زکوٰۃ کی اہمیت
تحریر: مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام کی سب سے مقدم عبادت نماز کے بعد اس کا نمبر ہے۔ نماز شب معراج کو فرض ہوئی یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے۔ (الدر المختار مع رد المختار ص 352 ج 1)
جبکہ زکوۃ 2 ھ کو فرض ہوئی (الدر المختار ص 256 ج 2) قرآن کریم میں نماز اور زکوۃ کو 82 مقامات پر ملا کر بیان کیا گیا ہے‘‘ (ص 1 ایضاً) جس کی نظیر کسی اور حکم میں نہیں ملتی۔ اسلام ایسا نظام معاش قائم کرتا ہے جس سے قومی سرمایہ اوپر اوپر ہی نہ گھومتا رہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.
’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) ‘‘۔ (الحشر، 59 : 7)
کیونکہ قومی سرمائے کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے جسم کے لئے خون۔ اگر خون بعض حصوں کو پہنچے اور بعض محروم رہ جائیں تو وہ مفلوج ہو جائیں گے۔ یونہی قومی دولت اگر اوپر ہی اوپر چند طبقات میں گردش کرتی رہی تو قوم کی اکثریت عضوِ معطل ہوکر رہ جائے گی۔ جس طرح جسم کا مفلوج حصہ اچھا نہیں ہوتا اور جسم پر بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح جب عوام پر قومی سرمایہ خرچ نہ ہوگا تو یہ بے زبان اکثریت معاشرے کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ لہذا معاشرے کی خیریت اسی میں ہے کہ قومی دولت کی تقسیم مساویانہ طور پر کی جائے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ضروریات بہم پہنچتی رہیں اور یہ خوبصورت دنیا کسی کے لئے جنت اور کسی کے لئے جہنم زار نہ بن جائے۔
اسلامی احکام کی برتری
آپ دنیا کی کسی تحریک کو دیکھ لیں۔ کسی مذہب کا مطالعہ کر لیں، روٹی کا مسئلہ کسی نے نہ نظر انداز کیا، نہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس انداز سے اس مسئلہ کو اسلام نے لیا ہے اور جس حکمت سے اسے حل کیا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ عام طور پر دوسروں کی مدد، ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ کرنا چاہئے اچھی بات ہے مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظام حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوۃ کی صورت میں اس مسئلہ کو حل کردیا۔ مال وصول کریں اور محروم طبقات کو ضروریات مہیا کریں چنانچہ حکم ہوا :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ.
(التوبة، 9 : 103)
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں‘‘۔
یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم تھا۔ اب عام مسلمانوں کا فرض بھی ملاحظہ فرمایئے۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ
(الحج : 41)
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں‘‘۔
اسلام کے دور اول میں جب اسلام مکمل طور پر ملکی قانون کے طور پر متمکن تھا نماز اور زکوۃ کا سسٹم بھی باقی قوانین و احکام کی طرح حکومت ہی قائم کرنے کی ضامن تھی۔ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا تو ان کے ذمہ جو کام لگایا یہ تھا۔
ادعهم الی شهادة ان لا اله الا الله وانی رسول الله فان هم اطاعوا لذلک فاعلمهم ان الله افترض عليهم خمس صلوات فی کل يوم و ليلة. فان هم اطاعوا لذلک فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة فی اموالهم توخذ من اغنيائهم وترد فی فقرائهم.
’’ان کو اس گواہی دینے کی دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور اس کی کہ میں اللہ کا (سچا آخری) رسول ہوں۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ پھر اگر وہ لوگ تمہاری یہ بات مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوۃ فرض کر دی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں پر صرف کی جائے گی‘‘۔ (صحیح بخاری ص 187 ج 1)
زکوۃ کا اصل مقام
زکوۃ کوئی ایسی خیر خیرات نہیں جسے جب، جس قدر دیا دیا، نہ دیا نہ دیا۔ بلکہ یہ واجب ہے جسے حکومت بلا کم و کاست وصول کرے گی اور مستحقین کی ضروریات، قانونی طور پر پوری کرنے کی پابند ہوگی۔ یہاں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا نہیں پڑیں گی۔ یہاں گھنٹوں لائن میں لگ کر چند ٹکوں کی خاطر ذلیل نہیں ہونا پڑے گا۔ یہاں ہر ضرورت مند کی ضروریات باعزت طور پر پورا کرنے کی ضمانت دی جائے گی۔ جیسے تنخواہ ایسا حق ہے جسے لینے میں عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اسی طرح ضرورت مندوں کو اپنا وظیفہ لینے میں احساس کمتری نہیں ہوگا۔ یہاں لینے والا اپنا حق لے رہا ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ لینے والا سوائے پروردگار کے کسی کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے مولیٰ کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں یہاں دینے والا کہتا ہے۔
اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اﷲِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.
(الدهر : 9)
’’ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواہاں ہیں، نہ شکریہ کے‘‘۔
دایاں ہاتھ دیتا ہے تو بائیں کو پتہ نہیں چلتا۔ کسی مشین کے صحیح کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر کل پرزہ صحیح ہو، اس کی سیٹنگ صحیح ہو۔ اور ہر وقت اس پر نظر رکھی جائے اس کی دیکھ بھال سے غفلت نہ کی جائے۔ لیکن ناکارہ ہونے کے لئے تمام کل پرزوں کا ناکارہ ہونا ضروری نہیں۔ بظاہر معمولی خرابی بھی اسے فیل کر سکتی ہے۔ اسلامی نظام حیات کو سوچ سمجھ کر جرات مندی کے ساتھ مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے تو دنیا موجودہ ظالمانہ شکنجوں سے آزاد ہو کر رشک جنت بن سکتی ہے۔
یاد رہے کہ زکوۃ کے نظام کو منظم کیا جائے۔ اربوں روپیہ جو زکوۃ کی مد میں حکومت وصول کرتی ہے، اسے صرف اس محکمہ کے افسران اور زکوۃ چیئرمینوں کے اللوں تللوں پر خرچ نہ کیا جائے بلکہ فوری طو رپر کفالت عامہ کا اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔
حکومت ہر فرد کی بنیادی ضروریات، روٹی، لباس، رہائش، علاج اور تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے، زکوۃ میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرے۔ اس فنڈ سے رفاہی ادارے قائم کرے، جن میں سرفہرست بیت المال کو منظم کرنا ہے۔ بھیک مانگنے کو حکماً بند کر دیا جائے۔ اوقاف سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی اور زکوۃ کے نام پر جمع ہونے والی اربوں روپے کی دولت سے غربت کے خاتمے کی مفید و مستقل راہیں تلاش کرے۔ کمی وسائل کی نہیں بلکہ حسن تدبیر، خلوص اور ایمان و احساس کی کمی ہے۔ آمدنی کے ان ذرائع کو مزید ترقی دی جا سکتی ہے۔ جس بھوک و افلاس کو اس ملک کا مقدر بنا لیا گیا ہے، جس پسماندگی کو ہماری لازمی صفت بنا لیا گیا ہے، وہ بھوک وہ افلاس اور پسماندگی ہر گز ہمارا مقدر نہیں بلکہ ظالمانہ، سرمایہ داری و جاگیرداری کے شیطانی سامراجی نظام نے اپنی نحوست کا سیاہ داغ ہماری پیشانی پر چسپاں کر رکھا ہے۔
ہم اس ملک میں اسلامی نظام عشر و زکوۃ صحیح و مکمل طور پر نافذ کر کے سود، جوا، شراب اور بے حیائی و فحاشی و منشیات کے خاتمہ سے حقیقی اسلامی انقلاب لا سکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں کوئی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے۔ ہر شخص کو عزت و وقار کی پرسکون زندگی میسر آئے۔ محبت و اخوت کی فراوانی ہو نفرت و کدورت، بغض و حسد کا خاتمہ ہو، ہر شخص اپنے مفاد کے بجائے دوسروں کا بھلا چاہے۔ امن ہو، سکون ہو، محبت ہو۔
کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبین ایں است و بس
از ربو آخرچہ زاید جز فتن؟
کس نہ داند لذت قرض حسن
دنیا میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہو، واضح شرعی حکمت اور کچھ نہیں، بس یہی ہے، سودی شیطانی نظام سے فتنہ و فساد کے سوا کیا اور کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ قرض حسنہ کے قرآنی حکم کی لذت کوئی نہیں جانتا۔
کن کن چیزوں پر زکوۃ فرض ہے؟
1۔ نہ فیکٹری پر زکوۃ نہ مشینوں پر، نہ زمین پر، فقط تیار شدہ مال کی مالیت پر زکوۃ فرض ہے۔ یونہی اس کے رامیٹریل یعنی خام مال کی مالیت پر بھی زکوۃ فرض ہے۔
2۔ مکان یا دکان کی مالیت پر زکوۃ نہیں، ہاں اگر اس کا کرایہ آتا ہے تو باقی مال کے ساتھ وہ بھی شامل ہو جائے گا پھر اگر حد نصاب تک ہے تو سب پر زکوۃ ہوگی ورنہ نہیں۔
3۔ گاڑی اگر گھریلو، کمرشل استعمال کے لئے ہے تو اس پر زکوۃ نہیں اس کی آمدنی کو باقی مال کے ساتھ جمع کریں گے اور نصاب ہوا تو اس کے حساب سے زکوۃ ہوگی ورنہ نہیں۔ ہاں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کرتا ہے مثلاً اپنا شو روم ہے اور گاڑیاں اس کی اپنی مالیتی ہیں تو یقینا یہ مال تجارت ہے۔ ان کی مالیت پر مقررہ شرائط کے تحت زکوۃ فرض ہوگی۔
آپ کی ملکیت میں جتنا سرمایہ ہے خواہ نقد خواہ سونا چاندی خواہ مال تجارت خواہ واجب الوصول قرض جس کی وصولی کی امید ہو۔ ان سب کو جمع کر کے سال گزرنے پر سب کی زکوۃ فرض ہے۔ سیونگ سرٹیفیکیٹ ہو یا انعامی بانڈز، یہ اور اس جیسی اور تمسکات مالیہ، مال ہی ہے۔ سب کی مالیت پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے۔
تبصرہ