برداشت تحمل اور باہمی احترام کے رویے معاشرے سے رخت سفر باندھ رہے ہیں : محمد جمعہ خان
دلوں پر روح کی حکمرانی کے لیے نفسانی خواہشات کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا ہوگا
دوسروں کے نقائص بیان کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے
تحریک منہاج القرآن بھکر کے ضلعی کوآرڈینیٹر محمد جمعہ خان نے تحصیل کلور کوٹ کے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں بے سکونی، اضطراب، بے برکتی اور کرپشن اس لیے ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خود احتسابی کے عمل کو ترک کر دیا گیا ہے۔ دوسروں کے نقائص بیان کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے جبکہ اپنی ذات کو ہر برائی سے مبرا کر دیا گیا ہے جس کے باعث برداشت، تحمل، باہمی احترام اور یگانگت کے رویے معاشرے سے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ مادیت زدہ ماحول نے تعیشات کے حصول کی دوڑ کو جنم دیا ہے جس میں ہر کوئی ہانپ رہا ہے۔ نتیجتاً حقوق غصب ہو رہے ہیں، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا عمل ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور منفی رویوں پر ندامت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے باطن کو سنوارنے کے لیے محنت کریں۔
انہوں نے کہا کہ دلوں کے تخت پر نفس کی حکمرانی ہوگئی ہے اسی لیے ایسے منفی اعمال سر زد ہو رہے ہیں، جنہوں نے معاشرے کے سکون کو غارت کر دیا ہے۔ دلوں پر روح کی حکمرانی کے لیے نفسانی خواہشات کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا ہوگا، جس کے لیے ضروری ہے کہ بطور قوم اپنی صحبتوں کو صالح کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن کی نظامت دعوت کے سکالرز معاشرے میں پائی جانے والی مادیت کے خلاف دروس قرآن کے سلسلہ کو جاری رکھ کر اپنا تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن دینی اور احیائی تحریک ہے اس لیے کارکنا ن پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پائے جانے والے جزوی و کلی بگاڑ کی درستگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کردار اور تقویٰ کا پیکر بنیں۔ ریسرچ کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے دینی و دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ علم کے حصول کا کلچر پیدا کرنے کے لیے جان توڑ اور بامقصد محنت کو اپنا شعار بنا کر ہی مختلف النوع چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ علم نافع کا حصول تب ہی ممکن ہے جب مادیت کے حملے سے خود کو محفوظ کرنے کے لیے ریاضت و مجاہدہ کا خوگر بنا جائے، باطنی دنیا میں انقلاب لائے بغیر معاشرے میں مثبت تبدیلی کے عمل کا کامیاب ہونا نا ممکن ہے ۔
تبصرہ