، ومنهم جوزه في العرس والوليمة، وقيل : إن کان يتغني ليستفيد به نظم القوافي وفصاحة اللسان فلا بأس، أما التغني لإسماع نفسه قيل لا يکره، وبه أخذ شمس الإئمة، لما روي ذلک عن أزهد الصحابة، البراء بن عازب رضي اﷲ عنه، والمکروه علي ما يکون علي سبيل اللهو. ومن المشايخ، من قال : ذلک يکره. وبه أخذ شيخ الإسلام بزازية.
(ابن عابدين، حاشيه رد المحتار علي در المختار، 5 : 482)
’’جان لیجیے کہ غناء دوسرے شخص کو سنانے اور اسے مانوس کرنے کے لیے حرام ہے اور کچھ فقہاء نے اسے عرس اور ولیمہ جیسی تقریبات میں جائز قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر غناء سے مقصود قوافی اور زبان کی فصاحت و بلاغت سے استفادہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اور جہاں تک ایسے غناء کا تعلق ہے جو اپنے آپ کو سنانے کے لیے ہو تو اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے اور اس قول کو شمس الائمہ نے اختیار کیا ہے اور یہ قول بڑے بڑے متقی صحابہ کرام جیسے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور جو غناء لہو و لعب کے زمرے میں آتا ہو وہ مکروہ ہے، اور یہ موقف شیخ الاسلام بزازیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔‘‘
بعض فقہاء احناف نے ایسا غناء جس کا مقصد اپنے نفس کی وحشت و تنہائی ختم کرنا ہو کو مباح قرار دیا ہے۔ علامہ ابن عابدین نے اس بارے میں لکھا ہے :
وقيل : إن تغنی وحده للوحشة، لا بأس به، وبه أخذ السرخسی، وذکر شيخ الاسلام أن کل ذلک مکروه عند علمائنا.
(ابن عابدين، رد المحتار علی در المختار، 6 : 348)
’’کہا گیا ہے کہ اگر اپنی تنہائی و وحشت کو ختم کرنے کے لیے غناء ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ موقف امام سرخسی کا ہے۔ اور شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ تمام قسم کا غناء ہمارے علماء کے ہاں مکروہ ہے۔‘‘
فقہ مالکی میں غناء سے متعلق موقف
مذہب مالکی میں غناء کے بارے میں بہت زیادہ شدت نہیں پائی جاتی۔ علامہ عز بن عبدالسلام کا شمار اَجل مالکی ائمہ میں ہوتا ہے، ان کے علم اور دین کے تدبر اور سوجھ بوجھ کے بارے میں مالکی فقہاء کا اس حد تک اتفاق ہے کہ وہ کہتے ہیں :
لا ينعقد إجماع بدونه.
’’ان کے بغیر اجماع متحقق نہیں ہوتا۔‘‘
علامہ عز بن عبدالسلام کہتے ہیں : اصلاح قلوب خارجی عوامل کے ذریعہ ممکن ہے، ان عوامل میں قرآن مجید، وعظ و تذکیر، حدی خوانی اور ترانے شامل ہیں۔ (عبدری المالکی، التاج والاکلیل، 2 : 62)
دوران سفر حدی خوانی مالکیہ کے نزدیک مباح ہے۔ چنانچہ ابن عبد البر بیان کرتے ہیں :
وأما قوله في حديث مالک : فرفع بلال عقيرته، فمعناه رفع بالشعر صوته کالمتغني به ترنما، وأکثر ما تقول العرب : رفع عقيرته، لمن رفع بالغناء صوته، وفي هذا الحديث دليل علي أن رفع الصوت بإنشاد الشعر مباح، ألا تري أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لم ينکر علي بلال رفع عقيرته بالشعر، وکان بلال قد حمله علي ذلک شدة تشوقه إلي وطنه، فجري في ذلک علي عادته، فلم ينکر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، وهذا الباب من الغناء قد أجازه العلماء، ووردت الآثار عن السلف بإجازته، وهو يسمي غناء الرکبان، وغناء النصب والحداء، وهذه الأوجه من الغناء لا خلاف في جوازها بين العلماء.
(ابن عبدالبر، التمهيد، 22 : 196، 197)
’’جہاں تک ان کے اس قول کا تعلق ہے جو حدیث مالک سے متعلق ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی آواز بلند کی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے شعر پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند کی، جیسے کوئی ترنم کے ساتھ کلام پڑھتا ہے، اہل عرب اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو اپنی آواز کو ترنم کے ساتھ بلند کرتا ہے۔ اس حدیث میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ شعر پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا جائز ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو شعر پڑھتے ہوئے ترنم کے ساتھ آواز بلند کرنے سے منع نہیں کیا اور اس بنیاد پر علماء نے غناء کو جائز قرار دیا ہے اور سلف صالحین کے اقوال بھی اس موقف کی تائید میں وارد ہوئے ہیں اور اس طرح کے غناء کو غناء رکبان، غناء نشیب اور غناء حداء کا نام دیا گیا ہے، اور غناء کی ان مختلف صورتوں کو جائز قرار دیا گیا ہے۔‘‘
فقہ شافعی میں غناء کا تصور
غناء کے بارے میں شوافع کا موقف یہ ہے کہ غناء بغیر آلہ موسیقی کے حرام نہیں ہے۔ پس یہ بھی اس کی مطلقاً اباحت کے قائل ہیں اور کبھی کبھی اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ ائمہ شوافع میں سے خطیب شربینی فرماتے ہیں :
مع أن التحقيق : أن الغناء ليس محرما مطلقا، وإنما المحرم إذا کان بآلة في الهيئة الاجتماعية.
(خطيب شربينی، مغنی المحتاج، 2 : 111)
’’یقینا غناء مطلقاً حرام نہیں ہے اور غناء اس صورت میں حرام ہوگا جب وہ آلہ موسیقی کے ساتھ اجتماعی صورت میں کسی تقریب میں ہو۔‘‘
اس طرح انہوں نے ایک دوسرے مقام پر کہا ہے :
ويکره الغناء وهو بالمد، وقد يقصر، وبکسر المعجمة : رفع الصوت بالشعر، لقوله سبحانه تعالي ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الحَدِيثِ) [لقمان، 31 : 6] قال ابن مسعود : هو واﷲ الغناء. رواه الحاکم، ورواه البيهقي، عن ابن عباس وجماعة من التابعين، هذا إذا کان بلا آلة من الملاهي المحرمة، ويکره سماعه.
(خطيب شربيني، مغني الحتاج، 4 : 428)
’’غناء مکروہ ہے اس حالت میں جب وہ آواز کو کھینچ کر کیا جائے اور شعر کو بلند آواز سے پڑھنا ترنم کے ساتھ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بے ہودہ کلام خریدتے ہیں۔‘‘ تو اس حوالے سے ابن مسعودص نے کہا : خدا کی قسم! اس سے مراد غناء ہے۔ امام حاکم اور بیہقی نے اسے روایت کیا ہے اور ابن عباس اور دیگر تابعین سے روایت ہے کہ آلہ موسیقی کے ساتھ غناء حرام ہے اور آلہ موسیقی کے بغیر اس کی سماعت شدید مکروہ ہے۔‘‘
بعض شوافع کے نزدیک غناء مکروہ ہے۔ فقہاء شوافع میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے غناء کو مباح قرار دیا ہے، بشرطیکہ کلام ایسا نہ ہو جو معصیت کی طرف لے جاتا ہے، جیسے شعر اور عام عادت سے ہٹ کر کلام ہو۔ جن فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے ان میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
نظم الشعر، وإنشاده، وسماعه، بألحان، وغير ألحان، ليس بحرام، إلا أن يکون في الشعر هجو، أو وصف امرأة معينة أو فحش، وما يحرم نثره فيحرم نظمه، فإن الشعر کلام، حسنه حسن، وقبيحه قبيح، وقد أُنشد عند رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أشعار ولم ينکرها.
وإن أطنب في المدح، حتي انتهي إلي حد الکذب، قيل : إنه حرام، والصحيح : أن ذلک ليس بکذب، إذ ذلک ليس يقصد منه الاعتقاد والتصديق، بل هو إظهار صنعة في الکلام، وسماع الغناء مباح، لأن ما جاز اللحن، جاز مع ألحان، إلا أن يتخذ ذلک عادة.
(غزالي، الوسيط، 7 : 351)
’’شعر کو ترنم کے ساتھ یا بغیر ترنم کے پڑھنا اور سننا حرام نہیں ہے مگر یہ کہ اس شعر میں ہجو ہو یا اس میں کسی عورت کی صفات بیان کی گئی ہوں یا فحش کلام پر مبنی ہو تو اس صورت میں وہ حرام ہوگا۔ اور جس کلام کو نثر میں بیان کرنا حرام ہو وہ بصورتِ شعر بھی حرام ہے۔ پس شعر کلام ہے، اگر اچھا کلام ہے تو اچھا ہے اور اگر کلام قبیح ہے تو شعر بھی قبیح ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اَشعار پڑھے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں روکا۔ اگر کوئی شخص مدح سرائی میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ وہ کذب بیانی کی حدوں کو چھونے لگا تو اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حرام ہے۔ اور درست بات یہ ہے کہ غناء پر جھوٹ کا حکم نہیں لگتا کیونکہ غنا کا مقصد عقیدہ وایمان کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ کلام کے ذریعہ فن کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور غناء کی سماعت مباح عمل ہے کیونکہ جس کلام کا پڑھنا جائز ہے اسے خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا بھی درست ہے لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ اسے بطورِ پیشہ اختیار نہ کیا جائے۔‘‘
اسی طرح امام غزالی کے نزدیک غناء کا شمار کبھی طاعت میں ہوتا ہے تو کبھی یہی غناء معصیت کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے غناء کو محض ایک وسیلہ شمار کیا ہے اور اس کا فی نفسہ کوئی حکم نہیں ہے بلکہ اس کے حکم کا تعین غناء کے استعمال پر ہوتا ہے۔ پس حقیقت میں یہ فی نفسہ مباح عمل ہے اور اس کو معصیت یا طاعت کے زمرے میں لانے کا سبب غناء کا استعمال ہے۔
حاشیۃ البیجرمی میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
قال الغزالي : الغناء إن قصد به ترويح القلب علي الطاعة، فهو طاعة، أو علي المعصية، فهو معصية، أو لم يقصد به شيء فهو لهو معفو عنه.
(بيجرمي، حاشيه، 4 : 375)
’’امام غزالی فرماتے ہیں : ’’اگر غناء سے مقصود دل کو طاعت کی طرف مائل کرنا ہے تو اس طرح کے غناء کو طاعت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا اور اگر دل اس غناء سے معصیت کی طرف مائل ہوتا ہے تو ایسا غناء معصیت کے ضمن میں شمار ہو گا، اور اگر اس غناء سے کچھ بھی مقصود نہیں تو اس صورت میں یہ لہو و لعب کا ایسا عمل ہے جو معاف ہے۔‘‘
فقہاء حنابلہ کا مؤقف
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غناء مکروہ ہے جب کہ دیگرفقہاء حنابلہ غناء کے حرمت اور اباحت کے مابین متردد ہیں۔ تاہم حدی خوانی حنابلہ کے نزدیک مطلقاً مباح ہے۔
ابن قدامہ سے منقول ہے کہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ مجھے غناء پسند نہیں ہے کیونکہ یہ دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں :
واختلف أصحابنا فيه، فذهب طائفة غلی حرمته، لأنه يروي عن ابن عباس، وابن مسعود، عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال : ’’الغناء ينبت النفاق في القلب.‘‘
وذهب أبو بکر والخلال إلي إباحته مع الکراهة، وهو قول القاضي، لأن عائشة رضي اﷲ عنها قالت : ’’کانت عندي جاريتان تغنيان، فدخل أبو بکر فقال : مزمور الشيطان في بيت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟ فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ’’دعهما فإنها أيام عيد‘‘. قال أبو بکر : الغناء والنوح واحد، مباح ما لم يکن فيه منکر، ولا فيه طعن.‘‘
(ابن قدامه، الکافي، 4 : 526)
’’ہمارے اَصحاب نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے۔ پس کچھ نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور ان کی دلیل وہ روایت ہے، جسے ابن عباس اور ابن مسعود نے روایت کیا ہے۔ اور وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غناء دل میں نفاق کو جنم دیتا ہے۔
’’اور ابوبکر اور خلال نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ عمل کراہت کے ساتھ مباح ہے اور یہی موقف القاضی کا ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : ’’میرے پاس دو بچیاں خوبصورت آواز میں کلام پڑھ رہی تھیں، پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا : بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شیطان کا مزمار ہے؟ پس اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انہیں (پڑھنے) دو کیونکہ یہ ان کی خوشیوں کا دن ہے۔ اور ابوبکر بن عبدالعزیز کا موقف ہے کہ غناء اور نوح ایک ہی چیز ہے اور یہ دونوں مباح ہیں بشرطیکہ اس میں کوئی بری چیز نہ ہو۔‘‘
ابن قدامہ اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں لکھتے ہیں :
واختلف أصحابنا في الغناء، فذهب أبو بکر الخلال، وصاحبه أبو بکر عبد العزيز إلي إباحته، وقال أبو بکر عبد العزيز : الغناء والنوح معني واحد مباح، ما لم يکن معه منکر، ولا فيه طعن، وکان الخلال يحمل الکراهة من أحمد علي الأفعال المذمومة، لا علي القول بعينه.
(ابن قدامه، المغني، 10 : 174)
’’ہمارے اَصحاب کے مابین غناء کے مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابوبکر الخلال اور ابوبکر عبدالعزیز کا موقف ہے کہ یہ مباح ہے۔ ابوبکر عبدالعزیز کہتے ہیں کہ غناء اور ’’نوح‘‘ ہم معنی الفاظ ہیں اور یہ مباح ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی بری چیز شامل نہ ہو اور ابوبکر خلال نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے غناء میں کراہت کا احتمال مذموم اَفعال کی وجہ سے بیان کیا ہے نہ کہ محض کلام پڑھنے کی وجہ سے۔‘‘
مزید برآں ابن قدامہ لکھتے ہیں :
وممن ذهب إلی إباحته کراهة، سعد بن إبراهيم، وکثير من أهل المدينة، والعنبري.
(ابن قدامة، المغني، 10 : 174)
’’جن فقہاء نے اباحت کا موقف اختیار کیا ہے ان میں سعد بن ابراہیم اور اہل مدینہ کے اکثر علماء ہیں۔‘‘
احادیث غناء کے ذکر کے بعد پھر لکھتے ہیں :
واختار القاضي أنه محرم، وهو قول الشافعي، قال : هو من اللهو المکروه، وقال أحمد : الغناء ينبت النفاق في القلب، لا يعجبني.
(ابن قدامة، المغني، 10 : 174)
’’قاضی نے ’’حرام‘‘ ہونے کا موقف اختیار کیا ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے اور کہا ہے کہ غناء مکروہ لہو و لعب میں شمار ہوتا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل کا موقف ہے کہ غناء نفاق کو دل میں جنم دیتا ہے اور مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
مذکورہ بالا اقوال فقہاء پر غور و خوض کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’غناء‘‘ سے متعلق بحث، عقیدہ کے اصول و مبادی کے زمرے میں نہیں آتی اور نہ دین کے ضروری امور میں آتی ہے، بلکہ یہ ایک فروعی مسئلہ ہے اور اس سے متعلق دلائل میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نغمگی اور خوش الحانی ان دنیاوی لذتوں میں سے ایک لذت ہے، جسے انسانی فطرت پسند کرتی ہے اور حواس خمسہ میں سے حسِسامعہ یعنی کان اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ گویا یہ کانوں کی لذت ہے، جیسے کھانا زبان کی لذت ہے اور خوبصورت منظر آنکھوں کی لذت ہے اور اچھی خوشبو حس شامہ کی لذت ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کی لذتیں اسلام میں حرام ہیں یا حلال؟
اصول اباحت کے تحت اِسلام میں تمام اچھی اشیاء جن سے انسانی نفوس اور عقول لطف اندوز ہوتے ہیں، اَصلاً حلال ہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر اپنا لطف و کرم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ.
(المائده، 5 : 4)
’’لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں؟ آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
لہٰذا غناء بھی سوائے کلام کے کچھ نہیں۔ پس کلام اچھا ہوگا تو غناء بھی اچھا ہوگا اور اگر کلام قبیح ہے تو غناء بھی قبیح ہوگا، اور ہر وہ کلام جو حرام کو شامل ہوگا وہ حرام ہوگا۔ اکثر فقہاء شوافع اور حنابلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بغیر آلۂ موسیقی کے غناء مطلقاً مباح ہے۔ اس موقف کی تائید امام ابن حزم، امام غزالی، اور ابن سمعانی سمیت دیگر سلف صالحین اور ائمہ کرام نے کی ہے۔ پس جس نے موسیقی کے جواز کا قول دیا ہے، اُس نے یہ قول امام غزالی، امام ابن حزم ابن سمعانی اور دیگر سلف صالحین کے اقوال کی اتباع میں کیا ہے۔
مذاہب اربعہ کے غناء کے موقف پر اجمالی نظر
جب ہم مذاہب اربعہ کے مؤقف۔ جو انہوں نے مسئلہ غناء میں اختیار کیا ہے۔ پر اِجمالی نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غناء آلہ موسیقی کے ساتھ اور بغیر آلہ موسیقی کے ساتھ ایسا مسئلہ ہے جس پر علماء اسلام کے مابین کچھ امور میںاتفاق ہے اور کچھ امور میں اختلاف۔ ایسے غناء میں اختلاف ہے جو بغیر آلہ موسیقی کے ہو اور بغیر کسی تقریب کے ہو۔ پس کچھ فقہاء نے اس کو مباح قرار دیا ہے، کچھ نے مکروہ اور کچھ نے مستحب۔ فقہاء کی آرا ء کی روشنی میں درج ذیل امور سامنے آتے ہیں :
- وہ غناء جو بغیر آلہ موسیقی کے ہو اور جس کا اہتمام جائز تقریبات جیسے عرس، عید اور شادی کی تقریبات میں ہو اس میں کوئی گناہ نہیں۔
- ’’حدی خوانی‘‘ مباح ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔
- غناء کو ہمیشگی کے ساتھ اختیار کرنے والا اور اس کو سننے والے شخص کی گواہی مردود ہے کیونکہ غناء پر دوام اختیار کرنا اور اس میں کثرت کرنا کسی شخص کواباحت کی حدود سے خارج کرکے کراہت کی حدود تک لے جا سکتا ہے اور ممکن ہے حرام کی حدود میں داخل کر دے۔
- ہر وہ غناء جو فحش یا فسق یا معصیت پر ابھارنے جیسے امور پر مشتمل ہے اس کے حرام ہونے پر علماء کرام کے مابین اتفاق رہا ہے۔
- ایسا فطری غناء جو آلات موسیقی اور معصیت کو ابھارنے سے خالی ہو اور ایسے اچھے کلام پر مشتمل ہو، جس میں محض وزن، نغمگی اور تاثیر جمع ہو جائے، اس کے مباح ہونے پر علماء کرام کے مابین اتفاق ہے۔
چونکہ غناء کا اہتمام عموماً خوشی و مسرت کے مواقع، جیسے ولیمہ، عرس اور عید کی تقریبات میں کیا جاتا ہے، اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ شرعی حددد کے اندر ہو اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
خلاصۂ بحث
قرآنی ارشادات اور فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شادی کے موقعوں پر ڈھول بجانا اور خوشی کے تہواروں کی مناسبت سے صحت مند شاعری اور خوبصورت کلام عمدہ آواز کے ساتھ پڑھنا نیز تفریحی کھیل کود اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہیں، یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت بھی رہا ہے۔ یہ خوشی اور مسرت و شادمانی کا فطری اور بے ساختہ اظہار ہے، جس سے لوگوں کو اپنے جذبات طرب و مسرت کے اظہار کا جائز موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کی ثقافتی ضرورت بھی ہے، خاص طور پر ان کی جو دکھوں اور غموں سے پریشان حال ہوتے ہیں۔ ہر چیز جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے، قابل تحسین ہے اور اس پر کسی مزید جواز کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کے جائز جذبات مسرت پر کوئی سند لائی جائے۔ تاہم بعض احتیاطی اور انسدادی تقاضوں کو بہر صورت پورا کرنا لازمی و لابدی ہے۔ شائستگی کی حدوں کو پھلانگنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لغو، بے ہودہ اور فحش باتوں سے اجتناب برتا جائے اور مخلوط اجتماعات سے گریز کیا جائے کیونکہ اسلام اخلاق، میانہ روی اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ایسے مواقع پر اچھائی اور نیکی کے کاموں سے پہلو تہی ہرگز نہ کی جائے۔
تبصرہ