نفلی روزوں کا بیان
1۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ
صلی الله عليه
وآله وسلم: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ
أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَ مَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوانو! جو تم میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ ضرور نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو جھکاتا اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے رکھے، بے شک یہ اس کے لئے (برائی سے) بچاؤ کا ذریعہ ہے۔‘‘
اخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب: النکاح، باب: من لم یستطع الباءۃ فلیصم، 5 / 1950، الرقم: 4779، و في کتاب: الصوم، باب: الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ، 2 / 673، الرقم: 1806، و مسلم في الصحیح، کتاب: النکاح، باب: استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ ووجدہ مؤنۃ، 2 / 1018۔ 1019، الرقم: 1400، و ابو داود في السنن، کتاب: النکاح، باب: التحریض علی النکاح، 2 / 219، الرقم: 2046، و النسائي في السنن، کتاب: الصیام، باب: في فضل الصائم، 4 / 8169، الرقم: 2239، 2241، و ابن ماجۃ في السنن، کتاب: النکاح، باب: ماجاء في فضل النکاح، 1 / 592، الرقم: 1845، و احمد بن حنبل في المسند، 1 / 425، الرقم: 4035، و ابن حبان في الصحیح، 9 / 335، الرقم: 4026۔
2۔ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی
الله عنه: أَنَّ رَسُولَ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ صَامُ رَمَضَانَ
ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے عمر بھر کے روزے رکھے۔‘‘
اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب: الصیام، باب: استحباب صوم ستۃ ایام من شوال اتباعا لرمضان، 2 / 822، الرقم / 1164، و الترمذی فی السنن، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ماجاء فی صیام ستۃ ایام من شوال 3 / 132، الرقم:759، و ابو داود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی صوم ستۃ ایام من شوال، 2 / 324، الرقم:2433، و ابن ماجۃ فی السنن، کتاب: الصیام، باب: صیام ستۃ ایام من شوال، 10 / 547، الرقم:1716، والنسائی فی السنن الکبری، 2 / 164، الرقم:2866، و الطبرانی فی المعجم الکبیر، 4 / 135، الالرقم:3908، والمنذری فی الترغیب والترھیب، 2 / 660، الرقم: 1512،
3۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه، قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ
اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اﷲَ يَنْزِلُ فِيْهَا لِغُرُوبِ
الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي
فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مَنْ مُسْتَرْزِقٍ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلاَ مُبْتَلًی
فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا؟ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب پندرہ شعبان کی رات ہو تو اس رات کو قیام کیا کرو اور دن کو روزہ رکھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی میری بخشش کا طالب ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے شفا دوں؟ کیا کوئی ایسے ہے، ایسے ہے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘
اخرجہ ابن ماجۃ فی السنن، کتاب: اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب: ماجاء في لیلۃ النصف من شعبان، 1:444، الرقم:1388، و الکنانی فی مصباح الزجاجۃ، 2:10، الرقم:491، و المنذری فی الترغیب والترھیب، 2:74، الرقم:1550۔
4۔
عَنْ أبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه، أنَّ
رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سُئِلَ عَنْ صِيَامِ يَومِ عَاشُورَاءَ،
فَقَالَ: يُکَفِّرُ السَّنَةَ المَاضِيَةَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب: الصیام، باب: استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء، 2 / 819، الرقم:1162، والترمذی فی السنن، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ماجاء فی الحث صوم یوم عاشوراء، 3 / 126، الرقم:752، وابوداود فی لسنن، کتاب: الصیام، باب: فی صوم الدھر تطوعا، 2 / 321، الرقم:2425، وابن ماجۃ فی السنن، کتاب: الصیام، باب: صیام یوم عاشوراء، 1 / 553، الرقم:1738، والنسائی فی السنن الکبری، 2 / 150، الرقم:2796، و احمد بن حنبل فی المسند، 5 / 308، الرقم:22674۔
5۔ عَنْ أبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه: أنَّ رَسُولَ اﷲِ
صلی الله عليه وآله
وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَومِ الإِثْنَيْنِ فَقَالَ: ذَلِکَ يَومٌ وُلِدْتُ فِيْهِ، وَ
يَوْمٌ بُعِثْتُ،
أوْ أنْزِلَ عَلَيَّ فِيْهِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوموار کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت باسعادت ہوئی اور اسی دن میں مبعوث ہوا یا مجھ پر قرآن نازل ہوا۔‘‘
اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب: الصیام، باب: استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کل شہر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء والاثنین والخمیس، 2 / 819، الرقم:1162، والنسائی فی السنن الکبری، 2 / 146، الرقم:2777، و احمد بن حنبل فی المسند، 5:297، الرقم:22594، و ابن حبان فی الصحیح، 8 / 403، الرقم:3642، و عبدالرزاق فی المصنف، 4 / 295، الرقم: 7865، و ابویعلی فی المسند، 1 / 133، الرقم:144، والبیہقی فی السنن الکبری، 4 / 300، الرقم: 8259۔
6۔ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُولِ اﷲِ
صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ:
تُعْرَضُ الأعْمَالُ يَومَ الإِثْنَيْنِ وَالْخَمِيْسِ فَأحِبُّ أنْ يُعْرَضَ
عَمَلِي وَ أنَا صَائِمٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کو اَعمال (بارگاہِ الٰہی میں) پیش کئے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔‘‘
اخرجہ الترمذي فی السنن، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ماجاء فی صوم یوم الاثنین والخمیس، 3 / 122، الرقم:747، وقال: حدیث حسن، وعبدالرزاق فی المصنف، 4 / 314، الرقم:7917، والمنذری فی الترغیب والترھیب، 2 / 78، الرقم:1569۔
7۔ عَنْ أبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ يَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ: يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ. رواه مسلم والترمذي: إِلَّا أنَّهُ قَالَ: صِيَامُ يَومِ عَرَفَةَ إِنِّي أحْسَبُ عَلَی اﷲِ أنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.
’’حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوم عرفہ (نویں ذوالحجہ کے روزہ) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (یوم عرفہ کا روزہ) گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔( ترمذی کے الفاظ یہ ہیں) کہ یوم عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اسے گزشتہ اور آئندہ سال کا کفارہ بنا دیتا ہے۔‘‘
اخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب: الصیام، باب: استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر وصوم یوم عرفۃ، 2 / 819، الرقم:1162، والترمذي فی السنن، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: ماجاء فی فضل صوم یوم عرفۃ، 3 / 124، و قال: ابوعیسی: حدیث ابي قتادۃ حدیث حسن، الرقم:1749، 752، و ابوداود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی صوم الدھر تطوعا، 2 / 321، الرقم:2425، و ابن ماجۃ فی السنن، کتاب: الصیام، باب: صیام یوم عرفۃ، 1 / 551، الرقم:1730، واحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 308، الرقم: 22674۔
8۔ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي اﷲ عنهما،
قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اﷲِ! لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ مِنْ شَهْرٍ
مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذَاکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ وَهُوَ شَعْرٌ تُرْفَعُ
فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَ
أَنَا صَائِمٌ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ أَحْمَدُ.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور شعبان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔‘‘
اخرجہ النسائی فی السنن، کتاب: الصیام، باب: صوم النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابي ھو وامّي وذکر اختلاف الناقلین للخبر في ذلک، 4 / 201، الرقم:2357، و احمد بن حنبل فی المسند، 5 / 201، الرقم:21801، و الطحاوی فی شرح معانی الآثار، 2 / 82، و ابن ابي شیبۃ فی المصنف، 2 / 346، الرقم:9765، و نحوہ البزار فی المسند، 7 / 69، الرقم:2617، و المقدسی فی الاحادیث المختارۃ، 4 / 108، الرقم:1319، و قال: اسنادہ حسن، و البغوی فی مسند اسامۃ، 1 / 123، الرقم:48، و المحاملی فی امالی، 1 / 416، الرقم:485۔
تبصرہ