توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش۔ ۔ ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت
صاحبزادہ حسین محی الدین قادری
بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے بدلتی دنیا کے موسموں میں جہاں توانائی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں وہیں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کا عمل بھی سرعت کے ساتھ شروع ہو گیا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے آفریت نے ترقی یافتہ ممالک کی نیندیں حرام کرنے کے ساتھ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک کو بھی اُگاہ کر دیا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پس منظر میں آج یورپ، امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک اس مسئلہ پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اگر توانائی کا متبادل ذریعہ تلاش نہ کیا گیا تو ایٹمی جنگ کی طرح جلد دنیا میں ’’انرجی وار‘‘ بھی شروع ہو جائے گی۔ دنیا میں توانائی کے ختم ہوتے ہوئے ذرائع سے نہ صرف یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ آئندہ کچھ دہاہیوں میں قدرتی توانائی کا متبادل ذریعہ تلاش نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ ایک نئے عالمی بحران کی شکل اختیار کر لے گا۔
غیر معمولی موسمی تغیر و تبدل
ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے سبب زمین کے مختلف حصوں میں آب و ہوا میں اگلے 100 برسوں کے دوران سلسلہ وار تیز تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ رپورٹ کے مطابق ان میں کئی تبدیلیاں اسی صدی میں ظہور پذیر ہو جائیں گی۔ یہ بھی خبردار کیا گیاہے کہ ہمیں لوگوں کو یہ غلط تسلی نہیں دینی چاہئیے کہ وہ محفوظ ہیں اور آب و ہوا میں تبدیلیاں دھیرے دھیرے ہوں گی۔ بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کی یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ ٹیم کے سربراہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے پروفیسر ٹِم لنٹن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اس صدی کے دوران کئی موسمی عناصر اپنی اپنی آخری حد کو پہنچ جائیں گے۔ ہمیں جن سب سے بڑے خطروں کا سامنا ہے وہ آرکٹک پر برف کی تہہ میں کمی اور گرین لینڈ کی برف کی چادر کا اکھڑنا ہیں۔ ان کے علاوہ زمین کی آب و ہوا کے پانچ دوسرے عناصر بھی اپنی حد کو پہنچ کر ہمیں حیرت میں ڈال سکتے ہیں۔
پچاس سے زیادہ سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر عالمی حدت میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تو آجکل ظاہر ہونے والی موسمی تبدیلیاں محدود نہیں رہیں گی بلکہ ان سے بڑی ڈرامائی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس تحقیق میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح دنیا کے مختلف حصوں میں تجزیاتی نظام نصب کر کے آب و ہوا میں تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر مختلف عناصر کے خاتمے کے ممکنہ عرصے کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔
عالمی حدت میں اضافہ اور موسمی نظاموں کی تباہی
زمین پر پھیلے مختلف موسمی نظاموں کا سروے کرنے کے بعد ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں تھوڑے سے اضافے سے بھی ان میں سے کئی نظام اچانک ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیں۔ ٹیم نے درج ذیل 9 ایسے موسمی نظاموں کی نشاندھی کر کے انکی درجہ بندی کی ہے جو ان کے خیال میں عالمی حدت میں اضافے کے باعث تباہ ہو سکتے ہیں۔
- ’’آرکٹک‘‘ کی برف کا پگھلنا ( تقریباً دس سال میں)
- ’’گرین لینڈ‘‘ کی برف کی چادر میں توڑ پھوڑ (تقریباً تین سو سال میں)
- ’’مغربی ایٹلانٹک‘‘ پر جمی برف کی تہہ کا خاتمہ (تقریباً تین سو سال)
- ’’بحر اوقیانوس‘‘ (ایٹلانٹک اوشن) کے پانی کے اتار چڑہاؤ کا رک جانا ( تقریباً ایک سو سال)
- ’’ایل نینو‘‘ کے جنوب میں پانی کی حرکت کا رکنا (تقریباً ایک سو سال)
- برصغیر میں مون سون کا خاتمہ (تقریباً ایک سال)
- افریقی صحرا کا سرسبز ہونا اور مغربی افریقہ کے مون سون کا خاتمہ ( تقریباً دس سال)
- ’’ایمازون‘‘ کے جنگلات میں بیماریاں اور توڑ پھوڑ (تقریباً پچاس سال)
- دیودار اور چیڑ کے جنگلات میں بیماریاں اور توڑ پھوڑ (تقریباً پچاس سال)
بائیو انرجی۔ ۔ ایک متبادل ذریعۂ توانائی
اس پس منظر میں آج بائیو انرجی سمیت توانائی کے دیگر متبادل ذرائع کی تلاش کے لیے ترقی یافتہ ممالک نے بالخصوص کام شروع کر دیا ہے۔ بائیو فیول، بائیو انرجی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بائیو فیول کی دو بڑی قسمیں ہیں:
- بائیو تھنل
- بائیو ڈیزل
ایک اندازے کے مطابق سال 2006ء کے دوران دنیا میں 32 ملین لیٹر بائیو تھنل کی پیداوار حاصل کی گئی۔ دنیا میں بائیوتھنل کی پیداوار کے اعتبار سے برازیل اور امریکہ سر فہرست ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت دنیا کو 70 فیصد بائیو تھنل مہیا کر رہے ہیں۔ آئل، درختوں، بیجوں، تورئیے، سورج مکھی، سویابین اور پام آئل سے بائیو ڈیزل کی پیداوارکو حاصل کیا جا سکتاہے۔ 2005ء میں اس کی پیداوار 2 بلین لیٹر شمار کی گئی۔ اس وقت جرمنی، فرانس اور اٹلی مشترکہ طور پر 90 فیصد بائیو تھنل کی پیداوار دنیا کو مہیا کر رہے ہیں جو صرف تورئیے سے تیار کیا جاتاہے۔ دنیا میں بائیو تھنل اور بائیو ڈیزل کا استعمال گیسو لین کے مقابلہ میں صرف دو فیصد ہے۔
اس تناظر میں جب ہم گزشتہ کچھ دہائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا میں توانائی کے خزانے تیزی سے ختم ہورہے ہیں، ایسے میں بائیوفیولز سے توانائی کا حصول نہ صرف دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی اولین ضرورت بن گیا ہے بلکہ اس پر توجہ بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کی ایک مثال خام تیل کی تیزی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ہیں۔ دوسری طرف دنیا میں بائیوفیولز کے مستقبل کو بہتر بنانے کی فکر بھی ترقی یافتہ ممالک کو کھائے جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں بائیو فیولز توانائی کے حصول اور اس سے استفادہ کے لئے دنیا کی توجہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی نظر اس بات پر بھی ہے کہ اس توانائی کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا جائے اور اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کیا جائے۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب
عالمی توانائی کا مطالعہ کرنے والے ایک اہم ادارے نے کہا ہے کہ اگر بیشتر ملکوں نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ کیں تو دنیا بھر میں توانائی کی مانگ ممکنہ طور پر بڑھتی چلی جائے گی۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی اِی اے) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ’’نوبوٹاناکا‘‘ نے آئی اِی اے کی ایک عالمی انرجی کی اہم رپورٹ، ورلڈ انرجی آؤٹ لک، کے اجراء کے موقع پر کہا کہ دنیا میں توانائی کی مانگ 2030ء تک صرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس وجہ سے سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی سے اضافہ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ آج کے مقابلے میں 2030ء تک فوسل فیول، یعنی قدرتی ایندھن جس میں کوئلہ اور گیس وغیرہ شامل ہیں، کے استعمال میں کمی نہ آئی تو اس کی ضرورت پچاس فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
دوسری طرف بھارت اور چین کی معیشتیں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس لیے وہ انرجی کی بڑھتی ہوئی طلب کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ عالمی توانائی فراہم کرنے کی مارکیٹ میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے وجہ سے ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس بڑھتی ہوئی اور بے قابو توانائی کی مانگ پر قابو پائے۔
امریکی ادارے ورلڈ واچ انسٹیٹوٹ نے کہا ہے کہ چین اور انڈیا کی تیزی سے ہونے والی ترقی سے عالمی ماحول کو خطرہ ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں چین اور بھارت پانی اور توانائی کی کمی کی وجہ سے ترقی کے یورپی معیار کو نہیں پہنچ سکتے۔ امریکی ادارے کے مطابق چین اور بھارت کی ترقی کرنے کی خواہش سے خطہ ارض کے ماحول کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ بھارت اور چین کے قدرتی ذرائع ان کی ترقی کی خواہش کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ چین اور انڈیا اگر 2030ء میں جاپان جتنی فی کس توانائی کا استعمال کریں تو ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پوری کرہ ارض کی توانائی درکار ہوگی۔ اس وقت امریکہ دنیا کے قدرتی ذرائع کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چین پہلے ہی نظام شمسی کے مدد سے پانی گرم کرنے کے منصوبہ پر تیزی سے عمل کر رہا ہے اور اس کے 35 ملین گھر نظام شمسی کی مدد سے پانی گرم کرتے ہیں۔
تیل کی صنعت کی اجارہ داری کا خاتمہ
بائیو انرجی سے توانائی کے حصول کے بعد اس کو دیہی علاقوں تک پہنچانا بھی ترقی یافتہ ممالک کے مستقبل کے پلان میں حصہ ہے تاکہ ہر سطح پر موجودہ توانائی کا متبادل ذریعہ کام آ سکے۔ دنیا میں تیل کی غیر مستحکم قیمتوں نے بھی توانائی کے اس ذریعہ کو مقبول عام کیا اور خام تیل کی مارکیٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ خام تیل درآمد کرنے والے وہ ممالک تیل کی بجائے فیول کی درآمد کو ترجیح دے رہے ہیں۔ فیول پر حد سے زیادہ انحصار نے ان ممالک کو توانائی کے بحران میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ اس بحران کی وجہ فیول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور عالمی منڈی میں اس کی فراہمی کا ناقص طریقہ کار ہے۔ دوسری طرف اس بحران میں مبتلا ہونے والے ممالک یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت زیادہ تیل درآمد کرنا ان کی دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے بھی فائدہ مند نہیں ہے۔ یہ وجوہات ان ممالک کو اس بات پر مجبورکر رہی ہیں کہ وہ فیول کی بجائے توانائی کے نئے طریقہ کار یعنی بائیو انرجی کے استعمال کو اپنائیں۔ اس سے نہ صرف ان ممالک کا خام تیل پر انحصار کم ہوگا بلکہ ان کو توانائی کے نئے ذریعہ سے آشنائی بھی ہوگی۔ دنیا میں تیل کی قلت والے ممالک اپنے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ تیل کی درآمد پر خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
بائیو فیولز کے خزانے جمع کر کے دنیا کے تمام ممالک تیل کی در آمد سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے جہاں تیسری دنیا کے ممالک میں خوشحالی آئے گی بلکہ تیل کی صنعت پر قابض چند ایک ممالک کی اجارہ داری بھی ختم ہوجائے گی۔ برازیل کا نام ان ممالک کی صف میں ہے جنہوں نے بائیو فیولز سے گزشتہ چند دہائیوں سے اپنی معیشت کو سہارا دیا بلکہ اس نے تیل کی درآمد سے بھی نجات حاصل کر لی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق برازیل نے 1976 ء سے 2000 ء تک کے عرصہ میں 1.8 بلین ڈالر سالانہ اپنے زر مبادلہ کی بچت کی ہے۔ اس دوران اس نے اپنے متبادل توانائی ذرائع کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ ان سے مکمل استفادہ بھی حاصل کر کے دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
نئے صنعتی انقلاب کی طرف قدم
توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور ماحولیات میں تبدیلیوں کے پیش نظر یورپی یونین نے نئی حکمت عملی طے کر کے ایک نئے صنعتی انقلاب کا نعرہ دیا ہے۔ یونین چاہتی ہے کہ تیل اورگیس جیسی قدرتی توانائی پر انحصار کم ہو اور اس کے نئے ذرائع تلاش کرنے میں یورپ ایک لیڈر کی حیثیت سے رول ادا کرے۔ یونین کے صدر ’’جوز مینول بروزو‘‘ نے کہا ہے کہ یورپی ممالک کو مشترکہ طور پر ماحولیات کی تبدیلی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ نئے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے نئی پالیسیز کی ضرورت ہے تاکہ یورپ میں توانائی کے حصول کومحفوظ کیا جاسکے۔
دوسری طرف غور طلب بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب روس اور بیلا روس کے درمیان گیس پائپ لائن کے تنازعے سے جرمنی اور پولینڈ جیسے ممالک میں توانائی کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔
بیلا روس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں روس کے ساتھ اس کا سمجھوتہ ہوگیا ہے اور اب اس میں مزید مشکلیں نہیں آئیں گی لیکن یورپی ممالک توانائی کے متعلق ایک نئی حکمت عملی وضع کرنا چاہتے ہیں جس سے توانائی کے لیے وہ کسی ایک پرمنحصر نہ رہیں۔ یورپی یونین نے توانائی اور ماحولیات کی تبدیلی کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ بھی تیار کی ہے۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر توانائی کے حصول، اس کی تقسیم اور اصراف کے متعلق ایک روڈ میپ تیار کیا جائیگا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ توانائی کے لیے یورپی ممالک کو کسی ایسے ملک پر منحصر نہیں ہونا چاہیے جو یونین کا رکن نہ ہو تاکہ توانائی کی فراہمی متاثر نہ ہونے پائے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ 2020ء تک کل توانائی کا تقریبا بیس فیصد گیس اور تیل کے علاوہ نئے ذرائع سے آنا چاہئے۔ تخمینے کے مطابق 2030ء تک یورپ میں 50 سے 65 فیصد تک توانائی کے خرچ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے توانائی کے نئے ذرائع کا سہارا لینا ہوگا۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی زیر غور ہے کہ 2020ء تک گرین ہاؤس گیسز میں 30 فیصد تک کمی کی جانی چاہیے۔ یورپی یونین کا منصوبہ ہے کہ توانائی کے بازار میں کھلا پن لایاجائے تا کہ یورپ کے شہری کسی بھی یورپی ملک سے بجلی اور گیس خرید سکیں۔
بائیو انرجی اور ماحول پر اثرات
بائیو انرجی کے متبادل نظام توانائی نے جہاں ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے وہیں اس سے ماحولیاتی تبدیلی بھی رونما ہو ئی ہے۔ بائیو انرجی سے ماحول میں نہ صرف شفاف پن پیدا ہوا بلکہ اس سے انسانی زندگی پر بھی صحت افزاں اثرات پڑے ہیں۔ ایندھن اور کوئلے کی نسبت بائیو فیولز کا استعمال گھروں سے گیس کے اخراج میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ اس کی نسبت کوئلہ اور ایندھن کے استعمال سے گھروں کی چمنیاں فیکٹریوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔
بائیوفیولز کا استعمال اپنی جگہ مصدقہ سہی لیکن اس کے باوجود بھی اس حوالے بعض حقائق نے اس کو متنازعہ بنادیا ہے اور ابھی کوئی بھی ملک یقین سے اس کے استعمال کی طرف اس لیے نہیں بڑھ رہا کہ اس پر بھروسہ کرنے کے بعد وہ کہیں توانائی کے موجودہ طریقہ کار سے بھی محروم نہ ہو جائے۔ اس تناظر میں کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بائیو انرجی کے استعمال سے گرین ہاوس گیس کے اخراج میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف یہ حقیقت اپنی جگہ درست اور مصدقہ ہے کہ بائیو فیولز کے استعمال سے کم ترقی والے پسماندہ علاقوں میں ملازمیتں بڑھنے کے اسباب پیدا ہوں گے۔ اس کی مثال برازیل ہے جہاں اس توانائی کے استعمال کے بعد ایک ملین ملازمین کو روزگار ملا ہے۔
بائیو فیولز، انرجی کے حصول کا سستا ذریعہ
بائیو فیولز کے حوالے سے بیان کردہ مفید حقائق کے بعد سب سے اہم بات اس کی پیداواری صلاحیت پر کم خرچ ہے جو تیسری دنیا کے ممالک تیل درآمد کرنے کی نسبت بآسانی برداشت کر سکتے ہیں۔ بائیو فیول کی پیداورا کے لیے زمین اور پانی کی وافر مقدار کا ہونا ضروری ہے۔ بائیو فیولز پیدا کرنیوالی فصلیں خاص طور پر پانی سے نمو پاتی ہیں، اس لیے پانی کی وافر مقدار ہی بائیو فیول کی اعلیٰ پیداواری صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پانی کی مانگ میں اضافہ عالمی مسئلہ بن سکتا ہے۔ پانی کی سٹوریج کسی بھی ملک کے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنے اس کے معدنی ذخائر اور دوسرے خزانے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک نے بائیو انرجی کے حصول سے قبل اپنے پانی کے وسیع منصوبے شروع کردیئے جس سے پانی سٹور کر کے اس کام کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 1.2 بلین لوگ قدرتی طور پر پانی سے مالا مال ممالک کے شہری ہیں۔ ان کا یہ وافر پانی مستقبل میں انہیں کام دے گا۔
بائیو انرجی اور زراعت
بائیو فیولز کے استعمال کے حوالے سے کچھ اور بھی حقائق ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بائیو فیول کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر زراعت میں بھی ایک انقلاب آئے گا۔ جس سے زرعی اجناس کی قیمتیں بڑھیں گی اور پاکستان جیسے زرعی ملک کو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔ زرعی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نہ صرف غریب کسانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ اس سے وہ علاقے خوشحالی کا سفر طے کرنا شروع کردیں گے جہاں برسوں سے احساس محرومی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کھانے پینے کی ضروریات پیداکرنے والے کسان، بھوکے ننگے لوگوں کے پیٹ بھرنے کے قابل ہوجائیںگے۔ بھوک آج بھی ترقی پزیر ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ بن سامنے آئی ہے ایسے حالات میں اس کا تدارک اور خوشحالی کی طرف سفر بیک وقت تیسری دنیا کے ممالک کے لیے خوشحالی کی نوید ہوگا۔
بائیو انرجی اور موسموں کا استحکام
دنیا کے بدلتے موسموں یا تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کو کنڑول کرنے کے لیے بائیو انرجی ایک بہترین حل ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے والے ممالک بیک وقت مختلف بیماریوں سے خود بخود نجات حاصل کر لیں گے۔ بائیو انرجی کے استعمال سے موسموں کا استحکام بھی متوقع ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ ہم موسموں کی شدت کو کنٹرول کرنے کے لیے بائیو انرجی کے استعمال سے ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے فائدہ نہ اٹھانا خود کو نقصان پہنچانے کے مترداف ہوگا۔ جی ایٹ ممالک میں بائیو انرجی تیزی سے عام ہو رہی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک بائیو انرجی کے استعمال کو عام کرنے کے لیے بڑے انہماک سے اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہوں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ برازیل نے اس حوالے سے اپنی سماجی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جس میں بائیو انرجی کے استعمال کی ترغیب دی جارہی ہے۔
بائیو انرجی اور غربت کا خاتمہ
بائیو انرجی کا ایشو فوڈ سیکورٹی سے بھی بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے مطابق کھانا پینا اور صحت مند زندگی گزارنا تمام لوگوں کو حق ہے۔ اگر بائیو انرجی کا استعمال عام ہوجائے تو اس سے بھوک و افلاس کا دور دورہ ختم ہوجائے گا۔ اس سے بھوک اور افلاس کے خاتمے کے ساتھ عالمی کاروباری منڈیوں میں خوشحالی کا دور دورہ بھی سامنے آئے گا۔
بائیو انرجی کا حصول اور پاکستان
بائیو انرجی کی پیداوار کے لحاظ سے اگر ہم جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک پاکستان ایک زرخیز خطہ ہے جہاں اس کی پیداوار کے لیے تمام سہولیات اور شرائط پہلے سے ہی موجود ہیں۔ اسی تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بنجر زمین کا ایک بڑا حصہ اس کام کے لیے استعمال میں آئے گا۔ زرعی شعبہ میں ہم جدید آلات کے استعمال سے بائیو انرجی کے شعبہ میں ایک انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔ بیابان اور بنجر زمینوں پر فصلوں کی کاشت سے ہم سونا پیدا کرسکتے ہیں جو بائیو انرجی کی شکل میں ہے۔
اس کے علاوہ دوسری اہم چیز یہ کہ پاکستان بائیو انرجی کے حصول کے لیے اپنے پانی کے ذخائر کو مختلف چھوٹے بڑے ڈیموں کی شکل میں اکٹھا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اگر مزید نئے ڈیم بھی بنائے جائیں تو یہ انتہائی فائدہ مند ہوں گے۔
توانائی کے کم ہوتے ہوئے قدرتی ذخائر اور پٹرول، بجلی اور گیس کی شکل میں اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر حکومت نے غیرروایتی یا متبادل ذرائع سے بجلی اور گیس حاصل کرنے کے ایک منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت دور دراز دیہات کے لئے سورج کی روشنی اور صنعتوں کے لئے ہوا کے ذریعے بجلی بنائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا منصوبہ ہے جس کا آغاز اسلام آباد سے ہوا ہے۔
آج ہماری حکومت کو آنے والے کل کے مسائل اور عالمی دنیا کے چیلنجز سے مقابلہ کرنے کے لیے بائیوانرجی کی پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے یہ اقدام فوری اٹھانا ہوں گے۔ اگر آج ڈیم بننے شروع ہوجائیں تو اس سے نہ صرف زرعی شعبے میں وہ انقلاب بپا ہو گا جو دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہوگا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ملک میں ناکافی زرعی سہولیات کے باوجود اگر کسان ہر فصل میں شاندار نتائج دے رہے ہیں تو ڈیموں کے بننے کے بعد یہ اور بھی بڑھ جائیں گے۔ دوسری سمت اگر ہم نے بائیو انرجی کے حصول کے لیے آج فوری اقدامات نہ کیے تو عین ممکن ہے کہ ہم آئندہ دو یا تین دہائیوں میں ایک ایسے ملک کا نقشہ پیش کر رہے ہوں جہاں صومالیہ کی طرح بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں۔ لہذا اس خطرہ سے پیش ہمیں حکومتی سطح پر بائیو انرجی کے حصول کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے ورنہ یہ تیل کی طرح کسی بھی ملک سے درآمد نہیں کی جاسکے گی۔
تبصرہ