نصاب بدل کر 95 فیصد مشترکات پر اکٹھے ہونا ہوگا : سیمینار سے خطاب
تعلیم، معیشت اور ٹیکنالوجی کی سہ جہتی کاوشوں میں اجتماعیت
اختیار کرنا ہوگی
یونیورسٹیوں کو آپس میں ریسرچ ورک شیئر کرنا ہو گا
منہاج یونیورسٹی اور المصطفےٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے زیراہتمام سیمینار سے
مقررین کا خطاب
منہاج یونیورسٹی اور المصطفےٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے ذیلی ادارے اذان ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ’’پرامن بقائے باہمی میں یونیورسٹیوں اور دینی اداروں کا کردار‘‘ کے موضوع پر منہاج یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار سے مختلف یونیورسٹیوں کےVC، پروفیسرز، سیاسی و سماجی شخصیات اور دانشورں نے خطاب کیا۔ سیمینار کی صدارت اذان نیٹ ورک کے ڈائریکٹر محمد کاظم سلیم نے کی جبکہ مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن فیض الرحمن درانی اور قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض نے خصوصی شرکت کی۔
اذان نیٹ ورک کے ڈائریکٹر محمد کاظم سلیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ سے ان کا عروج اور عظمت چھننے کا بنیادی سبب علم سے دوری ہے۔ یونیورسٹیوں نے ریسرچ کی حقیقی روح سے ناتا توڑ لیا ہے۔
UK کے ممتاز سکالر پروفیسر نثار سلیمانی نے کہا کہ امت مسلمہ کے دینی ادارے اجتماعیت کی بجائے دوریاں پیدا کرنے کے در پے ہیں ان کے نصاب کو بدلنا ہوگا اور 95 فیصد مشترکات پر اکھٹے ہونا ہوگا۔ موجودہ دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی امن اور بین المذاہب رواداری اور پرامن بقائے باہمی کیلئے کی جانے والی کاوشیں تاریخی نوعیت کی ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ان کا فتویٰ اسلام کی تاریخ میں ایسے ڈاکومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے فکری و عملی رہنمائی دیتا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان نے کہا کہ تعلیم، معیشت اور ٹیکنالوجی کی سہ جہتی کاوشوں میں اجتماعیت اختیار کر لی جائے تو عالم اسلام کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ یونیورسٹیوں اور دینی اداروں میں ہونے والی ریسرچ کو مختلف اسلامی ممالک میں آپس میں Share کریں تو کھویا ہوا وقار بحال ہونے میں چند سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ اس وقت امت مسلمہ وسائل، بہترین زمین، افرادی قوت ہونے کے باوجود مؤثر قوت اس لئے نہیں کہ اجتماعیت کا دامن چھوڑ دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر علی اکبر الازہری نے کہا کہ لسانی، علاقائی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا گیا ہے۔ سوئی سے جہاز اور اسلحہ تک غیروں سے لیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری موجودہ دور میں ایسے سکالر ہیں جو حقیقی معنوں میں اسلامی دنیا کے اندر علم کے کلچر کو زندہ کرنے کے لیے فکری اور عملی رہنمائی دے رہے ہیں۔
مفتی محمد رمضان سیالوی نے کہا کہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشقی تعلق کی بحالی پر محنت کر کے پوری امت کو ایک لڑی میں پرویا جاسکتا ہے۔ قرآن اور صاحب قرآن سے مضبوط تعلق ہی امت کو ایک کرسکتا ہے۔
منہاج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علی محمد نے کہا کہ اقبال کی فکر نے پژمردہ مسلمانوں کو جگا دیا تھا۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری کی فکر مسلمانوں کو بیدار کررہی ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور اجتہاد کے دروازے کو کھول کر ترقی کا سفر شروع کرنا ہوگا۔
منہاج سوسائٹی کے چیئرمین و ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا کہ تہران کو جنیوا بنانا ہوگا۔ عقل کل کا کلچر ختم کرکے اختلاف رائے کو عزت دینا ہوگی۔ علم کے حصول کو پہلی ترجیح بنا کر ہی ترقی کے عمل کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلگی گروہ بندیوں کے خول کو توڑ کر جرات مندی کے ساتھ مسالک کے مشتر کات پر ایک ہونا ہوگا اور دینی اداروں کے نصاب سے نفرت پر مبنی لٹریچر تلف کرنا ہوگا۔
راجہ جمیل اجمل نے کہا کہ اسلامی حکومتیں ایک کمیشن قائم کریں جس میں مختلف مسالک کی نمائندگی ہو جو اس بات کو یقینی بنائے کہ محبت اور امن پر مبنی تعلیمات پڑھائی جائیں گی اور نفرت پر مبنی جھوٹی کتابیں اور کتابوں میں سے ایسے باب ہمیشہ کے لیے تلف کردیئے جائیں۔
سیمینار سے ڈاکٹر اسماء ممدوٹ، ڈاکٹر خیرات ابن رسا، علی نیکان قمی، آقائے شہادت، مرتضیٰ پویا، آقائے جلال حیدری، احسان علی، رخی، سید یاسر شمسی، وزیر فرحان علی ایڈووکیٹ، سفاھر شگری، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، ڈاکٹر جمیل انور، پروفیسر حسام الدین منصوری، جی ایم ملک، ڈاکٹر احسان ملک، پروفیسر شوکت رضا، ڈاکٹر عبدالغفور راشد اور مہر محمد سلیم نے بھی خطاب کیا۔
تبصرہ