اسلام کا تصور قربانی
تحریر : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ماہ ذوالحجہ کی انفرادیت اور امتیاز
قربانی کی مناسبت سے ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں کہ آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذوالحجہ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے‘‘۔ لیلۃ القدر کی مناسبت سے جہاں ماہ رمضان المبارک کو منفرد شان والی ایک رات لیلۃ القدر نصیب ہوئی ہے جس کے اندر چند ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لئے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی بھلی شے طلب کرتا ہے وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے۔ ادھر ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں۔
عیدالاضحٰی اور قربانی کا باہمی تعلق
اس دن قربانی ادا کی جاتی ہے اور مسلمانانِ عالم کو قربانی کا فریضہ سرانجام دے کر اتنی خوشی نصیب ہوتی ہے کہ سارے سال میں کسی اور دن نہیں ہوتی۔ قربانی عربی زبان کا لفظ ہے۔ جو ’’قرب‘‘ سے مشتق ہے۔ ’’قرب‘‘ کس چیز کے نزدیک ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس دوری ہے۔ قرب اور دوری دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ قرب سے قربانی کا لفظ مبالغے کے طور پر واقع ہوا ہے۔ اس تصور کو کچھ مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’قرات‘‘ کے معنی فقط ’’پڑھنا‘‘ ہے اور قرآن کے معنی اس کتاب کے ہیں جسے بار بار، تواتر اور کثرت سے پڑھا جائے اور اتنا پڑھا جائے کہ قیامت تک اس کا پڑھنا ختم ہی نہ ہو۔ باری تعالیٰ نے کتاب الہٰی کا نام انہیں وجوہ کی بنیاد پر قرآن رکھا ہے کہ کثرت قرات کے اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب اس کے برابر نہیں۔ دنیا میں دیگر الہامی کتابیں بھی نازل ہوئی ہیں جن میں انجیل، تورات اور دیگر الہامی صحیفے ہیں جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئے مگر کوئی الہامی کتاب، کتاب الہٰی کے طور پر قرآن مجید کا بدل نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کا نام قرآن رکھا ہے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کتب سماویہ میں سے کوئی اور کتاب اس سے زیادہ پڑھی جاتی۔ اسی طرح پیاسے کے لئے عربی زبان میں لفظ ’’عطش‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ ’’عطش‘‘ سے عطشان مبالغے کے طور پر واقع ہوا ہے، جس کا مطلب ہے حد سے زیادہ پیاسا۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ جب کوئی لفظ ’’فُعْلَان‘‘ (مبالغہ) کے وزن پر آئے تو یہ کثرت کے معنی دینے لگتا ہے۔
عید قربان کی معنوی اہمیت
اللہ رب العزت نے امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو عیدیں عطا فرمائیں۔ ایک کا تعلق رمضان سے ہے جو کہ ’’فَعْلاَن‘‘ وزن پر ہے۔ رمضان کے کئی معانی ہیں ایک معنی جلا دینے کا ہے جو آگ کی تپش اور اس کی جلا دینے کی صفت سے متعلق ہے۔ گویا اس مہینے کو اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ یہ ہر گناہ کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔ رمضان کی یہ تپش جو گناہوں کو جلا دیتی ہے۔ باری تعالیٰ کی رحمت اور لطف و کرم کی تپش ہے۔ تپش کس طرح رحمت بنتی ہے؟ اس کا اندازہ آپ سخت سردی کی سرد مستانی ہواؤں میں کرسکتے ہیں۔ جب آپ گرم اونی لباس پہنتے ہیں، انگیٹھی کے قریب بیٹھتے ہیں، رات لحاف اوڑھتے ہیں اور دن میں سورج کی تپش آپ کے لئے رحمت کا سامان بن کر آپ کو سردی کی شدت سے محفوظ رکھتی ہے۔ وہی تپش جو گرمیوں میں زحمت ہے موسم سرما میں رحمت بن جاتی ہے۔ اس اعتبار سے عید قربان کا معنی یہ ہوا کہ ذوالحجہ کے مہینے میں ’’فُعْلَان‘‘ کے وزن پر قربانی کے عمل کے اعتبار سے اس کے اندر وہ خاصیت رکھ دی گئی کہ بندہ اس ماہ ذوالحجہ میں کوئی عمل کرے تو اس عمل کی برکت سے یہ عید قربان اس بندے کو اللہ کے اتنے قریب کردیتی ہے کہ کوئی اور لمحہ اسے اتنے قرب سے آشنا نہیں کرسکتا۔ دوسرے لفظوں میں عیدالاضحٰی میں قربانی کا عمل بندے کو اپنے رب کے قریب کرنے والا عمل ہے جس سے ساری دوریاں ختم ہوجاتی ہیں۔
انسانی شخصیت پر اعمال کے اثرات
بہت سارے ایسے اعمال ہیں جن میں اکثر کا مقصد قرب الہٰی کا حصول ہے۔ یعنی کئی اعمال ایسے ہیں جن کے صدور سے گناہوں کی بخشش کی نوید مل جاتی ہے۔ کئی اعمال درجات کی بلندی کا موجب بنتے ہیں اور کچھ اعمال ایسے ہیں جن کی بدولت انسان حسد، تکبر و رعونت اور غیبت کرنے سے بچ جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بعض اعمال سے انسان کی طبیعت میں سخاوت اور فیاضی کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات ذہن میں مستحضر کرلیں کہ ہر عمل، انسانی شخصیت پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہر عمل انسانی نفس، روح اور قلب و باطن کے لئے خاص تاثیر رکھتا ہے۔ اثر پذیری کے اعتبار سے کچھ اعمال کی وجہ سے بندے کو خاص اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے جیسے نماز سرتاپا اللہ کے فضل وکرم، بخشش و رحمت اور قرب کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن اس نماز میں رکوع، قیام و سجود، قرات، تکبیرات، فاتحہ و سلام اور دیگر ارکان بھی بے پناہ حکمتوں اور برکتوں کے حامل ہیں۔ سجدہ، اپنی خاص تاثیر کی وجہ سے اللہ کے قرب خاص کا سبب بنتا ہے اور کوئی دوسرا رکن بطور خاص اتنا قرب عطا نہیں کرتا جتنا کہ سجدہ۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ اے بندے تو سجدہ کر اور اللہ کے قریب ہوجا۔ گویا سجدہ ارکان نماز میں سب سے عظیم رکن ہے اور بندہ سجدہ ریز ہوتے ہی قرب خداوندی کو پالیتا ہے۔
لفظ قربانی کا معنوی پس منظر
اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہیں جو قرب الہٰی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس مضمرات (Implications) رکھتا ہے۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کا عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کردیتا ہے۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ کیا وہ قربانی جو بندہ ذبح کے طور پر پیش کر رہا ہے اس کے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل قربانی اس کے لئے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما اخلاص ہے۔
حسنِ نیت ہر عمل کی روح ہے
یوں تو ہر عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اس کی ہیئت (Form) اور دوسری اس کی روح۔ روح کا تعلق اس کے عقیدے اور نیت کے ساتھ ہے جبکہ ہیئت کا تعلق ظاہری شکل و صورت سے ہے۔ کسی بھی عمل کے پیچھے جو باطنی نیت کارفرما ہوتی ہے اس سے وہ مقبول، نامقبول، پسندیدہ غیر پسندیدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ الغرض حسن نیت ہی عمل کی روح ہوتی ہے۔ اس کو ایک عام فہم مثال سے یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص راستے سے گزر رہا ہے کہ اسے سڑک کے درمیان ایک پتھر پڑا دکھائی دیتا ہے وہ اسے اٹھا کر دور پھینک دیتا ہے۔ اب عمل ایک ہے لیکن اس کی نیت اس عمل کی جہت اور رخ کو بدل کے رکھ دیتی ہے۔ اگر اس شخص نے گزرگاہ عام سے پتھر اس لئے ہٹایا ہے کہ اسے شک گزرا ہے یا کسی ذریعے سے اسے پتہ چلا ہے کہ اس کے نیچے کوئی رقم چھپی ہوئی ہے۔ وہ اس پتھر کو ہٹاتا ہے، رقم جیب میں ڈالتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اب دیکھنے والے نے اس کا پتھر ہٹانے کا عمل دیکھا ہے لیکن اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی نیت کو نہیں دیکھا کہ نیت کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ اب ایک دوسرا شخص آتا ہے اس نے پتھر کو اس لئے ہٹایا کہ تھوڑی دیر میں رات کا اندھیرا چھانے والا ہے۔ کہیں کوئی راہی بے خبری میں اس سے ٹھوکر کھا کر نہ گر جائے۔ اس کا پتھر ہٹانے کا عمل کسی کو تکلیف اور گزند سے بچانے کیلئے تھا۔ بادی النظر میں دونوں کا عمل دیکھنے والے کے لئے یکساں ہے اور اس میں رتی بھر فرق نظر نہیں آتا لیکن نیت جو دونوں کے عمل کے پیچھے تھی اس نے نتائج کے اعتبار سے زمین و آسمان کا فرق پیدا کردیا ہے۔ اصل میں نیت محرک ہوتی ہے اور محرک سے عمل جنم لیتا ہے۔
نیت ہی اعمال کے ثمرات کی بنیاد ہے
اپنی ہیئت کے اعتبار سے عمل کی بے شمار صورتیں ہیں لیکن ان میں فرق و امتیاز عمل کرنے والوں کی نیت کی بناء پر ہی کیا جاسکتا ہے اس کی ایک مثال نماز ہی کو لے لیجئے۔ ایک بندہ نماز کو اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کے لطف و کرم کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔ خشوع و خضو ع اور رقت کی کیفیت دل پر طاری ہو اور وہ نماز کے تصور میں یوں دوبالا ہوا ہو کہ اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہہ رہے ہوں تو ایسی نماز اسے مولا کا قرب عطا کردے گی اور رحمت ایزدی کے دروازے اس پر کھل جائیں گے۔ نماز میں جتنی عاجزی و انکساری آئے گی اتنی ہی رضائے خداوندی اسے نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس کیفیت اور ذوق کو دیکھتا ہے جس میں ڈوب کر بندہ نماز پڑھ رہا ہے۔ وہ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے اور میرے اس بندے کے درمیان جتنے پردے حائل ہیں وہ اس نماز کی برکت سے ہٹا دیئے جائیں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی دوری باقی رہے لہذا میرا قرب اسے عطا کر دیا جائے۔ اب دوسری طرف نگاہ دوڑایئے ایک بندہ پڑھ تو نماز ہی رہا ہے اور اسی طرح رقت کی کیفیت اس پر طاری ہے۔ دیکھنے والا یہی گمان کرتا ہے کہ کتنا عبادت گزار بندہ ہے لیکن اس کا یہ عمل محض ریا اور دکھلاوے کا عمل ہے اور وہ اپنے کو محض نمازی کہلوانے کے خیال سے عبادت کرتا ہے۔ ایسی نماز سے کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی سے دور رہتا ہے۔ ایسی نماز جس میں اس کا دل نماز میں نہیں بلکہ مکروہات دنیا اور اپنے نفس کی بزرگی و برتری میں مگن ہے اس کے منہ پر مار دی جائے گی۔ اس لئے حسن نیت اور اخلاص والا عمل ہی قرب الہٰی کا ذریعہ بنتا ہے اور اس میں دکھلاوا اور ریاکاری آجائے تو وہ قابل قبول نہیں رہتا۔
قربانی اور حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا ذکر
نماز میں نیت اور اخلاص کی طرح یہی حال قربانی کے عمل کا ہے قرآن مجید نے اس تناظر میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کا ایک طریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا، جس سے فوراً پتہ چل جاتا کہ آیا پیش کردہ قربانی قبول ہوئی ہے یا نہیں۔ وہ یوں کہ قربانی کرکے جانور کو ایک جگہ رکھ دیتے ہیں۔ جس کی قربانی قبول ہونا ہوتی اسے آسمان سے آگ آ کر جلا دیتی اور جس کی قربانی کو آگ آکر نہ جلاتی اس کے بارے میں یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی۔ یہ ایک معیار تھا جس سے قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت کا پتہ چل جاتا تھا۔ ایک جگہ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے پیغام کی حقانیت و صداقت کی یہ دلیل ہوگی کہ وہ قربانی کریں گے اور جس کی قربانی کو آسمانی آگ آ کر جلادے گی وہ اللہ کا مقبول بندہ ہوگا اور جو نافرمان ہوگا اس کی قربانی کو آگ نہیں جلائے گی۔ چنانچہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی رہ گئی، جس کی قربانی قبول نہ ہوئی وہ اپنے بھائی سے کہنے لگا۔ لاقتلک کہ ’’میں تجھے قتل کئے بغیر نہ رہوں گا‘‘۔ اس ارادہ قتل کے اظہار کے پیچھے وہ نیت کار فرما تھی جس کی بناء پر ایک بھائی کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی۔ حالانکہ کسی کا عمل قربانی قبول ہوگیا اور کسی کا نہ ہوا اس پر کسی کو تعارض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے اور اگر کوئی اس بناء پر کسی کے قتل کے درپے ہوتا ہے تو اس قتل کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عمل قربانی کے پیچھے اللہ کی رضا اور خوشنودی کا کوئی جذبہ کار فرما نہ تھا بلکہ اس کا محرک ہی کچھ اور تھا جس نے اسے حسد میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ جس کی قربانی قبول ہوگئی تھی اپنے بھائی کے منہ سے یہ بات سن کر کہتا ہے تو مجھے کیوں قتل کرنے کے درپے ہوگیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے قربانی کی قبولیت تو من جانب اللہ ہے۔
اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْن.
(المائده، 5 : 27)
’’اللہ تو صرف ان کی قربانی قبول کرتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں‘‘۔
جن کے دل میں ذاتی ہوس و مفاد، ریاکاری اور نمود و نمائش کا کوئی خیال نہیں ہوتا اور جن کی زندگیاں تقویٰ اور پرہیزگاری کے حسن سے مزین ہوتی ہیں۔ اللہ انہی کی قربانی کو شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں بلکہ اس کے دل میں چھپی ہوئی نیت پر ہوتی ہے۔
قبولیت و عدم قبولیت کا قرآنی فلسفہ
وہ بندگان خدا جن کے دل میں کسی کے بارے میں حسد، بغض اور عناد نہیں ہوتا اور جو اپنا تن من دھن اور اپنی جان کا نذرانہ اللہ کی بارگاہ میں صرف اس کو راضی کرنے کے لئے پیش کردیتے ہیں ان کے اعمال، سند قبولیت سے نوازے جاتے ہیں۔ انہیں ان کی حسن نیت کا پھل ملتا ہے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال ان الله لا ينظر الی صورکم ولا اموالکم ولکن انما ينظر کم الی اعمالکم وقلوبکم۔
(ابن ماجه : 315)
’’فرمایا! بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دل کی نیت کو دیکھتا ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کی نظر نہ تو بندوں کی صورتوں کو دیکھتی ہے اور نہ ان کے مال و اموال کو بلکہ ان کے دلوں میں چھپی ہوئی نیتوں کو دیکھتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی دیکھنے میں خوش شکل اور بھلا لگے، اس کے اعمال بھی دیکھنے میں اچھے لگیں لیکن ان کے اعمال کے پیچھے اچھی نیت کارفرما نہ ہو اور اس کے مقابلے میں ایک شخص بھدا، بدنما، ناقص اور کم تر دکھائی دے لیکن اس کی نیت اور اخلاص کا یہ عالم ہو کہ اس کے اعمال کو قبولیت کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دیا جائے۔ چنانچہ اس معیار قبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آدم علیہ السلام کے اس بیٹے نے جس کی قربانی قبول ہوئی تھی اپنے بھائی سے کہا
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ.
(المائده، 5 : 28)
’’کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ میری طرف بڑھائے پھر بھی جواب میں تیری طرف ارادہ قتل سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا‘‘
قرآن حسن عمل اور تقویٰ کی تلقین کرتا ہے اور اگر کوئی زیادتی کرتا ہے اور وہ اس زیادتی کا جواب زیادتی سے دینے کی بجائے تحمل، ضبط اور درگزر سے کام لیتا ہے تو اس کے پیچھے یہ جذبہ محرک ہوتا ہے کہ کہیں میرا مولا مجھ سے ناراض نہ ہوجائے تو اس کا یہ عمل اسے تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دیتا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوئی کہ انسانی اعمال میں سے اللہ تعالیٰ انسان کے تقویٰ اور خشیت الہٰی کی کیفیت کو قبول فرماتا ہے اور وہ اعمال محض دکھاوے کے لئے کئے جائیں انہیں شرف قبولیت نہیں بخشتا۔
اللہ تعالیٰ دل کے تقویٰ کو دیکھتا ہے نہ کہ قربانی کی مالیت و جسامت کو
اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لئے پیش کئے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نگاہ رکھتا ہے۔ کیا یہ تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نمود و نمائش کا اظہار ہے، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔ اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا۔
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لَحُوْمُهَا وَلَا دِمَاءُ هَا وَلٰکِنْ يَّنَالُه التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
(الحج، 22 : 37)
’’اللہ کو ہر گز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون مگر اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کے گوشت پوست اور جسامت سے کوئی غرض نہیں اس تک تو صرف وہ تقویٰ پہنچتا ہے جو قربانی کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ قربانی کرنے والے میں خوف خدا اور پرہیزگاری کی کیا کیفیت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’صدق و اخلاص سے قربان کئے جانے والے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جونہی زمین پر گرتا ہے اس قربانی کو بارگاہ الوہیت میں قبول کرلیا جاتا ہے‘‘۔ وہ تو بندے کی نیت کو دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی سے مقصود گوشت نہیں بلکہ قربانی کے جانور کے حلقوم پر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر چھری چلا دینے کا نام قربانی ہے۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ اور اس میں کارفرما حکمت
گوشت کی تقسیم کے معاملہ میں اس تقسیم کو ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ اس کا ایک حصہ غرباء، مساکین میں صدقہ کردیا جاتا ہے۔ ایک حصہ عزیزوں، رشتہ داروں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ تیسرا حصہ ذاتی استعمال کے لئے رکھا جاتا ہے۔ اگر قربانی خالصتاً صدقہ ہوتا تو اسے سارا کا سارا غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم ہوتا لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہاں تک اجازت ہے کہ کنبہ کے افراد زیادہ ہوں تو سارے کا سارا گوشت گھر میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے قربانی سے مقصود محض گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ اس کے پیچھے کارفرما حکمت قربانی کے جانور کا اللہ کے لئے خون بہانا ہے۔ اس طرح عیدالاضحٰی یا عید قربان کا بنیادی فلسفہ اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے لئے قربانی کی جاتی ہے اور اس میں حسن نیت اور اخلاص کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی کا عمل اگرچہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو۔ صدق و اخلاص سے کیا جائے تو قبولیت کو پہنچتا ہے اور اگر یہ عمل صدق و اخلاص اور للھیت سے خالی ہو تو قربانی کے چاہے پہاڑ کی طرح انبار لگا دیئے جائیں بارگاہ الہٰی میں ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ قربانی میں تقویٰ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس بات کی طرف بندے کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ قربانی کے عمل کو اعزہ و اقرباء اور محلہ داروں میں اپنی حیثیت کا رعب جمانے اور اپنی بڑائی کا تاثر قائم کرنے کے لئے بروئے کار لاسکتا ہے۔ اللہ کے ہاں کوئی بڑا نہیں، سب انسان برابری کی سطح پر ہیں۔ عین ممکن ہے خدا کے ہاں کوئی خرقہ پوش فقیر زیادہ قدر ومنزلت کا حامل ہو۔ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں جو نان شبینہ کے محتاج ہیں لیکن ان کا دل چاہتا ہے کہ کاش ہمارے پاس اتنے وسائل ہوتے تو ہم اللہ کی راہ میں قربانیوں پر قربانیاں کرتے چلے جاتے۔ ممکن ہے کہ انہیں قربانی نہ کرنے کے باوجود محض حسن نیت کا اتنا ثواب مل جائے جو ریاکاری کی قربانی والے کو کبھی میسر نہ ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی کا واقعہ
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں اپنے والد گرامی شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے موقع پر قابل ذکر حد تک بڑھ جاتا تھا۔ ایک دفعہ تنگ دستی کی وجہ سے ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر خرچ کرنے کے لئے کچھ نہ تھا بالآخر مجبور ہوکر گھر میں کچھ بھنے ہوئے چنے تھے انہیں میلاد کی خوشی میں تقسیم کر دیا لیکن طبیعت میں ملال تھا کہ پتہ نہیں یہ حقیر سا صدقہ بارگاہ خداوندی میں قبول بھی ہوا ہوگا یا نہیں۔ اسی رات آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ آپ نے صدقہ کئے ہوئے وہی چنے اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور مسکرا کر حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور چنوں کی طرف اشارہ کرکے فرما رہے ہیں کہ بیٹا عبدالرحیم تیری حسن نیت اور تقویٰ کی بدولت یہ بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پاچکے ہیں۔
قرآن میں شعائر اللہ کی تعظیم کا بیان
حسن نیت اور تقویٰ و اخلاص کے باب میں قرآن حکیم نے یوں ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.
(الحج، 22 : 32)
’’اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے‘‘
اس آیہ کریمہ میں تقویٰ کو دل کی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ قربانی کرنا تو دور کی بات ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قربانی کے جانوروں کو بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ ان کو ذبح کرنے سے ان کی نسبت اللہ کی طرف ہوجاتی ہے۔ یہ اونٹ اور دوسرے جانور جنہیں قربانی کے لئے ذبح کیا جاتا ہے، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اور اس سے پہلے والی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی تعظیم کرنے والوں کا شمار اللہ کی بارگاہ میں ان لوگوں میں ہوگا جن کے دل تقویٰ سے بہرہ مند ہوچکے ہیں۔
قربانی کے آداب اور سنت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تمام احکام اللہ جو قرآن مجید میں قربانی کے ذیل میں بیان ہوئے ہیں ان میں بنیادی اہمیت عمل قربانی میں چھپے ہوئے تقویٰ اور حسن نیت کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں جو سنت اختیار فرمائی ہے اس کے مطابق قربانی کا عمل اس وقت تقویٰ قلوب کے کمال کو نہیں پہنچ سکتا جب تک قربانی کو اپنے ہاتھ سے نہ کیا جائے۔ اپنے ہاتھ سے جانور کو ذبح کرنے سے خون گرانے کا عمل جو قربانی کی روح ہے پورا ہوسکے گا۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ یہی رہی کہ جانور کی قربانی اپنے ہاتھ سے کرتے اور یہ آپ کا زندگی بھر معمول رہا۔ آپ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور جانور کو ادنیٰ سی تکلیف بھی برداشت نہ کرتے تھے لیکن قربانی ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کا بکرا منگوایا اور مجھے فرمایا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) چھری لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری کو دیکھ کر فرمایا کہ اسے پتھر پر اچھی طرح تیز کرکے لے آ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں ایسے ہی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چھری سے قربانی کا جانور ذبح فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل میں قصابوں اور دیگر قربانی کرنے والوں کے لئے انتباہ ہے کہ وہ قربانی کے جانور کو تیز چھری سے ذبح کریں تاکہ اسے حتی المقدور کم سے کم تکلیف ہو۔ اسلام اتنی رحمت والا دین ہے کہ وہ جان نکلتے وقت جانوروں کی اتنی سی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتا۔ اسے یہ کب گوارا ہوگا کہ وہ انسان کے ہاتھوں انسانوں کا ناحق قتل برداشت کرسکے اور زندہ انسانوں کے جان ومال اور عزت نفس کو بے دریغی سے تلف ہوتا دیکھ سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ قربانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ نے قربانی کا جانور خود زمین پر گرایا اور اسے قبلہ رو کرکے چھری سے ذبح کیا تاکہ جب اس کا خون نکلے تو خون کے دھار کا رخ جانب قبلہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا قدم مبارک جانور کے پہلو پر رکھا اور ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہا اور یہ کلمات ادا فرمائے۔
اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امته محمد ثم ضحی به.
(صحيح مسلم، : 1562 کتاب الاضاحی)
’’اے اللہ قبول کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے، آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے، امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے پھر آپ نے قربانی کی‘‘۔
اس پر محدثین کرام اور فقیہان دین کا کہنا ہے کہ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری امت کو قربانی کے ثواب میں شامل کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ سراپا رحمت نبی ہیں کہ عمل قربانی کے دائرے میں بھی چاہتے ہیں کہ ان کے سارے امتی شریک ہوجائیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں ذبح کرتے وقت آپ سے یہ الفاظ منسوب فرمائے گئے ہیں۔ هذا عنی وهذا. . امتی. (حاشیہ صحیح مسلم : 1562) ’’یہ میری طرف سے، میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا باری تعالیٰ یہ قربانی میری طرف سے ہے اور یہ قربانی میرے ان امتیوں کی طرف سے ہے جو افلاس کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکتے۔ ہمیں بھی قربانی کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس میں شریک کرنا چاہئے اور یہ محبت کا تقاضا بھی ہے۔
بال اور ناخن نہ کٹوانے کی حکمت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوجائے توجو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ پہلی ذوالحجہ سے قربانی کے وقت تک نہ اپنے بالوں کو کٹوائے نہ ناخنوں کو ترشوائے۔ یہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور یہ عمل ابتداً حاجیوں کے لئے تھا اور انہیں حکم تھا کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں مناسک حج و قربانی ادا کرنے تک بال اور ناخن کٹوانے اور ترشوانے سے پرہیز کریں بعد میں غیر حاجیوں کو بھی اس حکم میں شریک کرلیا گیا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جب دس دن تک وہ بال اور ناخن نہ کٹوائیں گے تو ان کی شکل انہیں بار بار اس امر کی طرف متوجہ کرتی رہے گی کہ وہ اللہ کی راہ میں قربانی دینے والے ہیں اس طرح انہیں قربانی کی عظمت اور قدرومنزلت کا احساس ہوتا رہے گا۔
تبصرہ